داستان دبستان
مولانا نذیراحمد سہارنپوری ؒو مولانا الطاف حسینؒ سمستی پوریؒ
ناصرالدین مظاہری
میں جب مظاہرعلوم میں داخل ہواتو رہائش احاطہ مطبخ کی فوقانی منزل میں حجرہ نمبرگیارہ تجویز ہوئی،مدرسہ کی دیگر زرق برق رہائش گاہوں اورقیام گاہوں سے زیادہ پرسکون یہ منزل ہے ،یہاں کے نگراں تھے حضرت مولانا نذیراحمد صاحب مظاہریؒ،فارسی کے کئی سواشعار بلامبالغہ انھیں اتنے ازبرتھے کہ بات بات میں پڑھنا شروع کردیتے تھے ،اشعار پڑھنے کا اندازبھی ایسا دل کوموہ لینے والا کہ سبحان اللہ !حضرت مولانا نذیراحمد مظاہریؒ اورحضرت مولانا الطاف حسینؒ دونوں درسی ساتھی تھے ، سناہے کہ حضرت مولانا نذیراحمد صاحبؒ نے مدرسہ میں ملازمت کے لئے جودرخواست دی تھی اس میں صراحت تھی کہ احقرکو دفترتعلیمات میں خدمت کاموقع دیا جائے،جب کہ مولانا الطاف حسینؒ نے درخواست میں لکھاتھاکہ انھیں دفترمطبخ میں خدمت کا موقع دیاجائے،بڑوں کی نظریں جہاں تک دیکھ لیتی ہیں وہاں تک ہم سوچ بھی نہیں سکتے ۔
دونوں کی درخواستوں پرغوروفکرکے بعد دونوں کوخدمت کا موقع دے دیاگیا لیکن ترتیب بالکل بدل دی گئی یعنی جس کومطبخ میں کام مطلوب تھا اس کوتعلیمات میں اورجس کوتعلیمات میں خدمت مطلوب تھی اس کومطبخ میں مقرر کیاگیا۔
دونوں کی درخواستوں پرغوروفکرکے بعد دونوں کوخدمت کا موقع دے دیاگیا لیکن ترتیب بالکل بدل دی گئی یعنی جس کومطبخ میں کام مطلوب تھا اس کوتعلیمات میں اورجس کوتعلیمات میں خدمت مطلوب تھی اس کومطبخ میں مقرر کیاگیا۔
بعدمیں دونوں صاحبان قدردان کے اوصاف و کمالات کھلے تب پتہ چلاکہ واقعی درخواست دہندگان نے بھی اپنے آپ کواتنانہیں پڑھاہوگا جتنا بڑوں نے پڑھ لیاتھا ۔
حضرت مولانا الطاف حسینؒ سمستی پورضلع بہارکے کسی گاؤں کے رہنے والے تھے جب کہ حضرت مولانا نذیراحمد صاحب سہارنپورؒکے گاؤں مہیسری کے رہنے والے تھے، دونوں ایک نمبرکے امانت دار، دیانت دار، زیرک و ہوشیار اور اپنے مفوضہ امور کی انجام دہی میں مستعد وتیار۔
حضرت مولانا الطاف حسینؒ کادفتر تعلیمات میں تقرر ہوا اور پوری زندگی اسی شعبہ میں گزری،اسی طرح حضرت مولانا نذیراحمدؒ کا تقررمطبخ میں ہوا اور پوری زندگی مطبخ کے دفتری اور انتظامی امور میں گزری،التہ اپنے اپنے شعبہ میں ترقی پاتے چلے گئے، پہلے ملازم، منشی، کلرک، نائب اور پھرمستقل نگراں بنائے گئے ۔دونوں میں امتیاز کرنامشکل ہوجاتا ہے کہ کون زیادہ امانت دار تھا۔
پڑھنے کے زمانے میں حضرت مولانا نذیراحمدؒ سے عموماً سابقہ اور واسطہ پڑتا تھا،میں اپنے خرچ کے پیسے بھی شروع میں ان ہی کے پاس جمع کرتا تھا،ہرطالب علم کی رقم کوایک ربڑ میں لپیٹ کر رکھتے تھے ،اسی میں ایک ننھی سی پرچی ہوتی تھی جس میں حساب درج ہوتا تھا کہ کتنے لے چکا اور کتنے باقی بچے ہیں۔اگرکبھی کھلے پیسوں کی ضرورت ہوئی تب بھی اپنے پاس موجود امانت میں سے کھلے نہیں لئے ۔کیونکہ اس کو بھی امانت میں خیانت کہتے تھے، مجھے جب پیسے لینے ہوتے تو مولانا کی خدمت میں حاضری ہوتی، اگر میرے پیسوں میں اتنے پیسے ہوتے کہ کھلے کرائے بغیر کام چل جائے تو دیدیتے ورنہ بڑانوٹ دے کرکہتے کہ باہرسے خود ہی کھلے کراکے لے آؤ۔
