الحمد لله وكفى والصلاة والسلام على النبي المصطفى وعلى آله وصحبه ومن اقتفى هديه ثم أمّا بعد
سوال : مسلم شریف میں حدیث ہے کہ (عن)حُذَيْفَةُ أَخْبَرَنِي عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ . مسلم 7035اس حدیث میں اصحابی(یعنی میرے صحابہ میں ) کیا صحابہ کرام میں منافقین بھی تھے ؟ کچھ لوگ اس حدیث کو لے کر صحابہ کرام پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں ، حدیث کی تشریح فرماکر ممنون فرمائیں .
الجواب : حدیث کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ صحابی کسے کہتے ہیں اس کی تعریف کیا ہے ۔
تو جان لیں کہ صحابی کی ایک تعریف شرعی ہے اور دوسری عرفی ۔
صحابی کی تعریف شرعی : حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی مشہور کتاب “الإصابة في تمييز الصحابة” میں “صحابی” کی تعریف یوں کی ہے : الصحابي من لقي النبي صلى الله عليه وسلم مؤمنا به ، ومات على الإسلام.
صحابی اسے کہتے ہیں جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی فوت ہوا۔
پھر درج بالا تعریف کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمة اللہ مزید کہتے ہیں :
فيدخل فيمن لقيه من طالت مجالسته له أو قصرت ، | ومن روى عنه أو لم يرو ، ومن غزا معه أو لم يغز ، ومن رآه رؤية ولو لم يجالسه ، ومن لم يره لعارض كالعمى . ويخرج بقيد الإيمان من لقيه كافرا ولو أسلم بعد ذلك إذا لم يجتمع به مرة أخرى .
ترجمہ : اس تعریف کے مطابق ہر وہ شخص صحابی شمار ہوگا جو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حال میں ملا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت کو مانتا تھا پھر وہ اسلام پر ہی قائم رہا یہاں تک کہ اس کی موت آ گئی خواہ وہ زیادہ عرصہ تک رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت میں رہا، یا کچھ عرصہ کے لیے خواہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احادیث کو روایت کیا ہو یا نہ کیا ہوخواہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو خواہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا (بصارت نہ ہونے کے سبب) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دیدار نہ کر سکا ہو ہر دو صورت میں وہ “صحابئ رسول” شمار ہوگا۔ اور ایسا شخص “صحابی” متصور نہیں ہوگا جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہو۔
بحوالہ:الإصابة في تمييز الصحابة : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي ، ج:1 ، ص:7-8
فضائل اصحاب النبی (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے ضمن میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
عن عبد الله بن عمر، قال: من كان مستناً فليسن. ممن قد مات، أولئك أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا خير هذه الأمة، أبرها قلوباً، وأعمقها علماً، وأقلها تكلفاً، قوم أختارهم الله لصحبة نبيه صلى الله عليه وسلم ونقل دينه، فتشبهوا بأخلاقهم وطرائقهم فهم أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا على الهدى المستقيم. حلية الأولياء لأبي نعيم ، ج:1 ، ص:164)
ترجمہ : اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتا ہو تو وہ اصحابِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت پر چلے جو وفات پا چکے ہیں ، وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت کے لیے ، اور آنے والی نسلوں تک اپنا دین پہنچانے کے لیے چُن لیا تھا ، اس لیے تم انہی کے طور طریقوں کو اپناؤ ، کیونکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی تھے ، اور صراط مستقیم پر گامزن تھے۔
بحوالہ : حلية الأولياء لأبي نعيم ، ج:1 ، ص:164)
اس تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ : ایسا شخص “صحابی” متصور نہیں ہوگا جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہو۔ بحوالہ : الإصابة في تمييز الصحابة : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي ، ج:1 ، ص:7-8
صحابی کی عرفی تعریف : اس سے مراد یہ ہے کہ عرف عام میں کسی کو صاحب یا صاحبی کے لقب سے یاد کیا جائے اس سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ وہ مسلمان اصحاب رسول ﷺ میں سے ہیں .
