چمچہ گیری

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
چمچ دراصل ترکی زبان کے لفظ چمچہ کا اُردو تلفظ ہے لیکن یہ اُردو کے لشکری زبان ہونے کا فائدہ اُٹھا کر جلد ہی چمچہ بھی بن گیا۔ اگر یہ چمچہ نہ بنتا تو صرف کھانا کھانے والا چمچ ہوتا ،مگر اس نے چمچہ بن کر دیگر بہت سی ذمہ داریاں بھی اپنے پلے باندھ ڈالیں۔ یہ ایک ہو تو چمچہ کہلاتا ہے، زیادہ ہوں تو چمچے بن جاتے ہیں۔ ویسے تو برتنوں میں چمچہ کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتا لیکن فرائضِ منصبی کے لحاظ سے دیکھئے تو اس چھوٹی سی شے نے بہت بڑی ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں۔ ان کی قسمیں بھی بہت ہیں لیکن عام طور پر دو قسم کے چمچے مشہور ہیں۔ ایک کھانے کے چمچے دوسرے بولنے کے۔

پہلی قسم کے چمچے کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کھانا پکانے کے علاوہ سالن کو دوسرے برتن میں نکالنے کے کام آتا ہے، دوسری قسم کے چمچے کا کام کسی کی چمچہ گیری کرکے مطلب نکالنا ہوتا ہے۔ کام دراصل دونوں کا ایک ہی ہے، بس فرق صرف اتنا ہے کہ ایک دیگ میں چلتا ہے، جبکہ دوسرے کی زبان چلتی ہے۔ پکانے والا چمچہ نہ ہو تو کھانا مزے کا نہیں بنتا ۔بولنے والا چمچہ تھوڑی بہت چمچہ گیری کرکے بھی بہت کچھ کھا جاتا ہے بلکہ بنا بھی جاتا ہے ۔ ایک چمچہ وہ بھی ہوتا ہے جو کھانا بنانے کے علاوہ مظلوم شوہروں کے سر سے پاؤں تک کا حال جانتا ہے۔ ایسے چمچے کا دستہ ہمیشہ بیوی کے ہاتھ میں ہوتا ہے تاکہ اُس کا شوہر فرماں برداری کا اعلیٰ نمونہ بن سکے۔

چمچہ گیری کی جامع تعریف تو کوئی چمچہ گیر ہی کر سکتا ہے، البتہ اسے ایک فن ضرور کہا گیا ہے اور اس کی تربیت کے باضابطہ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو ذاتی سوچ، خیالات اور دماغ سے فارغ ہو اور اپنی چرب زبانی کے ذریعے کسی کو خوش کرنے اور اپنا مطلب نکالنے کی غرض سے اُس کی جھوٹی تعریفیں شروع کر دے، ایسے شخص کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں نہ جانے کیا طنزیہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اسے چمچہ ہی کہتے ہیں ۔

ایک سیاسی چمچے بھی ہوتے ہیں، یہ چمچوں کی اُس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جو بولنے والے چمچے کہلاتے ہیں۔ آج کل کی سیاست میں لوٹوں کی طرح چمچوں کی بھی بھرمار ہے اور یہ دونوں اپنے کردار کی بدولت زبان زدِ عام رہتے ہیں۔ چمچوں کی اہمیت یوں تو ہر دور میں رہی ہے لیکن سیاست اور چمچے دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ چمچہ گیری سے بہتر سیاست میں اور کوئی اہم نہیں کیوںعہدے اسی سے حاصل ہوتے ہیں۔

سیاست میں چمچہ گیری کا زیادہ امکان اُس وقت ہوتا ہے جب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا ارادہ ہو۔ سیاسی لیڈروں کے گرد منڈلانے والے چمچوں کی وجہ سے ہمارے ہاں نظریاتی سیاست کی جگہ اب چمچہ گیری کی سیاست نے لے لی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت تقریباً ہر سیاسی پارٹی میں چمچوں کی ایک بڑی کھیپ موجود ہے۔

