معدہ اور مائدہ

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!

معدہ اور مائدہ

ناصرالدین مظاہری
6/ربیع الاول 1444ھ بعد العصر

’’ایک دن میں نے رات کومعمول سے زیادہ کھالیا،مجھے ثقل اورگرانی محسوس ہوئی ،نیند کا غلبہ ہوگیا،میری نمازبھی جاتی رہی،میں نے خواب میں کچھ عورتوں کودیکھا جومجھ پرنوحہ کر رہی تھیں،میں نے ان سے کہاکہ میں تو زندہ ہوں،انہوں نے جواب دیاکہ نہیں توزندہ نہیں بلکہ مردہ لوگوں میں سے ہے ،کیاتجھے معلوم نہیں کہ کھانے کی زدیاتی انسان کے جسم کومردہ کردیتی ہے اورآدمی کو پتھر کی طرح کردیتی ہے ،میں نے ان عورتوں سے پوچھاکہ اس سے نجات کاراستہ کیاہے ؟توجواب دیاکہ جب کھانے کی کچھ رغبت باقی ہوتو کھانا موقوف کردو یہ چیزتمہارے بدن کی سلامتی اور راحت کے لئے مناسب ہے ‘‘۔
(بھوک اورفاقہ کے فوائد)

بات کسی ایک جماعت اورایک قوم کی نہیں بالکل عمومی بات ہے جو لوگ زیادہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں وہ زیادہ سست،کاہل اورناکارہ ہوتے ہیں،بسیارخوری سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مسائل پیداہوتے ہیں۔

مجھ سے ایک غیرمسلم ڈاکٹرنے کہا کہ

’’ موجودہ مسلمانوں میں دو عادتیں ایسی ہیں جوپہلے کبھی نہیں تھیں نمبرایک مسلمان فالتو میں دیرتک جاگتا ہے نمبر دو کھانا ہمیشہ مرغن کھاتاہے ،اِن دونوں عادتوں کی وجہ سے وہ بہت سی نئی نئی پریشانیوں اور بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے چنانچہ دیر تک جاگنے سے نیندمیں کمی واقع ہوتی ہے، نیندمیں کمی صحت کی گراوٹ کاسبب بنتی ہے ،صحت میں گراوٹ کاموں سے دلچسپی کوختم کردیتی ہے، کاموں میں عدم دلچسپی غربت کاذریعہ بن جاتی ہے ،غربت انسان کوکہیں کانہیں چھوڑتی،غریب شخص کسی بھی مذہب کاہوسچی بات یہ ہے کہ اس کاکوئی مذہب نہیں ہوتا دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ مرغن اور تیل والی چیزیں کھاتاہے ،گوشت اس کو ہروقت چاہئے،گھی اورتیل کی چیزیں اسے نہایت مرغوب ہیں،سبزی سے وہ کوسوں دور رہتا ہے،سبزی کھائے گا تواس میں بھی گوشت ملادے گا،جس سبزی میں گوشت مل گیاتواس سبزی کی اپنی ذاتی افادیت متأثر ہوگئی ،اس کے نفع کی وہ حالت بالکل بدل جائے گی جو اللہ تعالیٰ نے اس میں رکھی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ مسلمان یہ شاندار کھانے کھاتاہے اور جانوروں کی طرح اسی جگہ ڈھیر ہوجاتاہے،اس کانفس آرام کاطالب ہوتاہے ،آرام کے نام پروہ کافی وقت ضائع اور برباد کردیتاہے ،صبح دیرسے سوکر اٹھتا ہے ،رات بھی مرغن چیزیں کھائی تھیں ،صبح بھی نہاری اور تہاری سے کم پرراضی نہیں ہوتا،اس کی وجہ سے اس کامعدہ بوجھل ہوجاتا ہے،اس کاپیٹ نکلنے لگتاہے،اس کے جسم میں چربی کی کثرت ہوجاتی ہے،پیدل چلنے پر اس کی طبیعت راغب اور راضی نہیں ہوتی ،سواری اورسہولت اس کامزاج بن جاتاہے، اس کی وجہ سے مسلمان صرف کھانے اور پاخانے تک محدود ہوکر رہ جاتاہے۔حضرت محمد صاحب کی ہسٹری میں نے پڑھی ہے، انہوں نے کبھی پیٹ بھرکر کھانا نہیں کھایا،میدہ تو دور کی بات ہے کبھی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائی ،ان کے صحابہ کئی کئی وقت بھوکے رہتے تھے،کھجوریں کھا کھا کر بلکہ کھجور کی گٹھلیاں چوس چوس کرجنگیں لڑی ہیں اور کامیاب ہوئے ہیں ،ان کی کامیابی میں ان کا ایمان تو شامل ہے ہی ان کی پھرتی اور ان جسم کا ہلکا پھلکا ہونا بھی ایک اہم وجہ ہے ، کسی بھی صحابی نے کبھی بھی پیٹ بھرکر کھانا نہیں کھایا، وہ لوگ زیتون کا کثرت سے استعمال کرتے تھے، تمام تیلوں میں صرف زیتون ہی ایک ایسا تیل ہے جس سے موٹاپا بڑھتانہیں گھٹتاہے،آپ لوگ چربی کے آگے زیتون کو گھاس نہیں ڈالتے،آپ کے یہاں مصالحے اس قدر کھائے جاتے ہیں کہ اس کی کوئی حد نہیں ہے، یہ مصالحے آگے چل کرمسئلہ پیدا کرتے ہیں ،ہمارا جسم ہمارے نفس کی طرح ہے ،جب ہمارا نفس ایک ہی چیز کو ہر وقت کھانے پرراضی نہیں ہوتاہے تو ہمارا معدہ کیونکر ہروقت ایک ہی چیزیعنی تیل گھی چربی،گوشت مصالحے وغیرہ کھاسکتاہے ؟اسی لئے بلڈپریشرکامسئلہ پیدا ہوتاہے،اسی لئے کولیسٹرول کی زیادتی ہوجاتی ہے،اسی لئے نظام ہاضمہ متاثر ہوجاتا ہے،اسی لئے طبیعت گری گری بوجھل رہنے لگتی ہے،آپ لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ کسی نبی کو کبھی ڈکار اور جمائی نہیں آئی لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جمائی اور ڈکار کا تعلق معدہ کے خالی اور بھرے ہونے سے ہے ،جب انسانی معدہ بالکل بھرجاتاہے توجمائی ،کاہلی،سستی اورآرام طلبی کامزاج پیدا ہوجاتا ہے، آپ نے جانوروں کودیکھاہے وہ ہمیشہ سادہ غذا کھاتے ہیں، اگر جانوروں کوبھی وہی غذا کھلائی جانے لگے جوانسان خاص کرمسلمان کھاتے ہیں تو گھوڑا دوڑنے سے،گدہا بوجھ لادنے سے،ہرن قلانچیں بھرنے سے معذور ہوجائے گا،اگرآپ نے دھیان دیا ہو تو محسوس بھی کیا ہوگاکہ پالتو جانوروں میں چربی کی مقدار جنگلی جانوروں سے زیادہ ہوتی ہے وجہ پر دھیان دیجیےصرف ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ ہے آرام طلبی، گھریلو اور پالتو جانور ایک کھونٹے سے بندھے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں چربی زیادہ پیدا ہوجاتی ہے اور گھروں کا کھانا،چارے کے ساتھ آٹا اور دیگروہ چیزیں بھی ملادی جاتی ہیں جن کاجانوروں کی غذاؤں سے تعلق نہیں ہے اس کے باعث جانوروں میں چربی اورموٹاپا بڑھ جاتا ہے ،وہی جانورجب ہماری غذا اور خوراک بنتا ہے توہمارے جسم کے اندربھی چربی کی مقداربڑھ جاتی ہے ‘‘۔

