سنو!سنو!!
بقرہ عیدمیں ’’بکرا‘‘نہ بنیں
ناصرالدین مظاہری
بھوک کی وجہ سے یتیم بچوں کے منہ کھلے ہوئے ہیں،بیوائیں ایک ایک روٹی کوترس رہی ہیں،غرباکے گھروں سے کئی کئی دن دھواں نظرنہیں آتا،کتنی ہی غریب بن بیاہی بچیاں غربت اورمفلسی کی نذرہوگئیں،کتنی ہی بچے مفلوک الحالی کی وجہ سے اپنی ماؤں اوربہنوں کے دلال بن گئے،کتنے ہی لوگوں نے تنگی اورتنگ دستی سے مجبورہوکرپھانسیاں،خودکشیاں اور دریاؤں میں ڈوب میں کرجانیں دیدیں،جی ہاں آپ ہی کے قرب وجوارمیں،آپ ہی کی حویلی اورمکان کے نزدیک کوئی نہ کوئی گھراورگھرانہ ایسابھی مل جائے گاجن کے یہاں مہینوں مہینوں پھلوں کی زیارت نہیں ہوئی،گوشت کادیدارنہیں ہوا،کتنے ہی بچے،بچیاں،عورتیں اورلوگ سال سال بھرنئے کپڑوں سے محروم ہیں،کتنے ہی بچے فیس کی وسعت نہ رکھنے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں،جس سڑک پرآپ کی کارفراٹے بھرتی،دندناتی ہوئی شائیں شائیں گزرجاتی ہے کیاکبھی سوچااسی سڑک پرکچھ لوگ ایسے بھی مارے مارے پھررہے ہیں جن کوپورے دن کہیں مزدوری نہیں مل سکی،جن کے بچے آس لگائے اپنے ابوکے انتظار میں ہیں،ادھرمایوس باپ حیران وپریشان اورامیروں کی بے توجہی اوربے توفیقی سے رنجیدہ اورکبیدہ ہوسپٹل میں اپناہی خون بیچنے پہنچا ہواہے کہ اسے اپنے بچے بھوک سے روتے بلکتے دیکھے نہیں جاتے۔
امیرو!رئیسو!خوش حالو!خوش باشو!اللہ کے حضورمیں کیاجواب دوگے ؟قربانی کے دنوں میں نہایت ہی عیاری ومکاری اورشاطری کے ساتھ کسی حلال جانورکے پیٹ یاپیٹھ پراگر’’اللہ‘‘یا ’’محمد‘‘ لکھا ہوا ہو تواس کواس کی قیمت سے دس بیس گنابڑھاکرخریدلو یہ کس نے تمہیں حکم دیاتھا؟کس نے کہاتھاکہ ایسے جانوروں کی قربانی کرنے سے ثواب زیادہ ملتاہے؟ اس قسم کے لغوکاموں میں اپنی کمائی ضائع کرو؟ایساکس نے امرفرمایاہے؟۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی قربانیاں ہوتی رہی ہیں ،کیوں کسی صحابی کوکوئی بھی ایساجانورنہیں ملاجس کی پشت،پیٹ یاپیشانی پراسم پاک اللہ یامحمد لکھا ہوا ہو؟ توپھریہ کیا ہواکہ آج صرف قربانی کے دنوں میں خاص کرپاکستان میں کوئی نہ کوئی گائے، دنبہ، بکرا، بھینسا، گائے دیکھنے کومل جائے گی جس کے جسم پرکوئی ایسی علامت ہوگی جس کوغورکرنے پرپتہ چلے گاکہ یہ ’’اللہ‘‘ لکھا ہواہے، یا’’محمد‘‘ لکھاہواہے۔اب امیروں کی رگ حمیت پھڑکے گی ،منہ مانگی قیمت اداکرکے وہ جانورخریدلیں گے،پہلے نمائش ہوگی،بازاروں میں،گلیاروں میں،چوک وچوراہوں میں اورپھرنیشنل اورانٹرنیشنل ٹی چینلوں پر،یوٹیوب اورفیس بک پر،سب چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی دولت ایسے ہی ضائع ہوتی رہے،دنیاکی کوئی غیرمسلم حکومت نہیں چاہتی کہ مسلمان عزت اورسرفرازی کےساتھ زندگی گزاریں ،اسی لئے جب کوئی ایساکام صادرہوتاہے توپورامیڈیااپنی آنکھوں پربٹھالیتاہے ،آپ کی دولت کے ضیاع سے ان کے گھروں میں خوشی کے شادیانے بجتے ہیں۔
سنو!سنو!!’’حلال کمائی انیٹ اورگارے میں ضائع نہیں ہوتی ‘‘یہ میں نہیں کہتاحضرت امام اعظم ابوحنیفہ کاارشادہے توپھرکیوں نہیں سوچتے آپ کی حلال کمائی بے دریغ ضائع ہورہی ہے ۔اسلام افراط اورتفریط کاقائل نہیں ہے۔اسلام نے فضول خرچی سے منع کیاہے،فضول خرچوں کوشیطان کابھائی فرمایاگیاہے۔حلال کمائی حلال کے راستے خرچ ہوتواچھی بات ہے،یہ سچ ہے کہ حرام کمائی حرام کے راستے میںخرچ ہوتی ہے۔فیصلہ آپ کوکرناہے ۔اگر آپ نے حرام کی کمائی سے ’’حلال جانور‘‘خریدبھی لیا ،شریعت کے مطابق اس کو’’ذبح‘‘بھی کرلیاتوکیااس کاگوشت ’’حلال‘‘ہوجائے گا۔
سنو!سنو!!خدارا فضولیات سے بچو،نمائش سے بچو؟نام ونمودسے بچو،اپنی دولت سنبھال کررکھو،جس دولت میں شریعت نے غریبوں کاحصہ رکھاہے اس دولت میں شیطان کی حصہ داری نہ کرو۔
جو روپے فضولیات میں خرچ کردیتے ہواس رقم سے کتنی ہی غریب بچیاں بیاہی جاسکتی ہیں،کتنے ہی یتیموں کی تعلیمی فیس جمع کی جاسکتی ہے،کتنے ہی ایسے غریب مجرموں کوجیل کی سلاخوں سے باہر لایاجاسکتاہےجو’’مطالبہ‘‘ پورا نہ کرپانے کی وجہ سے سالہاسال سے جیل میں قیدہیں،کتنے ہی غریبوں کے گھروں میں چولھے جل سکتے ہیں اورکتنے ہی جگرگوشے علاج کے ذریعہ شفایاب ہوسکتے ہیں۔
بقرہ عیدمیں ’’بکرا‘‘نہ بنیں
ناصرالدین مظاہری
بھوک کی وجہ سے یتیم بچوں کے منہ کھلے ہوئے ہیں،بیوائیں ایک ایک روٹی کوترس رہی ہیں،غرباکے گھروں سے کئی کئی دن دھواں نظرنہیں آتا،کتنی ہی غریب بن بیاہی بچیاں غربت اورمفلسی کی نذرہوگئیں،کتنی ہی بچے مفلوک الحالی کی وجہ سے اپنی ماؤں اوربہنوں کے دلال بن گئے،کتنے ہی لوگوں نے تنگی اورتنگ دستی سے مجبورہوکرپھانسیاں،خودکشیاں اور دریاؤں میں ڈوب میں کرجانیں دیدیں،جی ہاں آپ ہی کے قرب وجوارمیں،آپ ہی کی حویلی اورمکان کے نزدیک کوئی نہ کوئی گھراورگھرانہ ایسابھی مل جائے گاجن کے یہاں مہینوں مہینوں پھلوں کی زیارت نہیں ہوئی،گوشت کادیدارنہیں ہوا،کتنے ہی بچے،بچیاں،عورتیں اورلوگ سال سال بھرنئے کپڑوں سے محروم ہیں،کتنے ہی بچے فیس کی وسعت نہ رکھنے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں،جس سڑک پرآپ کی کارفراٹے بھرتی،دندناتی ہوئی شائیں شائیں گزرجاتی ہے کیاکبھی سوچااسی سڑک پرکچھ لوگ ایسے بھی مارے مارے پھررہے ہیں جن کوپورے دن کہیں مزدوری نہیں مل سکی،جن کے بچے آس لگائے اپنے ابوکے انتظار میں ہیں،ادھرمایوس باپ حیران وپریشان اورامیروں کی بے توجہی اوربے توفیقی سے رنجیدہ اورکبیدہ ہوسپٹل میں اپناہی خون بیچنے پہنچا ہواہے کہ اسے اپنے بچے بھوک سے روتے بلکتے دیکھے نہیں جاتے۔