مولانا کے زمانے میں فوقانی منزل میں طلبہ کی تعداد سیٹوں کے اعتبار سے ہمیشہ بھری رہتی تھی ،بہترین نگراں تھے،رات میں بھی کبھی کبھی دارالاقامہ کے طلبہ کی حاضری لیتے تھے ،اس وقت موبائل کا چلن نہیں تھا لیکن ناول اور افسانوی کتابیں خوب پڑھی جاتی تھیں حضرت مولانا کمرے کمرے جھانکتے تھے میرے جیسا کوئی نہ کوئی طالب علم ان کی گرفت میں آہی جاتا تھا،کتاب بھی ضبط اور کار روائی بھی شروع ۔ مظاہرعلوم میں اس زمانے میں ناول پڑھنے پرسخت پابندی تھی ،بلکہ اس سے پہلے اخبارات پڑھنے پربھی پابندی تھی اور بہت سے اساتذہ تو مضمون نگاری کوبھی پسندنہیں کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ صرف درسی کتابوں پرمحنت کرو بس باقی سب عبث۔
حضرت مولانا نذیراحمدؒ کے پاس بے شمار کتابیں ناولوں اور افسانوں کی جمع ہوگئی تھیں ۔جو وہ اپنی ٹانڈپر ’’محفوظ‘‘ کردیتے تھے۔مجھے مضمون نگاری سیکھنی تھی اور یہاں مضمون نگاری سکھانے کا کوئی نظم نہیں تھا، پورے مدرسہ میں صرف حضرت مولانا انعام الرحمن تھانویؒ کے بارے میں اطلاع تھی کہ انھیں مضمون نگاری آتی ہے اور ان سے اگر کوشش کی جائے تو وہ سکھا سکتے ہیں ۔
سہارنپور کی ادبی سرگرمیوں پر اگر کوئی لکھے اور وہ نوید پی سی او اور ضمیربکڈپو کا ذکر نہ کرے تو میرے نزدیک وہ شخص بہت کم ظرف ہے، نوید کی دکان مسجد بہادران کے قریب تھی ،اس کے یہاں بے شمار ناول،افسانے،قصوں اور کہانیوں کی کتابیں کرائے پرملتی تھیں ،کرایہ بھی بہت معمولی اورکتابیں غیرمعمولی۔اس زمانے میں میرے پاس اتنے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے کہ کتابیں خرید کر پڑھتا، نویدPCO والاکرائے پرکتابیں دیتا تھا اوریہ میرے لئے بڑا محسن تھا۔بس کیابتاؤں دُھن تھی لیکن دَھن نہیں تھا،لگن تھی لیکن گگن نہیں تھا،دریابھی تھا،کشتی بھی تھی ناخدا نہیں تھا،مدرسہ بھی تھا، درسگاہ بھی تھی ،طلبہ بھی تھے صرف استاذ نہ تھا،موسم بھی تھا، حالات بھی تھے،آلات بھی تھے، فضابھی تھی ، گھٹا بھی تھی ، بادل بھی تھے ،زمین بھی تھی بس برسانے والا نہ تھا۔جب یقین ہوجاتا تھاکہ مولانا نذیراحمد صاحب مطبخ سے نکل کراپنے گھرچلے گئے ہیں تب کہیں جاکر ’’ کتاب‘‘ نکالتا تھا،طلبہ کابھی خوف رہتا تھاکہ کہیں شکایت نہ کردیں۔کئی بار رات میں دروازہ کھلواکر مولانانذیر آدھمکتے اوراس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہتی۔نویدکسی بھی گمشدہ کتاب کی اصل قیمت وصولتا تھااور قیمت ادا کرنی پڑتی تھی ،اگر قیمت ادانہ کی جائے تو مدرسہ کے شناخت نامہ کی فوٹو کاپی اور اندراج اس کے پاس رہتا تھاوہ اگر دفترتعلیمات پہنچادیتا تو وہاں تو حضرت مولانا علامہ محمدیامین مظاہری سہارنپوریؒ تھے ہی بڑے اصولی ، سخت ،مولانا الطاف حسینؒ بھی ان ہی کے دست راست تھے ،سخت بھی ،کرخت بھی،اصولی بھی اورڈانٹ ڈپٹ میں اپنے پیش روسے دوقدم آگے بھی ۔
