نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ازواجِ مطہرات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ قَدْ أذِنَ لَکُمْ اَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِکُنَّ (رواہ مسلم) یعنی تمہارے لیے اس کی اجازت ہے کہ تم اپنی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلو، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آیتِ حجاب نازل ہونے کے بعد اس پر شاہد ہے کہ ضرورت کے مواقع میں عورتوں کو گھروں سے پردہ کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت ہے جیساکہ حج وعمرہ کے لیے ازواجِ مطہرات کا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ مَعَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فَإذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إحْدَانا جِلْبَابَہَا مِنْ رَأسِہَا عَلٰی وَجْہِہَا فإذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہَا۔ (أبوداود ۱/۲۵۴، ابن ماجہ ۲۱۰)
ترجمہ: قافلے ہمارے پاس سے گذرتے تھے اور ہم بحالت احرام نبی اکرمؐ کے ساتھ سفر حج میں تھے تو جب قافلہ کے لوگ ہمارے سامنے آتے تو ہم اپنی چادر سرسے چہرے پر لٹکالیتے تھے اور جب قافلے آگے بڑھ جاتے تو ہم اپنے چہرے کھول لیتے تھے۔
دیکھیے! امت کی سب سے پاکیزہ ترین خواتین ازواجِ مطہرات پردہ کا کس قدر اہتمام فرما رہی ہیں۔ اسی طرح بہت سی روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ ازواجِ مطہرات اپنے والدین وغیرہ سے ملاقات کے لیے گھروں سے نکلتی تھیں اور عزیزوں کی بیمار پرسی اور تعزیت وغیرہ میں بھی شرکت کرتی تھیں؛ لیکن ان تمام صورتوں میں پردہ کا مکمل اہتمام رکھا جاتا تھا۔ اسی طرح مؤمن عورتیں جب ضرورت کے وقت گھروں سے باہر نکلا کرتی تھیں تو برقع اور موٹی لمبی چادریں لپیٹ کر نکلا کرتی تھیں، حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں:
لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہٖ الآیۃُ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ۔ خَرَجَ نِسَائٌ مِنَ الأنْصَارِ کَأنَّ عَلٰی رُؤُوْسِہِم الْغِرْبَانُ مِنْ أکْسِیَۃِ سُوْدٍ یَلْبَسْنَہَا (أبوداود۲/۵۶۷)
ترجمہ: جب یہ آیت یدنین علیہن الخ (لٹکالیں وہ اپنے اوپر اپنی چادریں) نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں اس حالت میں کالا لباس پہنے ہوئے گھر سے نکلیں گویا ان کے سروں پر کالے کوّے بیٹھے ہوں۔
ابودائود کی روایت میں ہے: ایک عورت کا لڑکا جنگ میں شہید ہوگیا، تو تحقیق کے لیے اس کی والدہ برقع کے ساتھ پورے پردے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، مجلس میں موجود صحابۂ کرام تعجب سے کہنے لگے کہ اس پریشانی میں بھی نقاب نہیں چھوڑا، صحابیہ عورت نے جواب دیا کہ میرا بیٹا گم ہوگیا میری شرم وحیا تو نہیں گم ہوئی۔ (ابودائود۱/۳۳۷)
اسلامی حجاب عورت کا وقار ہے، خواتین میں جو برقع پہننے کا رواج ہوا ہے یہ دورِنبوت کی پاکیزہ خواتینِ اسلام کے عمل سے ہی ماخوذ ہے، برقع بھی اسی چادر کے قائم مقام ہے جس کا تذکرہ قرآنِ کریم میں لفظِ جلباب سے کیاگیا ہے؛ البتہ پہلے زمانے میں برقع کالے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے ہوا کرتے تھے اور خواتین اسی قسم کے برقعوں کو پسند کرتی تھیں، جو پورے بدن کو بھی چھپالیتے تھے اور عورت کی شرافت کو بھی ظاہر کرتے تھے؛ لیکن آج کے دور کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں ایسے برقعے آگئے ہیں جن سے برقع کا مقصد ہی فوت ہورہا ہے، کپڑا اتنا باریک کہ جس سے اندر تک کا لباس نظر آتا ہے۔ سائز اتنا تنگ کہ جس سے جسم کی ساخت بھی ظاہر ہوتی ہے، رنگ برنگ دھاگوں کے پھول، ڈیزائن، رنگوں چمکیوں اور موتیوں وغیرہ سے مزین بڑے بڑے قیمتی اور جاذبِ نظر برقعے آج مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ جن کے پہننے سے کبھی برقع کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ جو بجائے حیا کے بے حیائی کو ظاہر کرتے ہیں اور ساتھ ہی بہت سی خواتین پورا چہرہ یا آدھا چہرے کھلا رکھتی ہیں اور برقع پہننے کے باوجود سرکے بال برقع کے باہر ڈالے رکھتی ہیں اور بعض خواتین نوزپیس اس طرح لگاتی ہیں کہ پیشانی، بھویں اور ناک کا حصہ کھلا رہتا ہے، جو کھلی ہوئی بے حجابی اور بے غیرتی ہے۔
کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ مَعَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فَإذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إحْدَانا جِلْبَابَہَا مِنْ رَأسِہَا عَلٰی وَجْہِہَا فإذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہَا۔ (أبوداود ۱/۲۵۴، ابن ماجہ ۲۱۰)
ترجمہ: قافلے ہمارے پاس سے گذرتے تھے اور ہم بحالت احرام نبی اکرمؐ کے ساتھ سفر حج میں تھے تو جب قافلہ کے لوگ ہمارے سامنے آتے تو ہم اپنی چادر سرسے چہرے پر لٹکالیتے تھے اور جب قافلے آگے بڑھ جاتے تو ہم اپنے چہرے کھول لیتے تھے۔
دیکھیے! امت کی سب سے پاکیزہ ترین خواتین ازواجِ مطہرات پردہ کا کس قدر اہتمام فرما رہی ہیں۔ اسی طرح بہت سی روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ ازواجِ مطہرات اپنے والدین وغیرہ سے ملاقات کے لیے گھروں سے نکلتی تھیں اور عزیزوں کی بیمار پرسی اور تعزیت وغیرہ میں بھی شرکت کرتی تھیں؛ لیکن ان تمام صورتوں میں پردہ کا مکمل اہتمام رکھا جاتا تھا۔ اسی طرح مؤمن عورتیں جب ضرورت کے وقت گھروں سے باہر نکلا کرتی تھیں تو برقع اور موٹی لمبی چادریں لپیٹ کر نکلا کرتی تھیں، حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں:
لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہٖ الآیۃُ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ۔ خَرَجَ نِسَائٌ مِنَ الأنْصَارِ کَأنَّ عَلٰی رُؤُوْسِہِم الْغِرْبَانُ مِنْ أکْسِیَۃِ سُوْدٍ یَلْبَسْنَہَا (أبوداود۲/۵۶۷)
ترجمہ: جب یہ آیت یدنین علیہن الخ (لٹکالیں وہ اپنے اوپر اپنی چادریں) نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں اس حالت میں کالا لباس پہنے ہوئے گھر سے نکلیں گویا ان کے سروں پر کالے کوّے بیٹھے ہوں۔
ابودائود کی روایت میں ہے: ایک عورت کا لڑکا جنگ میں شہید ہوگیا، تو تحقیق کے لیے اس کی والدہ برقع کے ساتھ پورے پردے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، مجلس میں موجود صحابۂ کرام تعجب سے کہنے لگے کہ اس پریشانی میں بھی نقاب نہیں چھوڑا، صحابیہ عورت نے جواب دیا کہ میرا بیٹا گم ہوگیا میری شرم وحیا تو نہیں گم ہوئی۔ (ابودائود۱/۳۳۷)
اسلامی حجاب عورت کا وقار ہے، خواتین میں جو برقع پہننے کا رواج ہوا ہے یہ دورِنبوت کی پاکیزہ خواتینِ اسلام کے عمل سے ہی ماخوذ ہے، برقع بھی اسی چادر کے قائم مقام ہے جس کا تذکرہ قرآنِ کریم میں لفظِ جلباب سے کیاگیا ہے؛ البتہ پہلے زمانے میں برقع کالے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے ہوا کرتے تھے اور خواتین اسی قسم کے برقعوں کو پسند کرتی تھیں، جو پورے بدن کو بھی چھپالیتے تھے اور عورت کی شرافت کو بھی ظاہر کرتے تھے؛ لیکن آج کے دور کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں ایسے برقعے آگئے ہیں جن سے برقع کا مقصد ہی فوت ہورہا ہے، کپڑا اتنا باریک کہ جس سے اندر تک کا لباس نظر آتا ہے۔ سائز اتنا تنگ کہ جس سے جسم کی ساخت بھی ظاہر ہوتی ہے، رنگ برنگ دھاگوں کے پھول، ڈیزائن، رنگوں چمکیوں اور موتیوں وغیرہ سے مزین بڑے بڑے قیمتی اور جاذبِ نظر برقعے آج مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ جن کے پہننے سے کبھی برقع کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ جو بجائے حیا کے بے حیائی کو ظاہر کرتے ہیں اور ساتھ ہی بہت سی خواتین پورا چہرہ یا آدھا چہرے کھلا رکھتی ہیں اور برقع پہننے کے باوجود سرکے بال برقع کے باہر ڈالے رکھتی ہیں اور بعض خواتین نوزپیس اس طرح لگاتی ہیں کہ پیشانی، بھویں اور ناک کا حصہ کھلا رہتا ہے، جو کھلی ہوئی بے حجابی اور بے غیرتی ہے۔