عدلیہ کی آزادی کی شرعی حیثیت
اسلام نے عدل کے غیر جانبدارانہ نفاذ کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اور غیر جانبدارانہ عدل کو اسلامی انتظامی ڈھانچے کا ایک لازمی جزء قرار دیا ہے۔ اسلام میں عدل کا نظریہ ایسے اصولوں پر قائم ہے جو رنگ و نسل، معاش و معاشرت، زمان و مکان، دوست و دشمن، مسلم اور غیر مسلم، مالدار اور غریب اور اونچے درجے اور نچلے درجے کے شہری ہونے جیسی قیود سے آزاد ہیں۔
اسلامی اصولوں کے مطابق عدل میں سب برابر ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے (سورۃ النساء 135)
اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے (سورۃ النساء 135)
قرآن و سنت میں عدلیہ کی آزادی:
قرآن کریم اور سنت نبوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم دونوں میں عدلیہ اور اس کی آزادی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے (سورۃ النساء 59)
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے (سورۃ النساء 59)
اسلام نے سارے لوگوں کے ساتھ یکساں طور پر بغیر کسی استحصال اور جانبداری کے عدل کرنے کا حکم دیا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑو انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبر دار ہے۔ (سورۃ المائدۃ 8)
اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑو انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبر دار ہے۔ (سورۃ المائدۃ 8)
قاضی کے امور:
شرعی حکم کو نافذ کرنے کے لیے قضاء ضروری ہے اور جو شخص قضاء کے امور سر انجام دیتا ہے وہ قاضی کہلاتا ہے۔ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ قاضی کے امور میں مداخلت کرے اور اسے مجبور کرے کہ وہ قانون کی بجائے کسی اور بنیاد پر فیصلہ کرے۔
اسی طرح اسلام عدل کا حکم دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے
وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ
اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو (سورۃ النساء 59)
اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو (سورۃ النساء 59)
عدل کی فراہمی قاضی کی ذمہ داری ہے اور کسی کے لیے جائز نہیں کہ قاضی کو عدل کرنے سے روکے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ قاضی کے امور میں مداخلت کر رہا ہو گا جو کہ شریعت کی روح کے منافی ہے۔
رسول کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے قاضی کے حیثیت سے تمام مقدمات کے فیصلے انصاف اور غیر جانبداری سے دیتے تھے۔ میثاق مدینہ کے تمام فریق آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے عدل و انصاف اور غیر جانبدارانہ رویہ سے اتنے متاثر تھے کہ مسلمان، یہود اور مشرک سب اس بات پر متفق ہو گئے کہ وہ اپنے تنازعات آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کریں گے۔
یہ ان دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان تنازعہ پیش آیا جو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا کیونکہ یہودی نے آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے شہادت فراہم کی۔
قاضی کا محاسبہ:
اسلام نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ جو لوگ معاشرے میں قاضی کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں ان میں صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ دور اندیش اور خاطر خواہ اسلامی علم رکھتے ہوں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ تقوی دار، دیانتدار، غیر جانبدار اور مخلص بھی ہوں۔
اسلامی تعلیمات کو رو سے قضاء دینی امور میں سے ہے اور اس سلسلے میں قاضی کا احتساب ہو گا۔ پس اگر اس نے حق کے ساتھ فیصلہ کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا اور اگر اس نے خلاف حق اور خلاف الشرع الاسلامی فیصلہ کیا تو وہ جہنم میں داخل ہو گا۔ اسی بناء پر قاضی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کام میں کسی کی مداخلت قبول نہ کرے۔ کیونکہ اگر اس نے مداخلت کی وجہ سے مجبور ہو کر فیصلہ کیا تو وہ جنت سے محروم ہو جائے گا اور جہنم میں داخل ہو گا۔
رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
''قضاء تین آدمیوں کی ہے ان میں ایک جنتی ہو گا جبکہ دو جنہم میں داخل ہوں گے۔ وہ شخص جس نے حق کو جان لیا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا اور وہ شخص جس نے حق کو جان لیا لیکن اس سے تجاوز کیا اور اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا تو وہ جہنم میں جائے گا اور وہ شخص جس نے حقیقت کو جانے بغیر لوگوں کے لیے فیصلہ کیا تو وہ بھی جہنم میں جائے گا''۔
قاضی کا حق:
چونکہ قاضی کو اپنے فیصلوں کے بارے میں حساب دینا ہے اس لیے یہ اس کا حق ہے کہ اپنے معاملات میں مداخلت قبول کرنے سے انکار کر دے تاکہ وہ ﷲ کے غضب کا مستحق نہ ٹھہرے اس ضمن میں حدیث کا ذکر کیا جا چکا ہے۔
اگرچہ آزادی قضاء قاضی کا ایسا حق ہے جو اس کو شریعت نے عطا کیا ہے لیکن اپنے اصول کی بناء پر یہ قاضی کے شرعی واجبات میں سے بھی ہے۔ واجب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ قاضی کو کسی بھی حالت میں آزادی عدلیہ سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے چاہے اس کا ذاتی معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔
قاضی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں شرعی احکامات کی پابندی کرے اور یہ فیصلہ قانون، نصوص الشریعہ یا اپنے اجتہاد کے مطابق کرے اور اس ضمن میں کسی اور سبب کو دخل اندازی کی اجازت نہ دے۔
رسول کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کبھی اپنے مقرر کردہ قاضیوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ اور عدلیہ کی آزادی کے بہت خواہاں تھے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم عدل کے نفاذ کے سلسلے میں تمام قاضیوں کے لیے ایک نمونہ تھے۔
حضرت عمر کے زمانے میں عملا عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کر دیا گیا اور ملک کے تمام صوبوں میں مستقل قاضی مقرر کر دیئے گئے اور صوبوں کے قاضی گورنروں کے ماتحت نہیں تھے بلکہ خلیفہ براہ راست ان کو تعینات کرتے تھے۔
قاضی کی آزادی میں حکومتی مداخلت گناہ ہے:
ولی الامر کی طرف سے قاضی کی آزادی میں مداخلت گناہ ہے اور شریعت کا یہ قاعدہ ہے کہ
خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔
جیسا کہ بخاری شریف میں حدیث رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ:
حکمران وقت کی بات کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا مسلمان کے لیے پسندیدہ ہے اور جب وہ ﷲ کی نافرمانی کا حکم دے تو پھر اس کی بات کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا درست نہیں ہے۔
خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی حکمرانی کے زرین اصولوں میں سے ایک میں سے ایک نمایاں اصول یہ بھی ہے کہ خلیفہ قاضی کو مقرر فرماتے لیکن تقرری کے بعد ان پر عدالتی فرائض سے متعلق کوئی دباؤ نہ ہوتا تھا۔