امیرو!رئیسو!خوش حالو!خوش باشو!اللہ کے حضورمیں کیاجواب دوگے ؟قربانی کے دنوں میں نہایت ہی عیاری ومکاری اورشاطری کے ساتھ کسی حلال جانورکے پیٹ یاپیٹھ پراگر’’اللہ‘‘یا ’’محمد‘‘ لکھا ہوا ہو تواس کواس کی قیمت سے دس بیس گنابڑھاکرخریدلو یہ کس نے تمہیں حکم دیاتھا؟کس نے کہاتھاکہ ایسے جانوروں کی قربانی کرنے سے ثواب زیادہ ملتاہے؟ اس قسم کے لغوکاموں میں اپنی کمائی ضائع کرو؟ایساکس نے امرفرمایاہے؟۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی قربانیاں ہوتی رہی ہیں ،کیوں کسی صحابی کوکوئی بھی ایساجانورنہیں ملاجس کی پشت،پیٹ یاپیشانی پراسم پاک اللہ یامحمد لکھا ہوا ہو؟ توپھریہ کیا ہواکہ آج صرف قربانی کے دنوں میں خاص کرپاکستان میں کوئی نہ کوئی گائے، دنبہ، بکرا، بھینسا، گائے دیکھنے کومل جائے گی جس کے جسم پرکوئی ایسی علامت ہوگی جس کوغورکرنے پرپتہ چلے گاکہ یہ ’’اللہ‘‘ لکھا ہواہے، یا’’محمد‘‘ لکھاہواہے۔اب امیروں کی رگ حمیت پھڑکے گی ،منہ مانگی قیمت اداکرکے وہ جانورخریدلیں گے،پہلے نمائش ہوگی،بازاروں میں،گلیاروں میں،چوک وچوراہوں میں اورپھرنیشنل اورانٹرنیشنل ٹی چینلوں پر،یوٹیوب اورفیس بک پر،سب چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی دولت ایسے ہی ضائع ہوتی رہے،دنیاکی کوئی غیرمسلم حکومت نہیں چاہتی کہ مسلمان عزت اورسرفرازی کےساتھ زندگی گزاریں ،اسی لئے جب کوئی ایساکام صادرہوتاہے توپورامیڈیااپنی آنکھوں پربٹھالیتاہے ،آپ کی دولت کے ضیاع سے ان کے گھروں میں خوشی کے شادیانے بجتے ہیں۔
سنو!سنو!!’’حلال کمائی انیٹ اورگارے میں ضائع نہیں ہوتی ‘‘یہ میں نہیں کہتاحضرت امام اعظم ابوحنیفہ کاارشادہے توپھرکیوں نہیں سوچتے آپ کی حلال کمائی بے دریغ ضائع ہورہی ہے ۔اسلام افراط اورتفریط کاقائل نہیں ہے۔اسلام نے فضول خرچی سے منع کیاہے،فضول خرچوں کوشیطان کابھائی فرمایاگیاہے۔حلال کمائی حلال کے راستے خرچ ہوتواچھی بات ہے،یہ سچ ہے کہ حرام کمائی حرام کے راستے میںخرچ ہوتی ہے۔فیصلہ آپ کوکرناہے ۔اگر آپ نے حرام کی کمائی سے ’’حلال جانور‘‘خریدبھی لیا ،شریعت کے مطابق اس کو’’ذبح‘‘بھی کرلیاتوکیااس کاگوشت ’’حلال‘‘ہوجائے گا۔
سنو!سنو!!خدارا فضولیات سے بچو،نمائش سے بچو؟نام ونمودسے بچو،اپنی دولت سنبھال کررکھو،جس دولت میں شریعت نے غریبوں کاحصہ رکھاہے اس دولت میں شیطان کی حصہ داری نہ کرو۔
جو روپے فضولیات میں خرچ کردیتے ہواس رقم سے کتنی ہی غریب بچیاں بیاہی جاسکتی ہیں،کتنے ہی یتیموں کی تعلیمی فیس جمع کی جاسکتی ہے،کتنے ہی ایسے غریب مجرموں کوجیل کی سلاخوں سے باہر لایاجاسکتاہےجو’’مطالبہ‘‘ پورا نہ کرپانے کی وجہ سے سالہاسال سے جیل میں قیدہیں،کتنے ہی غریبوں کے گھروں میں چولھے جل سکتے ہیں اورکتنے ہی جگرگوشے علاج کے ذریعہ شفایاب ہوسکتے ہیں۔