جرم زنا کی سزا کے ارکان پر تفصیلی نوٹ

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
جرائم حدود کی مقررہ سزائیں تین خصوصیت کی حامل ہیں:

1: یہ سزائیں اس لیے ہوتی ہیں کہ مجرم کی تادیب ہو اور دیگر لوگ جرم سے باز سے آجائیں اس میں اجرائے سزا کے وقت مجرم کی ذات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا۔

2: یہ سزائیں ایک حد والی متصور ہوتی ہیں۔ اگرچہ بعض سزائیں طبعاً دو حدوں کو قبول کرتی ہوں، کیونکہ یہ سزائیں مقرر و متعین اور لازمی سزائیں ہیں، اس لیے عدالت ان میں کمی بیشی یا تبدیلی نہیں کر سکتی۔

3: یہ تمام سزائیں ان محرکات جرم سے برسر پیکار ہونے کی اساس پر وضع کی گئی ہیں جو جرم کے داعی ہوا کرتے ہیں۔ گویا ان سزاؤں کو نفسیات کی مضبوط بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے۔

زانی کی سزا کے ارکان:

شریعت اسلامیہ میں زنا کی تین سزائیں ہیں۔

1: جلد یعنی کوڑے لگانا

2: تغریب یعنی جلا وطن کر دینا

3: رجم یعنی سنگسار کرنا

1: عقوبت جلد:

شریعت نے غیر محصن زانی کو کوڑوں کی سزا دی ہے۔ اس سزا کی ایک ہی حد ہے اگرچہ طبعاً یہ دو حدوں والی سزا ہے۔ کیونکہ شریعت نے سو کوڑوں کی سزا متعین اور مقرر کر دی ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے۔

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِىۡ فَاجۡلِدُوۡا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا مِائَةَ جَلۡدَةٍ‌ وَّلَا تَاۡخُذۡكُمۡ بِهِمَا رَاۡفَةٌ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ۚ وَلۡيَشۡهَدۡ عَذَابَهُمَا طَآٮِٕفَةٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏۝

بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (سو) کوڑے مارو (جبکہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے) اور تمہیں ان دونوں پر اللہ کے دین (کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہو۔ (سورۃ النور آیت 2)

کوڑوں کی سزا کی اساس جرم کے داعی محرکات کو جرم سے روکنے والے محرکات سے رد کرنا ہے اور یہی وہ اساس ہے جس کی طرف ہماری رہنمائی جرم اور اس کی سزا پر غور و تامل کے بعد ہوتی ہے۔

زنا کا محرک لذت اور اس لذت کے بعد حاصل ہونے والا سرور ہے۔ اس لذت سے روکنے والا محرک الم ہے۔ کیونکہ اگر کوئی انسان تکلیف کا ذائقہ چکھ لے تو اس کے لیے سرور و لذت اندوز ہونا ممکن نہیں رہتا۔ ظاہر ہے کہ سو کوڑوں کی سزا سے زیادہ کوئی سزا تکلیف کا مزا چکھانے والی نہیں ہے۔

غرض شریعت نے زنا کی سزا کوڑے مارنا بلاوجہ ہی نہیں مقرر کر دی ہے بلکہ اس کی بنیاد طبیعت انسان، اس کی نفسیات اور اس کی ذہنیت پر رکھی گئی ہے۔ شریعت نے زنا کی سزا کوڑے مقرر کر کے زنا کے نفسیاتی عوامل کو اس کے متضاد نفسیاتی عوامل سے رد کر دیا ہے۔ اب اگر زنا کے داعی عوامل اس کو روکنے والے عوامل پر غالب آجائیں اور زانی جرم زنا کا مرتکب ہو جائے تو سزا کی تکلیف اس لذت کو فراموش کر دے گی جو اسے زنا سے حاصل ہوئی ہے اور آئندہ وہ اس لذت کے حصول کی فکر نہ کرے گا۔