یہ ساری باتیں سہارنپورکے صوفیہ مارکیٹ میں موجود مشہور ڈاکٹر ایس ایس کمار سے گفتگو پرمبنی ہیں،وہ کہتے تھے کہ چیزوں کی اوریجنلٹی اسلام میں ہے لیکن ان کا استعمال مسلمان نہیں کرتے ،ڈاکٹرصاحب آنکھوں کے مشہور معالج تھے وہ کہتے تھے کہ میں ہمیشہ اپنی آنکھوں میں زمزم کے قطرات ٹپکاتا ہوں اور امراض چشم سے محفوظ رہتاہوں ،مسلمان زمزم کی پوری پوری بوتل بغیرکسی نیت کے ڈکار جاتاہے جب کہ اس کی تعلیم میں یہ چیز شامل ہے کہ زمزم کو جس نیت سے پیا جائے فائدہ ہوگا۔

ممکن ہے قارئین فرمائیں کہ ڈاکٹر صاحب مؤمن نہیں تھے مسلمان نہیں تھے ،اس لئے مذہبی معاملات میں ان کی باتیں لائق توجہ نہیں ہیں توبتاتا چلوں کہ حضرت عبدالرحمن بن زید نام کے ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ مسلمان سب سے پہلے جس چیزکے متعلق عمل کرتاہے وہ اس کاپیٹ ہے،پس اگر اس کاپیٹ راہ راست پر رہے تواس کا دین بھی اچھا رہتا ہے اور اگرپیٹ سرکشی کرے تو دین میں بھی بگاڑ پیداہوجاتا ہے۔

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے کون ناواقف ہے ان ہی کا ارشاد ہے کہ حکمت و دانائی ، بھرے معدے میں نہیں ٹھہرسکتی۔

دنیائے زہد و قناعت کے پہاڑ حضرت مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں کہ میں سبزی فروش کوہر مہینے ایک درہم اور دو دانق دیتاہوں جس کے بدلے میں مجھے ایک مہینہ تک دو روٹی یومیہ ملتی ہیں،ہررات کے لئے دو روٹیاں، اگریہ دو روٹیاں گرم گرم مل جائیں تو ان کاگرم ہوناہی سالن کے قائم مقام سمجھتا ہوں اور کھا لیتا ہوں،بھوک تکبراورغرور کو دور کرتی ہے اورشکم سیری غورمیں اضافہ کاسبب ہے۔

حضرت ابوعبداللہ الصوریؒ فرماتے ہیں:

’’جب بھی کوئی شخص شکم سیرہوکر کھاتاہے تواس کی عقل کاایک حصہ جاتا رہتاہے جو پھرکبھی نہیں آتا‘‘

حضرت عبداللہ بن مرزوقؒ کاارشاد ہے:

’’ جو آدمی گھی اورشکر ملا کر کھانا کھائے، اس کو اپنے گناہوں کی کبھی کوئی فکرنہیں ہوگی‘‘

حضرت زیادہ القیسیؒ فرماتے ہیں:

’’بھوکے رہا کرو کیونکہ بھوک تقویٰ کا محور اور بنیاد ہے ‘‘

حضرت سلمہ الاسواریؒ فرماتے ہیں:

" تم ہمیشہ بھوک اختیارکرو کیونکہ اس سے اس دن خوشی ہوگی جس دن لوگ خسارے میں ہوں گے"۔

فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کو شاعری سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن میں نے دوران درس بھی اور دوران تقریربھی چند اشعار سنے ہیں ان ہی اشعار میں اکبرالہ آبادی کے یہ دو شعربھی ہیں:

جناب ِ شیخ سے جا کر ذرا لِلہ کہہ دینا
کہ گمراہی تھی مجھ سے رِند کو گمراہ کہہ دینا
بہت مشکل ہے ہے بچنا بادہِ گْلگوں سے خلوت میں
بہت آساں ہے یاروں میں معاذ اللہ کہہ دینا

ہماری عادت اورہمارا مزاج ہے کہ ہم دعوتوں پردعوتیں کھالیتے ہیں، کھانے پرکھانا کھا لیتے ہیں،پیٹ میں بالکل گنجائش نہیں ہے لیکن نفس ہل من مزید کاطالب اور حریص رہتا ہے،جسم بوجھل ہے ،پیرچلنے سے عذرکررہے ہیں تورکشہ اور گاڑی سے چلے جاتے ہیں لیکن جاتے ضرور ہیں اورکھاتے ضرور ہیں،بعض لوگ توپیٹ کے اتنے کمزور اور ایمان کے اتنے ناقص واقع ہوتے ہیں کہ کھاتے وقت اگلے کھانے کی ترتیب بنا رہے ہیں ،کب کیا کھاناہے ہمیں نہیں معلوم،رات کو کون سی غذا کھانی چاہئے ،دن میں کون سی چیز کس چیزکے ساتھ کھانی چاہئے اور کیا نہیں کھانی چاہئے اس کا ہمیں پتہ نہیں چلتا ہے ،ایک ہی دسترخوان پر گوشت بھی ہے،اچاربھی ہے،گھی بھی ہے ،چینی اور چاول بھی ہیں، مچھلی بھی ہے اورکوفتے بھی ،قیمہ بھی ہے اور دہی بھی ،لیمو بھی ہے اور سرکہ بھی ،کبھی نہیں توفیق ملتی کہ طب کی کتابوں کوپڑھ کرہم پتہ لگالیں کہ کس غذا کا کیامزاج ہے،کس موسم میں کیا چیزکھانی چاہئے،سردی کا موسم ہے اور کھیرے کھائے جا رہے ہیں،کلفی اورفیرینی پرہاتھ صاف کیا جا رہاہے،گرمیوں کا موسم ہے اور انڈے مچھلیاں ہضم ہورہی ہیں، شیرینی اور کھیر کھائی ہے اوراوپرسے لیمونچوڑ کرکھانے کوہضم اورختم کرنے کے جتن کئے جارہے ہیں ،یہ نہیں سوچتے کہ لیمو دودھ کادشمن ہے اور دودھ، کھیر،شیر وغیرہ آپ کے معدے میں کافی مقدارمیں پہلے سے موجود ہے ،دودھ میں لیمو نچوڑدیا جائے تو دودھ پھٹ جاتا ہے یہ کام ہم باہر والے برتن میں نہیں کرتے اور اندر والے برتن (پیٹ) کا ستیاناس کررہے ہوتے ہیں۔

بے شک پیٹ آپ کاہے لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک امانت ہے ،معدہ ایک برتن ہے جس کو مائدہ سے اتنا نہیں بھرنا چاہئے کہ جانوروں اور انسانوں میں امتیاز ہی باقی نہ رہے۔
 
Top