سلسلة "حجية أخبار الآحاد"
تحریر : حافظ عبدالرحمن المعلمی
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِي مِنَ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ وَهِيَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ، وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَنْزِلُ يَوْمًا، وَأَنْزِلُ يَوْمًا - فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ........
میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی بنو امیہ بن زید کے گاؤں میں رہتے تھے جو مدینہ کی مشرقی جانب کی بستیوں سے تھا۔
ہم دونوں باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔.....(صحيح البخاري ٨٩)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:و في هَذَا الْحَدِيثِ الِاعْتِمَادُ عَلَى خَبَرِ الْوَاحِدِ۔۔۔۔۔
اس حدیث میں خبر واحد پر اعتماد کی دلیل ہے۔۔۔۔
وَفِيه أَنَّ الطَّالِبَ لَا يَغْفُلُ عَنِ النَّظَرِ فِي أَمْرِ مَعَاشِهِ لِيَسْتَعِينَ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ وَغَيْرِهِ۔۔۔۔۔
اس حدیث میں اس بات کہ بھی دلیل ہے کہ طالب علم اپنے معاش کے معاملہ میں غور و فکر کرنے سے غافل نہیں ہو گا تا کہ وہ طلبِ علم اور دیگر ضروریات پر اس سے معاونت حاصل کرے۔۔۔۔۔(فتح الباري ١٨٦/١)
علامہ شمس الدین البِرماوی (م 831ھ) لکھتے ہیں: فيه الحِرْص على طلَب العِلْم، وقَبول خبر الواحد
اس روایت میں(صحابہ کرام کے اندر) طلبِ علم پر طمع و خواہش اور خبر واحد کے مقبول ہونے کی دلیل ہے(اللامع الصبيح ٤٢٩/١)
علامہ بدر الدین العینی لکھتے ہیں:فِيهِ قبُول خبر الْوَاحِد ۔۔۔۔۔۔
اس حدیث میں خبر واحد کے مقبول ہونے کی دلیل ہے (عمدة القاري ١٠٥/٢)
وضاحت
اس حدیث سے مسئلہ بلکل واضح ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس اکیلے انصاری کی بیان کردہ روایات پر مکمل اعتماد کرتے تھے اور وہ انصاری سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ باتوں پر مکمل اعتماد کرتا تھا اور یہ فرمودہ باتیں احکام و عقائد ہر قسم سے متعلق ہوتی تھیں۔
بسر بن سعید بیان کرتے ہیں: أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ، يَسْأَلُهُ : مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي ؟
انہیں زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے ابو جھیم رضي الله عنه کی طرف بھیجا وہ ان سے سوال کرتے تھے کہ انہوں نے نماز پڑھنے والے شخص کے آگے سے گزرنے والے شخص بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے ؟
فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ
ابو جھیم رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر نماز پڑھنے والے شخص کے سامنے سے گزرنے والے انسان کو اس عمل کے گناہ کا علم ہو جائے تو وہ چالیس(دن /مہینے/سال) کھڑا رہے اسے یہ عمل پسند ہو اس عمل سے کہ وہ نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرے۔(صحیح البخاری 510)
١)حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَفِيهِ الِاعْتِمَادُ عَلَى خَبَرِ الْوَاحِدِ لِأَنَّ زَيْدًا اقْتَصَرَ عَلَى النُّزُولِ مَعَ الْقُدْرَةِ عَلَى الْعُلُوِّ اكْتِفَاءً بِرَسُولِهِ الْمَذْكُورِ
اس حدیث میں خبر واحد پر اعتماد کی دلیل ہے کیونکہ زید رضی اللہ عنہ بذات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر سکتے تھے اس کے باوجود انہوں نے ابو جھیم رضی اللہ عنہ سے مذکورہ سائل کی مدد سے سوال کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔(فتح الباری 586/1)
٢)قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وإرسال زيد بن خالد إلى أبى جهیم يسأله عما سمع من النبى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فى هذا الحديث دليل... على قبول خبر الواحد عن الواحد.
زید بن خالد کا (بسر بن سعید کو) ابو جھیم کی طرف بھیجنا کہ وہ ابو جھیم سے اس چیز بارے سوال کریں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اس حدیث میں خبر واحد کو قبول کرنے کی دلیل ہے جسے ایک شخص بیان کر رہا ہو۔(إكمال المعلم 421/2)
٣)علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَفِيه: قبُول خبر الْوَاحِد.
