کسی چیز کے وجود کو نہ ماننا اور کسی چیز کے وجود کا انکار کر ڈالنا ۔ یہ دو مختلف باتیں ہیں ۔ ان کے محرکات بھی مختلف ہیں اور نتائج بھی ۔کسی چیز کو نہ ماننا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتا بلکہ آپ کی کم علمی کی دلیل ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے وہ چیز موجود ہو مگر آپ کے علم میں نہ ہو ۔مگر کسی چیز کا انکار کر ڈالنا کم علمی کی دلیل نہیں بلکہ باقاعدہ ایک دعویٰ ہے ۔ اس دعوے کے لئے ثبوت درکار ہیں ۔ علم درکار ہے ۔ یہ دعویٰ اگر علم کے ساتھ کیا جائے تو قابلِ ستائش ہے اور اگر بغیر کسی علم کے کیا جائے تو اس سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں ۔
اگر ہم دنیا کو دینی اور لادینی لوگوں میں تقسیم کریں تو لادینی لوگ مزید فرقوں میں تقسیم ہوتے نظر آئیں گے ۔ جن میں قابلِ ذکر ہیں ملحد اور اگناسٹک ۔اگناسٹک وہ ہوتے ہیں جو خدا کو نہیں مانتے ۔ مگر خدا کا انکار بھی نہیں کرتے ۔ وہ صرف اپنی کم علمی اور کم فہمی کا اعتراف کرتے ہیں ۔ یعنی وہ علم جو خدا کے بارے میں مذہبیوں کے پاس موجود ہے وہ اگناسٹکس کے پاس موجود نہیں ۔ جیسے ہی وہ علم آجائے گا وہ بھی خدا کو مان جائیں گے ۔
ملحدوں کا معاملہ مختلف ہے ۔ وہ خدا کا برملا انکار کرتے ہیں ۔ جس کے لئے ثبوت درکار ہیں ۔ یعنی ایک طرح سے ان کا دعویٰٰ یہ ہے کہ ہم اس کائنات اور اس کے گرد و نواح کے چپے چپے کا علم رکھتے ہیں اور اس میں خدا کا ہونا ممکن نہیں ہے ۔ یہ دعویٰ اس وقت باطل قرار پاتا ہے جب اس زمین پر موجود سمندر میں ایک نئی مچھلی دریافت ہوتی ہے ۔ یعنی اس زمین پر ابھی دریافتوں کا سلسلہ جاری ہو اور کوئی اٹھ کر دعویٰ کر دے کہ اس پوری کائنات میں یا اس سے باہر کہیں خدا کا وجود ممکن نہیں ۔ سبحان للہ ۔
یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کسی چیز کو ماننے کے لئے اس کا سائنسی اصولوں پر پورا اترنا ضروری ہو ۔سائنس انسانوں کے علم پر صرف دو طرح سے اثر انداز ہو سکتی ہے ۔
پہلا یہ کہ وہ ثبوتوں اور مشاہدوں کی بنیاد پر کسی چیز کا وجود ثابت کر دے ۔
دوئم یہ کہ وہ ثبوتوں اور مشاہدوں کی بنیاد پر کسی چیز کے عدم وجود کو ثابت کر دے ۔
نہ تو کسی چیز کو بغیر ثبوتوں کے تسلیم کرنا سائنس کا دائرہ کار ہے اور نہ ہی بغیر ثبوتوں کے کسی چیز کا انکار کر دینا سائنس کے لئے ممکن ہے ۔
پہلا طریقہ آسان ہے ۔
مثال کے طور پر میں نے مینارِ پاکستان دیکھا تو اب میرے لئے اس کا وجود ثابت کرنا بہت آسان ہے ۔ میں اس کی تصاویر دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہوں ۔ اس کی موجودگی کی جگہ بتا سکتا ہوں ۔ اس کے آس پاس موجود عمارات کو بطور ثبوت پیش کر سکتا ہوں ۔ اس کے کئی طریقے ہیں ۔مگر اگر میں نے مینارِ پاکستان نہیں دیکھا تو بغیر ثبوتوں کے میرا یہ دعویٰ بھی باطل ہی ہو گا کہ مینارِ پاکستان کا کوئی وجود ہی ممکن نہیں ۔ ہو سکتا ہے موجود ہو مگر میرے علم میں نہ ہو ۔اس قسم کے دعوے کے لئے ایک اور دعویٰ بھی درکار ہے کہ میں نے دنیا کی ہر چیز دیکھ رکھی ہے اور ان میں مینارِ پاکستان کا کوئی وجود نہیں ۔ یہ دعویٰ کرنا سائنس کے لئے بڑا مشکل کام ہے ۔