جیسا کہ بخاری ہی کی ایک روایت میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے “صحابی” کے الفاظ استعمال کیا ہے ۔ واقعہ یوں ہے …..
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ، ہم ایک غزوہ ( تبوک ) میں تھے ۔ مہاجرین میں سے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کو لات ماردی ۔ انصاری نے کہا کہ یا للانصار یعنی اے انصاریو ! دوڑو اور مہاجر نے کہا یا للمھاجرین یعنی اے مہاجرین ! دوڑو ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے سنا اور فرمایا کیا قصہ ہے ؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات سے مار دیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح جاہلیت کی پکار کو چھوڑ دو کہ یہ نہایت ناپاک باتیں ہیں ۔ عبداللہ بن ابی نے بھی یہ بات سنی تو کہا اچھا اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی ۔ خدا کی قسم ! لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ
جب ہم مدینہ لوٹیں گے تو ہم سے عزت والا ذلیلوں کو نکال کر باہر کردے گا ۔ اس کی خبر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی ۔ (فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کو ختم کردوں ۔
فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ . البخاري . 4905
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے چھوڑ دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے (صحابہ)ساتھیوں کو قتل کرا دیتے ہیں ۔ بخاری
اس روایت میں “أَصْحَابَهُ” سے مراد شرعی صحابی نہیں بلکہ عرفاً صحابی مراد ہے۔ ورنہ عبد اللہ بن ابی بن سالول کو کون نہیں جانتا کہ وہ صرف منافق ہی نہیں بلکہ رائیس المنافقین ہے .
قرآن کریم میں خود رسول اکرم ﷺ کو مکہ والوں کا صاحب (ساتھ رہنے) والا کہا گیا ہے :
قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ ‘‘
کہہ دیجیئے! کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے [ضد چھوڑ کر] دو دو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی، تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون نہیں، سورۃ سبا ۴۶
تو صرف مکہ میں ایک طویل عرصہ ساتھ رہنے کے سبب پیغمبر اکرم ﷺ کو ان کا ساتھی (صاحب ) کہا گیا ،
اور اسلئے بھی (صاحب ) کہا کہ اتنے طویل عرصہ جس کے ساتھ رہتے ہو اس کی صداقت و عدالت اور اخلاق کو تم خوب پہچانتے ہو، چالیس سال سے جو آدمی تمہارے ساتھ اتنے اعلی اخلاق کا نمونہ بن کر زندگی گزارتا رہا تم اسے (عقل وخرد سے عاری ) کیسے قرار دے سکتے ہو ،
اب کون اس آیت میں وارد لفظ (صاحب ) جس سے صحابی بنتا ہے اس کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ تو مکہ والوں کے صحابی ہیں ؟
ابھی ہم مسلم شریف کی حدیث کی طرف آتے ہیں ، جس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان ہے :
في أصحابي اثنا عشر منافقاً لا يدخلون الجنة، ولا يجدون ريحها
میرے ساتھیوں میں 12 منافق ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے اور نہ اس کی خوشبو پائیں گے .صحيح مسلم ، كتاب صفات المنافقين وأحكامهم
بھلا بتائیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی نبی سے ایسی بیشمار متواتر روایات منقول ہوں جن میں صحابہ کرام کے فضائل بیان کئے گئے حتیٰ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ تک کہے کہ :
لا تسبوا أصحابي . میرے صحابہ کو برا نہ کہو. صحيح بخاری ، كتاب فضائل الصحابة
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) جو اپنے صحابہ کو برا نہ کہنے کی نصیحتیں کرتا ہے ، وہ خود اپنے صحابہ کو منافق کہے؟؟ اور یہ کہے کہ وہ جنت میں نہیں جائیں گے؟؟
یا تو ان روایات کو جھوٹ ماننا ہوگا یا پھر کوئی تطبیق دینی ہوگی۔
ان روایات کو اہل سنت والجماعت جھوٹ قطعاً نہیں کہتے بلکہ ان جیسے روایات کی تظبیق کرتے ہیں ،لہذا ہمارے علماء و ائمہ ومحدثین نے یہی تطبیق دی ہے کہ :
متذکرہ منافقین عرفاً نبی کے ساتھی تھے [یعنی کہ بالکل ویسے ہی جیسے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کو نبی نے اپنے “أصحابي” میں شمار کیا]، اصطلاحی و شرعی معنوں میں وہ “صحابی” نہیں تھے ، کیونکہ صحابی کی اجماعی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ وفات “ایمان” پر ہوئی ہو!
اور جن منافقین کو اللہ تعالیٰ خود کہہ چکا ہے کہ وہ “مرتد” ہو چکے ، وہ بھلا کس طرح “صحابی” کی تعریف میں شمار ہو سکتے ہیں؟؟
اس حدیث میں وارد لفظ «في أصحابي اثنا عشر منافقا » سے مراد انصار و مہاجرین کے مخلصین نہیں ، جن کی تعریف و مدح میں قرآن کریم کی آیات وارد ہیں ‘‘
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورۃ التوبۃ 100)
علامہ النووی ؒ اس حدیث کے تحت شرح میں لکھتے ہیں : (أما قوله صلى الله عليه وسلم في أصحابي فمعناه الذين ينسبون إلى صحبتي كما قال فى الرواية الثانية فى أمتى )
نبی مکرم ﷺ نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ سے بارہ منافق ہیں ،تو اس کا مطلب صرف صحبت سے منسوب ہونا ہے (نہ کہ اصل صحابی ) جیسے دوسری سند سے یہاں لفظ ( میری امت سے ) ہے ‘‘
یعنی یہاں صحابی کے لفظ سے مراد سچے اور عادل صحابہ نہیں ، بلکہ اس دور میں اسلام سے منسوب ،اور ایمان کا دعوی رکھنے والے منافقین ہیں ،
نوٹ :
اس کی وضاحت ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے جو مسلم شریف میں ٹھیک اس کے بعد ہے .
حَدَّثَنِي حُذَيْفَةُ وَقَالَ غُنْدَرٌ أُرَاهُ قَالَ فِي أُمَّتِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدُونَ رِيحَهَا حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ . مسلم
میری امت میں بارہ منافق ہیں، وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے اور نہ اس کی خوشبو پائیں گے، جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہ ہو جائے. صحیح مسلم حدیث نمبر: 7036 . کتاب: منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام .
صحیح مسلم کی پہلی روایت کہ جس میں فِي أَصْحَابِي کے الفاظ ہیں، کو اسود بن عامر نے شعبہ سے بیان کیا ہے۔ اور صحیح مسلم کی دوسری روایت کہ جس میں فِي أُمَّتِي کے الفاظ ہیں، کو غندر محمد بن جعفر نے شعبہ سے نقل کیا ہے۔ شعبہ کے بعد سند ایک ہی ہے۔
تو اب سوال یہ ہے کہ جب دو راویوں نے شعبہ سے روایت میں اختلاف کیا ہے تو ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کس راوی نے شعبہ کے بیان کو زیادہ محفوظ رکھا ہے۔ تو یہ واضح رہے کہ اسود بن عامر، شعبہ کے عام شاگردوں میں سے ایک ہیں جبکہ غندر محمد بن جعفر، شعبہ کے خاص ترین شاگرد ہیں۔ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ غندر نے بیس سال شعبہ سے علم حاصل کیا۔ امام عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ اگر شعبہ سے روایت میں اختلاف ہو جائے تو غندر کی روایت کو فیصلہ کن سمجھو۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ غندر، امام شعبہ کے ربیب ہیں یعنی ان کی بیوی کے بیٹے ہیں۔ دوسرا غندر کو یہ بھی ترجیح حاصل ہے کہ وہ احادیث لکھ لیتے ہیں بلکہ امام ذہبی کے بقول لکھنے میں أصح الناس كتابا تھے یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ صحیح لکھنے والے۔ اور شعبہ سے انہوں نے بہت احادیث لکھی ہیں۔
خلاصہ کلام:
مندرجہ بالا حدیث میں متذکرہ منافقین عرفاً نبی کے ساتھی تھے، شرعا نھیں [یعنی کہ بالکل ویسے ہی جیسے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کو نبی نے اپنے “أصحابي” میں شمار کیا]، اصطلاحی و شرعی معنوں میں وہ “صحابی” نہیں تھے ، کیونکہ صحابی کی اجماعی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ وفات “ایمان” پر ہوئی ہو!
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ مسلم شریف روایت میں "اصحابی” سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت ہرگز مراد نہیں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت کا کوئی فرد مرتد نہیں ہوا ، اور اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے ایمان کو "معیارحق "اوران کے ایمان کو امت مسلمہ کےایمان کی کسوٹی قراردیا اور جناب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی ساری جماعت کو بلااستثناء آسمان ہدایت کے ستارے فرمایا اور ان کے بارے میں زبان درازی سے منع فرمایا۔
اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی صحابہ کرام کی ایمان کو معیار بنا کر دعوت دیں کی اس طرح ایمان لے ائیں جیسا کہ سورۃ البقرۃ 137 میں ہے
فَإِنْ ءَامَنُواْ بِمِثْلِ مَآ ءَامَنتُم بِهِۦ فَقَدِ ٱهْتَدَواْ ۖ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا هُمْ فِى شِقَاقٍۢ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ ٱللَّهُ ۚ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ.
اصل واقعہ کیا ہے ۔
یہ واقعہ معجم طبرانی میں اور مسند البزار ولید بن جمیع کی سند سے آیا ہے ،
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ غَزْوَةُ تَبُوكَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الْعَقَبَةَ فَلَا تَأْخُذُوهَا فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَقَبَةِ، وَعَمَّارٌ يَسُوقُ، وَحُذَيْفَةُ يَقُودُ بِهِ فَإِذَا هُمْ بِرَوَاحِلَ عَلَيْهَا قَوْمٌ مُتَلَثِّمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُدْ قُدْ، وَيَا عَمَّارُ سُقْ سُقْ» ، فَأَقْبَلَ عَمَّارٌ عَلَى الْقَوْمِ فَضَرَبَ وُجُوهَ رَوَاحِلِهِمْ فَلَمَّا هَبَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَقَبَةِ قَالَ: ” يَا عَمَّارُ، قَدْ عَرَفْتُ الْقَوْمَ، أَوْ قَالَ: قَدْ عَرَفْتُ عَامَّةَ الْقَوْمِ أَوِ الرَّوَاحِلِ أَتَدْرِي مَا أَرَادَ الْقَوْمُ؟ “، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «أَرَادُوا أَنْ يَنْفِرُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے کہا جب جنگ تبوک ہوئی اپ صلی الله علیہ وسلم نے منادی کا حکم دیا کہ وہ گھاٹی میں سے جائیں گے کوئی اور اس میں سے نہ گزرے پس اپ گھاٹی میں سے گزرے اور عمار اونٹنی ہانک رہے تھے اور اس کی نکیل پکڑے تھے کہ ایک قوم ڈھاٹے باندھے آئی پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عمار کو حکم کیا پس عمار آگے بڑھے اور ان کے چہروں پر ضربیں لگائیں نکیل سے پس جب اس گھاٹی سے اترے اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اے عمار کیا تم ان کو جانتے ہو؟ یہ کیا چاہتے تھے ؟ میں نے کہا الله اور اس کا رسول جانتے ہیں فرمایا یہ ہمیں (گھاٹی میں ) دھکیلنا چاہتے تھے.
صفی الرحمٰن مبارکپوری نے اپنی کتاب ” الرحیق المختوم ” میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے
اسلامی لشکر تبوک سے مظفر و منصور واپس آیا ۔ کوئی ٹکر نہ ہوئی ۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا ۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے گزر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے ۔ باقی صحابہ کرام دور وادی کے نشیب سے گزر رہے تھے اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا ۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی حسب معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں ۔ یہ سب چہروں پہ ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا ۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جا ملے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ رازدان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ ’’ وَھَمُّوْا بِمَا لَم یَنَالُوْا. ( التوبۃ-74) انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پا سکے .
(وَ ھَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا) سے متعلقہ سبب نزول معلوم کیجیے اور وہ یہ ہے کہ منافقین میں سے بارہ آدمی تبوک کے راستہ میں ایک گھاٹی پر ٹھہر گئے۔ انہوں نے یہ مشورہ کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس سے گزریں گے تو اچانک رات کی اندھیری میں آپ پر حملہ کر کے آپ کو شہید کردیں گے۔ جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور انہوں نے آپ کو ان کی نیتوں کا حال بتادیا اور عرض کیا کہ ان لوگوں کے پاس کسی شخص کو بھیج دیں جو ان کا رخ دوسری طرف کو موڑ دے۔ آپ نے حضرت حذیفہ ؓ کو اس کام کے لیے بھیج دیا۔ صاحب معالم التنزیل (ص 312 ج 2) نے بالا جمال یہ واقعہ اسی طرح نقل کیا ہے لیکن صاحب روح المعانی (ص 139 ج 10) نے بیہقی کی دلائل النبوۃ سے قدرے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور وہ یہ کہ حضرت حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ جب آنحضرت سرور عالم ﷺ غزوۂ تبوک سے واپس ہو رہے تھے تو میں آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑے ہوئے آگے آگے چل رہا تھا اور عمار پیچھے پیچھے جا رہے تھے یہاں تک کہ جب ایک گھاٹی آگئی تو وہاں بارہ آدمیوں کو پایا جو سواریوں پر سوار تھے اور انہوں نے راستہ روک رکھا تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بتادی آپ نے جو زور سے آواز دی تو وہ لوگ پیٹھ پھیر کر چلے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے پہچانا کہ یہ کون لوگ تھے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم نہیں پہچان سکے۔ کیونکہ یہ لوگ چہروں پر کپڑے باندھے ہوئے تھے۔ البتہ ہم نے ان کی سواریوں کو پہچان لیا۔ آپ نے فرمایا یہ لوگ منافق تھے جو قیامت تک منافق ہی رہیں گے۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ ان کا کیا ارادہ تھا ؟ ہم نے عرض کیا نہیں ! فرمایا ان کا ارادہ یہ تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کو گھاٹی میں نیچے گرا دیں۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ان کے قبیلوں کے پاس یہ حکم نہیں بھیجتے کہ ان میں سے ہر ایک کا سر کاٹ کر بھیج دیں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات گوارا نہیں ہے کہ اہل عرب یوں باتیں کریں کہ محمد ﷺ نے ایک قوم کو ساتھ لے کر قتال کیا یہاں تک کہ جب اللہ نے آپ کو غلبہ دے دیا تو ان لوگوں کو قتل کرنے لگے جو جہادوں میں ساتھ تھے۔ منافقین کی نیتوں اور حرکتوں کو ان الفاظ میں بیان فرمایا (وَ ھَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا) (انہوں نے اس چیز کا ارادہ کیا جس میں کامیاب نہ ہوئے)
اور طبرانی میں ان کے نام بھی موجود ہیں ، وترجم الطبراني في مسند حذيفة 33017 تسمية أصحاب العقبة
ثم روى عن علي بن عبد العزيز عن الزبير بن بكار أنه قال هم :
1 معتب بن قشير . 2 ديعة بن ثابت . 3 جد بن عبد الله بن نبتل بن الحارث من بني عمرو بن عوف. 4 الحارث بن يزيد الطائي . 5 أوس بن قيظي . 6 الحارث بن سويد . 7 سعد بن زرارة. 8 قيس بن فهد . 9 سويد بن داعس من بني الحبلي. 10 قيس بن عمرو بن سهل
11 زيد بن اللصيت . 12 سلالة بن الحمام وهما من بني قينقاع .
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین میں صحیح سمجھ عطا فرمائے . واللہ اعلم بالصواب
شیخ اکبر حسین اورکزئی