میرے زمانۂ طالب علمی میں دفترکا تصوربھی روح کوسوہان کردینے والابلکہ زندہ کوادھ مواکردینے والاتھا،داخلوں کے بعدطالب علم کان پکڑ لیتاتھاکہ دفترنہ جانا پڑے، دفترنام تھا چند باکمال ہستیوں کی بزم کا، جہاں حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ بھی تھے،حضرت مولانااطہرحسینؒ بھی، حضرت مولانا علامہ یامینؒ بھی تھے ، اورحضرت مولانا الطاف حسینؒ بھی ، اگرکوئی ’’ بلی کابکرا‘‘ دفتریوں کے ہتھے چڑھ گیاتومت پوچھوبے چارے کی کیاحالت ہوتی تھی ،اوپرسے آگ لگانے کے لئے حضرت مولانا محمد تحسین مرحوم بھی وہیں اسی دفتر میں تھے ،یہ صاحب اگر چاہتے تومعاملہ کو آسانی کے ساتھ سلجھا سکتے تھے لیکن کسی کا بھی معاملہ دفتر پہنچتا تو ان کی تو گویا چاندی ہوجاتی ،اچھاجی تم نے یہ کردیا، تمہاری ہمت کیسے ہوگئی ناول پڑھنے کی،تم نے کھانا لینے میں تاخیر کیوں کی،درسگاہ میں تاخیرسے کیوں پہنچے،درسگاہ میں اونگھنے کی شکایت بھی پہنچ جاتی تھی اور ’’شب بیداری‘‘کی تفصیل پوچھی جاتی تھی ۔
حضرت مولانانذیراحمدؒ اور حضرت مولانا الطاف حسینؒ دونوں چہرہ شناس انسان تھے ،قریب وبعید کاکوئی بھی فارغ کبھی بھی آجائے یہ دونوں اس کاحدوداربعہ بیان کردیتے تھے کہ تمہارا نام یہ ہے ،تم پڑھنے کے زمانے میں فلاں جگہ رہتے تھے ،تمہارا فلاں فلاں ساتھی تھا،تم نے دوران طالب علمی یہ غلطیاں کررکھی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ سچ پوچھو تویہ دونوں سراپارجسٹرتھے ۔
حضرت مولانا نذیراحمدؒ کاانتقال پہلے اورحضرت مولانا الطاف حسینؒ کا انتقال اُن کے جانے کے کچھ بعدہوا تھا۔دونوں کا جواب نہیں تھا دونوں ہی لاجواب تھے ۔مدرسہ ان دونوں سے محروم ہوگیا۔دونوں کانعم البدل تو کیا بدل ہی مل جائے تب بھی غنیمت ہے کہ خوبصورت چیز کاسایہ اور چھایا بھی خوبصورت ہوتا ہے۔
حضرت مولانا الطاف حسینؒ سمستی پورضلع بہارکے کسی گاؤں کے رہنے والے تھے جب کہ حضرت مولانا نذیراحمد صاحب سہارنپورؒکے گاؤں مہیسری کے رہنے والے تھے، دونوں ایک نمبرکے امانت دار، دیانت دار، زیرک و ہوشیار اور اپنے مفوضہ امور کی انجام دہی میں مستعد وتیار۔
حضرت مولانا الطاف حسینؒ کادفتر تعلیمات میں تقرر ہوا اور پوری زندگی اسی شعبہ میں گزری،اسی طرح حضرت مولانا نذیراحمدؒ کا تقررمطبخ میں ہوا اور پوری زندگی مطبخ کے دفتری اور انتظامی امور میں گزری،التہ اپنے اپنے شعبہ میں ترقی پاتے چلے گئے، پہلے ملازم، منشی، کلرک، نائب اور پھرمستقل نگراں بنائے گئے ۔دونوں میں امتیاز کرنامشکل ہوجاتا ہے کہ کون زیادہ امانت دار تھا۔