میری معلومات کے مطابق سائنس ابھی تک روح کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی ۔ مگر فی الوقت سائنس روح کا انکار کرنے جوگی بھی نہیں ہے ۔ کیوں کے جس طرح سائنس کو اسے ماننے کے لئے ثبوت درکار ہیں اسی طرح اس کا انکار کرنے کے لئے بھی ثبوت درکار ہیں ۔ یہ دعویٰ بھی بے سود ہو گا کہ ہم نے پورا جسم ٹٹول لیا روح نہیں ملی ۔ کیوں کہ روح کی بابت دعویٰ ہی ایک نہ نظر آنے والے جسم کا ہے ۔ یعنی جس طرح عقل کو بغیر دیکھے تسلیم کیا جا سکتا ہے اس طرح روح کو بھی مشاہدات کی بناء پر تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔ ایک مثال کششِ ثقل کی بھی ہے کہ جب تک دریافت نہ ہو گئی سائنس نے اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ۔ مگر اگر سائنس اس کا انکار کر ڈالتی تو جس دن نیوٹن نے قانونِ کششِ ثقل پیش کیا سائنس کو اپنا تھوکا چاٹنا پڑتا ۔ لہٰذا کسی بھی ایسے وجود جس کے ہونے یا نہ ہونے کا سائنس کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو اس پر سائنس کی خاموشی بہتر ہے ۔ نہ اقرار نہ انکار ۔ جب تک مشاہدات سامنے نہیں آجاتے ۔
اب مشاہدات کیا ہیں اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔
سائنس ابھی تک اس بات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہے کہ انسانی جسم کا وہ کون سا عضو ہے جس کے پیدا ہونے سے زندگی شروع ہوتی ہے اور جس کے ختم ہونے سے زندگی ختم ہو جاتی ہے ۔مثال کے طور پر میرے پاس ایک کمپیوٹر ہے ۔ میں اس کا پلگ آن کرتا ہوں تو اس میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جیسے ہی میں پلگ آف کرتا ہوں تو زندگی دم توڑ دیتی ہے ۔ اس کا ماخذ کرنٹ ہے جو اس میں زندگی کی لہر دوڑا رہا ہے ۔
ماں کے پیٹ میں بچے کے تمام اعضاء شروع کے چار مہینوں میں باری باری بنتے ہیں ۔ دوسرے مہینے میں دل اور دماغ کی تشکیل شروع ہو جاتی ہے ۔ ہر وہ عضو جس کے نہ ہونے سے جان جا سکتی ہے وہ بن جانے کے باوجود زندگی کی لہر نہیں دوڑ رہی ؟کس کا انتظار ہے ؟کون سا کرنٹ دوڑے گا جو زندگی کا آغاذ ہو گا ؟پھر چوتھے مہینے میں بچے کی حرکت شروع ہو جاتی ہے ۔ اس میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ وہ کونسا عضو ہے جس کی تشکیل چوتھے مہینے میں ہوئی اور جس کی وجہ سے انسان میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ؟تو جواب ہے ایسا کوئی عضو نہیں ہے ۔ چوتھے مہینے میں جن اعضاء کی تشکیل ہوتی ہے وہ سارے کے سارے بے جان ۔ بال ۔ ناخن اور دانت ۔ ان میں سے کسی کا بھی تعلق زندگی سے نہیں ۔تو وہ کیا چیز تھی جو چوتھے مہینے میں شامل ہوئی اور جسم میں کرنٹ دوڑ گیا ؟ سائنس اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے ۔
موت کے معاملے میں بھی یہی اسرار و رموز ہیں ۔
ایسا ممکن ہے کہ کچھ اعضاء کا تباہ ہو جانا فوری موت کا سبب بن جائے ۔ جیسے دل و دماغ ۔ مگر پھر ان کی موجودگی کے باوجود موت کا واقع ہو جانا سمجھ نہیں آتا ۔ یعنی اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ دماغ کی موت پورے جسم کی موت کا سبب بن جاتی ہے لہٰذا دماغ ہی وہ عضو ہے جو زندگی کی لہر دوڑاتا ہے ۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ صحیح الدماغ ہونے کے باوجود کیوں مر جاتے ہیں ؟یہی معاملہ باقی اعضاء کے ساتھ بھی ہے ۔سائنس اب تک موت کی حتمی وجہ کا تعین کرنے سے قاصر ہے ۔
اسلام کے مطابق موت جسم سے روح نکل جانے کا نام ہے ۔ یہ عمل قلیل مدتی بھی ہو سکتا ہے اور طویل مدتی بھی ۔
قرآن ۔ سورہ الانعام ۔ آیت نمبر 60
وَهُوَ الَّذِىۡ يَتَوَفّٰٮکُمۡ بِالَّيۡلِ وَ يَعۡلَمُ مَا جَرَحۡتُمۡ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَـبۡعَثُکُمۡ فِيۡهِ لِيُقۡضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّىۚ ثُمَّ اِلَيۡهِ مَرۡجِعُکُمۡ ثُمَّ يُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۶۰﴾
