حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالی علیہ ایک مرتبہ بصرہ کے بازار میں سے گزر رہے تھے راستہ میں ایک باندی ایسے جا وجلال حشم خدم کے ساتھ جارہی تھی جیسا کہ باشاہوں کی باندیاں ہوتی ہیں ۔ حضرت مالک نے اس کو دیکھا تو آواز دے کر فر مایا کہ اے باندی تیرا آقا تجھے فروخت کرتا ہے یا کہ نہیں ۔وہ باندی اس فقرہ کو سن کر حیران رہ گئی کہنے لگی کیا کہا پھر کہو ۔حضرت مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ کیا تیرا مالک تجھے فروخت کرتا ہی؟باندی نے کہا اگر وہ فروخت کر بھی دے تو کیا تجھ جیسا فقیر مجھے خرید سکتا ہے ؟فرمانے لگے ہاں ۔اور تجھ سے بہتر کو خرید سکتا ہے ۔وہ باندی یہ سن کر ہنس پڑی اور اپنے خدام کو حکم دیا کہ اس فقیر کو پکڑ کر ہمارے ساتھ لے چلو ذرا مزاق ہی رہے گا ۔خدام نے پکڑکر ساتھ لے لیا ۔وہ جب گھر واپس پہنی تو اس نے اپنے آقا سے یہ قصہ سنایا وہ سن کر بہت ہنسا اور ان کو اپنے سامنے لانے کا حکم دیا ۔جب سامنے پیش کیے گئے تو اس آقا کے دل پر ایک ہیبت سی ان کی چھا گئی ۔وہ کہنے لگا آپ کیا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایاکہ تو اپنی باندی میرے ہاتھ فروخت کر دے ۔اس نے پوچھا کہ آپ اس کی قیمت دے سکتے ہیں ؟ حضرت مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ میرے نزدیک اس کی قیمت کھجور کی دو گھٹلیاں ہیں ۔یہ سن کر سب ہنسنے لگے ۔اُس نے پوچھا کہ آپ نے یہ قیمت کس مناسبت سے تجویز کی ہے ۔انہوںنے فرمایا کی اس میں عیب بہت ہیں ۔اس نے پوچھا کہ اس میں کیا کیا عیب ہیں ۔حضرت مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا اگر عطر نہ لگائے تو بدن میں سے بو آنے لگے ،اگر دانت صاف نہ کرے تو منہ میں سے سڑاہنڈ آنے لگے ،اگر بالوں میں تیل کنگھی نہ کرے تو پریشان حال ہو جائے ِ جوئیں ان میں پڑ جائیں ۔اور سر میں سے بو آنے لگے ، ذرا عمر زیادہ ہو جائے گی تو بوڑھی بن جائے گی منہ لگانے کے بھی قابل نہ رہے گی ،حیض اس کو آتا ہے ،پیشاب وغیرہ اس کو آتا ہے ۔ہر قسم کی گندگیاں اس میں سے نکلتی ہیں ۔غم ،رنج ،مصیبتیں اس کو ہیش آتی رہتی ہیں ۔ خود غرض اتنی ہے کہ محض اپنی غرض سے تجھ سے محبت ظاہر کرتی ہے ۔انتہائی بے وفا کوئی قول قرار پورا نی کرے اس کی ساری محبت جھوٹی ہیں ۔ کل کو تیرے بعد کسی دوسرے کے پہلو میں بیٹھے گی تو اس سے بھی ایسی ہی محبت کے دعوے کرنے لگے گی ۔میرے پاس اس سے ہزار درجہ بہترباندی ہے ۔جو اس سے نہایت کم قیمت ہے ۔ وہ کافور کے جوہر سے بنی ہوئی ہے ،مشک اور زعفران کی ملاوٹ سے پیدا کی گئی ہے ،اس پر موتی اور نور لپیٹا گیا ہے ۔ اگر کھارے پانی میںاس کا آب دہن ڈال دیا جائے تو وہ میٹھا ہو جائے ۔اور اگر وہ مردہ سے بات کرے تو وہ زندہ ہو جائے ۔اگر اس کی کلائی آفتاب کے سامنے کر دی جائے تو آفتاب بے نور ہو جائے ۔اگر وہ اندھیرے میں آجائے تو سارا گھر روشن ہو جائے ۔اگر وہ دنیا میں اپنی زیب و زینت کے ساتھ آجائے تو سارا جہان معطر ہو جائے چمک جائے ۔اس باندی نے مشک و زعفران کے باغوں میں پرورش پائی ہے ،یاقوت اور مرجان کی ٹہنیوں میں کھیلی ہے ۔ہر طرح کی نعمتوں کے خیموں میں اس کا محل سرائے ہی۔تسنیم :جو جنت کی نہروں میں سے ایک نہر ہے : کا پانی پیتی ہی۔ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتی ۔اپنی محبت کو نہیں بدلتی ہر جائی نہیں ہے ۔ اب تم ہی بتاوکہ قیمت خرچ کرنے کے اعتبار سے کون سی باندی بہتر ہے ۔ سب نے کہا کہ وہ ہی باندی جس کی آپ نے خبر دی ۔حضرت مالک بن دینار رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ اُس باندی کی قیمت ہر وقت ،ہر زمانہ میں ،ہر شخص کے پاس موجود ہے ۔ لوگوں نے پوچھا کہ اُس کی قیمت کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا،اتنی بڑی اہم اور عالی شان چیز کے خریدنے کے لیے بہت معمولی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اوروہ یہ ہے کہ رات کا تھوڑا سا وقت فارغ کر کے صرف اللہ جل شانہ کے لیے کم از کم دو رکعت تہجد کی نماز پڑھ لی جائے ا ور جب تم کھانا کھانے بیٹھو توکسی غریب محتاج کو بھی یاد کر لو۔اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنی خواہشات پر غالب کر دو ۔راستہ میں کوئی تکلیف دینے والی چیز کانٹا اینٹ وغیرہ پڑی دیکھو تو اُس کو ہٹا دو ۔ان چیزوں پر اہتما م کرنے سے تم دنیا میں عزت کی زندگی گزارو گے ،آخرت میںبے فکر اور اعزاز و اکرام کے ساتھ پہنچوگے۔ اس باندی کے آقا نے کہ باندی سے پوچھا کہ تو نے شیخ کی باتیں سن لیں یہ سچ ہیں یانہیں ۔باندی نے کہا کہ بلکل سچ ہیں۔ آقا نے کہا کہ اچھا تو تُو ۔ اب آزاد ہے اور اتنا مال تیری نذر ہے ۔اور اپنے سب غلاموں سے کہا کہ اتنا اتنا مال تمہاری نذر ہے ۔ میرا یہ گھر اور جو کچھ مال اس میں ہے سب اللہ کی راہ میں صدقہ ہے ۔اور گھر کے دروازے پرایک موٹے سے کپڑے کا پردہ پڑا ہوا تھا ،اس کو اُتار کر اپنے بدن پر لپیٹ لیا ،اور اپنا سارا لباس فاخرہ اُتار کر صدقہ کر دیا ۔اس باندی نے کہا کہ میرے آقا تمہارے بعد میرے لیے یہ زندگی اب خوشگوار نہیں ہے ۔ اور اس نے بھی ایک موٹا سا کپڑا پہن کر اپنا سارا زیب و زینت کا لباس ،اور اپنا سارا مال و متاع صدقہ کر کے آقا کے ساتھ ہی ہو گئی ۔حضرت مالک بن دینار رحمۃاللہ علیہ ان کو دعائیں دیتے ہوئے ان سے رخصت ہو گئے ۔ اور وہ دونوں اس سارے عیش و عشرت کو طلاق دے کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہو گئے ۔ اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہوا ۔ غفراللہ لنا ولہم