دور جدید کے بیشتر ماہرین قانون کوڑوں کی سزا کے دوبارہ شروع کرنے اور اس تصور کو نئے سرے سے نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بلکہ فرانس میں تو اشخاص پر سخت تعدی کے اعمال پر کوڑوں کی سزا کی بحالی کے لیے تجویز پیش ہو چکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی عادت میں بڑا زبردست انقلاب آتا جا رہا ہے۔ اب طبقہ عوام تنازعات کے نمٹانے کے لیے قوت اور سختی کی جانب مائل ہوتے جا رہے ہیں اور اب جرم کے مظاہر بھی پہلے کی نسبت بدل چکے ہیں۔ اس لیے اب ان میں شدت اور حدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ اب قیام امن کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جسمانی سزائیں بحال کی جائیں جن میں بہترین سزا کوڑوں کی سزا ہے۔

بعض ماہرین قانون نے کوڑوں کی سزا کی دو اسباب کی بنا پر مختلفت کی ہے۔ پہلا سبب جسمانی سزا سے اظہار تنفر ہے۔ دوم ان کے بقول کوڑوں کی سزا احترام انسانیت کے منافی ہے۔ مگر اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ کوڑوں کی سزا کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا رخ مجرم کی مادی حساسیت کی طرف ہے اور جس چیز سے مجرم زیادہ ڈرتے ہیں وہ جسمانی اذیت ہے۔ اس لیے ان کو خوف زدہ کرنے کے لیے اس نفسیات سے فائد اٹھانا چاہیے۔ رہ گیا یہ تصور کہ یہ احترام انسانیت کے منافی ہے تو یہ بے بنیاد بات ہے اس لیے کہ جب مجرم نے خود اپنے احترام کو ملحوظ نہیں رکھا ہے تو اس کے احترام کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔

کوڑوں کی سزا کے قائلین کی رائے یہ ہے کہ کوڑوں کی سزا ان مجرموں تک محدود ہو جو دیگر انواع عقوبات سے متاثر نہ ہوں، خواہ وہ نوجوان ہوں یا بالغ ہوں۔

کوڑوں کی سزا اگرچہ اکثر فوجداری قوانین میں ختم کر دی گئی ہے مگر اس کے باوجود بعض ممالک کے قوانین میں تاحال موجود ہے۔ چنانچہ قانون انگلستان کوڑوں کی سزا کو فوجداری قوانین کی ایک بنیادی سزا تصور کرتا ہے۔ امریکہ میں قیدیوں کو کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ مصر اور انگلستان میں فوج اور پولیس کے قوانین میں کوڑوں کی سزا بنیادی سزا ہے۔ یہی حال اور متعدد ممالک میں بھی ہے۔

اوپر کوڑوں کی سزا کے بارے میں ماہرین قانون اور مختلف ملکوں کی آراء پیش کر دی گئی ہیں اس کے بعد بھی اگر کوئی اس سزا پر تنقید کرتا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ ساری دنیا غلطی پر ہے اور صرف وہی ٹھیک کہہ رہا ہے، اور اس کے علاوہ جو جی چاہے کہہ سکتا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ تجربے نے اس سزا کی عدم ضرورت کو ثابت کر دیا ہے۔

2: جلا وطنی:

شریعت اسلامیہ نے زنانی غیر محصن کو یہ سزا بھی دی ہے کہ کوڑوں کی سزا کے بعد اس کو ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے کیونکہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

نوجوان مرد اور عورت کے زنا کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے۔

اس حدیث پر فقہاء کرام کا اتفاق نہیں ہے اس لیے اس سزا میں بھی اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کی رائے میں یہ حدیث منسوخ ہے یا غیر مشہور ہے اور اگر جلاوطنی کی سزا درست بھی ہے تو یہ برائے تعزیر ہے۔ حد میں شامل نہیں ہے۔ بلکہ اگر امام کی رائے ہو تو وہ جلا وطنی کی سزا بھی دے سکتا ہے۔ امام مالک کی رائے کے مطابق جلا وطنی کی سزا مرد کی حد میں شامل ہے عورت کی نہیں۔ اور امام شافعی اور امام احمد کی رائے یہ ہے کہ جلا وطنی کی سزا ہر زنا کار کی حد میں شامل ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔

جو فقہاء جلا وطنی کے قائل ہیں وہ جلاوطنی کا مفہوم یہ بتاتے ہیں کہ دار السلام کی حدود میں زانی کو اس شہر سے جس میں اس نے زنا کیا ہے دوسرے ایسے شہر میں بھیج دیا جائے جو کم از کم مسافت قصر پر واقع ہو۔

