یہ تو نظام قدرت ہے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنو!سنو!!

*یہ تو نظام قدرت ہے*

ناصرالدین مظاہری

اللہ تعالیٰ کی عنایات بے نہایات کاہم شمارکرنے پرآئیں تو نہیں کرسکتے،اس کی حکمتوں، مصلحتوں اورفیصلوں کوجاننے کی کوششیں بھی بے سود ہیں، حکمت اسی کو زیب دیتی ہے،ہم سب اس کی مرضی پر چلیں اسی میں ہماری بھلائی ہے، اس سے شکوہ سنجی،اس کی حکمت اور مصلحت میں کمی اوراس کے مظاہر قدرت پر انگشت نمائی یاحرف زنی ہمیں ایمان سے بھی خارج کردیتی ہے۔کب کہاں کیاکرناہے یہ اسی کومعلوم ہے۔

قربانی سے پہلے سہارنپورمیں خوب بارش ہورہی تھی اسی دوران اپنے وطن لکھیم پور جانا ہوا وہاں ہلکی پھلکی ایک آدھ مرتبہ بارش ہوئی ،لوگ بارش نہ ہونے کی وجہ سے نہایت پریشان تھے،کسان اورمزارع کی پریشانیاں دیکھی نہیں جاتی تھیں،پھراللہ تعالیٰ نے باران رحمت کانزول فرمایا اورجھماجھم بارشیں شروع ہوگئیں،دریائے گھاگھرا جوکبھی ہمارے گاؤں سے کئی کلومیٹر دور تھالیکن رفتہ رفتہ کھیت و کھلیان کٹتے رہے ،لوگ اپنے کھیتوں سے محروم ہوتے رہے پھرقبرستان بھی دریامیں چلاگیا، کئی گاؤں ختم ہوگئے، دو مساجد،مدرسہ ،کئی اسکول سے دریا برد ہوگئے ۔مکان بنانے میں لوگوں کی زندگیاں صرف ہوجاتی ہیں لیکن ندی یہ سب کہاں دیکھتی ہے ۔

دریاکواپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پارہو یا درمیاں رہے

لوگ کھیت وکھلیان ،باغ و قبرستان سے پہلے ہی محروم ہوچکے تھے یہاں تک کہ اب مرزاپور ہی کا کٹان شروع ہوگیا، چندمنٹ پہلے جہاں گھرتھا اس جگہ نہایت گہرا دریاہے،کچھ دیرپہلے جہاں آبادی تھی تھوڑی ہی دیربعد وہاں پانی کاشورہے، ہواؤں کازورہے، موجیں ہیں، طغیانیاں اور لہریں ہیں،کیسے مکان،کیسے مکین،بچے، بوڑھے، مرد عورتیں سب کواپنی چھت اوراپنا گھر میسرتھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان اُن کی چھت اور زمین اُن کافرش بن گیا۔

حکومت ہمیشہ بے وقت جاگتی ہے، جب جاگنے کاوقت ہوتا ہے سوتی رہتی ہے جب بیدار ہوتی ہے تب وقت اس کے ہاتھوں سے نکل چکاہوتاہے۔

آفتیں آسمانی ہوں یازمینی ہوں، مذہب نہیں دیکھتی ہیں ،اس کی راہ میں یامندر، حویلیاں آئیں یاچھپراس کے نزدیک سب چیزیں تارعنکبوت ہیں ،کتنی مشکل سے مکانات بنتے ہیں، اینٹ پراینٹ رکھی جاتی ہے، ردے پرردے چڑھائے اور جمائے جاتے ہیں،کتنا مشکل ہوتاہے چھت کاڈھالنا،لیکن دریا ایک منٹ کے دسویں حصہ میں پورے مکان کوہضم کرجاتا ہے اورپھر لگتاہے کہ یہاں کچھ تھاہی نہیں،بالکل اسی طرح جس طرح اڑیل ،کڑیل اور طاقت سے چورانسان وقت اجل آتے ہی چل دیتا ہے، لوگ سنتے ہیں تو انگلیاں اپنے دانتوں تلے دبالیتے ہیں کہ کتنا طاقت ور مرد آہن تھا،کتنی بافیض ہستی تھی،کتنی خدارسیدہ شخصیت تھی، کتنی علمی اورعملی صلاحتیوں کامالک تھا،دنیااس کے جانے پر روہی ہوتی ہے اورخود مرنے والا آنکھیں کھولے تماش بین بناہوا بسترمرگ پرلیٹا سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے بس بول نہیں سکتا، ہل نہیں سکتا،حرکت نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی روح اس کے بدن کووداع کرچکی ہے۔

