حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید عبد اللہ شاہ المعروف حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ صوفی بزرگوں میں ایک بلند مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ فقیر کامل اور عاشق حقیقی تھے۔ صوفیانہ کلام میں درجہ کمال حاصل کیا۔ صاحب کرامت بزرگ تھے۔
ولادت باسعادت:
حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت با سعادت بہاولپور کے ایک مشہور گاؤں اچ گیلانیاں میں 1091 ہجری بمطابق 1660ء کو ہوئی۔
شجرہ نسب:
آپ کا سلسلہ نسب چودہ واسطوں سے حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی سے اس طرح جا ملتا ہے۔ حضرت سید عبد اللہ شاہ بن سید سخی شاہ محمد درویش بن نور محمد بن ابو بکر بن وجیہہ الدین بن عبد الحکیم شاہ بن شاہ نعمت اللہ بن ابو صدر الدین بن نصیر الدین بن محمد رحمت اللہ بن سید یحیی بن سید احمد بن سید صالح نصر بن سید عبد الرزاق بن حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ۔
والد ماجد:
آپ کے والد ماجد حضرت سید سخی شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ اچ گیلانیاں میں رہتے تھے۔ بعض معاشی و دیگر مجبوریوں کے باعث اچ شریف سے ترک سکونت کر کے اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر ساہیوال کے قریب ملکوال میں تشریف لائے اور وہاں پر رہائش اختیار کی۔ رفتہ رفتہ ان کے علم و فضل کا چرچا عام ہو گیا چونکہ حضرت سید سخی شاہ محمد عربی و فارسی کے زبردست عالم تھے دینی علوم میں کافی دسترس حاصل تھی۔ ملکوال میں آپ نے مسجد میں امامت کی ذمہ داری سنبھالی اور اس کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا مسجد میں طالب علموں کی ایک کثیر تعداد آپ کے پاس دینی علوم حاصل کرنے کے لیے آنے لگی۔ طالب علموں کا شوق اور ان کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر آپ نے مسجد کے ساتھ ہی ایک مدرسہ بھی قائم کر لیا جہاں طالب علم دور دراز سے بھی آ کر دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے لگے۔
ملکوال میں ایک عرصہ تک قیام کے بعد آپ نے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ ایک قریبی گاؤں "پانڈوکے" نیا نیا آباد ہوا تھا جسے تلونڈی کے ایک صاحب ثروت شخص چوہدری پانڈو نے بسایا تھا اور وہ اکثر تلونڈی سے ملکوال اپنے عزیزوں کے ہاں آیا کرتا تھا۔ وہ اس جستجو میں تھا کہ اس کے ذاتی گاؤں پانڈوکے میں اس کی تعمیر کردہ مسجد کے لیے کوئی بلند پایہ عالم دین مل جائے جسے وہ اپنی مسجد میں لے آئيں۔ اس کو جب حضرت سید سخی شاہ محمد کی علمی قابلیت کے بارے میں پتا چلا تو وہ ملکوال آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ نے اپنی مصروفیات اور مجبوریاں بیان کیں اور فرمایا کہ میں یہاں ملکوال میں ایک مدرسہ چلا رہا ہوں جہاں لا تعداد طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میرے چلے جانے کے بعد مدرسے سے علم حاصل کرنے والوں کا حرج ہو گا۔
چوہدری پانڈو اپنی بات پر مصر رہا اور بالآخر اس نے آپ کو اس بات پر راضی کر لیا اور آپ ملکوال سے پانڈوکے میں منتقل ہو گئے۔ ملکوال میں موجود مدرسہ میں اپنے ایک شاگرد کو مقرر کر گئے جنہوں نے مدرسہ میں درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھا۔ حضرت سید سخی شاہ محمد پانڈوکے میں نئی تعمیر شدہ مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دینے لگے اس مسجد کے ساتھ چوہدری پانڈو نے ایک عالی شان مدرسہ بھی قائم کر دیا یہ مدرسہ آپ کی شبانہ روز محنت سے تھوڑے ہی عرصہ میں ایک عظیم درس گاہ کے طور پر شہرت پا گيا۔
تعلیم و تربیت:
حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کی نگرانی میں حاصل کی اس کے بعد آپ کے والد نے آپ کو قصور کے مشہور عالم دین حضرت حافظ غلام مرتضی کی درس گاہ میں مزید اعلی تعلیم کے حصول کی غرض سے داخل کرا دیا۔ قصور کے اس مدرسہ میں آپ نے عربی اور فارسی زبان میں عبور حاصل کیا ۔ علاوہ ازیں سنسکرت زبان کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اپنے اساتذہ میں حضرت حافظ غلام مرتضی اور حضرت حافظ محی الدین سے تمام مروجہ دینی علوم کی تکمیل کی اور دستار فضیلت اور سند پائی۔ آپ نے قرآن حکیم کی تفسیر، فارسی میں گلستان و بوستان سعدی، منطق، نحو و معانی، کنز قدوری، شرح وقایہ کو نہ صرف سبقا سبقا پڑھا بلکہ ان پر اس قدر عبور حاصل کیا کہ دیگر ساتھی طالب علموں میں نمایاں اور ممتاز پوزیشن حاصل کی۔ اس کے علاوہ ابن العربی کی کتب فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کا بھی بغور مطالعہ کیا۔
جب آپ فارغ التحصیل ہو گئے تو اساتذہ کی اجازت سے واپس اپنے گاؤں پانڈوکے آگئے۔
جاری ہے۔۔۔
حضرت سید عبد اللہ شاہ المعروف حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ صوفی بزرگوں میں ایک بلند مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ فقیر کامل اور عاشق حقیقی تھے۔ صوفیانہ کلام میں درجہ کمال حاصل کیا۔ صاحب کرامت بزرگ تھے۔
ولادت باسعادت:
حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت با سعادت بہاولپور کے ایک مشہور گاؤں اچ گیلانیاں میں 1091 ہجری بمطابق 1660ء کو ہوئی۔
شجرہ نسب:
آپ کا سلسلہ نسب چودہ واسطوں سے حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی سے اس طرح جا ملتا ہے۔ حضرت سید عبد اللہ شاہ بن سید سخی شاہ محمد درویش بن نور محمد بن ابو بکر بن وجیہہ الدین بن عبد الحکیم شاہ بن شاہ نعمت اللہ بن ابو صدر الدین بن نصیر الدین بن محمد رحمت اللہ بن سید یحیی بن سید احمد بن سید صالح نصر بن سید عبد الرزاق بن حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ۔
والد ماجد:
آپ کے والد ماجد حضرت سید سخی شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ اچ گیلانیاں میں رہتے تھے۔ بعض معاشی و دیگر مجبوریوں کے باعث اچ شریف سے ترک سکونت کر کے اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر ساہیوال کے قریب ملکوال میں تشریف لائے اور وہاں پر رہائش اختیار کی۔ رفتہ رفتہ ان کے علم و فضل کا چرچا عام ہو گیا چونکہ حضرت سید سخی شاہ محمد عربی و فارسی کے زبردست عالم تھے دینی علوم میں کافی دسترس حاصل تھی۔ ملکوال میں آپ نے مسجد میں امامت کی ذمہ داری سنبھالی اور اس کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا مسجد میں طالب علموں کی ایک کثیر تعداد آپ کے پاس دینی علوم حاصل کرنے کے لیے آنے لگی۔ طالب علموں کا شوق اور ان کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر آپ نے مسجد کے ساتھ ہی ایک مدرسہ بھی قائم کر لیا جہاں طالب علم دور دراز سے بھی آ کر دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے لگے۔
ملکوال میں ایک عرصہ تک قیام کے بعد آپ نے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ ایک قریبی گاؤں "پانڈوکے" نیا نیا آباد ہوا تھا جسے تلونڈی کے ایک صاحب ثروت شخص چوہدری پانڈو نے بسایا تھا اور وہ اکثر تلونڈی سے ملکوال اپنے عزیزوں کے ہاں آیا کرتا تھا۔ وہ اس جستجو میں تھا کہ اس کے ذاتی گاؤں پانڈوکے میں اس کی تعمیر کردہ مسجد کے لیے کوئی بلند پایہ عالم دین مل جائے جسے وہ اپنی مسجد میں لے آئيں۔ اس کو جب حضرت سید سخی شاہ محمد کی علمی قابلیت کے بارے میں پتا چلا تو وہ ملکوال آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ نے اپنی مصروفیات اور مجبوریاں بیان کیں اور فرمایا کہ میں یہاں ملکوال میں ایک مدرسہ چلا رہا ہوں جہاں لا تعداد طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میرے چلے جانے کے بعد مدرسے سے علم حاصل کرنے والوں کا حرج ہو گا۔
چوہدری پانڈو اپنی بات پر مصر رہا اور بالآخر اس نے آپ کو اس بات پر راضی کر لیا اور آپ ملکوال سے پانڈوکے میں منتقل ہو گئے۔ ملکوال میں موجود مدرسہ میں اپنے ایک شاگرد کو مقرر کر گئے جنہوں نے مدرسہ میں درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھا۔ حضرت سید سخی شاہ محمد پانڈوکے میں نئی تعمیر شدہ مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دینے لگے اس مسجد کے ساتھ چوہدری پانڈو نے ایک عالی شان مدرسہ بھی قائم کر دیا یہ مدرسہ آپ کی شبانہ روز محنت سے تھوڑے ہی عرصہ میں ایک عظیم درس گاہ کے طور پر شہرت پا گيا۔
تعلیم و تربیت:
حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کی نگرانی میں حاصل کی اس کے بعد آپ کے والد نے آپ کو قصور کے مشہور عالم دین حضرت حافظ غلام مرتضی کی درس گاہ میں مزید اعلی تعلیم کے حصول کی غرض سے داخل کرا دیا۔ قصور کے اس مدرسہ میں آپ نے عربی اور فارسی زبان میں عبور حاصل کیا ۔ علاوہ ازیں سنسکرت زبان کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اپنے اساتذہ میں حضرت حافظ غلام مرتضی اور حضرت حافظ محی الدین سے تمام مروجہ دینی علوم کی تکمیل کی اور دستار فضیلت اور سند پائی۔ آپ نے قرآن حکیم کی تفسیر، فارسی میں گلستان و بوستان سعدی، منطق، نحو و معانی، کنز قدوری، شرح وقایہ کو نہ صرف سبقا سبقا پڑھا بلکہ ان پر اس قدر عبور حاصل کیا کہ دیگر ساتھی طالب علموں میں نمایاں اور ممتاز پوزیشن حاصل کی۔ اس کے علاوہ ابن العربی کی کتب فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کا بھی بغور مطالعہ کیا۔
جب آپ فارغ التحصیل ہو گئے تو اساتذہ کی اجازت سے واپس اپنے گاؤں پانڈوکے آگئے۔
جاری ہے۔۔۔
Last edited: