حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ

حضرت سید عبد اللہ شاہ المعروف حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ صوفی بزرگوں میں ایک بلند مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ فقیر کامل اور عاشق حقیقی تھے۔ صوفیانہ کلام میں درجہ کمال حاصل کیا۔ صاحب کرامت بزرگ تھے۔

ولادت باسعادت:

حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت با سعادت بہاولپور کے ایک مشہور گاؤں اچ گیلانیاں میں 1091 ہجری بمطابق 1660ء کو ہوئی۔

شجرہ نسب:

آپ کا سلسلہ نسب چودہ واسطوں سے حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی سے اس طرح جا ملتا ہے۔ حضرت سید عبد اللہ شاہ بن سید سخی شاہ محمد درویش بن نور محمد بن ابو بکر بن وجیہہ الدین بن عبد الحکیم شاہ بن شاہ نعمت اللہ بن ابو صدر الدین بن نصیر الدین بن محمد رحمت اللہ بن سید یحیی بن سید احمد بن سید صالح نصر بن سید عبد الرزاق بن حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ۔

والد ماجد:

آپ کے والد ماجد حضرت سید سخی شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ اچ گیلانیاں میں رہتے تھے۔ بعض معاشی و دیگر مجبوریوں کے باعث اچ شریف سے ترک سکونت کر کے اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر ساہیوال کے قریب ملکوال میں تشریف لائے اور وہاں پر رہائش اختیار کی۔ رفتہ رفتہ ان کے علم و فضل کا چرچا عام ہو گیا چونکہ حضرت سید سخی شاہ محمد عربی و فارسی کے زبردست عالم تھے دینی علوم میں کافی دسترس حاصل تھی۔ ملکوال میں آپ نے مسجد میں امامت کی ذمہ داری سنبھالی اور اس کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا مسجد میں طالب علموں کی ایک کثیر تعداد آپ کے پاس دینی علوم حاصل کرنے کے لیے آنے لگی۔ طالب علموں کا شوق اور ان کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر آپ نے مسجد کے ساتھ ہی ایک مدرسہ بھی قائم کر لیا جہاں طالب علم دور دراز سے بھی آ کر دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے لگے۔

ملکوال میں ایک عرصہ تک قیام کے بعد آپ نے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ ایک قریبی گاؤں "پانڈوکے" نیا نیا آباد ہوا تھا جسے تلونڈی کے ایک صاحب ثروت شخص چوہدری پانڈو نے بسایا تھا اور وہ اکثر تلونڈی سے ملکوال اپنے عزیزوں کے ہاں آیا کرتا تھا۔ وہ اس جستجو میں تھا کہ اس کے ذاتی گاؤں پانڈوکے میں اس کی تعمیر کردہ مسجد کے لیے کوئی بلند پایہ عالم دین مل جائے جسے وہ اپنی مسجد میں لے آئيں۔ اس کو جب حضرت سید سخی شاہ محمد کی علمی قابلیت کے بارے میں پتا چلا تو وہ ملکوال آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ نے اپنی مصروفیات اور مجبوریاں بیان کیں اور فرمایا کہ میں یہاں ملکوال میں ایک مدرسہ چلا رہا ہوں جہاں لا تعداد طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میرے چلے جانے کے بعد مدرسے سے علم حاصل کرنے والوں کا حرج ہو گا۔

چوہدری پانڈو اپنی بات پر مصر رہا اور بالآخر اس نے آپ کو اس بات پر راضی کر لیا اور آپ ملکوال سے پانڈوکے میں منتقل ہو گئے۔ ملکوال میں موجود مدرسہ میں اپنے ایک شاگرد کو مقرر کر گئے جنہوں نے مدرسہ میں درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھا۔ حضرت سید سخی شاہ محمد پانڈوکے میں نئی تعمیر شدہ مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دینے لگے اس مسجد کے ساتھ چوہدری پانڈو نے ایک عالی شان مدرسہ بھی قائم کر دیا یہ مدرسہ آپ کی شبانہ روز محنت سے تھوڑے ہی عرصہ میں ایک عظیم درس گاہ کے طور پر شہرت پا گيا۔

تعلیم و تربیت:

حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کی نگرانی میں حاصل کی اس کے بعد آپ کے والد نے آپ کو قصور کے مشہور عالم دین حضرت حافظ غلام مرتضی کی درس گاہ میں مزید اعلی تعلیم کے حصول کی غرض سے داخل کرا دیا۔ قصور کے اس مدرسہ میں آپ نے عربی اور فارسی زبان میں عبور حاصل کیا ۔ علاوہ ازیں سنسکرت زبان کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اپنے اساتذہ میں حضرت حافظ غلام مرتضی اور حضرت حافظ محی الدین سے تمام مروجہ دینی علوم کی تکمیل کی اور دستار فضیلت اور سند پائی۔ آپ نے قرآن حکیم کی تفسیر، فارسی میں گلستان و بوستان سعدی، منطق، نحو و معانی، کنز قدوری، شرح وقایہ کو نہ صرف سبقا سبقا پڑھا بلکہ ان پر اس قدر عبور حاصل کیا کہ دیگر ساتھی طالب علموں میں نمایاں اور ممتاز پوزیشن حاصل کی۔ اس کے علاوہ ابن العربی کی کتب فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کا بھی بغور مطالعہ کیا۔

جب آپ فارغ التحصیل ہو گئے تو اساتذہ کی اجازت سے واپس اپنے گاؤں پانڈوکے آگئے۔

جاری ہے۔۔۔
 
Last edited:

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
باطنی علوم کا حصول:
علوم ظاہری کے حصول سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو باطنی علوم حاصل کرے کا شوق ہوا۔ آپ جانتے تھے کہ باطنی علوم کا حصول مرشد کامل کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک روز اسی جستجو میں ایک درخۃ کے نیچے بیٹے تھے کہ آپ کو اونگھ آگئی خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت سید عبد الحکیم شاہ رحمۃ اللہ علیہ جو پانچویں پشت میں آپ کے جد امجد ہیں ایک تخت پر بیٹھے ہوئے ہوا میں اڑ رہے ہیں۔ ان کا تخت نیچے اترا انہوں نے آپ کو دیکھ کر آپ سے دریافت کیا کہ تم کون ہو؟ آپ نے جواب دیا کہ میں سید ہوں۔ انہوں نے آپ کا حسب نسب دریافت فرمایا۔ آپ نے اپنی نام اور اپنے والد ماجد کا نام ان کو بتایا۔
حضرت سید عبد الحکیم شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں نے تو آپ کو پہلی مرتبہ دیکھا ہے اور میں آپ کو نہیں پہچانتا۔ انہوں نے کہا تم بالکل ٹھیک کہتے ہو میں تمہاری پشت میں پانچوں مقام پر تمہارا جد امجد ہوں اور میرا نام سید عبد الحکیم ہے۔ پھر کہا، ہمیں پیاس لگی ہے اس لیے ہمیں پانی پلاؤ، آپ کے پاس دودھ کا ایک مشکیزہ موجود تھا۔ آپ نے ان کو دودھ پیش کیا انہوں نے دودھ سے بھرا ہوا پیالہ لے کر تھوڑا سا پی لیا اور باقی آپ کو دیا۔ باقی دودھ آپ نے پی لیا۔ دودھ پیتے ہی آپ از خود رفتہ ہو گئے آپ کا سینہ منور ہو گیا قلب نور معرفت سے روشن ہو گیا۔
رخصت ہوتے وقت حضرت سید عبد الحکیم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے لیے دعا فرمائی اور ارشادفرمایا کہ بیٹا! ہمارے پاس تمہاری امانت تھی جو آج ہم نے تمہارے سپرد کر دی آج سے تم کو دس روپیہ روزانہ ملا کریں گے۔ اب بہتر یہ ہے کہ تم مرشد کامل کی تلاش کرو تاکہ اس کی اطاعت کر کے معرف و سلوک کے مراتب طے کر سکو۔ اپنے دل کی بے قراری کا خاتمہ اور قلبی تسکین پا سکو اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئے اور ان کا تخت دوبارہ آسمان کی طرف پرواز کر گیا۔
لاہور میں تشریف آوری:
نیند سے بیدا ہوتے ہی آپ اپنے گھر تشریف لائے اور والد ماجد سے اپنا خواب بیان کیا آپ کے والد ماجد نے آپ سے کہا کہ تمہیں چاہیے تھا کہ ان بزرگ سے مرشد کامل کا نام ہی پوچھ لیتے تاکہ تمہیں آسانی ہو جاتی یا پھر انہی بزرگ سے کہنا چاہیے تھا کہ وہ خود مجھے بیعت کر لیں۔ آپ نے اپنے والد سے دریافت کیا کہ اب ان کو کہاں تلاش کیا جائے۔ والد ماجد نے کہا، بیٹا !مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان شاء اللہ تعالی ضرورت اس ضمن میں اللہ تعالی کی طرف سے تمہاری رہنمائی ہو گی۔ چنانچہ والد ماجد نے رات کو مراقبہ کیا تو ان کے سامنے یہ ظاہر ہوا کہ سید عبد الحکیم رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک ساندہ لاہور میں ہے اور ان سے دوبارہ ملاقات اسی جگہ ہو سکتی ہے صبح کو والد ماجد نے نماز فجر کے بعد آپ کو وہ مقام بتایا۔ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ اسی وقت والد ماجد سے اجازت حاصل کر کے لاہور کی طرف روزانہ ہو گئے اور ساندہ پہنچ کر آپ نے حضرت سید عبدالحکیم رحمتہ اللہ تعالی علیہ کا مزار مبارک تلاش کیا اور وہیں مسجد میں قیام اختیار کیا۔ آدھی رات کو جبکہ آپ سو رہے تھے آپ نے خواب میں دیکھا کہ بالکل پہلے کی طرح حضرت سید عبد الحکیم رحمتہ اللہ تعالی علیہ ایک تخت پر تشریف لائے ہیں اور آپ سے پوچھا کہ عبداللہ! کیا مرشد مل گئے یا ابھی تلاش جاری ہے۔ آپ نے جواب دیا، براہ کرم اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں۔ میں مرشد کی تلاش میں ہوں میرے لیے یہی سعادت کیا کم ہے کہ میں دوبارہ آپ کی زیارت سے مشرف ہو رہا ہوں۔ بہتر یہی ہے کہ آپ ہی مجھے اپنے حلقہ ارادت میں داخل فرما لیں یا پھر اگر ایسا ممکن نہیں تو مرشد تک رسائی کے لیے میری رہنمائی فرما دیں۔
حضرت سید عبدالحکیم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے آپ سے فرمایا کہ تمہاری جو امانت ہمارے پاس تھی ہم نے تم کو دے دی تمہارا حصہ حضرت شاہ عنایت قادری رحمة الله تعالی علیه کے پاس ہے۔ ان کے پاس جاؤ اور اپنا حصہ لو۔ اس خواب کے بعد آپ اپنے گھر واپس آئے اور والد ماجد کو حال بتایا اور حضرت شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے بیعت کرنے کی اجازت چاہی۔ والد ماجد نے آپ کو خوشی سے اجازت دے دی پھر آپ نے اپنی والدہ ماجدہ سے اجازت مانگی تو والدہ ماجدہ نے بھی بخوشی اجازت مرحمت فرما دی۔
 
Last edited:

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
مرشد کامل کی خدمت میں حاضری:
حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ لا ہور پہنچ کر حضرت شاہ عنائیت قادری رحمة الله تعالی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت سے مشرف ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ اس ضمن میں مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں بعض تذکرہ نگاروں نے بیان کیا ہے کہ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ جب لاہور کے سفر پر روانہ ہوئے تو دل میں خیال کیا کہ میں عالی نسب ہوں مرشد کو مجھے اپنی بات میں لینے میں کیا عذر ہوگا۔ چنانچہ لا ہور کر حضرت شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آنے کی غرض بیان کی۔ حضرت شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے آپ سے فرمایا کہ آپ تو سید خاندان سے ہیں میں باغبان کا بیٹا ہوں تہمیں کیا دے سکتا ہوں۔ یہ بات سن کر آپ بہت نادم ہوئے اور دل سے مرشد کی عظمت و کرامت کو تسلیم کیا اور نیاز مندی شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے آپ کے خلوص سے متاثر ہو کر آپ کو بیعت کر لیا۔
بعض کا کہنا ہے کہ جب آپ حضرت شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنامدعا بیان کیا تو حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس شرط پر بیعت کریں گے کہ پہلے وہ پانچ سو روپے نقد، پانچ سوروپے کا ایک گھوڑا۔ پانچ سو روپے کے طلائی کنگنوں کی ایک جوڑی اور پانچ سو روپے کی ایک پوشاک لے کر آئیں۔ یہ سن کر آپ کی امیدوں پر پانی پھر گیا آپ نے سوچا کہ شرط کا پورا کرنا ان کے بس کی بات نہیں یہ شرائط بڑی کٹھن ہیں میں یہ شرائط کیسے پوری کر سکتا ہوں اسی سوچ و بچار میں دریائے راوی کے کنارے پہنچے ان دنوں دریائے راوی بادشاہی مسجد کے بالکل قریب سے بہتا تھا۔ راوی کے کنارے بیٹھے اسی سوچ بچار میں تھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ آخر کار نا امیدی کے عالم میں دریا میں ڈوب کر مر جانے کی ٹھانی۔
ابھی آپ نے اپنا قدم دریا کی طرف بڑھایا ہی تھی کہ پیچھے سے کسی نے آواز دی کہ ذرا ٹھہرو! میری بات سنو آپ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک نقاب پوش گھوڑ سوار آرہا تھا اس نے قریب آ کر کہا، اے لڑکے میں اس دریا میں نہانا چاہتا ہوں میں تکلیف تو ہو گی جب تک میں نہا لوں تم میرا گھوڑا تھامو اور میرے سامان کی حفاظت کرو ۔ نقاب پوش نے گھوڑے سے اتر کر گھوڑے کی لگام آپ کے ہاتھ میں تھما دی پھر ایک تھیلی جس میں پانچ سو روپے تھے، طلائی کنگنوں کی ایک جوڑی ، اور اپنی قیمتی پوشاک بھی آپ کے سپرد کر دی اور خود دریا میں نہانے کے لیے غوطہ لگایا۔
آپ کافی دیر تک اس شخص کے انتظار میں دریا کے کنارے بیٹھے رہے نماز ظہر سے نماز عصر تک اس کے نکلنے کا انتظار کرتے رہے جب وہ دریا سے باہر نہیں آیا تو آپ سوچ کر کہ وہ تو دریا میں ڈوب گیا وہاں سے شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ سوچ کر آپ بھاٹی گیٹ سے شہر میں داخل ہوئے تو راستے میں لوگوں نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ پوشاک اور گھوڑا تو حضرت عنایت شاہ قادری رحمة الله تعالی علیہ کا ہے۔ جب آپ اونچی مسجد میں جو حضرت شاہ عنایت قادری رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے ایک خادم کو حکم دیا کہ وہ ان سے گھوڑا اور دیگر سامان لے کر ان کے گھر پہنچا دے اس کے بعد حضرت شاہ عنائیت قادری رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے آپ سے فرمایا، بس اتنی سی بات تھی کہ تم دریا میں ڈوب مرنے کو تیار ہو گئے تھے تم سید زادے ہو اور خوبرو جوان ہو پھر تمہارا دس روپے روزینہ بھی مقرر ہے اور میں ایک باغبانی پیشے والا ارائیں ہوں آپ کو کیا فیض دے سکتا ہوں۔ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا حضور! میری شاہی آپ کی نذر ہے۔ اس بات سے حضرت شاہ عنائیت قادری بہت خوش ہوئے اور آپ کو بیعت سے مشرف فرمایا۔
اس حوالے سے بعض تذکرہ نگاروں نے تحریر کیا ہے کہ حضرت بلھے شاہ رحمتہ اللہ تعالی علیہ جب قصور سے لاہور پہنے تو سڑک کے کنارے حضرت شاہ عنایت قادری رحمة اللہ تعالی علیہ کھیت میں پیاز کی پنیری لگا رہے تھے قریب ہی آم کے درخت پھلوں سے لدے ہوئے نظر آرہے تھے۔ حضرت بلھے شاہ رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے دل میں خیال کیا کہ میری آمد کے بارے میں حضرت شاہ عنایت قادری رحمة الله تعالی علیہ کو خبر ہو جائے گی اپنی نگاه کرامت سے آموں کی طرف بسم اللہ پڑھ کر توجہ دی تو آم درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر گرنا شروع ہو گئے ۔ حضرت شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ آم خود بخود ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر گر رہے ہیں تو فورا سمجھ گئے کہ یہ کام اس سامنے کھڑے نوجوان کا ہے اس لیے بولے، کیوں بھئی برخوردار آم کیوں توڑے ہیں؟ حضرت بلھے شاہ رحمت اللہ تعالی علیہ دل میں بہت خوش ہوئے کہ ان بزرگ کی تو ان کی جانب مبذول ہوئی ہے اور ان کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے اس لیے قریب آکر سلام کیا اور کہا حضور نہ تو میں آپ کے درخت پر چڑھا ہوں نہ ہی میں نے کوئی پھر مارا ہے تو پھل میں نے کیسے توڑ دیئے؟ حضرت عنایت شاہ قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ایک بھر پور نگاہ آپ پر ڈالی اور کہا، اگرتم نے پھل نہیں توڑا تو پھر کس نے توڑا ہے؟
حضرت عنائیت شاہ قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی نگاہ کرم پڑتے ہی آپ کی قلبی کیفیت میں ایک انقلاب برپا ہو گیا اور آپ فورا ان کے قدموں پر گر پڑے۔ حضرت عنائت شاہ قادری رحمة الله تعالی علیہ نے پیار اور شفقت سے اٹھایا اور پوچھا تمہارا نام کیا ہے اور کیا چاہتے ہو؟ آپ نے کہا، میرا نام عبداللہ شاہ ہے اور میں رب تعالی کو پانا چاہتا ہوں۔ حضرت عنائیت شاہ قادری رحمة الله تعالی علیہ نے ایک اور بھر پور نظر کرم آپ پر ڈالی اور کہا:
بلھیا رب دا کی پاؤنا
ایدھروں پٹنا اودھر لاؤنا​
ترجمہ: اے بلھیا! رب تعالی کا کیا پانا ہے ادھر سے اکھاڑ کر ادھر لگانا ہے۔
حضرت شاہ عنائیت قادری رحمة الله تعالی علیہ کے کہے ہوئے یہ چند الفاظ آپ کے قلب پر اڑ کر گئے پیرومرشد نے آپ کو بیعت سے مشرف فرمایا اور بعد میں خرقہ خلافت سے بھی نوازا۔ کچھ عرصہ تک آپ پیرومرشد کی خدمت میں رہ کر ان کے فیوض و برکات سے مستفید ہو کر چناب کے کنارے رہنے لگے اور عبادت ومجاہدہ میں مشغول ہوئے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
جھنگ میں تشریف آوری:
پیرو مرشد کی اجازت سے حضرت بلے شاه رحمة الله تعالی علیہ نے جھنگ میں دریائے چناب کے کنارے قیام فرمایا۔ رہائش کے لیے ایک خستہ کی جھونپڑی کانے اور پھونس سے تیار کی اور اس کے دروازوں پر بوسیدہ کپڑے کی چٹائیاں اور ٹاٹ کے پرانے ٹکڑے اکٹھے کر کے پردے کی طرح لگائے۔ اس جھونپڑی میں بیٹھ کر آپ عبادت الہی میں مشغول و مصروف ہوئے یہ علاقہ ویران اور شہر سے دور دراز تھا اس مقام پر آپ نے تنہا سکونت اختیار فرمائی اس انجانے علاقے میں کوئی آپ کا شناسا نہ تھا اور نہ ہی خدمت کے لیے کوئی شخص آپ کے پاس موجود تھا۔ گزارے کے لیے کوئی چیز پاس نہ تھی نہ ہی کوئی رقم تھی کہ جس سے اشیائے خوردونوش خریدتے وہاں کے خودرو پھل وغیرہ کھا کر بھوک مٹاتے۔ رفتہ رفتہ آپ کے بارے میں لوگوں کو جستجو ہوئی چنانچہ قرب و جوار کے کئی کسان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتے مگر آپ التفات نہ فرماتے۔ایک دن صبح سویرے آپ کی خدمت میں ایک کسان حاضر ہوا عقیدت کے اظہار کے طور پر وہ اپنے ساتھ مکئی کی روٹیاں اور ساگ لے کر آیا اس نے نہایت ادب سے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی کھالیں تو مجھے بڑی خوشی ہوگی آپ نے اس کی عقیدت مندی دیکھتے ہوئے اور اس کے پرزور اصرار پرایک روٹی تناول فرمائی اور باقی روٹیاں اور سالن اسے واپس کر دیا۔ اس پر کسان نے پریشان ہو کر عاجزانہ لہجے میں کہا حضور! کیا آپ نے میری روٹیاں اور سالن کو پسند نہیں فرمایا۔ آپ نے ارشاد فرمایا ایسی کوئی بات نہیں میں نے تو بڑی پسندیدگی کے ساتھ تمہاری لائی ہوئی روٹی کھائی ہے چونکہ مجھے حکم ہے کہ کم کھاؤں اور کم سوؤں اس لیے میں نے صرف ایک ہی روٹی کھائی ہے اس لیے تم یہ خیال نہ کرو کہ میں نے ناپسندیدگی کی وجہ سے تمہاری روٹیاں واپس کی ہیں۔
کسان آپ کے نرم دل رویے اور لہجے سے بہت متاثر ہوا اور عاجزانہ انداز میں کہنے لگا، حضور! یہ روٹیاں اور سالن رکھ لیں دوپہر کو کام آجائے گا۔ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تم میری فکر چھوڑو اپنے بچوں کی فکر کرو اور یہ روٹیاں اور سالن اپنے بچوں کو کھلا مجھے دوپہر کی کوئی فکر نہیں کیونکہ میرا ایمان ہے کہ اللہ رب العزت مسبب الاسباب ہے وہ کوئی نہ کوئی بندوبست فرمادے گا، کسان آپ کی با تیں سن کر بہت متاثر ہوا اور اس نے واپس جا کر لوگوں سے اس بات کا ذکر کیا لوگ بھی اس کی بات سن کر متاثر ہوئے اور حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالی علیہ کی عقیدت ان کے دلوں میں پیدا ہو گئی چنانچه رفته رفتہ لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور عقیدت کے اظہار کے طور پر کھانے پینے کی اشیاء بھی لاتے ۔ لوگوں کی اس طرح آمد کے باعث آپ کی عبادت و ریاضت میں خلل واقع ہونا شروع ہو گیا۔ آپ نے نفلی روزے رکھنے شروع کردیے دن بھر تو لوگ کھانے پینے کی چیزیں لے کر نہ آتے البتہ مغرب کے وقت آپ کی جھونپڑی کے باہر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا اور ہر کوئی افطار کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آتا اور خواہش کرتا کہ اس کے لائے ہوئے کھانے سے افطاری کی جائے افطار کی غرض سے لائی گئی چیزیں آپ کی ضرورت سے بہت زیادہ ہوئیں چنانچہ آپ ان تمام چیزوں کو وہاں پر موجود لوگوں میں تقسیم فرما دیتے اور خود ایک ہی روٹی تناول فرماتے۔ اس بات سے بھی آپ کی شہرت عام ہوئی اور جھنگ کے دور دراز علاقوں سے بھی لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے آنا شروع ہو گئے جس سے آپ پریشان ہوئے چنانچہ کچھ عرصہ تک وہاں قیام کے بعد آپ وہاں سے چلے آئے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رشتہ داروں کے طعن:
چونکہ آپ سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور علم وفضل میں بھی بلندمرتبہ تها اس لیے کسی ارائیں گھرانے کی شخصیت کو اپنا مرشد ماننا آپ کے رشتہ داروں کو بہت ناگوار گزرا اور انہوں نے آپ کی اس معاملے میں کافی مخالفت کی اور آپ کو طرح طرح کے طعنے بھی دیے مگر آپ اپنے مرشد سے اس قدر عقیدت و محبت رکھتے تھے کہ کسی بھی مخالفت کی پرواہ نہ کی۔ برادری کے لوگوں کے طعنے برداشت کرتے رہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ:
عشق اساں نال کیہہ کیتی
لوک مریندے طعنے
متر پیارے دے کارن نی
میں لوک الاہمیں سنی ہاں​
جب کسی بھی طرح آپ نے اپنے مرشد کا دامن نہ چھوڑا تو آپ کے خاندان کے لوگ جن میں آپ کی بہنیں اور بھابیاں بھی شامل تھیں آپ سے جھگڑنے اور آپ کو سمجھانے کے لیے آئے اس ضمن میں حضرت بلھے شاه رحمة الله تعالی علیہ فرماتے ہیں:
بلھے نوں سمجھاون آئیاں بھیناں تے بھرجائیاں
آل نبی اولاد علی دی توں کی لیکاں لائیاں
من لے بلھیا ساڈا کہنا چھڈ دے پلہ ارائیاں​
جواب میں حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالی علیہ نے فرمایا:
جیہڑا سانوں سید آکھے دوزخ ملن سزائیاں
ہے توں لوڑیں باغ بہاراں طالب ہو جا رائیاں​
پھر فرمایا:
بلھیا جے توں چاہیں باغ بہاراں چاکر تھیں ارائیں دا
بلھے شاہ دی ذات کی پچھیں شاکر ہو رضائیں دا​
پھر فرمایا:
تسیں وچ اچ دے اچے او
اسیں وچ قصور قصوری آں
شاه عنائیت دی باغ بہاراں
اسیں اوہدی وچ لسوڑی آں​
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
قصور کی طرف روانگی:
پیرو مرشد نے حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالی علیہ کو قصور کی طرف جانے کا حکم دیا اس ضمن میں فرماتے ہیں:
بلھیا قصور بے دستور اوتھے جانا بنیاں ضرور
نہ کوئی پن نہ دان ہے نہ کوئی لاگ دستور​
یعنی مجھے (پیرومرشد کے حکم پر) قصور ضرور جانا پڑا ہے وہاں کوئی نیک کام کرتا ہے نہ کوئی سخاوت کرتا ہے اور نہ ہی کوئی آئین و قانون نافذ ہے۔
قصور روانگی کے وقت آپ کے ہمراہ آپ کی ہمشیرہ بھی تھیں اس کے علاوہ دو شاگرد حافظ جمال اور سلطان احمد مستانہ بھی تھے۔ شہر سے باہر آپ نے ایک تالاب کے کنارے ڈیرہ لگایا ی تالاب ''سالانے والا تالاب'' کہلاتا ہے اور قصور ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے۔ شہر سے باہر ڈیرہ لگانے کی وجہ تھی کہ یہاں کے لوگ فقر و درویش کے قائل نہ تھے آپ نہایت اطمینان سے الله تعالی کی عبادت میں مصروف رہتے کثرت سے گریہ زاری کرتے اور اکثر خاموش رہتے۔ رفتہ رفتہ آپ کے تقوی اور بزرگی کی شہرت لوگوں میں ہونے لگی تو لوگ آپ کے پاس عقیدت مندانہ حاضر ہونے لگے۔
قصور کے نوابوں کے محلات میں بھی آپ کے زہد و تقوی کا چرچا ہونے لگا۔ قصور کے ایک مشہور نواب حاجی رانجھے خان کی ہمشیرہ جو کہ بیوہ تھیں اس نے جب آپ کے بارے میں سنا تو اپنے بھائی حاجی رانجھے خان سے اجازت لے کر بڑے اہتمام کے ساتھ قیمتی تحائف کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالی علیہ چونکہ نہایت حسین و جمیل اور عالم شباب میں تھے اس لیے خاتون دل ہی دل میں آپ کو دیکھتے ہی آپ پر فریفتہ ہوگئی۔ آپ کو بذریعہ کشف خاتون کی قلبی کیفیت کے بارے میں پتہ چل گیا جب وہ خاتون آپ کے سامنے آئی تو آپ نے اپنا رخ دوسری طرف پھیر لیا وہ خاتون جواہرات سے بھری تھالی لے کر آپ کے سامنے کی طرف سے آئی مگر اس مرتبہ بھی آپ نے اپنا رخ اس سے پھیر لیا۔
خاتون نے اس بے اعتنائی کی وجہ پوچھی اور ساتھ ہی اپنا حسب ونسب فخر کے ساتھ بیان کیا اور کہا کہ شاید آپ نہیں جانتے کہ میں نواب رانجھے خان کی ہمشیرہ ہوں اور آپ کے دیدار کی غرض سے حاضر ہوئی ہوں اور کچھ نذرانے بھی ساتھ لائی ہوں۔ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: میں نے تو آپ کو اپنی والدہ سمجھا ہے اور آپ کا نذرانہ اس وقت قبول ہوگا جب آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں اور میں آپ کو والدہ کہوں۔ یہ سنتے ہی اس خاتون کا دل صاف ہو گیا اور اس نے کہا، بیٹا! میں تمہاری ماں ہوں اور تم میرے بیٹے ہو۔
اس منہ بولی ماں نے ایک روز آپ سے کہا کہ آپ شہر کے اندر اپنا ڈیرہ لے آئیں میں آپ کی رہائش کے لیے بندوبست کر دیتی ہوں مگر آپ نے فرمایا کہ درویشوں کے لیے شہر سے باہر رہنا ہی مناسب ہے مگر خاتون نے اس قدر اصرار کیا کہ آپ بالاخر شهر میں آنے پر آمادہ ہو گئے۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
قصور کی طرف روانگی:
پیرو مرشد نے حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالی علیہ کو قصور کی طرف جانے کا حکم دیا اس ضمن میں فرماتے ہیں:
بلھیا قصور بے دستور اوتھے جانا بنیاں ضرور
نہ کوئی پن نہ دان ہے نہ کوئی لاگ دستور​
یعنی مجھے (پیرومرشد کے حکم پر) قصور ضرور جانا پڑا ہے وہاں کوئی نیک کام کرتا ہے نہ کوئی سخاوت کرتا ہے اور نہ ہی کوئی آئین و قانون نافذ ہے۔
قصور روانگی کے وقت آپ کے ہمراہ آپ کی ہمشیرہ بھی تھیں اس کے علاوہ دو شاگرد حافظ جمال اور سلطان احمد مستانہ بھی تھے۔ شہر سے باہر آپ نے ایک تالاب کے کنارے ڈیرہ لگایا ی تالاب ''سالانے والا تالاب'' کہلاتا ہے اور قصور ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے۔ شہر سے باہر ڈیرہ لگانے کی وجہ تھی کہ یہاں کے لوگ فقر و درویش کے قائل نہ تھے آپ نہایت اطمینان سے الله تعالی کی عبادت میں مصروف رہتے کثرت سے گریہ زاری کرتے اور اکثر خاموش رہتے۔ رفتہ رفتہ آپ کے تقوی اور بزرگی کی شہرت لوگوں میں ہونے لگی تو لوگ آپ کے پاس عقیدت مندانہ حاضر ہونے لگے۔
قصور کے نوابوں کے محلات میں بھی آپ کے زہد و تقوی کا چرچا ہونے لگا۔ قصور کے ایک مشہور نواب حاجی رانجھے خان کی ہمشیرہ جو کہ بیوہ تھیں اس نے جب آپ کے بارے میں سنا تو اپنے بھائی حاجی رانجھے خان سے اجازت لے کر بڑے اہتمام کے ساتھ قیمتی تحائف کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالی علیہ چونکہ نہایت حسین و جمیل اور عالم شباب میں تھے اس لیے خاتون دل ہی دل میں آپ کو دیکھتے ہی آپ پر فریفتہ ہوگئی۔ آپ کو بذریعہ کشف خاتون کی قلبی کیفیت کے بارے میں پتہ چل گیا جب وہ خاتون آپ کے سامنے آئی تو آپ نے اپنا رخ دوسری طرف پھیر لیا وہ خاتون جواہرات سے بھری تھالی لے کر آپ کے سامنے کی طرف سے آئی مگر اس مرتبہ بھی آپ نے اپنا رخ اس سے پھیر لیا۔
خاتون نے اس بے اعتنائی کی وجہ پوچھی اور ساتھ ہی اپنا حسب ونسب فخر کے ساتھ بیان کیا اور کہا کہ شاید آپ نہیں جانتے کہ میں نواب رانجھے خان کی ہمشیرہ ہوں اور آپ کے دیدار کی غرض سے حاضر ہوئی ہوں اور کچھ نذرانے بھی ساتھ لائی ہوں۔ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: میں نے تو آپ کو اپنی والدہ سمجھا ہے اور آپ کا نذرانہ اس وقت قبول ہوگا جب آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں اور میں آپ کو والدہ کہوں۔ یہ سنتے ہی اس خاتون کا دل صاف ہو گیا اور اس نے کہا، بیٹا! میں تمہاری ماں ہوں اور تم میرے بیٹے ہو۔
اس منہ بولی ماں نے ایک روز آپ سے کہا کہ آپ شہر کے اندر اپنا ڈیرہ لے آئیں میں آپ کی رہائش کے لیے بندوبست کر دیتی ہوں مگر آپ نے فرمایا کہ درویشوں کے لیے شہر سے باہر رہنا ہی مناسب ہے مگر خاتون نے اس قدر اصرار کیا کہ آپ بالاخر شهر میں آنے پر آمادہ ہو گئے۔
اچھی کاوش ہے۔۔ اللہ مزید ترقیاں عطا فرمائیں آپ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن سب کچھ باحوالہ ہو تو زیادہ احسن ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اچھی کاوش ہے۔۔ اللہ مزید ترقیاں عطا فرمائیں آپ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن سب کچھ باحوالہ ہو تو زیادہ احسن ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب: حیات و کلام بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ۔یوسف مثالی۔
 