اور وہی تو ہے جو رات کو (سونے کی حالت میں) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ (یہی سلسلہ جاری رکھ کر زندگی کی) معین مدت پوری کردی جائے پھر تم (سب) کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (اس روز) وہ تم کو تمہارے عمل جو تم کرتے ہو (ایک ایک کرکے) بتائے گا ﴿۶۰﴾
سورہ الزمر ۔ آیت 42
اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الۡاَنۡفُسَ حِيۡنَ مَوۡتِهَا وَالَّتِىۡ لَمۡ تَمُتۡ فِىۡ مَنَامِهَا ۚ فَيُمۡسِکُ الَّتِىۡ قَضٰى عَلَيۡهَا الۡمَوۡتَ وَ يُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۲﴾
خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں (ان کی روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کرچکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں ﴿۴۲﴾
پھر جب تمام ارواح تخلیق کی گئیں تو ان سے توحید کا وعدہ لیا گیا ۔
سورۃ الاعراف ۔ آیت نمبر 172
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ.
’’اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا : ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے : کیوں نہیں؟ (تو ہی ہمارا رب ہے، ) ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے۔‘‘
جس طرح روح کا انکار ممکن نہیں اس طرح روح کی صحیح توجیہ بھی ایک مشکل کام ہے ۔ا للہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
سورہ بنی اسرائیل ۔ آیت نمبر 85
وَيَسۡـــَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّىۡ وَمَاۤ اُوۡتِيۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِيۡلًا ﴿۸۵﴾
اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے ﴿۸۵﴾
انسان کی سمجھ بوجھ کا ماخذ سائنس ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ ہر علم سے واقف ہے ۔ سائنس ان میں سے صرف ایک چھوٹا سا علم ہے جو انسان کو دیا گیا ہے ۔
اس آیت سے ایسا لگتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ روح کے علم کا تعلق انسان کی محدود عقل سے بالاتر ہو ۔
اگر ہم دنیا کو دینی اور لادینی لوگوں میں تقسیم کریں تو لادینی لوگ مزید فرقوں میں تقسیم ہوتے نظر آئیں گے ۔ جن میں قابلِ ذکر ہیں ملحد اور اگناسٹک ۔اگناسٹک وہ ہوتے ہیں جو خدا کو نہیں مانتے ۔ مگر خدا کا انکار بھی نہیں کرتے ۔ وہ صرف اپنی کم علمی اور کم فہمی کا اعتراف کرتے ہیں ۔ یعنی وہ علم جو خدا کے بارے میں مذہبیوں کے پاس موجود ہے وہ اگناسٹکس کے پاس موجود نہیں ۔ جیسے ہی وہ علم آجائے گا وہ بھی خدا کو مان جائیں گے ۔
ملحدوں کا معاملہ مختلف ہے ۔ وہ خدا کا برملا انکار کرتے ہیں ۔ جس کے لئے ثبوت درکار ہیں ۔ یعنی ایک طرح سے ان کا دعویٰٰ یہ ہے کہ ہم اس کائنات اور اس کے گرد و نواح کے چپے چپے کا علم رکھتے ہیں اور اس میں خدا کا ہونا ممکن نہیں ہے ۔ یہ دعویٰ اس وقت باطل قرار پاتا ہے جب اس زمین پر موجود سمندر میں ایک نئی مچھلی دریافت ہوتی ہے ۔ یعنی اس زمین پر ابھی دریافتوں کا سلسلہ جاری ہو اور کوئی اٹھ کر دعویٰ کر دے کہ اس پوری کائنات میں یا اس سے باہر کہیں خدا کا وجود ممکن نہیں ۔ سبحان للہ ۔
یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کسی چیز کو ماننے کے لئے اس کا سائنسی اصولوں پر پورا اترنا ضروری ہو ۔سائنس انسانوں کے علم پر صرف دو طرح سے اثر انداز ہو سکتی ہے ۔
پہلا یہ کہ وہ ثبوتوں اور مشاہدوں کی بنیاد پر کسی چیز کا وجود ثابت کر دے ۔
