حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمة الله عليه ایک بے مثال علمی شخصیت کے مالک تھے ۔ ایک طرف آپ نے مدارس میں نصف صدی سے زائد مدت تک مسند درس سجا رکھی تھی جہاں سے چالیس ہزار سے زائد طالبین علوم نبوت نے آپ سے استفادہ کیا جو اس وقت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی جگہوں پر انتہائی اہم اور قائدا نہ کردار ادا کررہے ہیں۔خصوصاً فن حدیث پر آپ کو بے انتہا عبور حاصل تھا ، چناں چہ بر صغیر کے ممتاز ترین محدثین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔دوسری طرف آپ شیخ طریقت تھے جہاں لوگ آپ سے استرشاد کا تعلق قائم کیے ہوئے تھے۔ حضرت مولانا حسین احمد نقشبندی مجددی سے جو دولت قرآن آپ کو ملی تھی اسے بھی آپ نے گکھڑ میں نصف صدی سے زائد مدت تک پابندی کے ساتھ عوام و خواص کو تقسیم کیا۔ درس و تدریس اور تفسیر قرآن و خطابت جمعہ کی بے انتہا مشغولیت کے باوجود آپ نے تحریری میدان میں بھی قلم کی جولانی دکھائی اور مختلف موضوعات پر تقریباً ساٹھ کتابیں بھی تصنیف فرمائیں جو اپنی علمی وقعت، تحقیقی بلندی اور اسلوب و زبان کی متانت کے لحاظ سے قابل صد رشک ہیں۔ آپ بہترین خطیب بھی تھے، پوری عمر جامع مسجد گکھڑ کے محراب و منبر کو آپ نے اپنے علمی و اصلاحی خطبوں سے رونق بخشی۔ مگر بایں ہمہ تواضع کا یہ عالم تھا کہ تحقیقی تحریروں اور علمی رفعتوں کے سبب علمی حلقوں میں جب آپ کو بجا طور پر امام اہل سنت کے لقب سے پکارا جاتا تو آپ کا رد عمل یہ ہوتا: ”جی ہاں میں اہل سنت والجماعة کی جامع مسجد کا امام ہوں“۔
دیوبندمیں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه نے آپ کو ’صفدر‘ کا لقب عطا فرمایا تھا، جو بعد میں حرف بحرف آپ پر صحیح ثابت ہوا۔
تحریک نفاذ شریعت اور تحریک نظام مصطفی میں پیش پیش رہے۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی کے دوران ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے جب ایف ایس ایف کے کمانڈر نے وارننگ دی کہ اگر انہوں نے ریڈ لائن عبور کی تو انہیں گولی مار دی جائے گی آپ نے تمام لوگوں کو روک کرکہا کہ آپ لوگ گواہ رہو، میں نے ۶۳ سال کی سنت عمر گزار لی ہے، میں شہادت کی تمنا رکھتا ہوں۔ چناں چہ آپ نے سب سے پہلے اس ریڈ لائن کو پار کر کے اس چیلنج کو قبول کیا۔
طریقت میں آپ کے شیخ حضرت مولانا حسین علی (وان بھچراں ضلع میانوالی ) تھے جو نقشبندی مجددی شیخ خواجہ محمد عثمان درمانی کے خلیفہ اور امام ربانی قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله عليهکے شاگرد رشید تھے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے گل سرسبد، امام الموحدین حضرت مولانا حسین احمدصاحب شیخ القرآن کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آپ انھیں کے تلمیذ و مجاز، ان کی فکرو سوچ کے امین اور سلوک و احسان اور تفسیر و بیان میں ان کے علمی جانشین تھے۔