کوس رحلت بکوفت دست اجل
اے دو چشمم وداع سر بکنید
اے کف دست و ساعد و بازو
همه تودیع یکدگر بکنید

دست اجل نے روانگی کا نقارہ بجادیا۔اے دونوں آنکھو!اپنے سرکو وداع کرو۔اے ہتھیلیو،بازؤو اور پہنچو! تم سب ایک دوسرے کورخصت کرو۔

موت ہرچیزپرطاری ہوتی ہے بس نام الگ الگ ہیں ،ذی نفس اور ذی روح ہے تواس کے فناہونے کو’’موت‘‘ کہہ دیا گیا اوربے جان وبے روح چیز ہے تواس کو ’’فنا‘‘اور خاتمہ کا نام دے دیاگیا،مجموعی طورپر فناہی مقدرہے ،کوئی بھی ہو، نبی،ولی،صحابہ،تابعین،صالحین امراء ،وزراء،فقراء،علماء،صلحاء،شاہان وسربراہان کون بچاہے ؟کوئی بھی تونہیں، بچنے والی ذات صرف اسی کی ہے اورباقی رہنا اسی کوزیب بھی دیتاہے۔ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔

خیرمیں اسی بارش کے موسم میں لکھیم پورکے مشرق سے چل کر لکھیم پورکے مغرب میں واقع قصبہ محمدی پہنچا تو وہاں بارش کانام ونشان نہیں تھا، لوگ حیران وپریشان بارش کے لئے اللہ کے حضوردست بہ دعاتھے ،سبحان تیری قدرت!ایک ہی ضلع میں ایک طرف کے لوگ بارش ،پانی، دریا کی طغیانی اوراس کے کٹاؤ و کٹان سے رو رہے ہیں اوراسی ضلع میں دوسری سمت کے لوگ بارش نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔

کچھ ہی عرصہ پہلے ایک ہی وقت میں اڑیسہ اورآسام میں پانی اورسیلاب کی تباہی مچی ہوئی تھی اور اسی وقت لوگوں نے اپنے سرکی آنکھوں سے راجستھان کے لوگوں کو پانی کی بوندبوندکوترستے دیکھا تھا۔پانی نہ ملنے کی وجہ سے پرندوں کو درختوں سے گرتے اور مرتے، لوگوں کونقل مکانی اختیارکرتے دنیانے دیکھاتھا۔ایک ہی ملک ہے لیکن ایک جگہ پانی کے ہینڈ پمپ کثیرصرفہ سے لگائے جاتے ہیں اوربہت مشکل سے پانی نکلتاہے اوراسی ملک میں کسی دوسرے علاقے میں خودبخود پانی کے چشمے جاری ہوجاتے ہیں۔ایک ہی وقت میں ایک علاقہ خوش حال ہے تو دوسرا بدحال ہے۔ایک برسر روزگار ہے دوسرابے روزگار ہے،ایک کھانے کے لئے بھاگ رہاہے دوسراکھانے کوہضم کرنے کے لئے بھاگ رہاہے،ایک روٹی پانے کے لئے پریشان ہے ،دوسراروٹی کھانےکے لئے وقت نہ ملنے سے حیران ہے،ایک گاڑی کی چاہت میں مرگیا، دوسراصحت کے چکرمیں گاڑی سے سائیکل پرآگیا۔ایک صحیح معنی میں پیدل ہے دوسرامجبوری میں پیدل ہے۔ ایک جم میں جاکرصحت بنارہاہے دوسراسردی گرمی برسات اور اولے باری میں بھی کھیت میں ہل چلاکر، امیر کے یہاں پھاؤلے چلاکر،فیکٹری میں دست کا ری کرکے اپنی صحت گنوارہاہے۔

