قادیانی مرزائی کا جنازہ پڑھنے والے کا ایمان اور نکاح دونوں باطل ہو چکا

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اگر کسی کا کوئی رشتہ دار قادیانی ہو اور وہ مرجائے تو اس کی تجہیزوتکفین کی کیا صورت ہوگی؟۔ اور اسلامی نقطہ نظر سے ایسے شخص کے بارہ میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟۔
چونکہ یہ سوال بہت سارے ذہنوں کی خلش کا ذریعہ ہے۔ اس لئے ذیل میں ہم مختصراً ان کو بیان کئے دیتے ہیں:
اول… اگر اس کافر ومرتد قادیانی کے ہم مذہب موجود ہوں تو اس مردار کو انہی کے سپرد کردیا جائے۔ اس صورت میں کسی مسلمان کو اس کی تجہیز وتکفین میں شرکت کرنا درست نہیں۔
دوم… اگر اس کا کوئی ہم مذہب موجود نہیں تو ایسی مجبوری کی صورت میں ایسے شخص کو غسل اس طرح دیا جائے جیسے ایک ناپاک کپڑے کو دھویا جاتا ہے اور اسے ایک کپڑے میں لپیٹ دیا جائے۔ مگر ان میں سے کسی کام میں بھی سنت کی رعایت نہ کی جائے۔ بلکہ یہ سارے کام سر سے بوجھ کو اتارنے کے لئے انجام دئیے جائیں۔
چنانچہ درمختار علی ہامش ردالمختار میں ہے کہ:
’’فیغسلہ غسل الثوب النجس ویلفہ فی خرقۃ۰ ص۶۵۷ ج۱‘‘ {اسے اس طرح (کراہت سے) غسل دیاجائے جیسے ناپاک کپڑے کو دھویا جاتا ہے اور اسے کسی کپڑے میں لپیٹ دیا جائے۔}
اسی وجہ سے فقہاء نے لکھا ہے کہ مرتد کو مسنون طریقے سے غسل وکفن دینا ممنوع اور گناہ ہے۔ چنانچہ فتاویٰ خیریہ میں ہے کہ:
’’فان راعی مانصت العلماء علیہ فی غسل المسلم وتکفینہ ودفنہ فقدار تکب محظورا بلاشک لانہ ممنوع عنہ شرعاً۰ علیٰ حامش الفتاویٰ الحامدیہ ۰ مکتبہ حبیبہ کوئٹہ۰ فتاویٰ خیریہ ج۱ص۲۵‘‘ {اگر کسی شخص نے کسی غیر مسلم کی تجہیزوتکفین اور دفن میں علماء کے ذکر کردہ ان امور مسنونہ کی رعایت کی جو مسلمانوں کے لئے ہیں تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا۔ کیونکہ بلاشبہ ان تمام امور کی رعایت کفار کے حق میں ممنوع ہے۔}
سوم… جس طرح کافر کو سنت کے مطابق غسل وکفن دینا جائز نہیں۔ اسی طرح کسی کافر کی نماز جنازہ پڑھنا بھی جائز نہیں۔ جیسا کہ سورۃ توبہ میں ارشاد باری ہے کہ

’’ولاتصل علیٰ احد منھم مات ابداً ولاتقم علیٰ قبرہ۰ انھم کفروا باﷲ ورسولہ وماتوا وھم فاسقون۰ توبہ۸۴‘‘ {اور نماز نہ پڑھو ان میں سے کسی پر جو مرجائے کبھی اور نہ کھڑا ہو اس کی قبر پر وہ منکر ہوئے اﷲ اور اس کے رسول سے اور وہ مرگئے نافرمان۔}
اس آیت کے تحت امام جصاص رازیؒ تفسیراحکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ:
’’وحظرھا (ای الصلوٰۃ) علیٰ موتی الکفار… الخ۰ ص۱۴۴ج۳‘‘ {اور اس میں کفار کے موتٰی پر جنازہ پڑھنے کی ممانعت ہے۔ }
پس جن مسلمانوں نے مرزائی مرتد کا جنازہ پڑھا ہے۔ اگر وہ اس کے عقائد سے واقف تھے کہ یہ شخص مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتا ہے۔ اس کی وحی پر ایمان رکھتا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کا منکر ہے۔ اس علم کے باوجود اگر انہوں نے اس کو مسلمان سمجھا اور مسلمان سمجھ کر اس کا جنازہ پڑھا تو ان تمام لوگوں کو جو جنازے میں شریک تھے اپنے ایمان اور نکاح کی تجدید کرنی چاہئے۔ کیونکہ ایک مرتد کے عقائد کو اسلام سمجھنا کفر ہے۔ اس لئے ان کا ایمان بھی جاتا رہا اور نکاح بھی باطل ہوگیا۔ ان میں سے کسی نے اگر حج کیا تھا تو اس پر دوبارہ حج کرنا بھی لازم ہے۔
چنانچہ بحرالرائق میں ہے کہ:
’’والا صل ان من اعتقد الحرام حلالاً فان کان حراماً لغیرہ کمال الغیر لایکفرو ان کان لعینہ فان کان دلیلۃ قطعیا کفرو الا فلا وقیل التفصیل فی العالم اما الجاھل فلا یفرق بین الحلال والحرام لعینہ ولغیرہ وانما الفرق فی حقہ انما کان قطعیاً کفر بہ والا فلا یکفر اذا قال الخمرلیس بحرام … الخ۰ ص۱۲۲‘۱۲۳ج۵‘ ھکذافی ردالمختار ص۳۱۱‘ج۳‘ والھندیہ ص۲۷۲ج۲‘‘ {(تکفیر کے باب میں) قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جو شخص کسی حرام چیز کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو اور وہ شے فی نفسہ حرام نہیں (جیسے غیر کا مال) تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا اور اگر وہ چیز فی نفسہ حرام ہے تو اس کے حلال ماننے والے کو کافر کہا جائے گا۔ بشرطیکہ اس کی حرمت قطعی دلیل سے ثابت ہو (جیسے شراب‘ خنزیر وغیرہ) ورنہ نہیں۔ حضرات علماء میں سے بعض کی رائے یہ ہے کہ یہ تفصیل اس شخص کے لئے ہے جو حرام بعینہ اور حرام لغیرہ کے فرق کو سمجھتا ہو۔ اس کے لئے اصول یہ ہے کہ اگر کسی امر قطعی کی حرمت کا انکار کرے تو کافر ہوجائے گا۔ ورنہ نہیں۔ جیسے اگر کوئی کہے کہ شراب حرام نہیں۔ تو اس کو کافر کہا جائے گا۔}
البتہ اگر امام صاحب کو میت کا مرزائی‘ کافر اور مرتد ہونا معلوم نہ تھا اور لاعلمی میں مسلمان سمجھ کر نماز جنازہ پڑھادی تو ان کو تجدید ایمان وتجدید نکاح کی ضرورت نہ ہوگی۔ یہی حکم ہر شخص کا ہوگا جس نے لاعلمی میں اس جنازے میں شرکت کی۔ البتہ بے احتیاطی ہوئی۔ کیونکہ تحقیق نہیں کی گئی۔ اس لئے توبہ واستغفار کریں۔
چہارم… مسنون طریقے سے کافر کو دفن کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ بلکہ ایسے شخص کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا ہی جائز نہیں۔ چنانچہ درمختار علی ہامش ردالمختار میں ہے کہ:
’’واما المرتد فیلقی فی حفرۃ کالکب ھکذا فی الھندیۃ۰ ص۲۰۷‘ ج۱‘ ص۱۶۰ج۱‘‘ {اور (مرتد کی میت) کو کتے کی طرح ایک گڑھے میں پھینک دیا جائے۔}