ذیل میں حضرت مولانا سرفراز صفدر خان رحمة الله عليه کی تصنیفات کی ایک فہرست پیش کی جارہی ہے :
(۱) تفسیر قرآن (آٹھ جلدیں) (۲) خزائن السنن: دو جلدوں میں جامع ترمذی کی شرح (۳) احسن الباری (۴) گلدستہٴ توحید (۵) راہ سنت (۶) تبرید النواظر (آنکھوں کی ٹھنڈک )، (۷) تفریح الخواطر (حاضر و ناظر) (۸) دل کا سرور (۹) تنقید متین بر تفسیر نعیم (۱۰) مسئلہٴ نور و بشر (۱۱) عبارات اکابر (۱۲) تسکین الصدور فی تحقیق احوال الموتی فی البرزخ والقبور (۱۳) احسن الکلام مسئلہ فاتحہ خلف الامام (۱۴) الکلام المفید فی اثبات التقلید (۱۵) طائفہٴ منصورہ (۱۶) ازالة الریب عن عقیدة علم الغیب (۱۷) آئینہ محمدی (۱۸) درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ (۱۹) چہل مسئلہ حضرات بریلویہ (۲۰) اظہار الغیب فی کتاب اثبات علم الغیب (۲۱) ملا علی قاری اور مسئلہٴ علم غیب (۲۲) المسلک المنصور (۲۳) اتمام البرہان فی رد توضیح البیان(چار جلدیں) (۲۴) عمدة الاثاث (طلاق ثلاث) (۲۵) مقام ابی حنیفہ رحمة الله عليه (۲۶) الشہاب المبین (سماع موتی) (۲۷) سماع موتی (۲۸) ینابیع (تراویح) (۲۹) ہدایة المرتاب الی طریق الثواب فی تحقیق المعجزات (۳۰) ضوء السراج فی تحقیق المعراج (۳۱) اطیب الکلام (۳۲) الکلام الحاوی فی تحقیق عبارة الطحاوی (۳۳) حکم ذکر بالجہر (۳۴) اخفاء الذکر (۳۵) ارشاد الشیعة (۳۶) عیسائیت کا پس منظر (۳۷) توضیح المرام فی نزول المسیح (۳۸) مقالہ ختم نبوت (۳۹) مرزائی کا جنازہ اور مسلمان (۴۰) صرف ایک اسلام (منکر حدیث غلام جیلانی برق کی کتاب ’دو اسلام‘ کے رد میں) (۴۱) انکار حدیث کے نتائج (۴۲) شوق حدیث (۴۳) مودودی کا غلط فتوی (۴۴) تبلیغ اسلام (۴۵) بانی دارالعلوم دیوبند (۴۶) باب جنت (۴۷) چالیس دعائیں (۴۸) مسئلہٴ قربانی (۴۹) حلیة المسلمین (داڑھی) (۵۰) شوق جہاد (۵۱) راہ ہدایت (۵۲) خطبات امام اہل سنت (تین جلدیں) وغیرہ
۹۵/ سال کی طویل عمر گزارنے کے بعد آپ ۵/ مئی ۲۰۰۹ء مطابق ۹/جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ پیر اور منگل کی درمیانی شب کو دو بجے اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرماگئے۔ جنازے میں دو لاکھ سے زیادہ سوگوار فرزندان توحید نے شرکت کی اور اس عالم ربانی ، محقق دوران اور شیخ وقت کو سپرد خاک کیا۔ اللّٰھم اغفرہ وارحمہ وارفع درجاتہ فی جنات النعیم!
دیوبندمیں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه نے آپ کو ’صفدر‘ کا لقب عطا فرمایا تھا، جو بعد میں حرف بحرف آپ پر صحیح ثابت ہوا۔
تحریک نفاذ شریعت اور تحریک نظام مصطفی میں پیش پیش رہے۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی کے دوران ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے جب ایف ایس ایف کے کمانڈر نے وارننگ دی کہ اگر انہوں نے ریڈ لائن عبور کی تو انہیں گولی مار دی جائے گی آپ نے تمام لوگوں کو روک کرکہا کہ آپ لوگ گواہ رہو، میں نے ۶۳ سال کی سنت عمر گزار لی ہے، میں شہادت کی تمنا رکھتا ہوں۔ چناں چہ آپ نے سب سے پہلے اس ریڈ لائن کو پار کر کے اس چیلنج کو قبول کیا۔
طریقت میں آپ کے شیخ حضرت مولانا حسین علی (وان بھچراں ضلع میانوالی ) تھے جو نقشبندی مجددی شیخ خواجہ محمد عثمان درمانی کے خلیفہ اور امام ربانی قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله عليهکے شاگرد رشید تھے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے گل سرسبد، امام الموحدین حضرت مولانا حسین احمدصاحب شیخ القرآن کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آپ انھیں کے تلمیذ و مجاز، ان کی فکرو سوچ کے امین اور سلوک و احسان اور تفسیر و بیان میں ان کے علمی جانشین تھے۔
ذیل میں حضرت مولانا سرفراز صفدر خان رحمة الله عليه کی تصنیفات کی ایک فہرست پیش کی جارہی ہے :
(۱) تفسیر قرآن (آٹھ جلدیں) (۲) خزائن السنن: دو جلدوں میں جامع ترمذی کی شرح (۳) احسن الباری (۴) گلدستہٴ توحید (۵) راہ سنت (۶) تبرید النواظر (آنکھوں کی ٹھنڈک )، (۷) تفریح الخواطر (حاضر و ناظر) (۸) دل کا سرور (۹) تنقید متین بر تفسیر نعیم (۱۰) مسئلہٴ نور و بشر (۱۱) عبارات اکابر (۱۲) تسکین الصدور فی تحقیق احوال الموتی فی البرزخ والقبور (۱۳) احسن الکلام مسئلہ فاتحہ خلف الامام (۱۴) الکلام المفید فی اثبات التقلید (۱۵) طائفہٴ منصورہ (۱۶) ازالة الریب عن عقیدة علم الغیب (۱۷) آئینہ محمدی (۱۸) درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ (۱۹) چہل مسئلہ حضرات بریلویہ (۲۰) اظہار الغیب فی کتاب اثبات علم الغیب (۲۱) ملا علی قاری اور مسئلہٴ علم غیب (۲۲) المسلک المنصور (۲۳) اتمام البرہان فی رد توضیح البیان(چار جلدیں) (۲۴) عمدة الاثاث (طلاق ثلاث) (۲۵) مقام ابی حنیفہ رحمة الله عليه (۲۶) الشہاب المبین (سماع موتی) (۲۷) سماع موتی (۲۸) ینابیع (تراویح) (۲۹) ہدایة المرتاب الی طریق الثواب فی تحقیق المعجزات (۳۰) ضوء السراج فی تحقیق المعراج (۳۱) اطیب الکلام (۳۲) الکلام الحاوی فی تحقیق عبارة الطحاوی (۳۳) حکم ذکر بالجہر (۳۴) اخفاء الذکر (۳۵) ارشاد الشیعة (۳۶) عیسائیت کا پس منظر (۳۷) توضیح المرام فی نزول المسیح (۳۸) مقالہ ختم نبوت (۳۹) مرزائی کا جنازہ اور مسلمان (۴۰) صرف ایک اسلام (منکر حدیث غلام جیلانی برق کی کتاب ’دو اسلام‘ کے رد میں) (۴۱) انکار حدیث کے نتائج (۴۲) شوق حدیث (۴۳) مودودی کا غلط فتوی (۴۴) تبلیغ اسلام (۴۵) بانی دارالعلوم دیوبند (۴۶) باب جنت (۴۷) چالیس دعائیں (۴۸) مسئلہٴ قربانی (۴۹) حلیة المسلمین (داڑھی) (۵۰) شوق جہاد (۵۱) راہ ہدایت (۵۲) خطبات امام اہل سنت (تین جلدیں) وغیرہ
۹۵/ سال کی طویل عمر گزارنے کے بعد آپ ۵/ مئی ۲۰۰۹ء مطابق ۹/جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ پیر اور منگل کی درمیانی شب کو دو بجے اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرماگئے۔ جنازے میں دو لاکھ سے زیادہ سوگوار فرزندان توحید نے شرکت کی اور اس عالم ربانی ، محقق دوران اور شیخ وقت کو سپرد خاک کیا۔ اللّٰھم اغفرہ وارحمہ وارفع درجاتہ فی جنات النعیم!