حکومتی سربراہ یا سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اپنے مطلب کی بات کہلوانے کے لیے ان ہی چمچوں کو استعمال کرتے ہیں ۔ سیاست میں کامیاب چمچہ وہی کہلاتا ہے جو ٹی وی، اخبارات کے ذریعے بڑے صاحب کا زبردست دفاع اور اُس کے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کا ماہر ہو۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
چمچ دراصل ترکی زبان کے لفظ چمچہ کا اُردو تلفظ ہے لیکن یہ اُردو کے لشکری زبان ہونے کا فائدہ اُٹھا کر جلد ہی چمچہ بھی بن گیا۔ اگر یہ چمچہ نہ بنتا تو صرف کھانا کھانے والا چمچ ہوتا ،مگر اس نے چمچہ بن کر دیگر بہت سی ذمہ داریاں بھی اپنے پلے باندھ ڈالیں۔ یہ ایک ہو تو چمچہ کہلاتا ہے، زیادہ ہوں تو چمچے بن جاتے ہیں۔ ویسے تو برتنوں میں چمچہ کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتا لیکن فرائضِ منصبی کے لحاظ سے دیکھئے تو اس چھوٹی سی شے نے بہت بڑی ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں۔ ان کی قسمیں بھی بہت ہیں لیکن عام طور پر دو قسم کے چمچے مشہور ہیں۔ ایک کھانے کے چمچے دوسرے بولنے کے۔

پہلی قسم کے چمچے کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کھانا پکانے کے علاوہ سالن کو دوسرے برتن میں نکالنے کے کام آتا ہے، دوسری قسم کے چمچے کا کام کسی کی چمچہ گیری کرکے مطلب نکالنا ہوتا ہے۔ کام دراصل دونوں کا ایک ہی ہے، بس فرق صرف اتنا ہے کہ ایک دیگ میں چلتا ہے، جبکہ دوسرے کی زبان چلتی ہے۔ پکانے والا چمچہ نہ ہو تو کھانا مزے کا نہیں بنتا ۔بولنے والا چمچہ تھوڑی بہت چمچہ گیری کرکے بھی بہت کچھ کھا جاتا ہے بلکہ بنا بھی جاتا ہے ۔ ایک چمچہ وہ بھی ہوتا ہے جو کھانا بنانے کے علاوہ مظلوم شوہروں کے سر سے پاؤں تک کا حال جانتا ہے۔ ایسے چمچے کا دستہ ہمیشہ بیوی کے ہاتھ میں ہوتا ہے تاکہ اُس کا شوہر فرماں برداری کا اعلیٰ نمونہ بن سکے۔

چمچہ گیری کی جامع تعریف تو کوئی چمچہ گیر ہی کر سکتا ہے، البتہ اسے ایک فن ضرور کہا گیا ہے اور اس کی تربیت کے باضابطہ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو ذاتی سوچ، خیالات اور دماغ سے فارغ ہو اور اپنی چرب زبانی کے ذریعے کسی کو خوش کرنے اور اپنا مطلب نکالنے کی غرض سے اُس کی جھوٹی تعریفیں شروع کر دے، ایسے شخص کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں نہ جانے کیا طنزیہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اسے چمچہ ہی کہتے ہیں ۔

ایک سیاسی چمچے بھی ہوتے ہیں، یہ چمچوں کی اُس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جو بولنے والے چمچے کہلاتے ہیں۔ آج کل کی سیاست میں لوٹوں کی طرح چمچوں کی بھی بھرمار ہے اور یہ دونوں اپنے کردار کی بدولت زبان زدِ عام رہتے ہیں۔ چمچوں کی اہمیت یوں تو ہر دور میں رہی ہے لیکن سیاست اور چمچے دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ چمچہ گیری سے بہتر سیاست میں اور کوئی اہم نہیں کیوںعہدے اسی سے حاصل ہوتے ہیں۔

سیاست میں چمچہ گیری کا زیادہ امکان اُس وقت ہوتا ہے جب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا ارادہ ہو۔ سیاسی لیڈروں کے گرد منڈلانے والے چمچوں کی وجہ سے ہمارے ہاں نظریاتی سیاست کی جگہ اب چمچہ گیری کی سیاست نے لے لی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت تقریباً ہر سیاسی پارٹی میں چمچوں کی ایک بڑی کھیپ موجود ہے۔

حکومتی سربراہ یا سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اپنے مطلب کی بات کہلوانے کے لیے ان ہی چمچوں کو استعمال کرتے ہیں ۔ سیاست میں کامیاب چمچہ وہی کہلاتا ہے جو ٹی وی، اخبارات کے ذریعے بڑے صاحب کا زبردست دفاع اور اُس کے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کا ماہر ہو۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
زندگی میں اس قدر بے چارگی اچھی نہیں