Last edited:

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
قصور میں سکونت:
حضرت بلھے شاه رحمة الله تعالی علیہ نے پیرومرشد کے حکم پر قصور میں سکونت اختیار کر لی تھی قصور میں آپ نے شہر سے باہر ایک تالاب کے کنارے اپنا ڈیرہ ڈالا یہ جگہ آج کل ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ہے۔
آپ زیادہ تر وقت عبادت الہی میں گزارتے تھے لوگوں کو وعظ تلقین کے لیے بھی کوشاں رہتے بہت جلد آپ کی بزرگی کی شہرت عام ہو گئی طالبان حق کی ایک کثیر تعداد آپ کی خدمت میں حاضر رہنے کے لیے اس جگہ پر آپ نے لوگوں کی سہولت کے لئے لنگر کا انتظام کیا اور محفل سماع بھی منعقد کرنے لگے۔
ولائیت سلب ہوگی:
تذکرہ نگار تحریر کرتے ہیں کہ آپ کے پیرومرشد حضرت شاہ عنائیت قادری رحمت الله تعالی علیہ ایک مرتبہ آپ سے ناراض ہو گئے اور انہوں نے آپ کی ولائیت سلب کرلی اس کی وجہ بھی کہ حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالی علیہ اپنے پیرومرشد کی طرح اپنے استاد محترم حضرت مولانا حافظ غلام مرتضی سے بھی کافی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور ان کی خدمت کرنا اپنی سعادت خیال کرتے تھے۔
مولانا حافظ غلام مرتضی نے ایک مرتبہ اپنی صاحبزادی کی شادی کا اہتمام کیا۔ شادی کی تقریب میں لاتعداد مہمانوں کو دعوت دی گئی۔ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالی بھی مدعو تھے استاد محترم نے آپ کو مہمانوں کی خدمت پر مامور کیا۔ استاد محترم کے حکم کے مطابق آپ نے تمام انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کھانے کا انتظام بہت وسیع پیمانے پر کیا گیا تھا۔ مہمانوں کی کثیر تعداد کے باعث آپ کو ایک لمحہ کی بھی فرصت نہیں مل رہی تھی۔ اتفاق سے اس روز مولوی ظہور محمد صاحب جو کہ حضرت شاہ عنائیت قادری لاہوری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے حقیقی بھتیجے، داماد اور مرید خاص تھے لا ہور سے خاص طور پر آپ کو ملنے کی غرض سے قصور آئے ۔ مولوی ظہور محمد صاحب نے ایک درویش کے ذریعہ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کواپنے آنے کی اطلاع دی چونکہ اس وقت آپ مہمانوں کو کھانا کھلانے میں مصروف تھے اس لیے اطلاع لانے والے درویش کو حکم دیا کہ مولوی صاحب کی پوری پوری خاطر مدارت کی جائے اور ان کی مہمانداری کرنے میں کسی طرح کی کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ مزید یہ فرمایا کہ میں مہمانوں کو کھانا کھلانے میں مشغول ہوں فارغ ہوکر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔
اتفاق سے مہمانوں کی کثرت کے باعث ساری رات آپ وہیں مصروف رہے اور مولوی ظہور محمد صاحب سے ملاقات کرنے کا وقت ہی نہ مل سکا اور مولوی ظہور محمد صاحب انتظار کرتے رہے۔ جب حضرت بلھے شاه رحمۃ الله تعالی علیہ ملنے کے لیے نہ آئے تو صبح سویرے غصہ کی حالت میں بغیر کسی کو بتائے واپس لاہور چلے گئے اور اپنے خسر حضرت شاه عنائیت قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے شکایت کی اور کہا کہ میں حضرت بلھے شاہ رحمتہ اللہ تعالی علیہ سے ملنے قصور گیا تھا ساری رات ان کا انتظار کرتا رہا مگر وہ مجھ سے ملنے تک نہیں آئے انہوں نے غرور و تکبر کے باعث مجھ سے ملنا اپنی شان کے خلاف سمجھا۔ یہ بات سن کر حضرت شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ جلال میں آگئے اور فرمایا، بلھے کی یہ مجمال ہم نے اس نکمے سے کیا لینا ہے چلو ہم بھی اس کی کیاریوں سے پانی موڑ کر تیری طرف کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو روحانی فیض سے محروم کردیا اور آپ کی ولایت سلب کرلی۔
ادھر حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالی علیہ کو بھی فوری طور پر محسوس ہو گیا کہ ان کا دامن مرشد کے فیض سے خالی ہو چکا ہے چنانچہ آپ اسی وقت مولانا حافظ غلام مرتضی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے جانے کی اجازت حاصل کی پھر اپنے ڈیرے پر تشریف لائے تمام درویشوں کو جمع کیا اور سلطان احمد مستانہ جو آپ کے شاگرد تھے ان پر ناراض ہوئے کہ مولوی ظہور محمد صاحب کو جانے سے کیوں نہیں روکا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ صبح ہونے سے قبل ہی کسی کو بتائے بغیر چلے گئے ہیں۔ اس کے بعد حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالی علیہ لاہور کے لیے روانہ ہو گئے اور پیرومرشد کی خدمت میں دوڑے ہوئے آئے مگر مرشد نے منہ موڑ لیا اور آپ کا داخلہ درگاہ میں ممنوع قرار دے دیا آپ نے مرشد کو راضی کرنے کی کافی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
گوالیار میں تشریف آوری:
حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ جب اپنے طور پر مرشد کو راضی کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو یہ ارادہ کیا کہ شطاری سلسلہ کے بزرگ حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری رحمت اللہ تعالی علیہ کے مزار مبارک پر حاضر ہوا جائے تا کہ روحانی طور پر ان سے سفارش کروائی جائے اور مرشد کو راضی کیا جا سکے۔ چنانچہ آپ گوالیار کے سفر پر روانہ ہوئے اور حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے مزار مبارک پر معتکف ہوگئے۔ کئی دنوں کے مراقبہ کے بعد آپ کو خواب میں حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری رحمتہ اللہ تعالی علیہ کی زیارت ہوئی جنہوں نے آپ کو عرفان کی دولت سے مستفید کیا اور قریب ہی واقع تان سین کی قبر پر لگے بیری کے درخت سے اڑھائی پتے کھانے کا حکم بھی دیا، حضرت بلھے شاہ رحمتہ الله تعالی علیہ نے ان کی ہدایت پر عمل کیا جس سے آپ میں موسیقی کا کمال پیدا ہو گیا اور آپ کو قلبی سکون بھی ملا۔
گوالیار سے واپسی:
اس کے بعد آپ گوالیار سے قصور آئے اور ایک روز قصور میں قیام کے بعد لاہور تشریف لائے اور ان قوالوں سے ملاقات کی جو حضرت شاہ عنائیت قادری رحمة الله تعالی علیہ کی محفل میں عارفانہ کلام گایا کرتے تھے۔ آپ نے انہیں بتایا کہ پیرومرشد مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں کسی بھی طرح راضی نہیں ہور ہے میں چاہتا ہوں کہ ایک مغنیہ کے بھیس میں اپنے پیر کی بارگاہ میں رسائی حاصل کروں تا کہ اس حال میں دیکھ کر شاید انہیں مجھ پر رحم آجائے۔ قوالوں نے کہا کہ آپ ایک عورت کے روپ میں وہاں پر جائیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں تم صرف یہ کرنا کہ پیرومرشد کے سامنے میری تعریف کرنا کہ ہندوستان کی ایک مشہور مغنیہ اپنے فن کے مظاہرے کے لیے یہاں آئی ہوئی ہے اور اس کی شدید خواہش ہے کہ وہ آپ سے بھی اپنے فن کی داد پائے۔
قوالوں نے انکار کر دیا کہ ہم جھوٹ نہیں بول سکتے اگر حضرت شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہم سے بھی خفا ہو گئے تو ہماری روزی خطرے میں پڑ جائے گی تو پھر ہم کہاں جائیں گے؟ حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالی علیہ نے قوالوں کو منت سماجت سے اس کام کے لیے راضی کرلیا اور پھر قوالوں نے جمعہ کے روز حضرت شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے سامنے قوالی پیش کی۔ قوالی کے بعد انہوں نے حضرت شاہ عنائیت قادری رحمت اللہ تعالی علیہ سے فرضی ہندوستانی مغنیہ کے فن کی بہت تعریف کی اور اسے پیش کرنے کی خواهش کا اظہار کرتے ہوئے اجازت چاہی۔ حضرت شاہ عنایت قادری رحمت اللہ تعالی علیہ نے فرمایا، ہم اس مغنیہ کو خوب جانتے ہیں تم اسے اگلے جمعہ کو ساتھ لے کر آتا ۔ قوالوں نے حضرت بابا بلھے شاہ رحمة الله تعالی علیہ کو بتایا تو آپ پر رقت طاری ہوئی کافی دیر تک ہچکیاں لے کر روتے رہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
مرشد کی محفل میں:
جمعہ کے روز آپ نے صبح صادق سے قبل غسل فرمایا نماز تہجد پڑھی اور بارگاہ الہی میں رو رو کر دعا مانگی کہ مرشد ان سے راضی ہو جائے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد آپ نے اپنا لباس تبدیل کرتے ہوئے عورتوں والا لباس پہنا، پاؤں میں گھنگرو باندھے اور چہرے پر نقاب ڈال کر قوالوں کے ہمراہ روانہ ہو گئے۔ مرشد کے فراق میں آپ نڈھال ہو رہے تھے پیر و مرشد کی قوم بوسی نے قلب میں بے چینی اور اضطراب پیدا کر دیا تھا مرشد کی محفل میں پہنچنے تک آتش شوق مزید بھڑک اٹھی۔ جیسے ہی محفل سماع کا آغاز ہوا آپ نے ایسے پرسوز انداز میں کلام سنایا کہ تمام اہل محفل پر وجد کی کیفیت طاری ہوئی خود قوال اور سازندے بھی ایسی پر سوز آواز سن کر حیران رہ گئے۔ ہر طرف سے صدائے تحسین بلند ہوری تھیں۔ آپ نے محفل میں اپنی یہ کافی گانا شروع کی:

