رزق حلال عین عبادت ہے، عبادت کی راہیں ہموار کرتا ہے۔
جبکہ رزق حرام لعنت ہے، گناہ و معصیت کے دروازے کھولتا ہے۔
حرام مال کھانے والوں سے عبادت کرنے کی توفیق سلب ہو جاتی ہے۔
اور اگر کوئی عبادت کر بھی لیں تو وہ بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہوتی۔
رزق حرام میں کثرت تو پائی جاتی ہے لیکن اس میں کوئی برکت نہیں ہوتی۔
اور حرام مال کھانے والوں کی زندگیوں سے بھی برکت چھین لی جاتی ہے۔
رزق میں کمی
حرام مال کی نحوست شروع میں نظر نہیں آتی بلکہ شروع میں مال بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن حرام مال کمانے اور کھانے کا وبال اتنا بڑا ہے کہ یہ انسان سے اس کی انسانیت، اس کا اخلاق، اس کا ایمان، اس کی عبادت اور اس کی زندگی کی خیر و برکت وغیرہ سب کچھ چھین لیتا ہے اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس سے اس کا سارا مال بھی چھین لیا جاتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ " يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے " (276) سورة البقرة
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین فرماتے ہیں کہ جس مال میں سود داخل ہو جائے وہ اکثر تباہ ہو جاتا ہے، مزید یہ کہ جو مال پہلے سے تھا وہ بھی چھین لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سود اور جوئے میں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے امیر لوگ جن کے پاس بہت زیادہ سرمایہ ہوتا ہے وہ دیوالیہ اور مفلس ہو جاتے ہیں۔
اس طرح حرام کمائی سے لوگوں کا رزق کم ہوجاتا ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں حرام مال کمانے اور کھانے کے مزید نحوست درج ذیل ملاحظہ فرمائیں:
دعا قبول نہیں ہوتی
دعا کی قبولیت کے لیے حلال کھانا شرط ہے۔ حرام کھانے کے بعد اللہ سے دعا کریں تو قبول ہونے کی امید نہیں رکھ سکتے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: لوگو! اللہ پاک ہے اور حلال و پاک چیز کو ہی پسند کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو انہیں چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ﴿٥١﴾ سورة المؤمنون
" اے (میرے) پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ بیشک تم جو کچھ کرتے ہو میں اسے خوب جانتا ہوں " (51) سورة المؤمنون
اور اللہ تعالٰی نے یہ بھی فرمایا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۔ ۔ ۔ ﴿١٧٢﴾ سورة البقرة
" اے لوگوں جو ایمان والوں جو ہم نے پاکیزہ رزق تمہیں عطا کیا ہے اسے کھاؤ " ۔ ۔ ۔ (172) سورة البقرة
(پھر) آپ ﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے (میرے رب! اے میرے رب!) اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس پینا حرام ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے۔ پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہو گی“۔ (صحيح مسلم: 1015، سنن ترمذي: 2989)
صدقات قبول نہیں ہوتی
صدقہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اگر حرام مال سے کیا جائے تو وہ قبول نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بغیر وضو کے کوئی نماز قبول نہیں کرتا، اور نہ خیانت کے مال کا صدقہ قبول کرتا ہے“۔ (سنن نسائي: 139، سنن ابی داود: 59)
نبی کی بددعا پڑی۔
حرام کمانے والے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت برستی ہے:
رسول اللہ ﷺ نے سود کے لین دین کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہے “۔ (سنن ابن ماجه: 2313)
رشوت لینے والے پر تو ظاہر ہے کہ وہ رشوت لے کر ضرور اس فریق کی رعایت کرے گا جس سے رشوت کھائے گا، اور رشوت دینے والے پر اس واسطے کہ وہ رشوت دے کر اس کو ظلم اور ناحق پر مائل کرے گا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر اس کا مقدمہ حق ہو اور کوئی حاکم بغیر رشوت لئے حق فیصلہ نہ کرتا ہو تو ظلم کو دفع کرنے کے لئے اگر رشوت دے تو گناہ گار نہ ہو گا، پس ضروری ہے کہ آدمی رشوت دینے اور لینے والے دونوں برے کاموں سے پرہیز کرے، اسی طرح رشوت دلانے اور اس کی دلالی کرنے سے بھی دور رہے کیونکہ ان امور سے ڈر ہے کہ وہ اللہ کی لعنت کا مستحق ہو جائے گا، (نسأل الله العافية)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر اور سود لکھنے والے پر اور سود کے گواہوں پر اور فرمایا: وہ سب برابر ہیں۔ (صحيح مسلم: 1598)
