قاضی کے تعین کی شرائط
اسلامی شریعت میں قاضی کی شخصیت کو غیر معمولی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے کوئی بھی اس منصب کے حاصل کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا جب تک اس میں مخصوص شروط نہ پائی جائیں۔ ان شروط میں سے بعض ایسی ہیں جن پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے اور بعض ایسی ہیں جو مخصوص حالات میں فقہاء کے نزدیک متفق علیہ ہیں اور بعض شروط میں فقہاء اسلام کا اختلاف ہے۔
قاضی کے منصب پر تقرری کے کے لیے مطلوبہ شرائط اجمالا درج ذیل ہیں۔
اسلام، بلوغ، عقل، حریت، مرد ہونا، عادل ہونا، اجتہاد کی صلاحیت رکھنا، آنکھوں اور کانوں کا سلامت ہونا، بولنے کی صلاحیت رکھنا وغیرہ۔
مذکورہ شرائط اور ان کے بارے میں فقہاء اسلام کے مختلف مذاہب کی تفصیل درج ذیل گزارش ہے۔
1) شرط اول: اسلام
اس امر پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے درمیان قضاء کے منصب پر تقرری کے لیے قاضی کا مسلمان ہونا شرط ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر کسی غیر مسلم کو قاضی نہیں کیا جا سکتا۔ فقہاء اسلام نے اس شرط کے وجوب کے لیے جو دلائل پیش کئے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
- قرآن مجید میں ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ کہ ﷲ کافروں کو مومنوں پر ہرگز راہ نہیں دے گا۔ اس لیے اس آیت کی روشنی میں کسی غیر مسلم کی مسلمانوں پر ولایت و حکمرانی جائز نہیں ہو گی۔ اس لیے کسی غیر مسلم کو مسلمانوں پر قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔
- آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اسلام کو فوقیت حاصل ہے اور اس پر کسی کو بالادستی حاصل نہیں ہو سکتی۔
- مسلمانوں میں سے فاسق جو منجملہ اسلامی شریعت کا پابند ہوتا ہے، اگرچہ کافر کی بہ نسبت بدرجہا بہتر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود کسی فاسق کو قاضی مقرر کرنا جائز نہیں۔ فاسق شخص اگر اس منصب کی اہلیت نہیں رکھتا تو کافر تو سرے سے ہی اسلام کا منکر ہے اس کافر کو یہ منصب کیونکر دیا جا سکتا ہے؟
- اسلام میں شہادت کے لیے گواہوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے اور قضاء کا منصب شہادت سے زیادہ معتبر اور خطرناک ہے۔
- قضاء کا مقصد احکام شریعت کی روشنی میں تنازعات کا تصفیہ کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ کافر ﷲ تعالی کے احکام کا منکر ہے اور اسلامی شریعت سے جاہل ہے۔ اس لیے وہ اس منصب کے لائق نہیں ہو سکتا۔
جمہور فقہاء اسلام کے نزدیک ایک غیر مسلم شخص کا اسلامی ریاست کے اندر بسنے والے غیر مسلموں پر بھی بحیثیت قاضی تقرر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فقہاء اپنی تائید میں قرآن، سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے استدلال پیش کرتے ہیں۔
تاہم احناف کی رائے میں غیر مسلم کو غیر مسلموں کے معاملات کا قاضی مقرر کیا جا سکتا ہے ان کے خیال میں ذمی، ذمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا اہل ہے۔ احناف کی دلیل یہ ہے کہ جو آدمی گواہی دینے کا اہل ہو وہ قاضی بھی بن سکتا ہے غیر مسلموں کے معاملات میں غیر مسلمان قاضی کے تعین سے مسلمانوں کے لیے ہرج کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اس کی قضاء صرف غیر مسلموں تک ہی محدود ہو گی۔
2) شرط ثانی: بلوغ
فقہاء اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے بالغ ہونا شرط ہے۔ اور کوئی بھی نابالغ قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ فقہاء اس شرط کے وجوب کے لیے جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
- ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تین اشخاص کسی قسم کے مواخذہ سے بری الذمہ ہیں سویا ہوا شخص جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے، پاگل جب تک کہ وہ تندرست نہ ہو جائے اور بچہ جب تک کہ وہ بڑا نہ ہو جائے۔
- چنانچہ اس حدیث میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نابالغ کو شرعی تکالیف اور ذمہ داریوں کے مواخذہ سے بری الذمہ قرار دیا ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نابالغ شخص کسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ چونکہ قضاء ایک منصب، ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل ذمہ داری کا منصب ہے اس لیے کوئی بھی نابالغ شخص اس منصب کا اہل نہیں ہو سکتا۔
- رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث مبارکہ میں نابالغوں کی حکمرانی سے خداوند ذوالجلال کی پناہ مانگنے کا حکم دیا۔ اور چونکہ پناہ صرف اس چیز سے مانگی جاتی ہے جو بری ہو۔ اس لیے نابالغوں کی حکمرانی سے پناہ مانگنے کا حکم اس امر کی دلیل ہے کہ نابالغ کی حکمرانی جائز نہیں ہے۔ اور اس کو قاضی مقرر نہیں کیا جاسکتا۔
- نابالغ شخص کی گواہی قابل قبول نہیں اور اس کی بنیاد پر قاضی فیصلہ نہیں کر سکتا اور اگر نابالغ شخص گواہ بننے کا اہل نہیں تو قضاء کا منصب سنبھالنے کا تو قطعی اہل نہیں ہو سکتا۔
- نابالغ شخص اپنے ذاتی امور میں سے بھی کسی امر میں تصرف کے اختیارات نہیں رکھتا اور اگر وہ اپنے ذاتی امور میں تصرف نہیں کر سکتا تو دوسروں کے معاملات میں اسے تصرف کرنے کے اختیارات کیسے حاصل ہو سکتے ہیں؟
فقہاء اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے عقل شرط ہے۔ چنانچہ کسی غیر عاقل یا پاگل و مجنون کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ فقہاء اسلام قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے مطلوب شخص میں عقل کی شرط پائے جانے کے لیے جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
1: حضرت عائشہ صدیقہ روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تین اشخاص کسی قسم کے مواخذہ سے بری الذمہ ہیں سویا ہوا شخص جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے، پاگل جب تک کہ وہ تندرست نہ ہو جائے اور بچہ جب تک کہ وہ بڑا نہ ہو جائے۔
2: ایک مجنون شخص اپنی ذات کے بارے میں بھی کسی امر پر تصرف کا اختیار نہیں رکھتا اور اگر وہ اپنی ذات کے بارے میں کسی امر پر تصرف کا اختیار نہیں رکھتا تو دوسروں کے معاملات میں تصرف کس طرح کر سکتا ہے؟
3: شریعت اسلام نے جو عبادات بھی فرض کی ہیں اور جو معاملات بھی مسلمانوں کے لیے جائز قرار دیئے ہیں اس سب کے لیے عقل شرط ہے۔ قضاء ایک ایسا منصب ہے جو اسلامی ریاست میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ اس خطرناک منصب کے لیے وہی شخص اہلیت رکھ سکتا ہے جس کی عقل میں کوئی فتور نہ ہو بلکہ قاضی کا منصب تو اس امر کا متقاضی ہے کہ اس منصب پر مقرر ہونے والا شخص عقل کامل سے بہرہ ور ہو، صحیح و غلط میں تمیز کر سکتا ہو۔
4) شرط رابع: حریت
قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے اس شرط کے وجوب کے بارے میں فقہاء اسلام کے دو اقوال ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
قول اول:
جمہور فقہاء اسلام کے نزدیک ایک شخص کے قضا کے منصب پر تقرری کے لیے اس کا آزاد ہونا بھی شرط ہے۔ اس لیے کسی غلام کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔
اس گروپ کا یہ استدلال ہے کہ قضاء ولایت کی ایک قسم ہے جب کہ غلام اپنے آپ پر بھی مکمل ولایت نہیں رکھتا، اس لیے کہ وہ اپنے مالک کی خدمت کے لیے محبوس ہوتا ہے اور نہ تو اپنی ذات کے معاملے میں کسی تصرف کا اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی اپنے اوقات کے استعمال کی اسے آزادی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ جو شخص اپنے ذاتی معاملات کے بارے میں تصرف کا کوئی اختیار نہیں رکھتا وہ دوسرے کے بارے میں تصرف کا اہل نہیں ہو سکتا اور پھر شہادت کے ضمن میں گواہی کے قبول ہونے کے لیے گواہ کا آزاد ہونا شرط ہے اور غلام کی شہادت شرعا قابل قبول نہیں ہوتی اور جب غلام شہادت کا اہل نہیں تو قضا کا منصب کا اہل کس طرح ہو سکتا ہے۔
قول ثانی:
قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے کسی شخص کا آزاد ہونا شرط نہیں۔ چنانچہ کسی غلام کو بھی قاضی مقرر کیا جا سکتا ہے۔ ان میں قاضی شریح، ابن سیرین اور ابن حزم اور بعض حنابلہ بھی اس کی تائید کرتے ہوئے غلام کے قضاء کے منصب پر تقرری کے لیے اس کے آقا کی اس میں اجازت اور رضا مندی سے اس کو مشروط کرتے ہیں۔
5) شرط خامس: الذکورہ (قاضی کا مرد ہونا)
قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے مرد ہونا شرط ہے اور عورت کو کسی صورت میں قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ عورت نہ تو ان معاملات میں قاضی مقرر کی جا سکتی ہے جو صرف مردوں کے درمیان واقع ہوتے ہیں اور نہ ہی ان میں جو مردوں اور عورتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ اسی طرح عورت کو حدود و قصاص و اموال اور دیگر کسی بھی معاملہ میں قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ جمہور فقهاء اسلام کا یہی مذہب ہے اور وہ اپنے اس مذہب کی تائید میں قرآن کریم، سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم، اجماع امت اور معقولات سے استدلال پیش کرتے ہیں۔
قرآن کریم سے استدلال:
قرآن کریم میں خداء ذوالجلال کا ارشاد ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ
مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ ﷲ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، (سورۃ النساء 34)
مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ ﷲ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، (سورۃ النساء 34)
اس آیت کریمہ میں مرد کو عورت کا قیم کیا گیا ہے۔ اور یہ آیت کریمہ قیم ہونے کی اس صفت کو مرد کے لیے مختص کرتی ہے۔ چنانچہ اگر عورت کے لیے قضاء کا منصب حاصل کرنا جائز قرار دے دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوگا کہ عورت کو مرد پر برتری حاصل ہو جائے گی جو صرف مرد کے لیے ہی حق ہے اور اس طرح یہ امر مذکورہ آیت کے حکم کے بالکل خلاف ہو گا۔
سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے استدلال:
حضرت ابو بکرۃ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسری کی بیٹی کو اپنا حکمران مقرر کیا ہے تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے عورت کو اپنے امور کا نگہبان بنایا
اس لیے اسلامی ریاست میں عورت کو کوئی ایسا منصب سپرد نہیں کیا جا سکتا جس میں اسے مسلمانوں پر کسی طرح کی بھی ولایت حاصل ہو۔
احناف کی رائے جمہور کی رائے سے مختلف ہے۔ ان کے رائے یہ ہے کہ حدود و قصاص کے علاوہ باقی معاملات میں عورت قاضی ہو سکتی ہے۔ چونکہ ان معاملات میں اس کی گواہی مرد کے برابر نہیں ہے۔ جبکہ باقی معاملات میں اس کی گواہی برابر ہے۔ اس لیے اس کا قاضی بننا بھی درست ہے۔
امام ابن جریر الطبری سے یہ نقل ہے کہ قاضی کے لیے مرد ہونا ضروری نہیں ہے اس کہ جب عورت مفتی ہو سکتی ہے تو قاضی بھی بن سکتی ہے۔
6) شرط سادس: عدالت
عدالت کا مفہوم یہ ہے کہ اس سے متصف انسان ہمیشہ سچ بولنے والا ہو۔ جو چیز اس کے سپرد کی جائے اس کا امین ہو، گناہوں سے بچتا ہو، کسی ایسے معاملے میں ملوث نہ ہو جو اس کی شخصیت سے متعلق کسی شبہ اور اس کے چال چلن سے متعلق کسی شک کا سبب بنے۔