پڑھنے کے زمانے میں حضرت مولانا نذیراحمدؒ سے عموماً سابقہ اور واسطہ پڑتا تھا،میں اپنے خرچ کے پیسے بھی شروع میں ان ہی کے پاس جمع کرتا تھا،ہرطالب علم کی رقم کوایک ربڑ میں لپیٹ کر رکھتے تھے ،اسی میں ایک ننھی سی پرچی ہوتی تھی جس میں حساب درج ہوتا تھا کہ کتنے لے چکا اور کتنے باقی بچے ہیں۔اگرکبھی کھلے پیسوں کی ضرورت ہوئی تب بھی اپنے پاس موجود امانت میں سے کھلے نہیں لئے ۔کیونکہ اس کو بھی امانت میں خیانت کہتے تھے، مجھے جب پیسے لینے ہوتے تو مولانا کی خدمت میں حاضری ہوتی، اگر میرے پیسوں میں اتنے پیسے ہوتے کہ کھلے کرائے بغیر کام چل جائے تو دیدیتے ورنہ بڑانوٹ دے کرکہتے کہ باہرسے خود ہی کھلے کراکے لے آؤ۔
مولانا کے زمانے میں فوقانی منزل میں طلبہ کی تعداد سیٹوں کے اعتبار سے ہمیشہ بھری رہتی تھی ،بہترین نگراں تھے،رات میں بھی کبھی کبھی دارالاقامہ کے طلبہ کی حاضری لیتے تھے ،اس وقت موبائل کا چلن نہیں تھا لیکن ناول اور افسانوی کتابیں خوب پڑھی جاتی تھیں حضرت مولانا کمرے کمرے جھانکتے تھے میرے جیسا کوئی نہ کوئی طالب علم ان کی گرفت میں آہی جاتا تھا،کتاب بھی ضبط اور کار روائی بھی شروع ۔ مظاہرعلوم میں اس زمانے میں ناول پڑھنے پرسخت پابندی تھی ،بلکہ اس سے پہلے اخبارات پڑھنے پربھی پابندی تھی اور بہت سے اساتذہ تو مضمون نگاری کوبھی پسندنہیں کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ صرف درسی کتابوں پرمحنت کرو بس باقی سب عبث۔
حضرت مولانا نذیراحمدؒ کے پاس بے شمار کتابیں ناولوں اور افسانوں کی جمع ہوگئی تھیں ۔جو وہ اپنی ٹانڈپر ’’محفوظ‘‘ کردیتے تھے۔مجھے مضمون نگاری سیکھنی تھی اور یہاں مضمون نگاری سکھانے کا کوئی نظم نہیں تھا، پورے مدرسہ میں صرف حضرت مولانا انعام الرحمن تھانویؒ کے بارے میں اطلاع تھی کہ انھیں مضمون نگاری آتی ہے اور ان سے اگر کوشش کی جائے تو وہ سکھا سکتے ہیں ۔
سہارنپور کی ادبی سرگرمیوں پر اگر کوئی لکھے اور وہ نوید پی سی او اور ضمیربکڈپو کا ذکر نہ کرے تو میرے نزدیک وہ شخص بہت کم ظرف ہے، نوید کی دکان مسجد بہادران کے قریب تھی ،اس کے یہاں بے شمار ناول،افسانے،قصوں اور کہانیوں کی کتابیں کرائے پرملتی تھیں ،کرایہ بھی بہت معمولی اورکتابیں غیرمعمولی۔اس زمانے میں میرے پاس اتنے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے کہ کتابیں خرید کر پڑھتا، نویدPCO والاکرائے پرکتابیں دیتا تھا اوریہ میرے لئے بڑا محسن تھا۔بس کیابتاؤں دُھن تھی لیکن دَھن نہیں تھا،لگن تھی لیکن گگن نہیں تھا،دریابھی تھا،کشتی بھی تھی ناخدا نہیں تھا،مدرسہ بھی تھا، درسگاہ بھی تھی ،طلبہ بھی تھے صرف استاذ نہ تھا،موسم بھی تھا، حالات بھی تھے،آلات بھی تھے، فضابھی تھی ، گھٹا بھی تھی ، بادل بھی تھے ،زمین بھی تھی بس برسانے والا نہ تھا۔جب یقین ہوجاتا تھاکہ مولانا نذیراحمد صاحب مطبخ سے نکل کراپنے گھرچلے گئے ہیں تب کہیں جاکر ’’ کتاب‘‘ نکالتا تھا،طلبہ کابھی خوف رہتا تھاکہ کہیں شکایت نہ کردیں۔کئی بار رات میں دروازہ کھلواکر مولانانذیر آدھمکتے اوراس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہتی۔نویدکسی بھی گمشدہ کتاب کی اصل قیمت وصولتا تھااور قیمت ادا کرنی پڑتی تھی ،اگر قیمت ادانہ کی جائے تو مدرسہ کے شناخت نامہ کی فوٹو کاپی اور اندراج اس کے پاس رہتا تھاوہ اگر دفترتعلیمات پہنچادیتا تو وہاں تو حضرت مولانا علامہ محمدیامین مظاہری سہارنپوریؒ تھے ہی بڑے اصولی ، سخت ،مولانا الطاف حسینؒ بھی ان ہی کے دست راست تھے ،سخت بھی ،کرخت بھی،اصولی بھی اورڈانٹ ڈپٹ میں اپنے پیش روسے دوقدم آگے بھی ۔
میرے زمانۂ طالب علمی میں دفترکا تصوربھی روح کوسوہان کردینے والابلکہ زندہ کوادھ مواکردینے والاتھا،داخلوں کے بعدطالب علم کان پکڑ لیتاتھاکہ دفترنہ جانا پڑے، دفترنام تھا چند باکمال ہستیوں کی بزم کا، جہاں حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ بھی تھے،حضرت مولانااطہرحسینؒ بھی، حضرت مولانا علامہ یامینؒ بھی تھے ، اورحضرت مولانا الطاف حسینؒ بھی ، اگرکوئی ’’ بلی کابکرا‘‘ دفتریوں کے ہتھے چڑھ گیاتومت پوچھوبے چارے کی کیاحالت ہوتی تھی ،اوپرسے آگ لگانے کے لئے حضرت مولانا محمد تحسین مرحوم بھی وہیں اسی دفتر میں تھے ،یہ صاحب اگر چاہتے تومعاملہ کو آسانی کے ساتھ سلجھا سکتے تھے لیکن کسی کا بھی معاملہ دفتر پہنچتا تو ان کی تو گویا چاندی ہوجاتی ،اچھاجی تم نے یہ کردیا، تمہاری ہمت کیسے ہوگئی ناول پڑھنے کی،تم نے کھانا لینے میں تاخیر کیوں کی،درسگاہ میں تاخیرسے کیوں پہنچے،درسگاہ میں اونگھنے کی شکایت بھی پہنچ جاتی تھی اور ’’شب بیداری‘‘کی تفصیل پوچھی جاتی تھی ۔
حضرت مولانانذیراحمدؒ اور حضرت مولانا الطاف حسینؒ دونوں چہرہ شناس انسان تھے ،قریب وبعید کاکوئی بھی فارغ کبھی بھی آجائے یہ دونوں اس کاحدوداربعہ بیان کردیتے تھے کہ تمہارا نام یہ ہے ،تم پڑھنے کے زمانے میں فلاں جگہ رہتے تھے ،تمہارا فلاں فلاں ساتھی تھا،تم نے دوران طالب علمی یہ غلطیاں کررکھی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ سچ پوچھو تویہ دونوں سراپارجسٹرتھے ۔
حضرت مولانا نذیراحمدؒ کاانتقال پہلے اورحضرت مولانا الطاف حسینؒ کا انتقال اُن کے جانے کے کچھ بعدہوا تھا۔دونوں کا جواب نہیں تھا دونوں ہی لاجواب تھے ۔مدرسہ ان دونوں سے محروم ہوگیا۔دونوں کانعم البدل تو کیا بدل ہی مل جائے تب بھی غنیمت ہے کہ خوبصورت چیز کاسایہ اور چھایا بھی خوبصورت ہوتا ہے۔