دوئم یہ کہ وہ ثبوتوں اور مشاہدوں کی بنیاد پر کسی چیز کے عدم وجود کو ثابت کر دے ۔
نہ تو کسی چیز کو بغیر ثبوتوں کے تسلیم کرنا سائنس کا دائرہ کار ہے اور نہ ہی بغیر ثبوتوں کے کسی چیز کا انکار کر دینا سائنس کے لئے ممکن ہے ۔
پہلا طریقہ آسان ہے ۔
مثال کے طور پر میں نے مینارِ پاکستان دیکھا تو اب میرے لئے اس کا وجود ثابت کرنا بہت آسان ہے ۔ میں اس کی تصاویر دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہوں ۔ اس کی موجودگی کی جگہ بتا سکتا ہوں ۔ اس کے آس پاس موجود عمارات کو بطور ثبوت پیش کر سکتا ہوں ۔ اس کے کئی طریقے ہیں ۔مگر اگر میں نے مینارِ پاکستان نہیں دیکھا تو بغیر ثبوتوں کے میرا یہ دعویٰ بھی باطل ہی ہو گا کہ مینارِ پاکستان کا کوئی وجود ہی ممکن نہیں ۔ ہو سکتا ہے موجود ہو مگر میرے علم میں نہ ہو ۔اس قسم کے دعوے کے لئے ایک اور دعویٰ بھی درکار ہے کہ میں نے دنیا کی ہر چیز دیکھ رکھی ہے اور ان میں مینارِ پاکستان کا کوئی وجود نہیں ۔ یہ دعویٰ کرنا سائنس کے لئے بڑا مشکل کام ہے ۔
میری معلومات کے مطابق سائنس ابھی تک روح کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی ۔ مگر فی الوقت سائنس روح کا انکار کرنے جوگی بھی نہیں ہے ۔ کیوں کے جس طرح سائنس کو اسے ماننے کے لئے ثبوت درکار ہیں اسی طرح اس کا انکار کرنے کے لئے بھی ثبوت درکار ہیں ۔ یہ دعویٰ بھی بے سود ہو گا کہ ہم نے پورا جسم ٹٹول لیا روح نہیں ملی ۔ کیوں کہ روح کی بابت دعویٰ ہی ایک نہ نظر آنے والے جسم کا ہے ۔ یعنی جس طرح عقل کو بغیر دیکھے تسلیم کیا جا سکتا ہے اس طرح روح کو بھی مشاہدات کی بناء پر تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔ ایک مثال کششِ ثقل کی بھی ہے کہ جب تک دریافت نہ ہو گئی سائنس نے اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ۔ مگر اگر سائنس اس کا انکار کر ڈالتی تو جس دن نیوٹن نے قانونِ کششِ ثقل پیش کیا سائنس کو اپنا تھوکا چاٹنا پڑتا ۔ لہٰذا کسی بھی ایسے وجود جس کے ہونے یا نہ ہونے کا سائنس کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو اس پر سائنس کی خاموشی بہتر ہے ۔ نہ اقرار نہ انکار ۔ جب تک مشاہدات سامنے نہیں آجاتے ۔
اب مشاہدات کیا ہیں اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔
سائنس ابھی تک اس بات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہے کہ انسانی جسم کا وہ کون سا عضو ہے جس کے پیدا ہونے سے زندگی شروع ہوتی ہے اور جس کے ختم ہونے سے زندگی ختم ہو جاتی ہے ۔مثال کے طور پر میرے پاس ایک کمپیوٹر ہے ۔ میں اس کا پلگ آن کرتا ہوں تو اس میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جیسے ہی میں پلگ آف کرتا ہوں تو زندگی دم توڑ دیتی ہے ۔ اس کا ماخذ کرنٹ ہے جو اس میں زندگی کی لہر دوڑا رہا ہے ۔
ماں کے پیٹ میں بچے کے تمام اعضاء شروع کے چار مہینوں میں باری باری بنتے ہیں ۔ دوسرے مہینے میں دل اور دماغ کی تشکیل شروع ہو جاتی ہے ۔ ہر وہ عضو جس کے نہ ہونے سے جان جا سکتی ہے وہ بن جانے کے باوجود زندگی کی لہر نہیں دوڑ رہی ؟کس کا انتظار ہے ؟کون سا کرنٹ دوڑے گا جو زندگی کا آغاذ ہو گا ؟پھر چوتھے مہینے میں بچے کی حرکت شروع ہو جاتی ہے ۔ اس میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ وہ کونسا عضو ہے جس کی تشکیل چوتھے مہینے میں ہوئی اور جس کی وجہ سے انسان میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ؟تو جواب ہے ایسا کوئی عضو نہیں ہے ۔ چوتھے مہینے میں جن اعضاء کی تشکیل ہوتی ہے وہ سارے کے سارے بے جان ۔ بال ۔ ناخن اور دانت ۔ ان میں سے کسی کا بھی تعلق زندگی سے نہیں ۔تو وہ کیا چیز تھی جو چوتھے مہینے میں شامل ہوئی اور جسم میں کرنٹ دوڑ گیا ؟ سائنس اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے ۔