جمہور فقہاء اسلام کے نزدیک قاضی کے منصب پر تقرری میں عدالت کا پایا جانا شرط ہے۔ چنانچہ کسی ایسے شخص کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا جو فاسق ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُـوٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَـةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْـتُـمْ نَادِمِيْنَ
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔ (سورۃ الحجرات 6)
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔ (سورۃ الحجرات 6)
اس لیے فاسق قاضی نہیں بن سکتا۔
فقہاء احناف میں سے بعض کے نزدیک قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے اس وصف کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ البتہ ایسا شخص دوسروں کے مقابلہ میں افضل اور قضاء کا منصب حاصل کرنے کا زیادہ مستحق ہے جس میں عدالت کا وصف موجود ہو۔ تاہم ان کے نزدیک اگر کسی ایسے شخص کو قاضی مقرر کیا جائے جس میں عدالت کا وصف موجود نہ ہو تو اس کی تقرری بھی درست ہے اور اس کا حکم بھی قابل نفاذ ہو گا۔
7) شرط سابع: اجتہاد
اس شرط کے وجوب کے بارے میں فقہاء اسلام سے تین اقوال منقول ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
قول اول:
قضاء کے منصب کی اہلیت کے لیے اجتہاد شرط ہے۔ چنانچہ کسی ایسے شخص کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا جو مقلد ہو اور اجتہاد کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ یہ شوافع اور حنابلہ کا مذہب ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے (سورۃ النساء 59)
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے (سورۃ النساء 59)
اس آیت کریمہ کی رو سے کسی بھی اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں ﷲ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جس کے معنی ﷲ تعالی کی کتاب اور سنت رسول کی طرف رجوع کرنے کے ہیں اور اسی کی روشنی میں تمام تنازعات کا تصفیہ اور فیصلہ کرنے کے ہیں۔ قرآن اور رسول کی طرف وہی شخص رجوع کر سکتا ہے جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جہاں تک مقلد کا تعلق ہے تو وہ اپنے امام کے مذہب کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔
قول ثانی:
قضاء کے منصب کی اہلیت کے لیے اجتہاد شرط نہیں ہے۔ کوئی مقلد بھی قاضی ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر کوئی مجتہد موجود ہو تو قضاء کے منصب پر تقرری کے لیے مقلد پر ترجیح دی جائے گی۔ یہ احناف کا مسلک ہے۔ اور مالکیہ کے نزدیک بھی یہی قابل ترجیح ہے۔
ان کی یہ دلیل ہے کہ مجتہد دستیاب ہونا مشکل ہوتا ہے اور اگر قاضی کے لیے اجتہاد کی شرط لازمی قرار دی جائے اور مقلد کے لیے یہ منصب حاصل کرنا جائز نہ رکھا جائے تو موجودہ زمانہ میں شاید ہی کوئی ایسا شخص مل سکے جو قضاء کا منصب حاصل کرنے کا اہل ہو سکے۔
قول ثالث:
بعض مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اگرچہ قاضی کے لیے مجتہد ہونا شرط ہے مگر یہ شرط اس صورت میں قابل عمل ہے جب ایسے لوگوں کا وجود ممکن ہو۔ اگر اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے موجود نہ ہوں تو مقلدین میں سے سب سے بہتر کو قاضی مقرر کیا جا سکتا ہے۔
8) شرط ثامن: حواس کا سلامت ہونا
قاضی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے حواس سلامت ہوں اور اس میں مندرجہ ذیل چیزیں ضروری ہیں
1: بولنے کی صلاحیت: اس لیے کہ گونگا آدمی نہ کوئی حکم دے سکے گا اور نہ سب لوگ اس کے اشاوں کو سمجھ سکیں گے۔
2: سننے کی صلاحیت: اس لیے کہ بہرے آدمی کو فریقین کی گفتگو ہی سنائی نہ دے گی۔
3: دیکھنے کی صلاحیت: اس لیے کہ اندھے کو یہ پتا ہی نہ چلے گا کہ مدعی کون سا ہے اور مدعی علیہ کون ہے؟ کون اقرار کر رہا ہے اور کون جواب دے رہا ہے؟ اور کس کے حق میں دے رہا ہے؟ (اسلام میں قاضی کے منصب کے لیے مطلوب شروط, 1996)