اس حدیث میں خبر واحد کے مقبول ہونے کی دلیل ہے(عمدة القاري 295/4)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ، وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ، فَقُلْتُ : قُلْ : هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ. فَأَذِنَ لِي.
میں آیا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تشریف فرما تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ غلام سیڑھی کے پاس تھا تو میں نے کہا:تم کہو یہ عمر بن خطاب (اجازت چاہتے) ہیں۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی۔(صحیح البخاری 7263)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے:بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى {لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ} فَإِذَا أَذِنَ لَهُ وَاحِدٌ جَازَ
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا بیان"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نبی کے گھروں میں مت داخل ہو مگر یہ کہ تمھیں اجازت دی جائے"
پس جب آنے والے شخص کو ایک آدمی اجازت دے تو کافی ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وأراد البخاري أن صيغة يؤذن لكم على البناء للمجهول تصح للواحد فما فوقه، وأن الحديث الصحيح بين الاكتفاء بالواحد على مقتضى ما تناوله لفظ الآية
امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ صیغہ مجھول "یُوذن لکم" کی دلالت ایک شخص اور اس سے زائد افراد کے لیے صحیح ہے۔صحیح حدیث نے ایک شخص کی اجازت پر اکتفاء کو واضح کر دیا جیسا کہ آیت کے الفاظ بھی اس کے متقاضی ہیں۔
فيكون فيه حجة لقبول خبر الواحد،
پس اس حدیث میں خبر واحد کی حجیت پر دلیل ہے۔(فتح الباري ٢٤٠/١٣)
امام بخاری رحمہ اللہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا پر تہمت والی مفصل روایت اپنی "الصحیح" میں متعدد جگہ لائے ہیں اس روایت کا ایک ٹکڑا یوں ہے۔
ام المومنین عائشہ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:ائْذَنْ لِي إِلَى أَبَوَيَّ. قَالَتْ : وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَسْتَيْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا
مجھے اپنے والدین کی جانب جانے کی اجازت دیں۔اماں جان فرماتی ہیں:میرا اس وقت ارادہ یہ تھا کہ میں والدین کی جانب سے اس خبر بارے یقین حاصل کر لوں۔(صحیح البخاری 2661)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں فيه وَأَنَّ خَبَرَ الْوَاحِدِ إِذَا جَاءَ شَيْئًا بَعْدَ شَيْءٍ أَفَادَ الْقَطْعُ لِقَوْلِ عَائِشَةَ أَسْتَيْقِنُ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا وَأَنَّ ذَلِكَ لَا يَتَوَقَّفُ عَلَى عَدَدٍ مُعَيَّنٍ
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب خبر واحد متعدد اسانید سے مروی ہو تو وہ قطعیّت کا فایدہ دیتی ہے اس کی دلیل ام المومنین عائشہ صدیقہ کا یہ فرمان "أَسْتَيْقِنُ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا" ہے اور علمِ قطعی کا حصول کسی معیّن عدد پر موقوف نہیں ہے۔ (فتح الباری480/8)
سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے عرض کی:إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ
بلا شبہ نوف البکالی رحمه الله کا خیال ہے (جو شخص خضر علیہ السلام کی طرف گئے) وہ بنی اسرائیل والے موسی علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی دوسرے موسی نام کے شخص تھے۔
فَقَالَ : كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ ؟ فَقَالَ : أَنَا أَعْلَمُ۔۔۔۔۔۔الخ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا:اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولا ہے پس مجھے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:موسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کی خاطر کھڑے ہوئے تو ان سے سوال ہوا:لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا میں سب سے زیادہ علم والا ہوں۔۔۔الخ
(صحیح البخاری رح 122)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:في استدلاله بذلك دليل على قوة خبر الواحد المتقن عنده حيث يطلق مثل هذا الكلام في حق من خالفه،
سیدنا عبداللہ بن عباس کا اس روایت سے دلیل لینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ متقن (ثقہ) شخص کی بیان کردہ خبر واحد ان کے نزدیک حجت تھی کیونکہ وہ اس خبر واحد کی مخالفت کرنے والے شخص پر اس قدر شدید الفاظ کے ساتھ رد کر رہے ہیں۔(فتح الباری 219/1)
تنبیہ:نوف البکالی کے بارے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:تابعي من أهل دمشق فاضل عالم لا سيما بالإسرائيليات
