دو سوال
حصولِ رزقِ حلال عین عبادت ہے یعنی کسی مسلمان کا حلال و جائز ذرائع اور معروف طریقے سے محنت و مزدوری یا تجارت کے ذریعے مال کمانا عین عبادت ہے لیکن صرف جائز اور حلال مال کمانا ہی نہیں ہے بلکہ بندہ مومن کا کھانا، پینا اور دیگر مصارف بھی ظاہری اور باطنی طور پر پاک و طیب اور حلال ہونا چاہئے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
"اے لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے" (168) سورة البقرة
ایک اور آیت میں فرمایا: "اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان میں سے کھاؤ اور الله کا شکر کرو اگر تم (صرف) اس کی عبادت کرتے ہو" (172) سورة البقرة
سورۃُ المائدہ میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "اور جو کچھ حلال و طیب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اُسے کھا ؤ پیو اور اُس اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو" (88) سورة المائدة
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ جائز طریقے سے کسبِ حلال یعنی حلال مال کمانا اور حلال و طیب کھانا اسی طرح فرض ہے جس طرح دوسرے ارکان اسلام پر عمل کرنا فرض ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: "حلال روزی کمانا فرض کے بعد ایک فرض ہے" ( بیہقی) [مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ خرید و فروخت کے مسائل و احکام ۔ حدیث 23]
یعنی مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے جو فرائض مقرر کئے ہیں جیسے نماز، روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ ان فرائض کی تکمیل کے بعد حلال روزی کمانا اور اسے حلال و جائز مصرف میں خرچ کرنا بھی فرض ہے۔ پس جو مسلمان اس فرض کو نبھاتا ہے نبی کریم ﷺ نے اس کی مال کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جسے وہ حلال طریقوں سے حاصل کرے، پھر اسے اللہ کے راستے میں مجاہدوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرتا رہے لیکن جو شخص ناجائز طریقوں سے مال کماتا ہے تو وہ اس بیمار کی طرح ہے جو جتنا بھی کھائے مگر اس کا پیٹ نہ بھرے اور یہ مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ بن کر آئے گا۔ (صحيح البخاري: 2842)
ناجائز طریقے مثلاً سود، رشوت، کرپشن، چوری، ڈکیتی، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی، بیواؤں یتیموں اور غریبوں یا کسی کا حق مار کر اور دیگر غلط ذرائع سے کمانا کسب حرام ہے جو کہ اسلام کی نظر میں پاکیزہ نہیں بلکہ وہ مال ناجائز اور حرام ہے جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں بہت سختی سے منع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ" ۔ ۔ ۔ (29) سورة النساء
اور حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جو گوشت بھی حرام سے پروان چڑھے گا، آگ ہی اس کے لیے زیادہ مناسب ہے“۔ (سنن ترمذي: 614)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ مال اس نے کہاں سے لیا، حلال طریقہ سے یا حرام طریقہ سے"۔ (صحيح البخاري: 2083)
نبی اکرم ﷺ کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور آپ ﷺ کے بعد کے زمانے میں مسلمان حلال و حرام کی تمیز کرنا چھوڑ دیا ہے اور حرام مال کمانے میں کافروں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ دنیا پرستی اور مال جمع کرنے کی دوڑ میں کسب حلال کے ذرائع کو چھوڑ کر حرام کمانے اور حرام کھانے کے نت نئے طریقے ایجاد کر لئے ہیں اور آخرت کو بھلا بیٹھے ہیں جیسے انہیں آخرت میں اپنے رب کے روبرو حساب دینا ہی نہ ہو جبکہ قیامت کے دن سب سے سخت پوچھ گچھ اسی مال کے بارے میں ہوگی، جیسا کہ
حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: (1) اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور (2) اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور (3) اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور (4) کہاں خرچ کیا، اور (5) اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا“۔ (سنن ترمذي: 2417)
ذرا غور کیجئے قیامت کے دن کے ان پانچ سوالوں میں سے دو کا تعلق مال کمانے اور مال خرچ کرنے سے متعلق ہے۔ عمر کے بارے میں ایک سوال، علم و عمل کے بارے میں ایک سوال، جسم و بدن کے بارے میں ایک سوال جبکہ مال کے بارے میں دو سوال کئے جائیں گے۔
اگر مسلمان مال کماتے اور خرچ کرتے وقت ہر لمحہ ان دو سوالوں کے جواب کی تیاری بھی کرتا رہے تو نہ وہ حرام کمائے اور نہ ہی اپنے مال کو حرام کاموں سے خرچ کرے۔
حلال طریقے سے مال کمانے اور مال خرچ کرنے کے بارے میں دین اسلام کوئی قدغن نہیں لگاتا بلکہ اللہ تعالٰی کے نزدیک مسلمان کا دولت کمانا، کھانا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور اولاد کے لئے چھوڑ جانا یہ سب احسن عمل اور عین عبادت ہے۔
لیکن آج جو لوگ ناجائز اور حرام ذرائع سے مال بنا رہے ہیں یا حلال ذرائع سے کمایا ہوا مال حرام کاموں میں خرچ کر رہے ہیں، تو یاد رہے کہ دنیا میں ان کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی اور آخرت میں وہ مستحق عذاب ہوں گے۔ اگرچہ ہمارے ملک میں آج حرام کمانے والوں کی کوئی پکڑ نہیں ہے مگر رب کے یہاں تو وہ پکڑے جائیں گے ہی اور
"یقیناً تمہارے رب کی پکڑ بہت سخت ہے" ۔ ۔ ۔ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ(12) سورة البروج
اللہ تعالٰی ہمیں اپنی پکڑ سے اپنی پناہ میں رکھے۔ حلال ذرائعے سے مال کمانے اور حلال کاموں میں اسے خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مشتبہ امور سے بھی بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
ہہہہہہہ
حصولِ رزقِ حلال عین عبادت ہے یعنی کسی مسلمان کا حلال و جائز ذرائع اور معروف طریقے سے محنت و مزدوری یا تجارت کے ذریعے مال کمانا عین عبادت ہے لیکن صرف جائز اور حلال مال کمانا ہی نہیں ہے بلکہ بندہ مومن کا کھانا، پینا اور دیگر مصارف بھی ظاہری اور باطنی طور پر پاک و طیب اور حلال ہونا چاہئے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
"اے لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے" (168) سورة البقرة
ایک اور آیت میں فرمایا: "اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان میں سے کھاؤ اور الله کا شکر کرو اگر تم (صرف) اس کی عبادت کرتے ہو" (172) سورة البقرة
سورۃُ المائدہ میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "اور جو کچھ حلال و طیب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اُسے کھا ؤ پیو اور اُس اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو" (88) سورة المائدة
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ جائز طریقے سے کسبِ حلال یعنی حلال مال کمانا اور حلال و طیب کھانا اسی طرح فرض ہے جس طرح دوسرے ارکان اسلام پر عمل کرنا فرض ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: "حلال روزی کمانا فرض کے بعد ایک فرض ہے" ( بیہقی) [مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ خرید و فروخت کے مسائل و احکام ۔ حدیث 23]
یعنی مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے جو فرائض مقرر کئے ہیں جیسے نماز، روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ ان فرائض کی تکمیل کے بعد حلال روزی کمانا اور اسے حلال و جائز مصرف میں خرچ کرنا بھی فرض ہے۔ پس جو مسلمان اس فرض کو نبھاتا ہے نبی کریم ﷺ نے اس کی مال کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جسے وہ حلال طریقوں سے حاصل کرے، پھر اسے اللہ کے راستے میں مجاہدوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرتا رہے لیکن جو شخص ناجائز طریقوں سے مال کماتا ہے تو وہ اس بیمار کی طرح ہے جو جتنا بھی کھائے مگر اس کا پیٹ نہ بھرے اور یہ مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ بن کر آئے گا۔ (صحيح البخاري: 2842)
ناجائز طریقے مثلاً سود، رشوت، کرپشن، چوری، ڈکیتی، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی، بیواؤں یتیموں اور غریبوں یا کسی کا حق مار کر اور دیگر غلط ذرائع سے کمانا کسب حرام ہے جو کہ اسلام کی نظر میں پاکیزہ نہیں بلکہ وہ مال ناجائز اور حرام ہے جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں بہت سختی سے منع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ" ۔ ۔ ۔ (29) سورة النساء
اور حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جو گوشت بھی حرام سے پروان چڑھے گا، آگ ہی اس کے لیے زیادہ مناسب ہے“۔ (سنن ترمذي: 614)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ مال اس نے کہاں سے لیا، حلال طریقہ سے یا حرام طریقہ سے"۔ (صحيح البخاري: 2083)
نبی اکرم ﷺ کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور آپ ﷺ کے بعد کے زمانے میں مسلمان حلال و حرام کی تمیز کرنا چھوڑ دیا ہے اور حرام مال کمانے میں کافروں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ دنیا پرستی اور مال جمع کرنے کی دوڑ میں کسب حلال کے ذرائع کو چھوڑ کر حرام کمانے اور حرام کھانے کے نت نئے طریقے ایجاد کر لئے ہیں اور آخرت کو بھلا بیٹھے ہیں جیسے انہیں آخرت میں اپنے رب کے روبرو حساب دینا ہی نہ ہو جبکہ قیامت کے دن سب سے سخت پوچھ گچھ اسی مال کے بارے میں ہوگی، جیسا کہ
حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: (1) اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور (2) اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور (3) اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور (4) کہاں خرچ کیا، اور (5) اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا“۔ (سنن ترمذي: 2417)
ذرا غور کیجئے قیامت کے دن کے ان پانچ سوالوں میں سے دو کا تعلق مال کمانے اور مال خرچ کرنے سے متعلق ہے۔ عمر کے بارے میں ایک سوال، علم و عمل کے بارے میں ایک سوال، جسم و بدن کے بارے میں ایک سوال جبکہ مال کے بارے میں دو سوال کئے جائیں گے۔
اگر مسلمان مال کماتے اور خرچ کرتے وقت ہر لمحہ ان دو سوالوں کے جواب کی تیاری بھی کرتا رہے تو نہ وہ حرام کمائے اور نہ ہی اپنے مال کو حرام کاموں سے خرچ کرے۔
حلال طریقے سے مال کمانے اور مال خرچ کرنے کے بارے میں دین اسلام کوئی قدغن نہیں لگاتا بلکہ اللہ تعالٰی کے نزدیک مسلمان کا دولت کمانا، کھانا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور اولاد کے لئے چھوڑ جانا یہ سب احسن عمل اور عین عبادت ہے۔
لیکن آج جو لوگ ناجائز اور حرام ذرائع سے مال بنا رہے ہیں یا حلال ذرائع سے کمایا ہوا مال حرام کاموں میں خرچ کر رہے ہیں، تو یاد رہے کہ دنیا میں ان کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی اور آخرت میں وہ مستحق عذاب ہوں گے۔ اگرچہ ہمارے ملک میں آج حرام کمانے والوں کی کوئی پکڑ نہیں ہے مگر رب کے یہاں تو وہ پکڑے جائیں گے ہی اور
"یقیناً تمہارے رب کی پکڑ بہت سخت ہے" ۔ ۔ ۔ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ(12) سورة البروج
اللہ تعالٰی ہمیں اپنی پکڑ سے اپنی پناہ میں رکھے۔ حلال ذرائعے سے مال کمانے اور حلال کاموں میں اسے خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مشتبہ امور سے بھی بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
ہہہہہہہ