بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلاَ اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ
رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىۙ وَيَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىۙ وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِىۙ يَفۡقَهُوۡا قَوۡلِى
رَبِّ يَسِّرْ وَ لَا تُعَسِّرْ وَ تَمِّمْ بِالْخَيْرِ
مضارع اخف:اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلاَ اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ
رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىۙ وَيَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىۙ وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِىۙ يَفۡقَهُوۡا قَوۡلِى
رَبِّ يَسِّرْ وَ لَا تُعَسِّرْ وَ تَمِّمْ بِالْخَيْرِ
فعل مضارع جب اخف ہوتا ہے تو مضارع کے تین قسم کے صیغوں میں جو تبدیلی واقع ہوتی ہے وہ درج ذیل ہے۔
1: پہلی قسم کے صیغوں میں لام کلمہ پر آنے والی "پیش" سکون میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یعنی
یَفْعَلْ – تَفْعَلْ – تَفْعَلْ – اَفْعَلْ – نَفْعَلْ
2: دوسری قسم کی صیغوں کے آخر میں آنے والا نون گر جاتا ہے۔ یعنی
یَفْعَلَا – تَفْعَلَا – تَفْعَلَا – تَفْعَلَا – یَفْعَلُوْا – تَفْعَلُوا – تَفْعَلِیْ
3: تیسری قسم کے صیغوں میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوتی۔ یعنی
یَفْعَلْنَ – تَفْعَلْنَ
درج ذیل حروف مضارع پر داخل ہو کر اسے اخف کر دیتے ہیں۔
1: لَمْ:
حرف لَمْ کے بھی اپنے کوئی الگ معنی نہیں ہیں لیکن فعل مضارع پر داخل ہونے کے بعد یہ بھی اس میں دو طرح کی معنوی تبدیلی لاتا ہے۔
1: اس میں زور دار نفی کا مفہول پیدا ہو جاتا ہے۔
2: اس کے معنی ماضی کے ساتھ مخصوص ہو جاتے ہیں۔
وہ کرتا ہے یا کرے گا۔ یَفْعَلُ
اس نے کیا ہی نہیں۔ لَمْ یَفْعَلْ
لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ
2: لَمَّا: ابھی تک نہیں
زید نے ابھی تک نہیں لکھا
لَمَّا یَکْتُبْ زَیْدٌ
وَ لَمَّا یَدْخَلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ
3: اِنْ (اگر):
اِنْ حرف شرط ہے۔ شرط والا جملہ، جملہ شرطیہ کہلاتا ہے۔ مثلا اگر تو بیٹھے گا تو میں بیٹھوں گا۔ جملہ شرطیہ کے دو حصے ہوتے ہیں۔
1: شرط (اگر تو بیٹھے گا)
2: جواب شرط یا جزاء (تو میں بیٹھوں گا)
اگر شرط اور جواب شرط دونوں فعل مضارع آئے (جیسا کہ عموما ہوتا ہے) اور شرط بھی حرف "اِنْ" سے بیان کرنی ہو تو شرط والے فعل مضارع سے پہلے حرف اِنْ لگتا ہے جس سے مضارع اخف ہو جاتا ہے اور جواب شرط/جزاء والا مضارع خود بخود اخف ہو جاتا ہے۔
اگر تو بیٹھے گا تو میں بیٹھوں گا۔
اِنْ تَجْلِسْ اَجْلِسْ
اگر تو مجھے مارے گا تو میں تجھے ماروں گا
اِنْ تَضْرِبْنِیْ اَضْرِبْکَ
مندرجہ ذیل اسماء بھی شرط اور جزاء پر داخل ہوتے ہیں۔
مَنْ، مَا، اَیْنَ، اَنّٰی، مَتٰی، اَیٌّ، مَھْمَا
مَن یَّرْحَمْ یُرْحَمْ جو رحم کرے گا اس پر رحم کیا جائے گا۔
مَا تَشْرَبْ اَشْرَبْ (جو تو پئیے گا میں پیئوں گا)
اَیْنَ تَذْھَبُوْا نَذْھَبُ (جہاں تم جاؤ گے ہم بھی وہاں جائیں گے)
مَتٰی تَصُمْ اَصُمْ (جب تو روزے رکھے گا میں بھی روزہ رکھوں گا)
اَیُّھُمْ یَضْرِبْنِیْ اَضْرِبْہُ (ان میں سے جو مجھے مارے گا میں بھی اسے ماروں گا)
مَھْمَا تَفْعَلْ اَفْعَلْ (جو کچھ تو کرے گا میں وہی کروں گا)
اِذَا ایک اسم ظرف ہے لیکن اس میں شرط کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔ اِذَا کے ساتھ اکثر فعل ماضی استعمال ہوتا ہے لیکن معنی مضارع کے دیتا ہے۔ جیسے۔