ناگزیر تباہی
ناجائز کمائی لوگوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حرام کمانے والوں کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾ سورة البقرة
" اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم صاحبان ایمان ہو (278) اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ و رسول سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور اگر توبہ کرلو تو اصل مال تمہارا ہی ہے۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے (279) " سورة البقرة
عذاب قبر
جس طرح دنیا میں حرام کمائی لوگوں کو تباہ کرتی ہے اسی طرح ان کے لیے قبر میں بھی سخت عذاب کا باعث بنتی ہے۔
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” میں نے کل رات خواب میں دیکھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے ایک مقدس سرزمین پر لے گئے۔ چلتے چلتے ہم خون کے دریا تک پہنچ گئے۔ ایک آدمی دریا کے بیچ میں کھڑا ہے اور دوسرا آدمی دریا کے کنارے پر ہے، اس کے سامنے پتھر پڑے ہیں۔ جب دریا کے بیچ میں موجود آدمی نے باہر آنا چاہا تو کنارے پر موجود آدمی نے اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے واپس اس کی جگہ بھیج دیا۔ اس طرح جب بھی وہ باہر آنا چاہتا ہے، اس کے منہ پر پتھر پھینکے جاتے ہیں اور وہ واپس اپنی جگہ پر چلا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا یہ شخص کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کو تم نے دریا میں دیکھا وہ سود خور ہے۔ (صحيح البخاري: 2085)
اس لیے ہم سب کو ناجائز اور حرام کمائی سے دور رہنا چاہیے۔ کیونکہ اگرچہ یہ عارضی سکون لا سکتا ہے، لیکن اس کا نقصان دائمی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔۔۔۔۔۔
جبکہ رزق حرام لعنت ہے، گناہ و معصیت کے دروازے کھولتا ہے۔
حرام مال کھانے والوں سے عبادت کرنے کی توفیق سلب ہو جاتی ہے۔
اور اگر کوئی عبادت کر بھی لیں تو وہ بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہوتی۔
رزق حرام میں کثرت تو پائی جاتی ہے لیکن اس میں کوئی برکت نہیں ہوتی۔
اور حرام مال کھانے والوں کی زندگیوں سے بھی برکت چھین لی جاتی ہے۔
رزق میں کمی
حرام مال کی نحوست شروع میں نظر نہیں آتی بلکہ شروع میں مال بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن حرام مال کمانے اور کھانے کا وبال اتنا بڑا ہے کہ یہ انسان سے اس کی انسانیت، اس کا اخلاق، اس کا ایمان، اس کی عبادت اور اس کی زندگی کی خیر و برکت وغیرہ سب کچھ چھین لیتا ہے اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس سے اس کا سارا مال بھی چھین لیا جاتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ " يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے " (276) سورة البقرة
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین فرماتے ہیں کہ جس مال میں سود داخل ہو جائے وہ اکثر تباہ ہو جاتا ہے، مزید یہ کہ جو مال پہلے سے تھا وہ بھی چھین لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سود اور جوئے میں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے امیر لوگ جن کے پاس بہت زیادہ سرمایہ ہوتا ہے وہ دیوالیہ اور مفلس ہو جاتے ہیں۔
اس طرح حرام کمائی سے لوگوں کا رزق کم ہوجاتا ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں حرام مال کمانے اور کھانے کے مزید نحوست درج ذیل ملاحظہ فرمائیں:
دعا قبول نہیں ہوتی
دعا کی قبولیت کے لیے حلال کھانا شرط ہے۔ حرام کھانے کے بعد اللہ سے دعا کریں تو قبول ہونے کی امید نہیں رکھ سکتے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: لوگو! اللہ پاک ہے اور حلال و پاک چیز کو ہی پسند کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو انہیں چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ﴿٥١﴾ سورة المؤمنون
