قاضی کے اخلاق و اعمال

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
قاضی کے اخلاق و اعمال

قاضی معاشرے کا ایک اہم فرد ہوتا ہے اس کا منصب بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اسے معاشرے میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ چونکہ وہ لوگوں کے تنازعات کو طے کرتا ہے اس لیے اس کا غیر جانبدار ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لیے اپنے اخلاق و اعمال میں بڑا محتاط ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں بعض تفاصیل درج ذیل ہیں

1: قاضی کا تجارت وغیرہ نہ کرنا:

امام شافعی فرماتے ہیں کہ قاضی کے لیے مناسب نہیں کہ خود خرید و فروخت اور تجارت کرے۔ کیونکہ جب وہ یہ فرائض سرانجام دے گا تو قاضی ہونے کی بناء پر لوگ اس کے ساتھ رعایت کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ جب ان کا کوئی فیصلہ اس عدالت میں آئے تو وہ بھی ان سے جانبداری کا رویہ اختیار کرے۔

بعض فقہاء نے قاضی کے طرف سے ایسے کام کرنے کو جائز قرار دیا ہے جو براہ راست تجارت نہ ہوں۔ جیسے فارغ اوقات میں کسی دوسرے پیشے کو اختیار کرنا۔ لیکن اس ضمن میں ترجیح اسی قول کو ہے کہ قاضی کو قضاء کے علاوہ کوئی دوسرا پیشہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، چاہے فارغ اوقات ہی کیوں نہ ہوں۔

2: قاضی کی تنخواہ:

قاضی کی تنخواہ پر فقہاء نے رزق القاضی کے عنوان سے بڑی تفصیل بحث کی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

  • اگر قاضی امیر اور دولت مند ہو تو اسے بیت المال سے کچھ نہیں لینا چاہیے۔
  • ابن قدامہ کا اس ضمن میں قول ہے کہ قاضی کا بیت المال سے تنخواہ لینا جائز ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت ابو بکر خلیفہ بنے تو ان کی تنخواہ دو درہم روزانہ مقرر کی گئی۔
  • قاضی کے لیے تنخواہ کا ہونا ضروری ہے اور اس کی تنخواہ اتنی ہو کہ تمام جائز ضروریات پوری ہو سکیں۔
3: قاضی کا ہدیہ قبول کرنا ممنوع ہے:

اصل میں تو تحفے قبول کرنا درست ہے۔ ایک حدیث میں بھی آتا ہے کہ تحفہ دو اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس کے قبول کرنے میں فساد کا خطرہ ہو تو پھر یہ منع ہے۔

فقہاء نے اس ضمن میں کہا ہے کہ قاضی جن فریقوں کے درمیان فیصلہ کر رہا ہو وہ ان میں سے کسی سے ہدیہ قبول نہیں کرے گا۔ ایسا کرنے سے غیر جانبداری متاثر ہو گی۔

4: قاضی کا اخلاق:

  • قاضی کو چاہیے کہ ﷲ سے ڈرے اور حق فیصلہ کرے اور ہوا و ہوس کی پابندی سے فیصلہ نہ کرے کہ گمراہ ہو جائے اور نہ دوسروں کی رغبت پر اور خوف پر فیصلہ کرے بلکہ اپنے پروردگار کی فرمانبرداری اختیار کرے اور اس کے ثواب عظیم کا خواہش مند رہے اور اس کے عذاب الیم سے بچے اور خطاب فاصل یعنی قرآن کریم کی پیروی کرے۔
  • قاضی کے لیے ضروری ہے کہ وہ رعب دار شخصیت ہو اور اس میں ایسی مروت ہو جو قضاء کے منافی ہو۔
  • وہ لوگوں سے زیادہ میل جول نہ رکھے تا کہ لوگ اس سے رعایت کی توقع نہ کریں۔
  • لوگوں کی زیادہ مجالس میں نہ جائے اور نہ ہی عام لوگوں سے ہنسی مذاق کرے۔ یہ سب کچھ اس کے وقار کے منافی ہے۔
  • اگر مریض کی عیادت کرے تو اس مجلس میں زیادہ نہ ٹھہرے اور نہ کسی خصم کو یہ قدرت دے کہ اس سے کسی مقدمہ میں کچھ کلام کرے۔
  • قاضی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ باوقار گفتگو کرے اس کی گفتگو میں جھوٹ، فحش گوئی اور دوسروں کا ٹھٹھا مذاق کرنے والی باتیں نہیں ہونی چاہیے۔
  • قاضی کو بدخو، سخت دل، جفا کار اور لڑاکا نہیں ہونا چاہیے۔
  • اس کی عفت اور صلاحیت اور دانش مندی و عالم حدیث و فقہیہ ہونے پر لوگوں کو اعتماد ہونا چاہیے۔
  • قاضی کے اخلاق کے ضمن میں حضرت عمر بن عبد العزیز نے خوبصورت تجزیہ فرمایا ہے، آپ سے فرمایا
  • کسی شخص کے لیے اس وقت تک قاضی بننا مناسب نہیں جب تک اس میں پانچ خصوصیات نہ ہوں، اس میں سے اگر کوئی بھی خصوصیت کم ہو گی تو منصب قضاء میں خلل واقع ہو گا 1: سابقہ فیصلوں کا علم ہو۔
  • 2: اہل علم سے مشورہ کرنے والا ہو۔
  • 3:حرص زر سے بچنے والا ہو۔
  • 4: فریقین کے معاملہ میں بردبار ہو۔
  • 5:ملامت کو برداشت کرنے والا ہو۔ یعنی حق کے مطابق فیصلہ میں کسی کے کہنے سننے کی پرواہ نہ کرنے والا ہو۔
پس قاضی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان صفات کے مطابق اپنے اخلاق کو حسنات سے مزین کرے۔
 
Top