قسمت کیاہر ایک کوقسام ازل نے
جوشخص کہ جس چیزکے قابل نظرآیا

رکشہ چلانے والا مزدورسڑک کے کنارے خراٹے لے رہا ہے اوراسی کے بغل سے گزرنے والا امیراس کے خراٹوں کودیکھ کرآہ سرد بھررہا ہے کہ کاش ایسی نینداسے بھی میسرہوجائے کیونکہ اسے توروزہی نیندکی گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ایک چمچماتی کاروں کودیکھ کر محوحیرت ہے دوسراکاروں کے ذریعہ ایکسیڈنٹ کے آپریشن کرتے کرتے پریشان ہے۔ایک روٹی پانے کے لئے اپنی جان دے دیتاہے اور دوسرا روٹی کھاکر شوگر بڑھنے کاشکوہ کررہا ہے۔ڈرائیور کار میں بیٹھارینگ رہاہے اور مالک اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہاہے ،ڈرائیورسے مالک نے دھیرے دھیرے چلنے کوکہاہے اورمالک سے اس کے فیملی ڈاکٹرنے صبح صبح بھاگنے اوردوڑنے کو بولا ہے۔الٰہی تیری تقسیم کس کی سمجھ میں آئی ہے ؟تیری ذات ہماری سمجھ سے ،ہمارے فہم سے ،ہماری نظرسے ماوراء ہے۔تونہایت عظیم اوراعلیٰ ہے تیری ذات ہرچیز پرقادر ہے۔بھٹکل پانی سے جل تھل ہورہاہے اوریہاں پانی نہ ملنے سے ہرایک بے کل ہورہاہے۔

پہاڑی لوگ بادلوں کے گرنے سے،میدانی لوگ سیلابوں سے، دریاؤں کے پاس رہنے والے دریاؤں کے نقصانات سے، کسان اپنی کاشت اورزراعت کولے کر، تیارفصل زالہ باری سے،ابتدائی پودبارشوں سے، کھڑی فصلیں آندھی وطوفان سے ،تاجرملکی حالات سے اورسیاست دان ملک کے سکون سے پریشان ہیں،سیاست کی بساط پراگر ہلچل نہ ہوتو سیاست کیسے ہوگی،صحت مند اگر بیمارنہ ہوتو صحت کی قدر کیسے ہوگی،کاروبار اگربرباد نہ ہوتو رحمت الٰہی اورفضل الٰہی سے ہماری امیدیں اورلو لگانے کی ہمیں توفیق کب ملے گی۔فرصت والے مصروفیت کے خواہاں ہیں ،مصروف لوگ فرصت کے طالب ہیں۔غریب مرغن غذاؤں کوترستے ہیں، امیر سادی غذاؤں کے طالب ہیں۔عجیب بات ہے سانپ چیونٹیاں کھاجاتاہے اوروہی سانپ جب مرجاتاہے تواس کوچیونٹیاں کھاجاتی ہیں۔ایک ہی گھرہے ایک ہی چھت ہے ۔باپ کی ٹینشن الگ ہوتی ہے،ماں کے تفکرات الگ ہوتے ہیں،بچے کی سوچ الگ ہوتی ہے۔بیوی کاانداز الگ ہے ،ان ہی افکار،سوچ اورانداز سے خاندان اورخانوادے آگے بڑھتے ہیں،گھرکے ہرفردکی پسند کھانے میں،پینے میں،پہننے میں اورمعیارزندگی میں الگ الگ ہوتی ہے ،گل ہائے رنگارنگ سے چمن کوزینت ہوتی ہے، اِس جہاں رنگ وبوکی زیب وزینت اُس کے مختلف الالوان موسموں سے ہے، کہیں بارش ہے توکہیں خشکی ہے،کہیں برف ہے توکہیں جوالہ مکھی ہے،کہیں تیزہوائیں ہیں توکہیں لوکے تھیڑے ہیں،کہیں آندھی وطوفان ہےتو کہیں گرمیوں کی حکمرانی ہے۔ کہیں سردیوں سے دانت بج رہے ہیں توکہیں برسات سے ندیاں اورنالے بہہ رہے ہیں۔کیاآپ نے کبھی غورکیا موسم کی رنگینیوں پر، حالات کی تبدیلیوں پر،حسن کے تغیر پر،الوان کے تبدل پر،بنتی بدلتی اوربگڑتی شکلوں پر۔ہائے ہائے علامہ اقبال:

چمکنے والے مسافر! عجب يہ بستي ہے

جو اوج ايک کا ہے، دوسرے کي پستي ہے

اجل ہے لاکھوں ستاروں کي اک ولادت مہر

فنا کي نيند مے زندگي کي مستي ہے

وداع غنچہ ميں ہے راز آفرينش گل

عدم ، عدم ہے کہ آئينہ دار ہستي ہے!

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے ميں

ثبات ايک تغير کو ہے زمانے ميں
 
Top