اِذَا جَاءَ رَمْضَانُ فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ (جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں)
حرف لَوْ بھی شرط کے لیے آتا ہے لیکن یہ صرف ماضی میں ایک غیر تکمیل شدہ شرط کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے
لَوْ زَرَعْتَ لَحَصَدتَّ اگر تو بوتا کو کاٹتا۔
لَوْ کے جواب پر اکثر لام استعمال ہوتا ہے لیکن منفی جملے کے ساتھ لام کا استعمال نہیں کیا جاتا جیسے
لَوْ صَدَقْتَ مَا ضُرِبْتَ اگر تو سچ بولتا تو نہ پٹتا
ہم جانتے ہیں کہ جملہ شرطیہ دو جملوں سے مرکب ہوتا ہے، پہلے جملے کو شرط کہتے ہیں اور دوسرا جواب شرط یا جزاء کہلاتا ہے۔ شرط والا جملہ ہمیشہ جملہ فعلیہ ہوتا ہے جبکہ جواب شرط یا جزاء والا جملہ، جملہ فعلیہ بھی ہو سکتا ہے اور جملہ اسمیہ بھی۔ جیسے
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
شرط اور جواب شرط جب دونوں جملہ فعلیہ ہوں تو دونوں کا فعل، فعل مضارع بھی ہو سکتا ہے اور فعل ماضی بھی۔ اس طرح دونوں میں سے کسی ایک کا فعل، فعل مضارع ہوسکتا ہے اور دوسرے کا فعل ماضی۔ فعل مضارع تو قاعدے کے مطابق اخف ہو جاتا ہے لیکن فعل ماضی میں مبنی کی طرح کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جیسے
مَن لَّا یَرْحَمْ لَا یُرْحَمْ (دونوں فعل مضارع)
مَنْ بَنٰی للہِ مَسْجِدًا بَنَی اللہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ (دونوں فعل ماضی)
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہُ فِیْ حَرْثِہِ (پہلا فعل ماضی اور دوسرا فعل مضارع)
مَنْ یَقُمْ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ (پہلا فعل مضارع اور دوسرا فعل ماضی)
جواب شرط یا جزاء اگر جملہ اسمیہ ہو یا جملہ انشائیہ یعنی فعل امر اور نہی (آگے پڑھیں گے) ہوں، ماضی قَدْ کے ساتھ ہو یا مضارع بغیر لا کے منفی ہو تو جواب شرط یا جزاء پر ف داخل کرنا واجب ہے، جیسے
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ خَیْرٌ مِّنْھَا
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَن یُّقْبَلَ مِنْہُ
4: لام امر (لِ) خواہش:
فعل مجھول میں مطلقا یعنی تینوں قسم (غائب، حاضر اور متکلم) کے صیغوں میں اور فعل معروف میں غائب اور متکلم سے کسی خواہش کے اظہار کے لیے مضارع سے پہلے "لِ" لگایا جاتا ہے جسے "لام امر'' کہتے ہیں۔
وہ کرتا ہے/ کرے گا یَفْعَلُ
اسے چاہیے کہ وہ کرے لِیَفْعَلْ
مجھے کرنا چاہیے لِاَفْعَلْ
لام کَیْ مضارع کو خفیف کرتا ہے جبکہ لام امر اخف۔ پہلی قسم کے صیغوں میں لام کی اور لام امر کی پہچان آسانی سے ہو جاتا ہے۔
لَیْفَعَلَ (لام کَیْ)
لِیَفْعَلْ (لام امر)
دوسری اور تیسری قسم کے صیغوں میں لام کَیْ اور لام امر کی پہچان عام طور پر سیاق و سباق اور جملہ کے مفہوم سے ہوتی ہے کیونکہ دوسری اور تیسری قسم کے صیغوں کی شکل خفیف اور اخف دونوں میں ایک ہی ہوتی ہے۔
لِیَسْمَعُوْا (تاکہ وہ سنیں)
لِیَسْمَعُوْا (انھیں سننا چاہیے)
لام کی اور لام امر میں پہچان کرنے کا ایک طریقہ اور بھی ہے کہ جب لام امر سے پہلے "و" یا "ف" آ جائے تو لام امر ساکن ہو جاتا ہے جبکہ لام کی ساکن نہیں ہوتا
وَ لِیَسْمَعُوْا (اور تاکہ وہ سنیں)
وَ لْیَسْمَعُوْا (اور انھیں چاہیے کہ وہ سنیں)
و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الانبیاء و المرسلين سيدنا محمد و على آله وصحبه أجمعين
والسلام
طاہرہ فاطمہ
2022-09-18