یہ اہل دمشق میں سے فاضل عالم تابعی تھے خصوصا اسرائیلی روایات کے خوب عالم تھے۔(فتح الباري ٢١٩/١)
حافظ صاحب "فتح الباری" میں ہی دوسری جگہ فرماتے ہیں:وهو تابعي صدوق (فتح الباري ٤١٣/٨)
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وكان عالما حكيما قاضيا وإماما لأهل دمشق
نوف البکالی عالم دانا قاضی اور اہل دمشق کے امام تھے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اہل علم فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس نے جو نوف البکالی کو اللہ کا دشمن قرار دیا یہ صرف زجر و توبیخ کی خاطر ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ نوف البکالی حقیقی طور پر اللہ کے دشمن تھے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کی وجہ سے نوف البکالی کے رد میں مبالغہ کرتے ہوئے ایسا کہا۔
سیدنا عبداللہ بن عباس نے انکار میں شدت کی خاطر غصہ کی حالت میں ایسا کہا تھا اور غصہ کی حالت میں ایسے الفاظ کہے جاتے ہیں جن کی حقیقت مراد نہیں ہوتی۔(شرح النووي لمسلم ١٣٧/١٥)
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے اپنے والد محترم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس بارے دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا:إِذَا حَدَّثَكَ شَيْئًا سَعْدٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا تَسْأَلْ عَنْهُ غَيْرَهُ.
جب تمہیں سعد ابی وقاص کوئی چیز رسول اللہ سے بیان کریں تو اس بارے کسی اور سے سوال نہ کرو۔(صحیح البخاری 202)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الصِّفَاتَ الْمُوجِبَةَ لِلتَّرْجِيحِ إِذَا اجْتَمَعَتْ فِي الرَّاوِي كَانَتْ مِنْ جُمْلَةِ الْقَرَائِنِ الَّتِي إِذَا حَفَّتْ خَبَرَ الْوَاحِدِ قَامَتْ مَقَامَ الْأَشْخَاصِ الْمُتَعَدِّدَةِ وَقَدْ يُفِيدُ الْعِلْمَ عِنْدَ الْبَعْضِ وَعَلَى أَنَّ عُمَرَ كَانَ يَقْبَلُ خَبَرَ الْوَاحِدِ
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب راوی میں موجبِ ترجیح صفات جمع ہوں تو یہ چیز ان قرائن میں سے ہے کہ جب وہ خبر واحد میں موجود ہوں تو ایسی خبر واحد متعدد لوگوں(کی بیان کردہ روایت کے)قائمقام ہوتی ہے اور کچھ اہل علم کے نزدیک بعض دفعہ یہ علم(یقین) کا فائدہ دیتی ہے۔اور (اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے) کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خبر واحد قبول فرماتے تھے۔(فتح الباری306/1)
علامہ شمس الدين أبو عبد الله محمد بن موسى النعيمي الشافعي (ت 837 ھ) فرماتے ہیں:وفي كلام عمرَ مدحٌ عظيمٌ لسَعدٍ، ودليلٌ على العمَل بخبَرِ الواحدِ
سیدنا عمر بن خطاب کے کلام میں سعد بن ابی وقاص کی بڑی مدح اور خبر واحد پر عمل کی دلیل ہے۔(اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح ٢٧٤/٢)
علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فِيهِ أَن خبر الْوَاحِد إِذا حُف بالقرائن يُفِيد الْيَقِين،
اس روایت میں دلیل ہے کہ جب خبر واحد محتف بالقرائن ہو تو وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے (عمدة القاري ٩٨/٣)
مغیرہ بن شعبۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:خَرَجَ لِحَاجَتِهِ فَاتَّبَعَهُ الْمُغِيرَةُ بِإِدَاوَةٍ فِيهَا مَاءٌ، فَصَبَّ عَلَيْهِ حِينَ فَرَغَ مِنْ حَاجَتِهِ، فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے پس مغیرہ بن شعبۃ رضی اللہ عنہ برتن میں پانی لئے آپ کے پیچھے چلے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانی بہایا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کیا اور موزوں پر مسح کیا۔(صحيح البخاري ٢٠٣)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وعند أحمد من طريق أخرى عن المغيرة أن الماء الذي توضأ به أخذه المغيرة من أعرابية صبته له من قربة كانت جلد ميتة، وأن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: " سلها، فإن كانت دبغتها فهو طهور ". وأنها قالت: إي والله لقد دبغتها
امام احمد اسے ایک دوسری سند سے سیدنا مغیرہ سے روایت لائے ہیں کہ وہ پانی جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضوء کیا وہ انہوں نے ایک اعرابیہ عورت سے لیا تھا جسے اس عورت نے مردار جانور کے چمڑے سے بنے ہوئے مشکیزے سے ان کے لئے ڈالا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ بن شعبۃ سے کہا:اس عورت سے پوچھو اگر اس نے اس چمڑے کو رنگا ہے تو یہ پانی پاک ہے اور اس عورت نے کہا:ہاں اللہ کی قسم یقینًا میں نے اسے رنگا ہے۔(ضعيف٬ مسند احمد ١٨٢٢٥)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وفيه قبول خبر الواحد في الأحكام ولو كانت امرأة، سواء كان ذلك فيما تعم به البلوى أم لا؛ لأنه صلى الله عليه وسلم قبل خبر الأعرابية كما تقدم.
اس حدیث میں احکام میں خبر کے مقبول ہونے کی دلیل ہے اگرچہ بیان کرنے والی عورت ہو خواہ وہ خبر واحد ان مسائل بارے جو (تعم بہ البلوی) بکثرت پیش آنے والے ہوں یا بکثرت پیش آنے والے نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابیہ عورت کی خبر کو قبول فرمایا جیسا کہ ذکر ہو چکا۔۔۔۔(فتح الباري ٣٠٨/١)
علامہ بدر الدین العینی الحنفي رحمہ اللہ نے بھی یہی بات لکھی ہے:فِيهِ قبُول خبر الْوَاحِد فِي الْأَحْكَام وَلَو كَانَت امْرَأَة، سَوَاء كَانَ ذَلِك فِيمَا تعم بِهِ الْبلوى ام لَا، لِأَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، قبل خبر الأعرابية (عمدة القاري١٠٠/٣)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد خطبہ دیا جس میں کچھ پند و نصائح فرمائیں پھر فرمایا:وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ لازم ہے کہ ہر موجود شخص غیر حاضر شخص تک یہ پیغام پہنچا دے۔(صحیح البخاری 1832)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے امام ابن جریر کا قول نقل کیا وہ فرماتے ہیں:فيه دليل على جواز قبول خبر الواحد؛ لأنه معلوم أن كل من شهد الخطبة قد لزمه الإبلاغ، وأنه لم يأمرهم بإبلاغ الغائب عنهم إلا وهو لازم له فرض العمل بما أبلغه كالذي لزم السامع سواء، وإلا لم يكن للأمر بالتبليغ فائدة.
اس حدیث میں خبر واحد کے قبول کرنے کے جواز کی دلیل ہے کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ یقینًا ہر حاضر شخص پر یہ پیغام پہنچانا لازم تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر حاضر افراد تک وہی پیغام پہنچانے کا حکم دیا جس پر ان کے لئے عمل کرنا واجب تھا جیسا کہ یہ پیغام خود سننے والے پر عمل کرنا واجب تھا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو پیغام پہنچانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ (فتح الباری ٤٤/٤)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ فرمایا اور کہا:آپ اہل کتاب کی طرف جا رہے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور میری رسالت کے اقرار کی دعوت دینا اور اگر وہ اسے قبول کر لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دن اور رات میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور اگر وہ اسے بھی تسلیم کر لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکاۃ فرض کی جو مالدار لوگوں سے لیکر غرباء و مساکین کے سپرد کی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔(صحیح البخاری 1496)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔۔۔۔وَقَبُولُ خَبَرِ الْوَاحِدِ وَوُجُوبُ الْعَمَلِ بِهِ۔۔۔۔۔
اس حدیث میں خبر واحد کے مقبول ہونے اور اس پر عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔(فتح الباری 360/3)
علامہ نووی رحمہ اللہ نے بھی شرح صحیح مسلم میں یہی بات لکھی فرماتے ہیں:وفي هذا الحديث قبول خبر الواحد ووجوب العمل به (١٩٧/١)
اسی بات کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی "الصحیح" کی "کتاب اخبار الآحاد" میں پیش فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف علاقوں کی جانب ایک ایک صحابی کو بھیجتے جو جا کر انہیں دین اسلام کی تبلیغ اور مکمل احکامات سکھاتا تھا۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے اس استدلال بارے فرماتے ہیں:وهو استدلال قوي لثبوت خبر الواحد من فعله صلى الله عليه وسلم، لأن خبر الواحد لو لم يكف قبوله ما كان في إرساله معنى
یہ خبر واحد کے ثبوت کے لئے رسول اللہ کے فعل سے مضبوط استدلال ہے کیونکہ اگر خبر واحد کو قبول کرنا کافی نہ ہوتا تو ان صحابہ کرام کو روانہ کرنے کا کیا فایدہ ہے ؟(فتح الباري ٢٣٥/١٣)
حافظ صاحب مزید لکھتے ہیں:والأخبار طافحة بأن أهل كل بلد منهم كانوا يتحاكمون إلى الذي أمر عليهم ويقبلون خبره ويعتمدون عليه من غير التفات إلى قرينة،
اس بارے روایات بہت زیادہ ہیں کہ ہر علاقہ والے اپنے فیصلے اسی اکیلے شخص کے سپرد کرتے تھے جسے ان پر امیر مقرر کیا گیا ہوتا تھا اور وہ اہل علاقہ اس کی خبر کو قبول کرتے اور اس کسی قرینہ کی طرف التفات کئے بغیر اس پر اعتماد کرتے تھے۔(فتح الباري ٢٣٥/١٣)
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی "الرسالۃ" میں خبر واحد کی حجیت کے دلائل پیش کرتے ہوئے اس چیز کا ذکر کیا ہے جس کی تفصیل الگ ذکر کی جائیگی(ان شاء اللہ تعالیٰ)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:جب بحرین سے مال آئے گا تو میں اس میں سے تمہیں اتنا مال دوں گا۔
ابھی بحرین سے مال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وفات پا گئے۔جب بحرین سے مال آیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَةٌ أَوْ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنَا.
جس کسی کا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی قرض تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوئی وعدہ کر رکھا تھا وہ ہمارے پاس ائے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں ان کے پاس آیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یوں فرمایا تھا۔
آپ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا پس میں نے شمار کیا وہ پانچ سو کی رقم تھی۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا:اس سے دو گنا اور لے لو۔(صحیح البخاری 2296)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَفِيهِ قَبُولُ خَبَرِ الْوَاحِدِ الْعَدْلِ وَلَوْ جَرَّ ذَلِكَ نَفْعًا لِنَفْسِهِ لِأَنَّ أَبَا بَكْرٍ لَمْ يَلْتَمِسْ مِنْ جَابِرٍ شَاهِدًا عَلَى صِحَّةِ دَعْوَاهُ
اس حدیث میں عادل شخص کی خبر واحد کے مقبول ہونے کی دلیل ہے اگرچہ اس بیان کردہ حدیث کا فائدہ اسے خود ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ان کے اس دعوی بارے کسی دلیل کا مطالبہ نہیں کیا(فتح الباري ٤٧٥/٤)
علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:إِنَّمَا لم يلْتَمس شَاهدا مِنْهُ لِأَنَّهُ عدل بِالْكتاب وَالسّنة.
سیدنا ابوبکر صدیق نے جابر بن عبداللہ سے دلیل کا مطالبہ اس لئے نہیں کیا کیونکہ ان کے عادل ہونے کی دلیل کتاب و سنت میں موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"كُنْتُم خير أمة أخرجت للنَّاس" "وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أمة وسطا" اگر جابر بن عبداللہ جیسا شخص امت میں بہترین نہیں تو اور کون ہو سکتا ہے ؟
حدیث میں آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:من کذب علیّ متعمدًا۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص قصدًا مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ جھنم میں بنا لے۔
وَلَا يظنّ ذَلِك لمُسلم. فضلا عَن صَحَابِيّ، فَلَو وَقعت هَذِه الْمَسْأَلَة الْيَوْم فَلَا تقبل إلاَّ بِبَيِّنَة.
کسی عام مسلمان بارے یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولے چہ جائیکہ ایسا گمان کسی صحابی کے بارے میں ہو۔ اگر ایسا مسئلہ آج پیش ہو تو اسے دلیل کے ساتھ ہی قبول کیا جائے گا۔(عمدة القاري١٢١/١٢)
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا:بَابُ الْحُجَّةِ عَلَى مَنْ قَالَ إِنَّ أَحْكَامَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ ظَاهِرَةً وَمَا كَانَ يَغِيبُ بَعْضُهُمْ مِنْ مَشَاهِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمُورِ الْإِسْلَامِ
اس شخص پر حجت کا بیان جس نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات ظاہر تھے اور (اس بات کا بیان کہ)بعض صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امورِ اسلام کے مشاہدہ سے غائب ہوتے تھے۔
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:أَرَادَ الرَّدَّ عَلَى الرَّا فِضَةَ وَالْخَوَا رِجِ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّ أَحْكَامَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُنَنَهُ مَنْقُولَةٌ عَنْهُ نَقْلَ تَوَاتُرٍ وَأَنَّهُ لَا يَجُوزُ الْعَمَلُ بِمَا لَمْ يُنْقَلْ مُتَوَاتِرًا
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود روافض و خوارج پر رد کرنا ہے جن کا گمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکامات و سنن بالتواتر منقول ہیں۔ اور جو سنن و احکام بالتواتر منقول نہیں ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔
وَقَوْلُهُمْ فى غاية الجهل بالسنن وطرقها و مَرْدُودٌ بِمَا صَحَّ أَنَّ الصَّحَابَةَ كَانَ يَأْخُذُ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ وَرَجَعَ بَعْضُهُمْ إِلَى مَا رَوَاهُ غَيْرُهُ وَانْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى الْقَوْلِ بِالْعَمَلِ بِأَخْبَارِ الْآحَادِ
ان (روافض و خوارج) کا یہ قول احادیث اور ان کی اسانید سے انتہاء درجے کی جہالت کا ثبوت اور مرجوح ہے جس کا سبب کہ صحابہ کرام سے صحیح ثابت ہے کہ بعض صحابہ کرام دیگر صحابہ سے احکامات لیتے اور ان کی بیان کردہ روایات کی طرف رجوع کرتے تھے اور اخبار آحاد کے معمول بہا ہونے پر اجماع منعقد ہے۔(شرح صحيح البخاري لابن بطال ٣٨٥/١٠) (فتح الباري ٣٢١/١٣) (عمدة القاري ٦٧/٢٥)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَقَدْ عَقَدَ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَدْخَلِ بَاب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّهُ قَدْ يَعْزُبُ عَلَى الْمُتَقَدِّمِ الصُّحْبَةَ الْوَاسِعِ الْعِلْمُ الَّذِي يَعْلَمُهُ غَيْرُهُ
امام بیھقی رحمہ اللہ نے "المدخل" میں باب قائم کیا
"اس بات پر دلیل کا بیان کہ بعض اوقات پہلے اسلام قبول کرنے والے اور زیادہ علم رکھنے والے شخص پر وہ بات مخفی رہ جاتی ہے جسے بعد میں ایمان لانے والا اور کم علم رکھنے والا شخص جانتا ہوتا ہے۔"
اس باب میں امام بیھقی رحمہ اللہ نے متعدد احادیث ذکر کی ہیں۔
بطور مثال آپ سنن ابی داؤد (2894) صحيح البخاري (2062) (1563) نمبر احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
ان روایات کے بعد امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فِي هَذَا دَلَالَةٌ عَلَى إِتْقَانِهِمْ فِي الرِّوَايَةِ وَفِيهِ أَبْيَنُ الْحُجَّةِ وَأَوْضَحُ الدَّلَالَةِ عَلَى تَثْبِيتِ خَبَرِ الْوَاحِدِ وَأَنَّ بَعْضَ السُّنَنِ كَانَ يَخْفَى عَنْ بَعْضِهِمْ وَأَنَّ الشَّاهِدَ مِنْهُمْ كَانَ يُبَلِّغُ الْغَائِبَ مَا شَهِدَ وَأَنَّ الْغَائِبَ كَانَ يَقْبَلُهُ مِمَّنْ حَدَّثَهُ وَيَعْتَمِدُهُ وَيَعْمَلُ بِهِ
ان احادیث میں روایات بیان کرنے میں صحابہ کرام کے اتقان اور خبر واحد کے اثبات پر بلکل واضح دلیل و حجت ہے اور اس چیز کا بیان ہے کہ بعض سنن بعض صحابہ کرام پر مخفی ہوتی تھیں اور ان میں موجود شخص غیر حاضر شخص تک رسول اللہ کا فرمان پہنچا دیتا تھا اور غیر حاضر شخص اس موجود شخص کی بیان کردہ حدیث پر اعتماد و عمل کرتا تھا۔(المدخل إلى السنن الكبرى ١٧٩/١) (فتح الباري ٣٢٢/١٣)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے تحت یہ حدیث بیان فرمائی ہے۔
سید الفقہاء والمحدثین ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:إِنَّكُمْ تَزْعُمُونَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ الْمَوْعِدُ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا، أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، وَكَانَتِ الْأَنْصَارُ يَشْغَلُهُمُ الْقِيَامُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، فَشَهِدْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، وَقَالَ : " مَنْ يَبْسُطْ رِدَاءَهُ حَتَّى أَقْضِيَ مَقَالَتِي ثُمَّ يَقْبِضْهُ، فَلَنْ يَنْسَى شَيْئًا سَمِعَهُ مِنِّي ؟ ". فَبَسَطْتُ بُرْدَةً كَانَتْ عَلَيَّ، فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ، مَا نَسِيتُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْهُ.