تیرے عشق نے ڈیرا، میرے اندر کیتا
بھر کے زہر پیالہ، میں تاں آپے پیتا
جھبدے بوہڑِیں وے طبیبا، نہیں تے میں مر گی آں
تیرے عشق نچایا کر کے تھیّا تھیّا
چھپ گیا وے سُورج، باہر رہ گئی آ لالی
وے میں صدقے ہوواں، دیویں مُڑ جے وکھالی
پیرا! میں بھل گئی آں تیرے نال نہ گئی آ
تیرے عشق نچایا کر کے تھیّا تھیّا
ایس عشق دے کولوں، مینوں ہٹک نہ مائے
لاہُو جاندڑے بیڑے، کیہڑا موڑ لیائے
میری عقل جو بُھلّی، نال مہانیاں دے گئی آ
تیرے عشق نچایا کر کے تھیّا تھیّا
ایس عشقے دی جھنگی وچ مور بولیندا
سانوں قبلہ تے کعبہ، سوہنا یار دسِیندا
سانوں گھائل کر کے، پھیر خبر نہ لئی آ
تیرے عشق نچایا کر کے تھیّا تھیّا
بُلھّا شَوہ نے آندا، مینوں عنایت دے بُوہے
جس نے مینوں پوائے ، چولے ساوے تے سُوہے
جاں میں ماری ہے اَڈّی، مِل پیا ہے وہیّا
تیرے عشق نچایا کر کے تھیّا تھیّا

پیر و مرشد کی محفل سماع میں حضرت بلھے شاہ نے یہ کافی بھی نہائیت پر سوز آواز میں سنائی۔

کیہ جاناں میں کوئی رے بابا
کیا جاناں میں کوئی
نچن لگی تے گھونگھٹ کیہا
مونہہ توں لہہ گئی لوئی
جو کجھ کر سی اللہ بھانا
کیا کجھ کر سی کوئی
جو کجھ لیکھ متھے دا لکھیا
میں اس تے شاکر ہوئی
کو کو کردی قمری آئی
گل وچ طوق پیوئی
بس نہ کردی کو کو کولوں
کو کو اندر موئی
عاشق بکرا معشوق قصائی
میں میں کردی کوہی
جوں جوں میں زیادہ کردی
توں توں موہی موہی
کسے اک سہی میں دس سہیاں
پھر کیہہ کر سی کوئی
جس دے نال میں پیت لگائی
لس جیہی میں ہوئی
الف پچھاتا ب پچھاتی
ت ملامت ہوئی
جو کجھ ساڈے اندر وسدا
ذات ہماری ہوئی
جے مہر کریں تف فضل کریں
پھر میں عاجز نوں ڈھوئی
شوق شراب دتوئی
کیہ جاناں میں کوئی بابا
کیا جاناں میں کوئی

حضرت بابا بلھے شاہ نے جب یہ کافیاں گا لیں تو حضرت عنائیت شاہ قادری نے پوچھا، تو بلھا ہے؟ یہ سنتے ہی آپ دیوانہ وار مرشد کی طرف بڑھے اور ان کے قدموں سے لپٹ کر بولے، میں بلھا نہیں بھلا (یعنی بھولا ہوا) ہوں۔ آپ کا یہ جواب سن کر پیر و مرشد نے اٹھ کر آپ کو گلے لگا لیا اور فرمایا تو میرا بلھا ہی ہے۔ اب یہ تیرا عشق و سوز کبھی کم نہ ہوگا اب بے فکر رہو یہ ولائیت تمہاری مستقل دولت ہے کوئی بھی تم سے نہیں چھین سکے گا۔ اس طرح پیر و مرشد نے معرف کا چھینا ہو خزانہ آپ کو واپس کر دیا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رسول کریمﷺ کی زیارت کی تڑپ:
حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو رسول پاک کو عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ محبت رسول میں سرشار رہا کرتے تھے۔ دل میں یہ خواہش مؤجزن رہتی تھی کہ رسول کریم کے دیدار کی سعادت حاصل ہو جائے۔ نعتیہ کلام بڑے شوق سے سماعت فرماتے تھے۔ اور خود محبت سے نعتیہ کلام پڑھایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر حاضری کے لیے گئے۔ وہاں پر نعت خواں نعتیہ کلام سنا رہے تھے۔ آپ نے بھی پنجابی میں نعت پڑھی جس کے چند اشعار یہ ہیں۔

ہن میں لکھیا سوہنا یار
جس دے حسن دا گرم بازار
جد احد اک اکلا سی
نہ ظاہر کوئی تجلی سی
نہ رب رسول نہ اللہ سی
نہ جبار تے نہ قہار
ہن میں لکھیا سوہنا یار
جس دے حسن کا گرم بازار
بے چون بے چگونہ سی
بے شبیہ بے نمونہ سی
نہ کوئی رنگ نمونہ سی
ہن ہویا گونا گون ہزار
ہن میں لکھیا سوہنا یار
جس دے حسن دا گرم بازار

اس نعت کے پڑھتے ہوئے آپ پر اس قدر رقت طاری ہوئی کہ آپ بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ رسول کریم ﷺ کے دیدار کی تڑپ شدید ہو گئی۔ اس شدت میں کمی نہ ہو رہی تھی۔ اسی حالت میں اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پیر و مرشد نے آپ کی حالت دیکھی تو پوچھا: عبد اللہ شاہ یہ کیا حالت ہو گئی ہے؟ آپ نے فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں تڑپ رہا ہوں۔ آپ کی حالت سے لگ رہا تھا کہ آپ کے بدن کے ہر رگ و پے میں حب رسول ﷺ سما رہی ہے۔ پیر و مرشد نے آپ سے فرمایا کہ حضور ﷺ کی یاد میں آنسو بہانا بھی کسی سعادت سے کم نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے تمہارا صدائیں سن لیں ہیں۔ اب یقینا تم محروم نہیں رہو گے۔ حضرت بلھے شاہ رحمتہ اللہ نے فرمایا پیر و مرشد میرے حق میں دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی مجھے رسول کریم ﷺ کی زیارت کی سعادت نصیب فرمائے۔ حضرت شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کیا تم مدینہ منورہ جانا چاہتے ہو۔ آپ نے جواب دیا خواہش تو یہی ہے۔ اس پر پیر و مرشد نے قدر سکوت اختیار کیا اور پھر فرمایا اللہ تعالی بہتر کرے گا۔ ان شاء اللہ تعالی تین دن کے اندر اندر تمہیں معلوم ہو جائے گا۔
حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ پیر و مرشد کی خدمت میں ٹھہر گئے۔ تیسرے روز آدھی رات کے وقت اپنے اوراد و وظائف سے فراغت پانے کے بعد سونے کے لیے بستر پر لیٹے تو دل میں رسول کریم ﷺ کے دیدار کی تڑپ بے چین کر رہی تھی۔ لیٹتے ہی نیند آ گئی خواب میں حضور ﷺ کے دیدار کی سعادت حاصل ہوئی۔ جب آنکھ کھلی تو مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے جو اس وقت تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد مراقبہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک لمحہ کے بعد انھوں نے سر اٹھایا اور فرمایا اب تمہارا مقصد پورا ہو گیا۔ حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ پیر و مرشد کے قدموں سے لپٹ گئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ پیر و مرشد نے آپ کے سر پر دست شفقت پھیرا اور فرمایا اے عبد اللہ! اللہ تعالی علیم و خبیر ہے اس پرورد گار نے اس عاجز بندے کی لاج رکھ لی اور تمہیں رسول کریم ﷺ کے دیدار کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ تم منورہ طیبہ کی زیارت کی خواہش کر رہے تھے اور پرورد گار عالم نے تمہیں مدینہ والے کی زیارت سے مشرف فرما دیا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
پانڈوکے واپسی:
اس کے بعد حضرت شاہ عنائیت قادری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بلھے شاہ کو اپنے گاؤں پانڈوکے جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ پانڈو کے آگئے۔ ایک مرتبہ گاؤں میں شدید قحط پڑا لوگ تنگ دست ہو گئے۔ آپ نے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے ڈیرے کا فرش انچا کرنا چاہتے ہیں۔ جو شخص دن بھر مٹی ڈالے گا اسے دو آنے یومیہ اجرت ملے گی۔ چنانچہ بہت سے لوگ اس کام کو کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ آپ روزانہ شام کو مصلے کے نیچے سے رقم نکال کر ان لوگوں میں تقسیم کر دیتے۔ آپ کا یہ معمول دیکھ کر دو آدمیوں کے دل میں لالچ پیدا ہوا اور انھوں نے سوچا کہ صرف آپ کے مصلے کے نیچے کافی نقدی موجود ہے۔ چنانچہ یہ دونوں شخص رات کے وقت آئے اور انھوں نے اس جگہ کی خوب تلاشی لی۔ حتی کہ مصلے کے نیچے والی زمین بھی کھود دی۔ کافی گہری کھدائی کے باوجود ان کو کچھ نہ ملا تو انھوں نے کھودی ہوئی مٹی واپس اس جگہ پر ڈال کر جگہ ہموار کر دی۔ اور اوپر پہلے کی طرح مصلی بچھا دیا تا کہ کسی کو پتا نہ چل سکے۔
اگلے دن وہ دونوں حسب معمول مزدوروں کے ساتھ مٹی ڈالتے رہے شام کو حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان دو آدمیوں سے کہا کہ اج کی مزدوری تہمیں ان تمام مزدویروں کو ادا کرنے کے بعد دی جائے گی۔ پھر آپ نے تمام مزدوروں کو دو دو آنے مزدوری کے ادا کئے اس کے بعد ان دونوں کو چار چار آنے دیئے۔ جس پر دوسرے مزدوروں نے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا، یہ بے چارے تو رات کر بھی کام کرتے رہے ہیں اس لیے یہ دگنی مزدوری کے مستحق ہیں یہ سن کر وہ دونوں آدمی بہت شرمسار ہوئی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
گستاخ کو سزا مل گئی:
حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب کرامت ولی اللہ تھے بعض اوقات طبیعت میں جلال بھی آ جاتا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ پانڈوکے گاؤں اور اس کے نواح میں شدید موسلادھار بارش ہو رہی تھی سردیوں کا موسم تھا۔ زبردست طوفانی بارش تھی اتفاق سے اس وقت آپ کے گھر میں سوائے واتین کے اور کوئی بھی نہیں تھا۔ آپ کا مکان کچھا تھا اور اس کی چھت پر لکڑی کا پرنالہ لگا ہوا تھا۔ بارش کے دوران آپ کے مکان کی بائیں جانب سے ایک راجپوت جو کہ چوہدری پانڈو کی اولاد میں سے تھا گزر رہا تھا اس کے ہاتھ میں بانس کی ایک لمبی سی چھڑی تھی اس نے شرارت کرتے ہوئے مکان کی چھت پر لگے ہوئے پرنالے کو چھڑی سے گرا دیا جس کے باعث چھت پر اکٹھا ہونے والا پانی مکان کے اندر گرنے لگا اس شخص کی اس شرارت کو ملحقہ مسجد سے ایک شخص نے دیکھ لیا۔ جب حضرت بلھے شاہ تشریف لائے تو اس نے آپ کو صورتحال سے آگاہ کیا کہ فلاں شخص نے یہ شرارت کی ہے۔
حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ یہ سن کر جلال میں آ گئے اور فرمایا کہ وہ شخص اپنے گھر خیریت سے پہنچ گیا ہے؟ وہ شخص ابھی اپنے گھر نہیں پہنچا تھا ابھی راستے میں تھا کہ اس کے پیٹ میں اس قدر شدید درد ہوا کہ وہ تڑپنے لگا کس نے اس کے گھر جا کر بتایا تو اس کے والدین دوڑے ہوئے آئے ان کو جب یہ پتہ چلا کہ ان کے بیٹے نے شرارت کی ہے تو وہ آپ سے معافی مانگنے کی غرض سے آپ کے گھر کی طرف بھاگے مگر ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ ان کو اطلاع مل گئی کہ وہ شخص فوت ہو گیا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
پانڈوکے پر سکھوں کا حملہ:
حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالٰی علیہ نے پانڈوکے میں ایک طویل عرصہ گزارا اسی گاؤں میں آپ کے والدین کی وفات ہوئی۔ والدین کے وصال کے بعد آپ کی چھوٹی بہن بھی انتقال کر گئیں صرف ایک بڑی بہن زندہ تھیں جو آپ کے ہمراہ رہتی تھیں، ان دنوں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر وفات پا چکا تھا۔ پورے ہندوستان خصوصًا پنجاب میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا سکھوں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پنجاب میں اپنا اقتدار قائم کرنے کی غرض سے اپنی طاقت کو بڑھانے میں مصروف تھے۔
ایسے ہی حالات میں دو ہزار سکھوں پر مشتمل ایک جتھے جس کے پاس توپ خانہ بھی تھا ملتان پر حملے کی غرض سے پیش قدمی کر رہا تھا یہ جتھہ جب رائے ونڈ کے نزدیک پہنچا تو وہاں پر اس نے پڑاؤ ڈالا۔ ایک سکھ سپاہی جو کہ موضع گھونڈ کا رہنے والا تھا وہ اپنے آفیسر سے ایک رات کی چھٹی لے کر اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوا تا کہ اپنے بیوی بچوں سے مل آئے۔ اس کے گاؤں کے راستے میں پانڈو کے پڑتا تھا۔ پانڈوکے میں رہنے والے تمام راجپوت بہت متکبر اور اکھڑ مزاج تھے وہ اپنے گاؤں سے کسی بھی گھڑ سوار کو نہیں گزرنے دیتے تھے انہوں نے اعلان کر رکھا تھا کہ اگر کسی میں جرأت ہے تو ہمارے علاقے میں گھوڑے پر بیٹھ کر گزر کر دکھائے۔ جب وہ سکھ سپاہی گھوڑے پر سوار گاؤں میں سے گزرا تو انہوں نے سپاہی کو ٹوکا۔ بات تکرار تک پہنچی اور ہاتھا پائی تک نوبت آگئی رنگڑ جوانوں نے اسے گھوڑے سے اتار لیا اس سے گھوڑا چھین لیا اور اس کی خوب پٹائی کی۔
سکھ سیاہی کو گھسیٹ کر گاؤں کی اس جگہ پر لایا گیا جہاں پر موچی چمڑا رنگتے تھے انہوں نے سکھ سپاہی کی پگڑی اتار کر پھینک دی اور اس کے بال کھول دئیے گندہ پانی اس کے سر اور منہ میں ڈالا گیا اس پر بری طرح تشدد کیا گیا اور اسے خوب ذلیل کیا گیا۔ گاؤں کا سردار پانڈو اس دن اتفاق سے گاؤں میں موجود نہیں تھا۔ سکھ سپاہی کی اس درگت کا سن کر حضرت بلھے شاہ رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ وہاں پر تشریف لائے اور آگے بڑھ کر ان نوجوانوں سے سکھ سپاہی کو چھڑایا اسے گاؤں کی حد سے باہر لے گئے اور گھوڑے پر سوار کر کے وداع کر دیا۔ واپس آئے تو لوگ آپ پر سخت ناراض ہوئے اور اشتعال پر اتر آئے کہ آپ نے ایک غیر مسلم کی حمایت کیوں کی اسی اثناء میں گاؤں کا سردار چوہدری پانڈو بھی آ گیا اس نے بغیر کسی سوچ بچار کے یہ فیصلہ دے دیا کہ حضرت بلھے شاہ رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ کو پتھر مار کر یہاں سے نکال دیا جائے۔ گاؤں کے لوگوں کی اکثریت حضرت بلھے شاہ رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ کا احترام کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی آپ کو پتھر مارنے پر راضی نہ ہوا مگر پانڈو اور اس کے بھائی سدھار کی اولاد نے آپ پر اینٹ روڑے برسائے جس سے آپ زخمی ہوگئے۔
چوہدری پانڈو کا داماد شیخو جو آپ کا عقیدت مند تھا اس نے آگے بڑھ کر آپ کو بچایا حضرت بلھے شاہ رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ اس واقعہ سے اس قدر رنجیدہ اور دلبرداشتہ ہوئے کہ گاؤں چھوڑ کر تقریبا تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع موضع دفتوہ میں چلے گئے۔ گاؤں کے چند معززین اکٹھے ہوئے اور آپس میں صلاح و مشورہ کر کے چوہدری پانڈو کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ حضرت سید بلھے شاہ سادات گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والد ہماری مسجد کے امام رہ چکے ہیں۔ آپ خود بھی تقویٰ، نیکی اور شرافت میں بے مثال ہیں جب اردگرد کے لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے کہ پانڈو کس قدر بد لحاظ اور نا قدر شناس شخص ہے کہ اس نے ایک سید زادے اور عالم زادے کو اپنے گاؤں سے نکال دیا ہے یہ راجپوتوں اور راٹھوں کا شیوہ نہیں ہے۔
چوہدری پانڈو بھی پشیمان ہوا اور فیصلہ ہوا کہ آپ کو منا کر واپس گاؤں میں لایا جائے، چنانچہ چوہدری پانڈو، اس کا بھائی سدھار اور داماد شیخو آپ کو منا کر واپس لانے کے لیے پہنچے اور کہا کہ ہم آپ کو لینے کے لیے آئے ہیں آپ ہمارے ساتھ گاؤں چلیں۔ آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا، ہم اس گاؤں کو چھوڑ آئے ہیں اب دوبارہ اس گاؤں میں نہیں جائیں گے۔ چوہدری پانڈو نے کہا اگر آپ آرام سے ہمارے ساتھ واپس گاؤں نہیں جائیں گے تو ہم آپ کو زبردستی اٹھا کر لے جائیں گے۔ آپ نے پھر انکار کیا اور پانڈونے نہائیت بے ادبی کے ساتھ زبردتی کرتے ہوئے بازوؤں سے پکڑ کر گھسیٹا۔ آپ نے فرمایا، میرے بازو کو چھوڑ دو ہم نہیں جائیں گے اس پر پانڈو نے کہا کہ ہم آپ سے دعا يا بددعا کچھ نہ کچھ تو لے کر ہی جائیں گے اور خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔
حضرت بلھے شاہ رحمة الله تعالٰی علیہ نے فرمایا، میرے پاس دعا ہے نہ بد دعا۔ پانڈو اپنی ضد پر قائم رہا کہ ہم ضرور آپ کو ساتھ لے کر جائیں گے تلخ کلامی اور گستاخی کے انداز میں بحث و تکرار کرتا رہا اور دھمکیاں بھی دیتا رہا اور بازو سے پکڑ کر کھینچتا بھی رہا اس آپ جلال میں آگئے اور فرمایا

بلھا جے توں غازی بننا ئیں لک بنھ تلوار
پہلوں رنگڑ پانڈو مار کے پچھوں کافر مار
اجڑ گئے پانڈوکے نگھر گیا سدھار
وسدا رہے شیخوپورہ لگی رہے بہار​

آپ کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ قہر الٰہی بن گئے۔ وہ سکھ سپاہی اپنے بیوی بچوں سے مل کر جب واپس اپنے جتھہ میں پہنچا تو اپنے افسروں کو تمام واقعہ سنایا جسے سن کر تمام لشکر طیش میں آگیا اور ملتان جانے کی بجائے پانڈوکے پر چڑھ دوڑا۔ گاؤں کو لوٹ لیا گیا اور خوب قتل و غارت گری کی۔ پانڈو نے جب اپنے گاؤں پر سکھوں کا حملہ دیکھا تو وہ کسی طرح بھاگ کر آپ کے پاس پہنچا اور عرض کیا کہ حضور میرا کچھ تو رہنے دیں۔ آپ نے فرمایا، اے پانڈو! تمہارا رہا تو کچھ بھی نہیں البته گاؤں کا نام پانڈوکے ضرور رہے گا اور جب تک یہ گاؤں رہے گا تمہارا نام بھی رہے گا تا کہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں۔ سکھ لشکر پانڈوکے میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کر کے واپس چلا گیا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
وصال مبارک:
حضرت بلھے شاہ رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ کا وصال 1171 ہجری میں ہوا جبکہ ایک روایت کے مطابق 1181 ہجھی کے بعد ہوا۔ مزار مبارک قصور میں ہے۔ مزار مبارک کے اوپر لگے قطعہ پر لکھا ہے۔
چوں بلھے شاه شیخ ہر دو عالم
مقام خویش اندر خلد در زید
رقم کن شیخ اکرام ارتحاش
دگر ہادی اکبر مست توحيد​
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
شاعری:
حضرت بلھے شاه رحمة الله تعالٰی علیہ پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ اگرچہ عربی اور فارسی زبان میں آپ کوعبور حاصل تھا مگر آپ نے پنجابی زبان کو شاعری کا ذریعہ اظہار بنایا۔ آپ نے اپنی شاعری میں روحانیت اور فلسفے کو یکجا کر دیا ہے آپ کی شاعری کا اصل موضوع تصوف ہے۔ آپ کے کلام کا ایک حصہ عشق الٰہی سے متعلقہ ہے اور اس کی ابتداء آپ عشق مجازی یعنی عشق مرشد سے کرتے ہیں۔ اور بدریج فنا فی الشیخ سے ترقی کرتے ہوئے فنا فی الرسول اور فنا فی ﷲ تک لے جاتے ہیں۔ آپ اپنے پیر و مرشد کو فنا فی ﷲ کا مقام دیتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں
بلھا شاہ دی ذات نہ کائی
میں شاہ عنائیت پایا ہے​
ترجمہ: اے بلھے ﷲ کی کوئی ذات نہیں ہے اور مجھے اپنے پیر عنائیت شاہ میں ﷲ کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔ ایک اور مقام پر حضرت بلھے شاہ رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ اپنے مرشد کو سچا عارف، روح کا مالک اور لوہے کو سونا بنانے والا پارس قرار دیتے ہیں۔
بلھا شاہ عنائیت عارف ہے
اوہ دل میرے دا وارث ہے
میں لوہا تے اوہ پارس ہے​
آپ کے کلام سے توحید الٰہی، فنا فی ﷲ اور وحدت الوجود کے بھید سے آگاہی ملتی ہے۔ اس ضمن میں بھی اپنے پیر و مرشد کی تعریف کرتے ہیں کہ
جد میں سبق عشق دا پڑھیا
دریا دیکھ وحدت دا وڑیا
گھمن گھیراں دے وچ اڑیا
شاہ عنائیت لایا پار​
حضرت بلھے شاہ رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ توحید کے نقطے کو سمجھنے کے لیے اپنا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
الف ا ﷲ نال رتّا دل میرا
مینوں ب دی خبر نہ کائی
ب پڑھیاں کجھ سمجھ نہ آوے
لذت الف دی آئی
عین تے غین دا فرق نہ جانا
ایہہ گل الف سمجھائی
بلھیا قول الف دے پورے
جیھڑے دل دی کرن صفائی​
آپ کے کلام میں سادگی اور شائستگی کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ نہایت سادہ اور دلپزیر الفاظ میں اپنی بات کو بیان کرتے ہیں۔ اپنے زمانے کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس طرح اظہار فرماتے ہیں:
جدوں اپنی اپنی پے گئی
دھی ماں نوں لٹ کے لے گئی
منہ بارہویں صدی پساریا
سنوں آ مل یار پیارا​
حضرت بلھے شاہ رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ کی شاعری کی نمایاں خصوصیت نہایت سادہ اور عام فہم زبان میں زندگی کی بڑی پیچیدہ اور گہری حقیقتوں کو واضح طور پر بیان کرنا ہے۔ آپ کا طرز اظہار انتہائی خوبصورت اور بھرپور دل کشی کا حامل ہے۔ جس میں اثر انگیزی اور معنویت پائی جاتی ہے۔ اپنی شاعری اور کلام کے اعتبار سے آپ ایک صاحب بصیرت اور گہری نگاہ رکھنے والے بلند مرتبہ صوفی دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کا کلام اذہان و قلوب پر جلد اثر دکھاتا ہے۔ آپ کی کافیاں درد اور سوز کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ میاں محمد بخش رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ
بلھے شاہ دی کافی سن کے ٹٹ دا کفر اندر دا​
غیر مسلموں نے بھی آپ کی شاعری و کلام کے حوالے سے آپ کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ چنانچہ مس لاجونتی راما کرشنا اپنی کتاب (Punjabi Sufi Poet) کے اقتباس میں اس طرح لکھتی ہیں کہ:
" ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ پنجاب کے سب سے بڑے صوفی شاعر تھے۔ شہرت اور ہر دل عزیزی میں کوئی اور پنجابی صوفی شاعر ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا ان کی کافیاں بے مثال اور ہردل عزیز ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ حضرت بلھے شاہ رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ دنیا کے عظیم ترین صوفیاں میں سے ہیں اور تخیل میں وہ جلال الدین رومی رحمتہ ﷲ تعالٰی علیہ اور شاہ شمس تبریز رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ کے ہم پلہ ہیں"۔
اس سے بخوبی طور پر جانا جا سکتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ کے کلام کی خوبی کا ہر کوئی معترف ہے اور آپ کے کلام کی اثر آفرینی سے انکار ممکن نہیں۔
 
Top