" اے (میرے) پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ بیشک تم جو کچھ کرتے ہو میں اسے خوب جانتا ہوں " (51) سورة المؤمنون
اور اللہ تعالٰی نے یہ بھی فرمایا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۔ ۔ ۔ ﴿١٧٢﴾ سورة البقرة
" اے لوگوں جو ایمان والوں جو ہم نے پاکیزہ رزق تمہیں عطا کیا ہے اسے کھاؤ " ۔ ۔ ۔ (172) سورة البقرة
(پھر) آپ ﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے (میرے رب! اے میرے رب!) اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس پینا حرام ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے۔ پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہو گی“۔ (صحيح مسلم: 1015، سنن ترمذي: 2989)
صدقات قبول نہیں ہوتی
صدقہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اگر حرام مال سے کیا جائے تو وہ قبول نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بغیر وضو کے کوئی نماز قبول نہیں کرتا، اور نہ خیانت کے مال کا صدقہ قبول کرتا ہے“۔ (سنن نسائي: 139، سنن ابی داود: 59)
نبی کی بددعا پڑی۔
حرام کمانے والے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت برستی ہے:
رسول اللہ ﷺ نے سود کے لین دین کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہے “۔ (سنن ابن ماجه: 2313)
رشوت لینے والے پر تو ظاہر ہے کہ وہ رشوت لے کر ضرور اس فریق کی رعایت کرے گا جس سے رشوت کھائے گا، اور رشوت دینے والے پر اس واسطے کہ وہ رشوت دے کر اس کو ظلم اور ناحق پر مائل کرے گا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر اس کا مقدمہ حق ہو اور کوئی حاکم بغیر رشوت لئے حق فیصلہ نہ کرتا ہو تو ظلم کو دفع کرنے کے لئے اگر رشوت دے تو گناہ گار نہ ہو گا، پس ضروری ہے کہ آدمی رشوت دینے اور لینے والے دونوں برے کاموں سے پرہیز کرے، اسی طرح رشوت دلانے اور اس کی دلالی کرنے سے بھی دور رہے کیونکہ ان امور سے ڈر ہے کہ وہ اللہ کی لعنت کا مستحق ہو جائے گا، (نسأل الله العافية)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر اور سود لکھنے والے پر اور سود کے گواہوں پر اور فرمایا: وہ سب برابر ہیں۔ (صحيح مسلم: 1598)
ناگزیر تباہی
ناجائز کمائی لوگوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حرام کمانے والوں کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾ سورة البقرة
" اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم صاحبان ایمان ہو (278) اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ و رسول سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور اگر توبہ کرلو تو اصل مال تمہارا ہی ہے۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے (279) " سورة البقرة
عذاب قبر
جس طرح دنیا میں حرام کمائی لوگوں کو تباہ کرتی ہے اسی طرح ان کے لیے قبر میں بھی سخت عذاب کا باعث بنتی ہے۔
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” میں نے کل رات خواب میں دیکھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے ایک مقدس سرزمین پر لے گئے۔ چلتے چلتے ہم خون کے دریا تک پہنچ گئے۔ ایک آدمی دریا کے بیچ میں کھڑا ہے اور دوسرا آدمی دریا کے کنارے پر ہے، اس کے سامنے پتھر پڑے ہیں۔ جب دریا کے بیچ میں موجود آدمی نے باہر آنا چاہا تو کنارے پر موجود آدمی نے اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے واپس اس کی جگہ بھیج دیا۔ اس طرح جب بھی وہ باہر آنا چاہتا ہے، اس کے منہ پر پتھر پھینکے جاتے ہیں اور وہ واپس اپنی جگہ پر چلا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا یہ شخص کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کو تم نے دریا میں دیکھا وہ سود خور ہے۔ (صحيح البخاري: 2085)
اس لیے ہم سب کو ناجائز اور حرام کمائی سے دور رہنا چاہیے۔ کیونکہ اگرچہ یہ عارضی سکون لا سکتا ہے، لیکن اس کا نقصان دائمی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔۔۔۔۔۔
Last edited: