سب تعریف اﷲ رب العزت کیلئے ہے جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے۔ رب العالمین اور قیامت کے دن کا مالک ہے۔ اس کائنات کا وہی خالق ہے وہی رب السموات والارض ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ پتہ پتہ اس کی توحید پر دلالت کرتا ہے۔کائنات کے گوشے گوشے میں اس کی قدرت کی نشانیاں پنہاں ہیں یہاں تک کہ خود انسان کا اپنا وجود قدرت کی ایک بڑی نشانی ہے، اپنے وجود پر غور و فکر کرنے سے انسان اپنے معبود کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اﷲ عزوجل نے ایک ہڈی نہیں بنائی بلکہ کثیر تعداد میں بنائیں جن کا آپس میں جوڑ ہے تا کہ اس کے سبب حرکت کرنا آسان ہو۔ اس کا طریقہ یوں رکھا کہ ایک ہڈی کے کنارے سے ریشے نکالے اور دوسری ہڈی سے جا ملائے گویا کسی چیز کو باندھا گیا ہو۔ پھر ہڈی کی ایک جانب کچھ باہر کو زائد رکھی اور دوسری ہڈی میں اس زائد کے موافق ایک گڑھا بنایا تا کہ وہ زائد اس میں داخل ہو کر مل جائے۔ تو اب انسان ایسا ہو گیا کہ جب وہ جسم کے کسی حصے کو حرکت دینے کا ارادہ کرتا ہے ہے تو اسے کوئی رکاوٹ و دشواری نہیں ہوتی۔
پھر گردن کو پیٹھ اور پیٹھ کو گردن کے نچلے حصے سے سرین کی ہڈی تک چوبیس منکوں میں مرکب کیا اور سرین کی ہڈی کو تین مختلف اجزاء سے مرکب کیا۔ پھر پیٹھ کی ہڈیوں کو سینے، کہنیوں، ہاتھوں، رانوں، پنڈلیوں اور پاؤں کی انگلیوں سے ملایا۔ اب ان سب کا ذکر کر کے کلام کو طویل نہیں کرتے۔
کانوں میں دو سوراخ بنائے اور ان میں تلخ پانی رکھا تا کہ سماعت کی حفاظت ہو اور کیڑے مکوڑے اندر نہ جائیں، کان کے گرد سیپ کی شکل میں پردہ رکھا کہ آواز وہاں جمع ہو کر پھر سوراخ کی طرف بڑھے حتیٰ کہ کیڑے کے چلنے کی آہٹ بھی محسوس ہو جائے، کان میں اونچ نیچ اور ٹیڑھا پن رکھا تا کہ اندر داخل ہونے والے کیڑے کا راستہ طویل اور حرکت زیادہ ہو کہ نیند کی حالت میں بھی اس پر خبر ہو جائے۔
ہونٹوں کو رنگ اور ان کی شکل کو خوبصورت کیا تا کہ منہ پر بھلے لگیں اور منہ کے سوراخ کو بند کریں۔ گلے میں نالی پیدا فرما کر اسے آواز نکالنے کے لیے تیار کیا، زبان کو حرکت کی قوت بخشی تا کہ آواز کو کاٹے جس کے سبب حروف مختلف مخارج سے نکلیں اور کثرت حروف بولنے کے باوجود کوئی دقت نہ ہو۔ پھر تنگی، کشادگی، سختی، نرمی، لمبائی اور چھوٹائی کے اعتبار سے نرخوں کو مخلتف شکلوں پر پیدا کیا تا کہ ان کے اختلاف سے آوازیں مخلتف رہیں۔ غور کریں دو آوازیں ایک جیسی نہیں ہوتیں بلکہ فرق واضح ہوتا ہے یہاں تک کہ سننے والا اندھیرے میں بھی لوگوں کی آواز سے ہی ان کی پہچان کر لیتا ہے۔ پھر اس ذات نے سر کو بالوں اور کنپٹیوں سے آراستہ کیا، چہرے کو داڑھی اور ابروؤں سے زینت بخشی، ابروؤں کو کمانی شکل باریک بالوں سے خوبصورتی دی اور آنکھوں کو پلکوں کی جھالر سے دلنشین کیا۔
ہاتھوں کو لمبا کیا تا کہ مقاصد کی طرف بڑھ سکیں، ساتھ ہی ہتھیلی کو چوڑائی دی اور پانچ انگلیوں میں تقیسم کر دیا، ہر انگلی کو تین تین پورے دئیے، چار انگلیوں کو ایک طرف اور انگوٹھے کو اکیلے رکھا تا کہ ان چاروں پر گھوم سکے۔
اﷲ کے کمال قدرت کے ساتھ ساتھ اس کی وسیع تر رحمت کی طرف نظر کریں کہ جب بچے کے بڑا ہو جانے سے رحم تنگ ہو جاتا ہے تو اﷲ اسے کس طرح راستہ دکھاتا ہے حتیٰ کہ بچہ اوندھا ہوتا ہے، حرکت کرتا ہے اور اس تنگ جگہ سے نکلنے کی راہ تلاش کرتا ہے، گویا جس چیز کی اسے حاجت ہے وہ اسے جانتا اور دیکھتا ہے۔
پھر اﷲ عزوجل کی رحمت اور لطف و کرم کو دیکھیں کہ اس نے دانتوں کی پیدائش کو مؤخر رکھا کیونکہ شروع میں غذا دودھ ہی ہوتی ہے جس کے لیے دانتوں کی ضرورت نہیں۔ پھر کس طرح نرم و نازک مسوڑوں سے سخت ہڈیوں کو نکالا ہے۔ پھر والدین کے دلوں میں اس کے لیے نرم گوشہ رکھا کہ جس وقت میں وہ اپنا انتظام کرنے سے عاجز ہے والدین اس کے لیے اہتمام و تدبیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد
وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ
اور خود تمہاری جانوں میں۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ (سورۃ الذریات آیت 21)
اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے کہ انسان پانی کی بوند سے پیدا ہوا اور خود انسان کی ذات میں ایسے عجائبات ہیں اﷲ کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ تمام عمر گزر جائے پھر بھی ان میں سے ایک فیصد پر بھی واقفیت حاصل نہیں ہو سکتی اور حال یہ ہے کہ ہم ان سے غافل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے اور خود تمہاری جانوں میں۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ (سورۃ الذریات آیت 21)
قُتِلَ الۡاِنۡسَانُ مَاۤ اَکۡفَرَہٗ مِنۡ اَیِّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ؕ خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ ثُمَّ السَّبِیۡلَ یَسَّرَہٗ ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقۡبَرَہٗ ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنۡشَرَہٗ
انسان مارا جائے یہ کیسا ناشکرا ہے۔ اسے ﷲ نے کس چیز سے بنایا۔ نطفے سے بنایا پھر اسکا اندازہ مقرر کیا۔ پھر اسکے لئے رستہ آسان کر دیا۔ پھر اسکو موت دی سو اسے قبر میں پہنچایا۔ پھر وہ جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا۔ (سورۃ عبس آیت 17 تا 22)
قرآن مجید میں بار بار لفظ نطفہ (مادہ منویہ) کی تکرار کا یہ مطلب یہ نہیں کہ اس لفظ کو سنایا جائے اور اس کے معنی میں غور وفکر کو چھوڑ دیا جائے بلکہ غور کرنا چاہئے کہ نطفہ پانی کا ایک ناپاک قطرہ ہے اگر ایک لمحہ کے لئے بھی چھوڑ دیا کہ اسے ہوا لگے تو خراب و بد بودار ہو جائے گا۔ تو سوچیں! کس طرح رب تعالیٰ نے اسے مردوں کی پیٹھوں اور عورتوں کے سینوں سے نکالا؟ کس طرح مرد و عورت کو جمع فرما کر ان کے دلوں میں محبت ڈالی؟ کس طرح محبت و شہوت کے سلسلے میں ان کو جمع فرمایا؟ کس طرح ہم بستری کے سبب مرد سے نطفہ کا خروج کیا؟ کس طرح باریک رگوں سے حیض کے خون کو کھینچ کر عورت کے رحم میں جمع فرمایا؟ پھر کس طرح بچے کو نطفہ سے تخلیق فرما کر حیض کے خون کو اس کی خوراک بنایاحتیٰ کہ وہ بڑھتے بڑھتے بڑا ہو گیا؟ انسان مارا جائے یہ کیسا ناشکرا ہے۔ اسے ﷲ نے کس چیز سے بنایا۔ نطفے سے بنایا پھر اسکا اندازہ مقرر کیا۔ پھر اسکے لئے رستہ آسان کر دیا۔ پھر اسکو موت دی سو اسے قبر میں پہنچایا۔ پھر وہ جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا۔ (سورۃ عبس آیت 17 تا 22)
اَلَمۡ یَکُ نُطۡفَۃً مِّنۡ مَّنِیٍّ یُّمۡنٰی ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی
کیا وہ منی کا جو ٹپکائی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا؟ پھر لوتھڑا ہوا پھر ﷲ نے اسکو بنایا۔ سو اسکے اعضاء کو درست کیا۔ (سورۃ قیامۃ آیت 37، 38)
پھر اس میں غور و فکر کریں کہ کس طرح سفید چمکتے نطفہ کو خون کی سرخ پھٹک کیا؟ پھر کیسے اس کو گوشت کا لوتھڑا کیا؟ کس طرح اس نطفہ کو ہڈیوں، پٹھوں، رگوں، ریشوں اور گوشت میں تقسیم کیاحالانکہ نطفہ کے اجزاء تو ایک ہی جیسے تھے؟ پھر کس طرح گوشت، پٹھوں اور رگوں سے ظاہری اعضاء یعنی سر کی گولائی، آنکھ، کان، ناک، منہ اور دیگر سوراخوں کو ترتیب دیا اورہاتھ پاؤں کو لمبائی دی نیز ان کے سروں کو انگلیوں میں اور انگلیوں کو پوروں میں تقسیم فرمایا؟ کیا وہ منی کا جو ٹپکائی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا؟ پھر لوتھڑا ہوا پھر ﷲ نے اسکو بنایا۔ سو اسکے اعضاء کو درست کیا۔ (سورۃ قیامۃ آیت 37، 38)
اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا
ہم نے انسان کو ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اسکو سنتا دیکھتا بنایا۔ (سورۃ الدھر آیت 2)
پھر غور وفکر کریں کہ کس طرح اس نے باطنی اعضاء دل، کلیجہ، معدہ، جگر، تلی، پھیپھڑے رحم اور آنتوں کو ترتیب دیا؟ ہر ایک کی مخصوص شکل، مخصوص مقدار اور ہر ایک کا مخصوص کام ہے۔ پھر دیکھیں کیسے ان اعضاء میں سے ہر عضو کو دوسری کئی اقسام میں تقسیم فرمایا؟ اس نے آنکھ کو سات طبقات سے مرکب کیا، ہر طبقہ کی مخصوص صورت اور مخصوص صفت ہے اگر ان سات میں سے ایک طبقہ یا ایک صفت زائل ہو جائے تو آنکھ دیکھنے سے محروم ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ان میں سے کسی ایک عضو کے عجائب و کمالات کا وصف بیان کرنا شروع کر دیں تو تمام عمر اس میں بیت جائے۔ پھر ہڈیوں کو دیکھیں کہ سخت اور مضبوط ہیں اور کس طرح الله نے ان کو نرم اور پتلے مادہ منویہ سے پیدا فرمایا ہے؟ پھر ان کو بدن کے لئے سہارا و ستون بنایا۔ پھر دیکھیں ان کی مختلف مقداریں اور مختلف شکلیں رکھیں، بعض کو چھوٹا رکھا، کچھ لمبی ہیں تو کچھ گول، کچھ کھوکھلی ہیں تو کوئی ٹھوس اور کوئی چوڑی اور کوئی پتلی۔ ہم نے انسان کو ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اسکو سنتا دیکھتا بنایا۔ (سورۃ الدھر آیت 2)
اﷲ عزوجل نے ایک ہڈی نہیں بنائی بلکہ کثیر تعداد میں بنائیں جن کا آپس میں جوڑ ہے تا کہ اس کے سبب حرکت کرنا آسان ہو۔ اس کا طریقہ یوں رکھا کہ ایک ہڈی کے کنارے سے ریشے نکالے اور دوسری ہڈی سے جا ملائے گویا کسی چیز کو باندھا گیا ہو۔ پھر ہڈی کی ایک جانب کچھ باہر کو زائد رکھی اور دوسری ہڈی میں اس زائد کے موافق ایک گڑھا بنایا تا کہ وہ زائد اس میں داخل ہو کر مل جائے۔ تو اب انسان ایسا ہو گیا کہ جب وہ جسم کے کسی حصے کو حرکت دینے کا ارادہ کرتا ہے ہے تو اسے کوئی رکاوٹ و دشواری نہیں ہوتی۔
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ
تو اے گروہ جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (سورۃ الرحمن آیت 13)
پھر دیکھیں ﷲ نے کس طرح سر کو تخلیق کیا؟ کس طرح اسے جمع کیا اور ہڈیوں کو آپس میں جوڑا؟ا ﷲ نے سر کو 55 ہڈیوں کا مرکب بنایا، ان تمام کی شکلیں الگ الگ ہیں، ان سب کو آپس میں ایسے ملایا کہ ٹھیک گول سر بن گیا جیسا کہ آپ دیکھ رہیں ہیں۔ ان میں سے چھ ہڈیاں کھوپڑی کے لیے خاص ہیں، چودہ ہڈیاں اوپر والے جبڑے کی ہیں اور دو نیچے والے جبڑے میں رکھیں۔ اس کے علاوہ باقی دانت ہیں جن میں سے کچھ چوڑے ہیں جو پیسنے کے کام آتے ہیں اور کچھ تیز ہیں جو کاٹنے کا کام دیتے ہیں۔ پھر گردن کو سر کی سواری بنایا اور سات خول دار منکوں سے اسے مرکب کیا۔ ان میں کچھ گھٹاؤ بڑھاؤ ہے تا کہ ایک دوسرے سے جڑ سکیں۔ اس میں حکمت کی وجہ کا ذکر کافی طویل ہے ۔تو اے گروہ جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (سورۃ الرحمن آیت 13)
پھر گردن کو پیٹھ اور پیٹھ کو گردن کے نچلے حصے سے سرین کی ہڈی تک چوبیس منکوں میں مرکب کیا اور سرین کی ہڈی کو تین مختلف اجزاء سے مرکب کیا۔ پھر پیٹھ کی ہڈیوں کو سینے، کہنیوں، ہاتھوں، رانوں، پنڈلیوں اور پاؤں کی انگلیوں سے ملایا۔ اب ان سب کا ذکر کر کے کلام کو طویل نہیں کرتے۔
کانوں میں دو سوراخ بنائے اور ان میں تلخ پانی رکھا تا کہ سماعت کی حفاظت ہو اور کیڑے مکوڑے اندر نہ جائیں، کان کے گرد سیپ کی شکل میں پردہ رکھا کہ آواز وہاں جمع ہو کر پھر سوراخ کی طرف بڑھے حتیٰ کہ کیڑے کے چلنے کی آہٹ بھی محسوس ہو جائے، کان میں اونچ نیچ اور ٹیڑھا پن رکھا تا کہ اندر داخل ہونے والے کیڑے کا راستہ طویل اور حرکت زیادہ ہو کہ نیند کی حالت میں بھی اس پر خبر ہو جائے۔
قُلۡ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَکُمۡ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ
کہہ دو وہی تو ہے جس نے تمکو پیدا کیا اور تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔ مگر تم کم ہی احسان مانتے ہو۔ (سورۃ الملک آیت 23)
چہرے کے درمیان ایک خوبصورت ناک اٹھائی اس کے دونوں نتھنوں کو کھولا اور اس میں سونگھنے کی حس رکھی تا کہ بو کو سونگھ کر اپنے کھانے پینے کی اشیاء کو جان سکے۔ منہ کو کھولا اور اس میں بولنے، ترجمانی کرنے اور دل کی بات بیان کرنے کے لیے زبان رکھی نیز منہ کو موتیوں جیسے دانتوں سے زینت بخشی تا کہ کاٹنے، پیسنے، اور توڑنے کا کام دیں۔ ان کی جڑوں کو مضبوط، سروں کو تیز اور رنگ کو سفید بنایا۔ سب کے سر برابر رکھ کر ان کی صفوں کو ترتیب دیا گویا لڑی میں پروئے موتی ہوں۔ کہہ دو وہی تو ہے جس نے تمکو پیدا کیا اور تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔ مگر تم کم ہی احسان مانتے ہو۔ (سورۃ الملک آیت 23)
