قاضی کے اختیارات کے متعلقہ متفرق امور

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
قاضی کے اختیارات کے متعلقہ متفرق امور

1: قاضی کے اپنے اور رشتہ داروں کے معاملات میں اختیارت:

وہ معاملات جن میں قاضی خود فریق یا مدعی علیہ ہو ان کا فیصلہ کرنے کا اختیار اسے حاصل نہیں ہوتا۔ اس قسم کے معاملات کسی دوسرے قاضی کے سپرد کر دیئے جاتے ہیں۔ اپنے ذاتی معاملات کی طرح قاضی ایسے مقدمات بھی نہیں سن سکتا جس کے فریقین میں اس کے والدین یا اولاد میں سے کوئی شامل ہو۔ بعض فقہاء نے مثلا مالکیہ نے تو اس دائرہ کو اور وسیع کر دیا ہے اور کہا ہے کہ:

قاضی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں کے تنازعات کا فیصلہ کرے۔

اس ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ قاضی پر قرابت داری کا الزام نہ آئے اور اسکی امانت اور دیانت شک کی زد میں نہ آئے۔

2: خلیفہ یا سلطان کے خلاف مقدمات میں قاضی کے اختیارات:

قاضی کا تقرر خلیفہ یا سلطان کرتا ہے اور قاضی خلیفہ کا نائب ہوتا ہے اور اس کا وکیل یعنی جن کو ذمہ داری سونپی گئی ہو، بھی ہوتا ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ وکیل کی اپنے موکل کے لیے قضاء جائز نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ قائدہ سلطان اور خلیفہ کے بارے میں لاگو ہوتا ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سلطان اور خلیفہ کے بارے میں یہ نہیں ہوتا اور قاضی کے اختیارات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ خلیفہ اور سلطان یا حکمرانوں کے خلاف مقدمات سننے اور ان کی سماعت کر کے عدالت کے مطابق فیصلہ کرے ایسے تمام مقدمات جن میں سلطان یا خلیفہ چاہے مدعی ہو یا مدعی علیہ قاضی کا اختیار موجود ہے اس ضمن میں الماودری کہتے ہیں:

جب امام کسی کے خلاف مقدمہ کرنا چاہے تو جائز ہے کہ وہ اسے قاضی کی عدالت میں طلب کرے کیونکہ قضاۃ مسلمانوں کے حقوق کے والی ہیں۔

اس کی تصدیق اسلامی تاریخ میں بہت سی مثالوں سے ہوتی ہے۔ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ نے شریح کو قاضی بنایا اور حضرت شریح کے ہاں مقدمہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ بطور فریق شریک ہوئے۔ ہارون الرشید نے امام ابو یوسف کو قاضی القضاۃ مقرر کیا انہی کی عدالت میں ایک یہودی نے ہارون الرشید کے خلاف مقدمہ کر دیا۔ امام ابو یوسف نے یہ مقدمہ سنا اور عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ کیا۔

قاضی کا خلیفہ کا نائب ہونا یا خلیفہ کی طرف سے مقرر ہونا قاضی کے ان اختیارات کو سلب نہیں کرتا جو خلیفہ یا سلطان کے خلاف مقدمات کے ضمن میں قاضی کو عام مسلمانوں کے مقدمات کی طرح ہیں۔ کیونکہ قاضی قضاء کے منصب کی ادائیگی میں خلیفہ کا نائب ہے وہ خلیفہ کے حق خاص کا نائب نہیں ہے پس وہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہے جو دوسرے کے حقوق خاص میں وکیل ہوتے ہیں اسی لیے قاعدہ خلیفہ کے معاملہ میں لاگو نہیں ہوتا۔

خلیفہ کی طرف سے قاضی کا تقرر دراصل عامۃ المسلمین کی طرف سے تقرر ہے۔ خلیفہ کا انتخاب لوگوں نے کیا ہوتا ہے وہ حقوق میں ان کا نمائندہ ہوتا ہے۔ لوگوں کے حقوق کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے خلیفہ قاضی مقرر کرے۔ دراصل خلیفہ لوگوں کے مطالبہ کو ہی پورا کر رہا ہوتا ہے اس طرح گویا کہ خلیفہ لوگوں کا نمائندہ ہوتا ہے جو مستحق شخص کو قضاء کے عہدے پر لوگوں کی خواہش کے مطابق فائز کر دیتا ہے۔

جس طرح قاضی خلیفہ کا نائب ہے اسی طرح خلیفہ عامۃ المسلمین کا ان کے حقوق میں نائب ہے۔ پس اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ خلیفہ قاضی کا تقرر کرتا ہے تو یہ قاضی اپنی ولایت خلیفہ سے نہیں بلکہ خلیفہ کے ذریعے سے عامۃ المسلمین سے حاصل کر رہا ہوتا ہے اور قاضی کے تقرر میں خلیفہ کا اختیار اتنا ہی ہے کہ وہ اس میں عام مسلمانوں کا نائب ہے۔ اس بناء پر قاضی کے لیے کوئی ممانعت نہیں ہے کہ وہ خلیفہ کے تنازعات کا فیصلہ نہ کرے۔ ایسے کرنا اس کے فرائض میں شامل ہے۔

3: کیا قاضی کے ساتھ ساتھ خلیفہ کو بھی قضاء کا اختیار حاصل ہے؟

قاضی خلیفہ کا تعین کرتا ہے۔ اصل تو یہ ہے کہ وہ خود لوگوں کے درمیان فیصلے کرے لیکن اپنی مصروفیات کی بنا پر وہ اس ضمن میں قاضی کا بطور اپنے نائب کے تقرر کر دیتا ہے قاضی مقرر کر دینے سے خلیفہ کے اختیارات سلب نہیں ہو جاتے کیونکہ قضاء اس کے اصل واجبات میں سے ہے اسی لیے جب اس کے پاس وقت ہو اور مصلحت عامہ تقاضا کرے تو وہ بذات خود بھی فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہے اس لیے فقہاء نے واضح کیا ہے کہ

لسلطان ان یقضی بین الخصمین

سلطان کا حق ہے کہ وہ فریقین کے درمیان فیصلہ کرے

بدایۃ المجتھد میں ہے کہ

لا خلاف فی جواز حکم الامام الاعظم

مسلمانوں کے امام کے فیصلہ کرنے کے حق میں کوئی اختلاف نہیں ہے

4: ایک شہر میں ایک سے زیادہ قاضیوں کا تقرر:

ایک شہر میں ایک سے زیادہ قاضی کا تقرر جائز ہے چاہے یہ تقلید عام ہو یا تقلید خاص۔ جب خلیفہ ایک شہر میں متعدد قاضیوں کا تقرر کر دے اور ان میں سے ہر ایک کی ولایت عام ہو تو ان قاضیوں میں سے ہر ایک کے پاس کوئی معاملہ پیش کیا جائے جس میں فیصلہ کرنے میں اس کا اختصاص ہو تو ایسا معاملہ کسی دوسرے قاضی کے ہاں پیش نہیں کیا جائے گا۔

اگر قاضیوں کا تقرر شہر کے مخصوص علاقوں کے لیے کیا ہو تو ہر کوئی قاضی اپنے علاقے کے معاملات میں فیصلہ کرے گا اور اس دوسرے علاقوں میں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہو گا۔

5: ایک عدالت میں ایک سے زیادہ قاضیوں کا تقرر:

اصل یہ ہے کہ ایک عدالت میں ایک ہی قاضی ہو جو لوگوں کے درمیان فیصلے کرے اور اس پر طویل عرصہ سے عمل ہو رہا ہے۔ اگرچہ قاضی سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ فیصلوں کے بارے میں اہل علم سے مشورہ کرے اور ان کے اجتہاد سے فائدہ اٹھائے لیکن فیصلہ کرنے والا صرف وہی ہوتا ہے۔

جیسا کہ الماوردی کہتے ہیں

قاضی عدالتی معاملات اور احکام میں مشورہ کا پابند ہے لیکن اس مشاورت سے مراد ایک سے زیادہ جج نہیں ہیں۔ اسی طرح قاضی اس مشاورت کے نتیجے میں ہونے والی رائے کا پابند نہیں ہے اگرچہ رائے دینے والے ایک ہی موقف کیوں نہ رکھتے ہوں۔

ایک اور قول ہے:

ولا یقلدھم و ان کانوا عددا

اور ان کو یہ اختیار نہ دیا جائے گا اگرچہ ان کی تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔

اب المارودی کی رائے سے یہ مراد ہے کہ وہ ایک سے زیادہ ججوں کا ایک عدالت میں تقرر نہیں ہونا چاہیے تو ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ قاضی اس امام کا نام ہے جس نے اس کی تقرری کی اور وہ اس کی طرف سے ذمہ دار ہے۔ جس طرح وکالت میں دو کو جمع کیا جا سکتا ہے اسی طرح قضاء میں بھی ممکن ہے کیونکہ قاضی بھی تو خلیفہ کا وکیل ہی ہوتا ہے۔

اسی بنا پر یہ رائے دی جا سکتی ہے کہ قاضی یا جج حکمران کا نائب اور وکیل ہوتا ہے۔ جس کے ذمے قضاء کی ذمہ داری لگائی گئی ہے اور جائز ہے کہ خلیفہ ایک وقت میں ایک عدالت میں ایک سے زیادہ قاضیوں کا تقرر کرے۔

اگر خلیفہ تین افراد کو ایک عدالت میں جج مقرر کر دے اور ان کے لیے لازم ہو کہ وہ تینوں مل کر فیصلہ کریں تو عدالت کی تکمیل کے لیے تینوں کا ہونا ضروری ہے اگر ان میں یک بھی نہ ہو گا تو عدالت منعقد نہ ہو گی۔ فیصلہ یا تو تینوں متفقہ آراء سے ہو گا یا پھر اکثریت کی رائے کے مطابق۔ (اسلامی قانون میں عدالتی طریقہ کار, 2018)
 
Top