ہر قدم پر چارۂ تدبیر ہونا چاہئے

صاحب توقیر ہونے سے تو کچھ ملتا نہیں

آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہئے

چمچے کے بارے میں شاعر کے خیالات پیش ہیں:

بہت مجھ کو لگتا ہے پیارا کہ جب جب

مرے سامنے دم ہلاتا ہے چمچہ

اسی کے سبب سے ہے نفرت دلوں میں

کہ آپس میں ہر دم لڑاتا ہے چمچہ

زمانے کی پھٹکار اس میں ہو پھر بھی

سرِ انجمن دندناتا ہے چمچہ

آپ نے تو چمچے کو آ ئینہ دکھایا اب وہ کسی ہنڈیا میں کہیں خود کشی نہ کرلے
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
ایک مرتبہ ایک دعوت پر جانے کا اتفاق ہوا ، سفر سے واپسی تھی تھکاوٹ کے ساتھ بھوک شدید تھی ، وقت مقرر پر آن وارد ہوئے ، دوران کھانہ ہمیں چمچ کی ضرورت پڑگئی تو میزبان محفل سے مخاطب ہوکر لفظ چمچ کا مطالبہ کر ڈالا ، لفظ چمچ سن کر سر جی کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھے ۔ نہ ہم نے پوچھا اور نہ آج تک علم ہو سکا انہوں نے لفظ چمچ پر بارہ طریقوں سے شکل مبارک کیوں تبدیل کی
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
نہ ہم نے پوچھا اور نہ آج تک علم ہو سکا انہوں نے لفظ چمچ پر بارہ طریقوں سے شکل مبارک کیوں تبدیل کی
ہو سکتا ہے مولانا صاحب انھوں نے کھانے والی چمچ کو دوسری چمچ سمجھ لیا ہو!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اندازہ یہی ہے انگلش کے بجائے اردو کا نام کیوں لیا
اس میں غلطی سامنے والے کی ہوتی ہے۔ بات تو صرف چمچ کی تھی اب وہ اگر خود کو چمچ سمجھے تو کوئی کیا کہہ سکتا۔ اب انسان چمچ تھوڑی ہوتا ہے۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
اس میں غلطی سامنے والے کی ہوتی ہے۔ بات تو صرف چمچ کی تھی اب وہ اگر خود کو چمچ سمجھے تو کوئی کیا کہہ سکتا۔ اب انسان چمچ تھوڑی ہوتا ہے۔
سن کے نزدیک انگلش بولنا ہائی سوسائٹی کہ علامت ہے آپ نے ہائی سوسائٹی کے لوگوں میں بولا جو ہماری بے عزتی کے مترادف ہے
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
سن کے نزدیک انگلش بولنا ہائی سوسائٹی کہ علامت ہے آپ نے ہائی سوسائٹی کے لوگوں میں بولا جو ہماری بے عزتی کے مترادف ہے
مطلب یہ کہ ان کے نزدیک انگلش میں بات چیت ہائی سوسائٹی ہونے کی علامت ہے۔
مولانا صاحب میں اسے ہائی سوسائٹی نہیں بلکہ کم ظرفی کہوں گی۔ ایک کم ظرف انسان کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ خود تو عظمت سے محروم ہوتا ہے۔ اور کسی دوسرے کی عظمت کا قائل بھی نہیں ہوتا۔
مولانا صاحب آپ کا مقام جاننے کے لیے سامنے والے کا بھی تو کوئی مقام ہونا چاہیے۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
مطلب یہ کہ ان کے نزدیک انگلش میں بات چیت ہائی سوسائٹی ہونے کی علامت ہے۔
مولانا صاحب میں اسے ہائی سوسائٹی نہیں بلکہ کم ظرفی کہوں گی۔ ایک کم ظرف انسان کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ خود تو عظمت سے محروم ہوتا ہے۔ اور کسی دوسرے کی عظمت کا قائل بھی نہیں ہوتا۔
مولانا صاحب آپ کا مقام جاننے کے لیے سامنے والے کا بھی تو کوئی مقام ہونا چاہیے۔
حفظ مکمل کرکے میں درس نطامی میں پہنچا ان دنوں میں ہمارے ہاں ایک پروفیسر صاحب تھے وہ عموما طلباء سے انگلش میں بات کرتے کئی بار ان سے عرض کی محترم یہ بچے بچارے دور دراز سے آتے ہیں ابھی انہیں اردو تک ٹھیک بولنا نہیں آتی ابھی تو طالب علمی کی ابتداء ہے ان بچاروں کو انگلش کا "اے " تک نہیں آتا جب وہ کچھ علم حاصل کرلیں گے تو آپ کی بات کا جواب دے دیں گے ابھی ان کی ابتداء ہے ۔ پر نہ مانے میرے ایک پروفیسر استاد تھے اکثر آتے جاتے تھے ایک دن وہ آئے تو یہ جناب طلباء سے ایسے بات کررہے تھے ، انہوں نے جب انگلش میں گفتگو کی پھر خاموش ہوگئے بعد میں انہوں نے کہا جناب جسے بولنا آتی ہے اس کے سامنے بولو پھر آپ کو علم ہو
ایک دن ایسے ہی مجھ پر جھاڑنا شروع ہوگئے تو اس وقت صرف نحو پڑھ رہے تھے جو "ضرب،ٰضرب، ضربا" یاد تھا ایک سانس میں سنا دیا،کہنے لگے مجھے عربی نہیں آتی آپ وہ زبان استعمال کریں کو سمجھ آجائے میں نے کیا جناب میری یہی زبان ہے جیسے آپ کی زبان انگلش ہے ویسے میری زبان عربی ہے ،اس لیے بول دیا اس کے بعد وہ اردو میں بات کرتے تھے۔

اسی طرح ان صاحب کے ہاں بڑے لوگ موجود تھے اور حقیر کی زبان سے اردو کا لفظ سن کر وہ کیسے برداشت کرتے۔؟
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
حفظ مکمل کرکے میں درس نطامی میں پہنچا ان دنوں میں ہمارے ہاں ایک پروفیسر صاحب تھے وہ عموما طلباء سے انگلش میں بات کرتے کئی بار ان سے عرض کی محترم یہ بچے بچارے دور دراز سے آتے ہیں ابھی انہیں اردو تک ٹھیک بولنا نہیں آتی ابھی تو طالب علمی کی ابتداء ہے ان بچاروں کو انگلش کا "اے " تک نہیں آتا جب وہ کچھ علم حاصل کرلیں گے تو آپ کی بات کا جواب دے دیں گے ابھی ان کی ابتداء ہے ۔ پر نہ مانے میرے ایک پروفیسر استاد تھے اکثر آتے جاتے تھے ایک دن وہ آئے تو یہ جناب طلباء سے ایسے بات کررہے تھے ، انہوں نے جب انگلش میں گفتگو کی پھر خاموش ہوگئے بعد میں انہوں نے کہا جناب جسے بولنا آتی ہے اس کے سامنے بولو پھر آپ کو علم ہو
ایک دن ایسے ہی مجھ پر جھاڑنا شروع ہوگئے تو اس وقت صرف نحو پڑھ رہے تھے جو "ضرب،ٰضرب، ضربا" یاد تھا ایک سانس میں سنا دیا،کہنے لگے مجھے عربی نہیں آتی آپ وہ زبان استعمال کریں کو سمجھ آجائے میں نے کیا جناب میری یہی زبان ہے جیسے آپ کی زبان انگلش ہے ویسے میری زبان عربی ہے ،اس لیے بول دیا اس کے بعد وہ اردو میں بات کرتے تھے۔
بہت اچھا کیا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اسی طرح ان صاحب کے ہاں بڑے لوگ موجود تھے اور حقیر کی زبان سے اردو کا لفظ سن کر وہ کیسے برداشت کرتے۔؟
حقیر انسان نہیں انسان کی سوچ ہوتی ہے۔ اور اس طرح کے لوگوں کو جب تک ان کے انداز میں جواب نہ دیا جائے مانتے نہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اسی طرح ان صاحب کے ہاں بڑے لوگ موجود تھے اور حقیر کی زبان سے اردو کا لفظ سن کر وہ کیسے برداشت کرتے۔؟
اگلی بار آپ ان کے ساتھ
یہ آزما کر دیکھیے گا۔
 
Top