موت کے معاملے میں بھی یہی اسرار و رموز ہیں ۔
ایسا ممکن ہے کہ کچھ اعضاء کا تباہ ہو جانا فوری موت کا سبب بن جائے ۔ جیسے دل و دماغ ۔ مگر پھر ان کی موجودگی کے باوجود موت کا واقع ہو جانا سمجھ نہیں آتا ۔ یعنی اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ دماغ کی موت پورے جسم کی موت کا سبب بن جاتی ہے لہٰذا دماغ ہی وہ عضو ہے جو زندگی کی لہر دوڑاتا ہے ۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ صحیح الدماغ ہونے کے باوجود کیوں مر جاتے ہیں ؟یہی معاملہ باقی اعضاء کے ساتھ بھی ہے ۔سائنس اب تک موت کی حتمی وجہ کا تعین کرنے سے قاصر ہے ۔
اسلام کے مطابق موت جسم سے روح نکل جانے کا نام ہے ۔ یہ عمل قلیل مدتی بھی ہو سکتا ہے اور طویل مدتی بھی ۔
قرآن ۔ سورہ الانعام ۔ آیت نمبر 60
وَهُوَ الَّذِىۡ يَتَوَفّٰٮکُمۡ بِالَّيۡلِ وَ يَعۡلَمُ مَا جَرَحۡتُمۡ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَـبۡعَثُکُمۡ فِيۡهِ لِيُقۡضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّىۚ ثُمَّ اِلَيۡهِ مَرۡجِعُکُمۡ ثُمَّ يُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۶۰﴾
اور وہی تو ہے جو رات کو (سونے کی حالت میں) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ (یہی سلسلہ جاری رکھ کر زندگی کی) معین مدت پوری کردی جائے پھر تم (سب) کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (اس روز) وہ تم کو تمہارے عمل جو تم کرتے ہو (ایک ایک کرکے) بتائے گا ﴿۶۰﴾
سورہ الزمر ۔ آیت 42
اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الۡاَنۡفُسَ حِيۡنَ مَوۡتِهَا وَالَّتِىۡ لَمۡ تَمُتۡ فِىۡ مَنَامِهَا ۚ فَيُمۡسِکُ الَّتِىۡ قَضٰى عَلَيۡهَا الۡمَوۡتَ وَ يُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۲﴾
خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں (ان کی روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کرچکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں ﴿۴۲﴾
پھر جب تمام ارواح تخلیق کی گئیں تو ان سے توحید کا وعدہ لیا گیا ۔
سورۃ الاعراف ۔ آیت نمبر 172
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ.
’’اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا : ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے : کیوں نہیں؟ (تو ہی ہمارا رب ہے، ) ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے۔‘‘
جس طرح روح کا انکار ممکن نہیں اس طرح روح کی صحیح توجیہ بھی ایک مشکل کام ہے ۔ا للہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
سورہ بنی اسرائیل ۔ آیت نمبر 85
وَيَسۡـــَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّىۡ وَمَاۤ اُوۡتِيۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِيۡلًا ﴿۸۵﴾
اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے ﴿۸۵﴾
انسان کی سمجھ بوجھ کا ماخذ سائنس ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ ہر علم سے واقف ہے ۔ سائنس ان میں سے صرف ایک چھوٹا سا علم ہے جو انسان کو دیا گیا ہے ۔
اس آیت سے ایسا لگتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ روح کے علم کا تعلق انسان کی محدود عقل سے بالاتر ہو ۔