اگر ولی الامر عدالتی آزادی میں مداخلت پر مصر ہو اور قاضی آزادی سے فیصلے نہ کر سکتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے منصب سے علیحدہ ہو جائے۔
عدلیہ کی آزادی کے اسلامی تصور پر اعتراض اور اس کا جواب:
حقیقت یہ ہے کہ قاضی کا تقرر خلیفہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ خلیفہ کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ خود قضاء کے امور سرانجام دے اور یہ حقیقت میں قضاء کی آزادی کو منہدم کرنے کے برابر ہے۔ خلیفہ کے ہاتھ میں عدالتی اور انتظامی اختیارات کا جمع ہونا لوگوں کے حقوق کے لیے خطرناک ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں یہ وہ اعتراض ہے جو آزاد عدلیہ کے اسلامی تصور پر کیا جاتا ہے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ:
1: خلیفہ یا حکمران وقت جب قضاء کے امور سرانجام دیں گے، تو وہ بھی انہی قواعد کے پابند ہوں گے جن کے دوسرے قضاۃ پابند ہوتے ہیں۔ جس طرح عام قاضی کے لیے عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ کرنا ضروری ہے، اسی طرح یہ پابندی خلیفہ پر بھی ہو گی۔
2: بہت سے لوگ جن پر ظلم ہوتا ہے وہ صرف خلیفہ سے ہی توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کو انصاف فراہم کرے گا، کیونکہ خلیفہ اپنے اثر و نفوذ اور قوت کی وجہ سے با اثر افراد کو آسانی سے پکڑ سکتا ہے۔
3: خلیفہ کو اگرچہ قاضی کی تقرری کا اختیار حاصل ہے لیکن یہ اختیار آزاد نہیں ہے یعنی اسے یہ حق نہیں کہ اپنی خواہش کے مطابق جس کو چاہے قاضی بنا دے بلکہ اس کے لیے پابندی ہے کہ وہ صرف اس کو قاضی مقرر کرے جس میں مطلوبہ شرائط جو کہ فقہاء نے وضع کی ہیں، اس شخص میں موجود ہوں۔ گویا کہ قاضی کی تقرری کے سلسلے میں خلیفہ کا اختیار مشروط ہے اور اس میں اس کی اپنی مرضی کو دخل نہیں ہے۔
4: اگرچہ خلیفہ کو قضاء کے امور سرانجام دینے کا حق حاصل ہے، لیکن یہ اس کے لیے لازم نہیں ہے۔ آج کل کے دور میں مصلحۃ المرسلہ اور سد الذرائع کی بنا پر ممکن ہے کہ حکمران وقت سے کہا جائے کہ وہ قضاء کے امور سرانجام نہ دے تا کہ اس پر کوئی الزام نہ لگے۔ (اسلامی قانون میں عدالتی طریقہ کار, 2018)
عدلیہ کی آزادی کے لیے سفارشات:
معاصر عالم ڈاکٹر عبدالقادر ابو فارس عدلیہ کی آزادی کے لئے اسلامی مملکت کو مندرجہ ذیل سفارشات تجویز کرتے ہیں:
1: جو شخصیت قاضی تعینات کیا جائے وہ ضرور اس کا اہل ہو۔ اسلامی قانون کا وافر علم رکھنے والا ہو۔
2: قاضیوں کی تقرری ایک مقدس امانت ہے اور اس حق کا استعمال پوری دیانتداری سے ہونا چاہئے۔ قابلیت کے بغیر تقرری ایک بڑا گناہ اور مستوجب سخت سزا ہے۔
3: قاضی صحت مند، سنجیدہ، صاف گو اور ٹھنڈے مزاج کا شخص ہو۔
4: سربراہ مملکت چیف جسٹس کے مشورے سے قاضیوں کا تقرر کرے۔
5: سربراہ مملکت یا کسی اور انتظامی افسر کو یہ اختیار حاصل نہ ہو گا کہ وہ کسی قاضی کو بر طرف کرے یا اس کے عدالتی فیصلہ یا دوسرے ملازمتی امور پر اثر انداز ہو جائے۔
6: قاضی کی ایک قابل احترام حیثیت ہونی چاہیے اور کوئی بھی انتظامی بوجھ اس کے راستے میں رکاوٹ نہ ہو۔
7: قاضی عدالت میں سخت غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے اور ہر فریق کے ساتھ مساویانہ سلوک کرے۔ خواہ ان میں سے ایک فریق طاقتور اور بااثر ہی کیوں نہ ہو۔
8: قاضی اسلامی احکامات کے مطابق فیصلہ صادر کرے گا۔ اور اپنی پسند و ناپسند یا نفرت اور محبت کو دخل نہ دے گا۔
9: قاضی کو معقول معاوضہ دیا جائے گا تا کہ وہ بدعنوانی کی طرف مائل نہ ہو سکے۔
10: قاضی بدعنوان، طامع اور لالچی نہ ہو۔ (اسلام میں عدلیہ کی آزادی کا تصور, 1997)