عدالتی کاروائی سے متعلق شریعت اسلامیہ کا مؤقف
1: عدالتی کاروائی میں کون کون شریک ہو سکتا ہے:
جب قاضی عدالتی کاروائی کا آغاز کرے تو اس کے تمام اہلکاروں کو عدالت میں موجود ہونا چاہیے۔ قاضی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کاتب reader کو ایسی جگہ بٹھائے جہاں وہ اس کو دیکھ سکے تا کہ قاضی کی املاء Dictation میں کوئی تبدیلی نہ ہو سکے۔
ابن قدامہ اس بارے میں کہتے ہیں:
قاضی کے لیے ضروری ہے کہ وہ گواہوں کو حاضر کرے۔ اگر قاضی اپنے علم سے فیصلہ کر رہا ہو تو ان کو جہاں چاہے، بٹھا دے تاکہ جب ضروری ہو تو ان کو گواہی کے لیے بلا لے۔ لیکن اگر وہ اپنے علم سے فیصلہ نہیں کر رہا ہو تو ان کو اپنے قریب بٹھائے تا کہ وہ مخاصمین کی گفتگو کو سن سکیں تا کہ وہ اپنے اقوال سے پھر نہ جائیں۔
2: عدالت میں قاضی کا رویہ:
جب قاضی عدالت میں بیٹھے تو ضروری ہے کہ نفسیاتی طور پر پرسکون ہو تا کہ عدالتی کاروائی پوری طرح اس کے کنٹرول میں رہے۔ اسی بارے میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے
کوئی فیصلہ کرنے والا دو آدمیوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے
اسی بنا پر فقہاء کا کہنا ہے کہ قاضی کے لیے لازمی ہے کہ عدالت میں وہ بھوک، پیاس، بہت زیادہ خوشی، بہت زیادہ غم، بہت زیادہ درد یا تھکن وغیرہ کی حالت میں مت بیٹھے۔ یہ مختلف صورتیں انسانی رویے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس لیے ان حالتوں میں ممکن ہے کہ قاضی نفسیاتی طور پر مقدمات کی سماعت کے تقاضوں کا اہل نہ ہو اور اس میں فرقاء مقدمہ کو سننے کی مطلوبہ صلاحیت نہ ہو۔
قاضی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عدالت میں کم سے کم گفتگو کرے اور اپنی گفتگو کو ضروری سوالات تک ہی محدود رکھے۔ اپنی آواز کو غیر ضروری طور پر بلند نہ کرے اور عزت و وقار سے گفتگو کرے۔ قاضی سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہنسی مذاق نہ کرے اور ایسے امور پر گفتگو سے بھی اجتناب کرے جن کا زیر سماعت قضیہ سے تعلق نہیں ہے۔ اگر قاضی عدالت میں بوریت محسوس کر رہا ہو یا اس کو کوئی حاجت ہو یا تھکن کا احساس ہو تو وہ عدالت کی کاروائی معطل کر دے اور کمرہ عدالت سے اپنے ذاتی چیمبر میں جا کر مناسب وقت تک آرام کرے۔
3: قاضی کا لباس:
عدالت کا رعب و دبدبہ ہونا ضروری ہے۔ ورنہ اشرار عدالت کا احترام نہیں کرتے۔ اس لیے قاضی کے لیے بھی فقہاء نے پروقار لباس کی شرط لگا دی ہے۔ تاکہ اس کے لباس سے عدالت کے وقار میں اضافہ ہو۔ الماوردی کے خیال میں قاضی کو عام آدمیوں کے لباس کی بجائے وہ لباس پہننا چاہیے جو قضاء کی علامت ہو۔
اس رائے سے عدالتوں کے ججوں کے لیے مخصوص لباس کا جواز سامنے آتا ہے۔ روایت ہے کہ امام ابو یوسف سے جب فتوی پوچھا جاتا تو وہ سیدھے ہو کر بیٹھ جاتے تھے، رداء پہنتے، عمامہ باندھتے اور پھر فتوی دیتے تھے۔ اس سے ان کا مقصد فتوی کے کام کی عظمت ظاہر کرنا ہوتا تھا۔
4: عدالت کے آداب:
عدالت کوئی کلب یا کیفے ٹیریا طرز کی جگہ نہیں ہوتی اور عدالت میں موجود لوگوں کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ جیسا رویہ چاہیں، عدالت میں اختیار کر لیں۔ عدالت ایک پروقار جگہ ہے جس میں لوگوں کے تنازعات طے کئے جاتے ہیں اور وہاں پر لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔ اسی لیے اس جگہ پر کسی کو بے ادبی کی اجازت نہیں ہے۔ فریقین کو کھلی گفتگو کی اجازت نہیں ہے اور انہیں اسی وقت گفتگو کرنا ہوتی ہے جب قاضی ان کو اجازت دے یا ان سے کوئی سوال کرے جب ایک فریق گفتگو کر رہا ہو تو دوسرے کو درمیان میں بولنے کی اجازت نہیں۔ جب ایک فریق اپنی گفتگو مکمل کر لے تو دوسرا فریق قاضی کی اجازت سے اپنا مؤقف پیش کر سکتا ہے۔
5: توہین عدالت:
اگر کسی مقدمہ کا کوئی فریق کسی معاملہ میں مشکلات پیدا کرے تو قاضی اس کو جھڑک سکتا ہے اور زور سے ڈانٹ بھی سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی سزاء تعزیر کا مستحق ہو تو قاضی اس کو مناسب جسمانی قید کی سزا بھی دے سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص قاضی سے کوئی بدتمیزی کرے۔ مثلا یہ کہے کہ تم نے میرے خلاف جو فیصلہ دیا ہے مبنی بر انصاف نہیں، یا تم نے رشوت لی ہے تو قاضی اس شخص کو سزا بھی دے سکتا ہے اور معاف بھی کر سکتا ہے۔
اگر مدعی کے بیان سے قبل مدعی علیہ از خود ہی قسم کھانے لگے تو قاضی اس کو روک دے اور اس سے کہہ دے بار ثبوت تمہارے مخالف کے ذمہ ہے، لیکن اگر وہ (مدعی علیہ) منع کرنے کے باوجود قسم کھانے کی کوشش کرے تو قاضی اس کو جھڑک دے وہ اس پر بھی نہ مانے تو اس کو مناسب سزا دے۔
اس طرح ہر وہ حرکت جس میں بدتمیزی یا عدالت کے ادب و احترام کی خلاف ورزی ہوتی ہے اس پر اس حرکت کی مناسبت سے کوئی سزا بھی دی جا سکتی ہے اور معاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ (اسلامی قانون میں عدالتی طریقہ کار, 2018)