ہونٹوں کو رنگ اور ان کی شکل کو خوبصورت کیا تا کہ منہ پر بھلے لگیں اور منہ کے سوراخ کو بند کریں۔ گلے میں نالی پیدا فرما کر اسے آواز نکالنے کے لیے تیار کیا، زبان کو حرکت کی قوت بخشی تا کہ آواز کو کاٹے جس کے سبب حروف مختلف مخارج سے نکلیں اور کثرت حروف بولنے کے باوجود کوئی دقت نہ ہو۔ پھر تنگی، کشادگی، سختی، نرمی، لمبائی اور چھوٹائی کے اعتبار سے نرخوں کو مخلتف شکلوں پر پیدا کیا تا کہ ان کے اختلاف سے آوازیں مخلتف رہیں۔ غور کریں دو آوازیں ایک جیسی نہیں ہوتیں بلکہ فرق واضح ہوتا ہے یہاں تک کہ سننے والا اندھیرے میں بھی لوگوں کی آواز سے ہی ان کی پہچان کر لیتا ہے۔ پھر اس ذات نے سر کو بالوں اور کنپٹیوں سے آراستہ کیا، چہرے کو داڑھی اور ابروؤں سے زینت بخشی، ابروؤں کو کمانی شکل باریک بالوں سے خوبصورتی دی اور آنکھوں کو پلکوں کی جھالر سے دلنشین کیا۔
ہاتھوں کو لمبا کیا تا کہ مقاصد کی طرف بڑھ سکیں، ساتھ ہی ہتھیلی کو چوڑائی دی اور پانچ انگلیوں میں تقیسم کر دیا، ہر انگلی کو تین تین پورے دئیے، چار انگلیوں کو ایک طرف اور انگوٹھے کو اکیلے رکھا تا کہ ان چاروں پر گھوم سکے۔
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے۔ پھر اسکو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر ہم نے نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی۔ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھایا پھر اسکو نئی صورت میں بنا دیا۔ سو بڑا برکت والا ہے ﷲ جو سب سے اچھا بنانے والا ہے۔ (سورۃ المؤمنون آیت 12 تا 14)
یہ تمام کام اﷲ تعالیٰ نے اس نطفہ سے پیدا فرمایا جو رحم کے اندر تین پردوں میں چھپا ہوا تھا۔ اگر بالفرض ان پردوں کو ہٹا دیا جائے اور ہماری آنکھ وہاں تک رسائی حاصل کر لے تو دیکھیں گے کہ اس کی تصویر خود بخود بنتی چلی جاتی ہے نہ کوئی مصور نظر آتا ہے نہ آلہ تصویر۔ اب آپ ہی بتائیں کیا کبھی آپ نے ایسا مصور دیکھا ہے جو آلہ صنعت کو چھوئے نہ مصنوع کو ہاتھ لگائے پھر بھی اس میں اس کا تصرف چلتا رہے؟ اس پاک ذات کی شان کتنی بلند اور دلیل کتنی واضح ہے۔ اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے۔ پھر اسکو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر ہم نے نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی۔ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھایا پھر اسکو نئی صورت میں بنا دیا۔ سو بڑا برکت والا ہے ﷲ جو سب سے اچھا بنانے والا ہے۔ (سورۃ المؤمنون آیت 12 تا 14)
اﷲ کے کمال قدرت کے ساتھ ساتھ اس کی وسیع تر رحمت کی طرف نظر کریں کہ جب بچے کے بڑا ہو جانے سے رحم تنگ ہو جاتا ہے تو اﷲ اسے کس طرح راستہ دکھاتا ہے حتیٰ کہ بچہ اوندھا ہوتا ہے، حرکت کرتا ہے اور اس تنگ جگہ سے نکلنے کی راہ تلاش کرتا ہے، گویا جس چیز کی اسے حاجت ہے وہ اسے جانتا اور دیکھتا ہے۔
اَلَمۡ نَخۡلُقۡکُّمۡ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ فَجَعَلۡنٰہُ فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ اِلٰی قَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ
کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے نہیں پیدا کیا۔ پھر اس کو ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ ایک وقت معین تک۔ (سورۃ مرسلت آیت 20 تا 22)
پھر دیکھیں جب وہ باہر آ جاتا ہے تو اور خوراک کا محتاج ہوتا ہو اﷲ کیسے چھاتی کی طرف اسے راہ دکھاتا ہے؟ پھر جب اس کا کمزور بدن بھاری غذا برداشت نہیں کر سکتا تو کیسے غلاظت اور خون کے درمیان سے خالص صاف ستھرا دودھ نکالتا ہے۔ کیسے ماں کے پستان بنائے اور ان میں دودھ کو جمع کیا، ان کے سرے ایسے بنائے کہ بچے کا منہ ان کو سما سکے۔ پھر ان دونوں میں انتہائی باریک سوراخ رکھے حتیٰ کہ مسلسل چوسنے کے بعد ہی ان میں سے تھوڑا تھوڑا دودھ نکلتا ہے کیونکہ بچہ اتنے ہی کو برداشت کر سکتا ہے۔ پھر دیکھیں کہ کیسے بچے کو چوسنے کا طریقہ سکھایا کہ اس تنگ سوراخ سے شدید بھوک کے وقت کثیر دودھ نکلتا ہے۔ کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے نہیں پیدا کیا۔ پھر اس کو ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ ایک وقت معین تک۔ (سورۃ مرسلت آیت 20 تا 22)
پھر اﷲ عزوجل کی رحمت اور لطف و کرم کو دیکھیں کہ اس نے دانتوں کی پیدائش کو مؤخر رکھا کیونکہ شروع میں غذا دودھ ہی ہوتی ہے جس کے لیے دانتوں کی ضرورت نہیں۔ پھر کس طرح نرم و نازک مسوڑوں سے سخت ہڈیوں کو نکالا ہے۔ پھر والدین کے دلوں میں اس کے لیے نرم گوشہ رکھا کہ جس وقت میں وہ اپنا انتظام کرنے سے عاجز ہے والدین اس کے لیے اہتمام و تدبیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد
اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ
کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسکو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا۔ (سورۃ یس آیت 77)
پھر دیکھیں کس طرح اﷲ اسے طاقت، تمیز، عقل اور ہدایت دیتا ہے حتیٰ کہ وہ عاقل بالغ ہو جاتا ہے۔ سن بلوغت کو پہنچتا ہے پھر نوجوان ہو جاتا ہے اس کے بعد جوان پھر ادھیڑ عمر اور پھر بوڑھا ہو جاتا ہے پھر یا تو وہ ناشکرا ہوتا ہے یا شکر گزار، نافرمان ہوتا ہے یا فرمانبردار، مومن ہوتا ہے یا کافر۔ اﷲ کا فرمان اس کی تصدیق کرتا ہے۔ کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسکو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا۔ (سورۃ یس آیت 77)
ہَلۡ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آ چکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ ہم نے انسان کو ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اسکو سنتا دیکھتا بنایا۔ یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا۔ اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ (سورۃ الدھر آیت 1 تا 3)
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آ چکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ ہم نے انسان کو ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اسکو سنتا دیکھتا بنایا۔ یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا۔ اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ (سورۃ الدھر آیت 1 تا 3)