امام مالک کی رائے یہ ہے کہ جس شہر میں زانی کو جلا وطن کیا جائے گا وہاں اسے محبوس کر دیا جائے گا۔ امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ جس شہر میں اسے جلا وطن کیا جائے گا اس میں اس کی نگرانی کی جائے گی۔ اگر اس کے بھاگ جانے یا دوبارہ اپنے شہر آجانے کا خطرہ ہو تو اسے محبوس کر دیا جائے گا۔ اور امام احمد کی رائے یہ ہے کہ جس زانی کو جلا وطن کیا جائے اس قید نہیں کیا جائے گا۔

جلا وطنی کی سزا کوڑوں کی سزا کی تکمیل ہے اور اس کی دو وجہیں ہیں:

1: جس قدر جلد ممکن ہے جرم کو بھلایا جا سکے، جس کے لیے مقام جرم سے مجرم کا دور کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر وہ اسی سوسائٹی میں رہے گا جہاں وہ جرم کا مرتکب ہوا ہے تو جرم کی یاد تازہ ہوتی رہے گی اور لوگ اسے بھلا نہ سکیں گے۔

2: مقام جرم سے اگر مجرم کو ہٹا دیا جائے تو مجرم کئی دشاوریوں اور مشکلات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ مثلاً اسی شہر میں رہتے ہوئے اسے حصول رزق میں دشواری اور ذلت و بے عزتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر دوسرے شہر میں یہ بات نہ ہو گی، بلکہ اس کے لیے ممکن ہو جائے گا کہ وہ از سر نو ایک باعزت زندگی کا آغاز کر سکے۔

اس بیان سے معلوم ہوا کہ جلا وطنی کی سزا میں مجرم کا فائدہ معاشرے سے زیادہ ہے۔ آج کے دور میں بھی جب کہ شرم و حیاء نہ ہونے کے برابر ہے جب کسی زنا کار کو لعن طعن سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو وہ مقام جرم ترک کر کے چلا جاتا ہے تاکہ اپنے آپ کو اس ذلت و رسوائی سے بچا سکے۔

3: سزائے رجم:

زانی محصن خواہ مرد ہو یا عورت اس کی سزا رجم ہے۔ رجم کے معنی پتھروں سے قتل کرنا ہے۔ رجم کے بارے میں قرآن کریم میں کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ اس لیے خوارج نے سزائے رجم کا انکار کیا ہے، اور ان کا مسلک یہ ہے کہ محصن اور غیر محصن زانی کی سزا ایک ہی سزا ہے خوارج کے علاوہ تمام امت کے نزدیک سزائے رجم پر اجماع ہو چکا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا اور آپ کے بعد آپ کے تمام صحابہ نے بھی اس پر اجماع کیا۔ اس باب میں مشہور حدیث یہ ہے

کسی مسلمان کا خون ان تین باتوں میں سے کسی ایک بات سے حلال ہوتا ہے، ایمان کے بعد کفر، احصان کے بعد زنا اور کسی کو بلا وجہ قتل کرنا۔

آج کل لوگ رجم کی سزا کو بہت شدید خیال کرتے ہیں، حالانکہ اگر کوئی اپنی بیوی یا بیٹی کو کسی کے ساتھ ملوث دیکھتا ہے تو اس کو اور اس کے آشناء دونوں کو قتل کر دیتا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے پیمانے اور اندازے اس مسئلے میں بھی اتنے ہی دقیق اور مطابق عدل ہیں جتنے کہ اس کے باقی تمام احکام میں ہیں۔ زانی محصن معاشرے کے شادی شدہ مردوں اور عورتوں کے لیے ایک بدترین مثال ہے اور شریعت ایسی بری مثال کے باقی رکھنے کی قائل نہیں ہے۔ کیونکہ شریعت تو انسان کی پاکیزگی، اخلاق، باعزت زندگی، صحیح نسب اور اختلاط و بے راہ روی سے پاک زندگی کی قائل ہے۔ اس لیے اس نے ہر شخص پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات پر کنٹرول رکھے اور ان کو صرف حلال طریقے پر پورا کرے۔

اسلام میں چار شادیوں تک کی اجازت ہے، طلاق، خلع کے احکامات بھی موجود ہیں۔ غرض اس طرح شریعت نے محصن کے سامنے حلال کے تمام دروازے کھول دیئے ہیں اور حرام کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ جب عقل اور طبیعت ہر پہلو سے وہ تمام اسباب منقطع ہو گئے جو جرم کے داعی ہیں تو تقاضائے انصاف یہ ہے کہ تخفیف سزا کے لیے کی جانے والی جملہ معذرتیں بھی ختم ہو جانی چاہیں اور محصن کو ایسی سزا دینی چاہیے جو ایک ناقابل اصلاح شخص کے لیے مناسب ہو سکتی ہے۔

جو لوگ زانی کی سزائے موت سے اس قدر گھبراتے ہیں وہ اگر خود واقعی صورت حال پر غور کریں تو بات ان کی سمجھ میں آجائے انہیں معلوم ہو جائے کہ شریعت نے زانی کی سزائے موت، لوگوں کے مطابق مقرر کی ہے۔ موجودہ قانون کا حکم یہ ہے کہ اگر زانی محصن ہو تو سزائے قید ہے اور اگر محصن نہ تو، اور اگر جبر نہ ہو تو کوئی سزا نہیں۔ مگر کیا لوگ اس حکم پر خوش ہیں، اس حکم پر نہ لوگ اب خوش ہیں اور نہ کھبی خوش ہو سکتے ہیں۔ بلکہ انہوں نے قانون کے حکم کو جبراً قبول کیا ہوا ہے۔

لوگ زانی محصن اور غیر محصن کو قتل کر کے خود اس سے قصاص لیتے ہیں اور قتل کے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں جو شدت تکلیف میں رجم سے بھی زیادہ ہیں۔ مثلاً زانی کو غرق کر دیا جاتا ہے، جلایا جاتا ہے، اس کے جوڑ کاٹے جاتے ہیں، ہڈیاں توڑی جاتی ہیں۔ غرض پوری طرح مثلہ کر دیا جاتا ہے۔ جو کم سے کم طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ زانی کو زہر دے دیا جاتا ہے۔

اور زنا کی وجہ سےہونے والے کی قتل کی تعداد تمام جرائم قتل سے نصف ہوتی ہے۔ جب عملاً یہ صورت حال ہے تو ہمیں سزائے رجم سے کیا خطرہ؟ سزائے رجم کو اختیار کرنا اسی واقعی صورت حال کا اعتراف کرنا ہے اور واقعی صورت حال کا اعتراف کرنا جرات بھی ہے اور خوبی بھی۔ اور اس تنزل کے باوجود بھی ہم اقرار حق سے گریز اور واقعی ایسی صورت حال کا اعتراف نہیں کرتے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سزارئے رجم میں قساوت پائی جاتی ہے۔ سزائے رجم سزائے موت ہی ہے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ گولی سے ہر حال میں موت جلد واقع ہوتی ہے اور پتھروں سے ہر صورت میں موت دیر سے آتی ہے تو یہ ایک غلط بات ہے۔

تجربے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بعض اوقات پھانسی کی رسی سے روح نہیں نکلتی اور اکثر موت جلد نہیں ہوتی۔ جیسا کہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تلوار کی ایک ضرب سے گردن نہیں کٹتی اور گردن کاٹنا مارنے کا آسان طریقہ نہیں ہے۔ اسی طرح دم گھوٹنے اور بجلی کے جھٹکے دینے سے بھی موت میں پھانسی اور گولی مارنے سے بھی زیادہ تاخیر ہو جاتی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ مرنے والے کے لیے تکلیف اور عذاب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن معاشرے کے دیگر افراد کو متنبہ اور خوفزدہ کرنے کے لیے تو اس تکلیف و الم کا ہونا ضروری ہے۔ ظاہر ہے معاشرے کا مفاد اس میں نہیں ہے کہ افراد معاشرہ یہ سمجھنے لگیں کہ فلاں جرم کی سزا بالکل ہلکی اور معمولی ہے۔ اس لیے اس سے ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

اس لیے زنا کی سزاؤں کا یہ تعین کیا گیا ہے ورنہ مجرموں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مجرم جرم پر دلیر ہو جائیں گے۔ حالانکہ سزا میں عذاب کے ہونے کا قصد یہ ہے کہ مجرم کی تادیب ہو اور غیر مجرم کو تنبیہ ہو جائے۔ (اسلام کا فوجداری قانون)
 
Top