مزید علامہ ابن عابدینؒ شامی میں لکھتے ہیں کہ:
’’ویکرہ ان یدخل الکافرفی قبر قریبہ المسلم لیدفنہ۰ حوالہ مذکورہ بالا‘‘ {کسی کافر کو اپنے قریبی رشتہ دار مسلمان کی قبر میں (دفن کرنے کی غرض سے) اترنا بھی ممنوع ہے۔}
کفایہ شرح ہدایہ میںہے کہ:
’’لان الموضع الذی فیہ الکافر ینزل فیہ اللعن والسخط والمسلم یحتاج الیٰ نزول الرحمۃ فی کل ساعۃ فینزقبرہ من ذالک۰ ص۹۵ج۲‘‘{چونکہ کافر کی قبر پر اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی اور لعنت برستی رہتی ہے اور مسلمانوں کو تو ہر لمحہ رحمت الٰہی کے نزول کی ضرورت ہے۔ اس لئے مسلمانوں کے قبرستان کو اس کافروں کے دفن سے پاک رکھا جائے۔}
فتح القدیر میں بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان مرجائے اور اس کا قریبی رشتہ دار کافر ہو۔ پھر وہ کافر اپنے رشتہ دار کی میت کو لے کر قبر میں نہ اترے۔ بلکہ عام مسلمان یہ کام انجام دیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ:
’’وینبغی ان لایلی ذالک منہ بل یفعلہ المسلمون ص۹۵ج۲‘ ھکذا فی الھندیۃ۰ ص۱۶۰ج۱‘ والبحر الرائق ص۱۹۱ج۲ وبدائع الصنائع ص۳۱۹ج۱‘‘ {اور وہ (کافر) اس کے دفن کا متولّٰی نہیں بن سکتا۔ بلکہ اس کے بجائے عام مسلمان ہی اس کو دفن کریں۔}
اسی لئے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہی نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ان کو علیحدہ دفن کیا جائے گا۔ چنانچہ فتاویٰ خیریہ میں ہے کہ:
’’وقال عقبۃ بن عامرو واثلۃ بن الاسقع یتخذ لھا قبر علحدۃ وھو احوط۰ فتاوی خریہ علیٰ حامش فتاوی حامدیہ ج۱ص۲۶‘‘ {عقبہ بن عامر اور واثلہ بن اسقع کہتے ہیں کہ ان کے دفن کی جگہ علیحدہ ہونی چاہئے۔}
ان عبارات سے واضح ہوجاتا ہے کہ کافر ومسلمان کا ایک ساتھ دفن کرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ اب صورت مسئولہ میں چونکہ ایک کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردیا ہے اور کافروں پر لعنت برستی ہے جس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ جس کا ذکر مندرجہ بالاسطور میں آچکا ہے۔ اس لئے اس نعش کو مسلمانوں کے قبرستان سے نکال دینا چاہئے۔
چنانچہ امام بخاریؒ نے اپنی جامع بخاری میں نبش قبور مشرکین کے متعلق ایک ترجمہ الباب قائم کیا ہے۔ اس کے تحت متعدد احادیث لائے ہیں۔ ملاحظہ ہو بخاری ص۶۱‘ ج۱۔ ان احادیث کے تحت فقیہ العصرحضرت امام ابوحنیفہؒ وقت حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی نوراﷲ مرقدہ وبرد مضجعہ رقمطراز ہیں:
’’قولہ نبش قبور المشرکین ای دون غیرھا من قبور الانبیاء واتباعھم لمافی ذالک من الاھانۃ لھم بخلاف المشرکین فانہ لاحرمۃ لھم۰لامع الدرادی ص۳۹۵ ج۲‘‘ {مشرکین کی قبریں اکھاڑدی جائیں۔ اس لئے کہ (اسلام میں) ان کا کوئی احترام نہیں۔ بخلاف انبیائے کرام اور ان کے متبعین کے کہ اس میں ان کی توہین ہے۔}

دوسری جگہ ارقام فرماتے ہیں:
’’واما الکفرۃ فانہ لاحرج فی نبش قبور ھم اذلا حرج فی اھانتھم۰‘‘ {البتہ کفار کی قبریں اکھاڑنے میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ ان کی توہین کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔}
مزید آگے لکھتے ہیں کہ:
’’وان کانت قبور المشرکین فینبغی ان ینبش لانھا محل العذاب۰ص۳۹۶ج۲‘‘ {اور اگر مشرکین کی قبریں ہوں تو ان کو اکھاڑ دینا چاہئے۔ کیونکہ وہ محل عذاب ہے۔}
اس طرح کی عبارات فتح الباری ص۴۳۷ج۱‘ اور عمدہ القاری ص۳۵۰ج۲ میں بھی مذکور ہیں۔ فقہ کی مشہور کتاب مراقی الفلاح میں ہے:
’’واما اھل الحرب فلابأس بنبشھم احتیج الیہ ص۳۷۱‘ ھکذا فی عمدۃ الفقہ ص۵۳۶ج۳‘‘ {اگر ضرورت ہو تو حربی کفار کی قبریں اکھاڑ دی جائیں۔}
مندرجہ بالا تمام عبارات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس مرزائی مرتد کی نعش کا مسلمانوں کے قبرستان سے نکالنا ضروری ہے۔
فقط: واﷲ اعلم! کتبہ عبداﷲ کلام عفی عنہ
دارالافتائ‘ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون کراچی نمبر۵
بشکریہ بینات کراچی اپریل۱۹۸۶ء
 
Top