تم سمجھتے ہو کہ ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت حدیث بیان کرتا ہے، اللہ کے حضور میں سب کو پیش ہونا ہے۔ بلا شبہ میں ایک مسکین شخص تھا اور پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتا تھا لیکن مہاجرین کو بازار کے کاروبار مشغول رکھتے تھے اور انصار کو اپنے مالوں کی دیکھ بھال مصروف رکھتی تھی۔ میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون اپنی چادر پھیلائے گا، یہاں تک کہ میں اپنی بات پوری کر لوں اور پھر وہ اپنی چادر سمیٹ لے اور اس کے بعد کبھی مجھ سے سنی ہوئی کوئی بات نہ بھولے۔ چنانچہ میں نے اپنی چادر جو میرے جسم پر تھی، پھیلا دی اور اس ذات کی قسم جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا تھا پھر کبھی میں آپ کی کوئی حدیث جو آپ سے سنی تھی، نہیں بھولا۔ (صحیح البخاری7354)
حدیث کی باب کے ساتھ مطابقت بلکل واضح ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی روایات و واقعات بیان کرتے تھے جن سے اکثر صحابہ کرام لا علم ہوتے تھے اور جب انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت پہنچتی تو وہ اس پر عمل کرتے تھے۔ پس اس حدیث میں خبر واحد کے مقبول ہونے کی دلیل ہے۔
امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وفي رواية الصحابة رضي الله عنهم، بعضهم عن بعضٍ أبينُ للحجة، وأوضح للدلالة على تثبيت خبر الواحد، وأن بعض السنن قد كان يخفى عن بعضهم، وأن الشاهد منهم كان يبلغ الغائب ما شهد، وأن الغائب منهم كان يقبله ممن حدث، ويعتقده ويعمل به.
بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دیگر بعض صحابہ سے روایت کرنا خبرِ واحد کے اثبات اور اس بات پر واضح دلیل و حجت ہے کہ کچھ احادیث بعض صحابہ کرام سے مخفی ہوتیں تھیں اور صحابہ کرام میں سے جو موجود ہوتا وہ دیگر غیر موجود صحابہ تک رسول اللہ کا فرمان پہنچاتا تو وہ اسے قبول کرتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔
اس کے بعد امام بیھقی رحمہ اللہ نے ان صحابہ کرام کی تفصیل ذکر کی جنہوں نے دیگر صحابہ کرام سے روایات بیان کیں ہیں۔
1)وہ صحابہ کرام جنہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایات بیان کیں۔
سیدنا عمر بن الخطاب سیدنا عبد الله بن عمر سیدنا زيد بن ثابت سیدنا عبد الله بن عباس سیدنا عبد الله بن عمرو سیدنا براء بن عازب سیدنا أبو هريرة سیدنا أنس بن مالك سیدنا عقبة بن الحارث ام المؤمنین عائشة بنت الصديق رضی اللہ عنھم اجمعین
2)وہ صحابہ کرام جنہوں نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایات بیان کیں۔
سیدنا عبد الله بن عمر سیدنا عبد الله بن عباس سیدنا عبد الله ابن الزبير سیدنا مِسْور بن مخرمة سیدنا جابر بن عبد الله سیدنا أبو موسى الأشعري سیدنا أبو هريرة سیدنا أنس بن مالك سیدنا عدي بن حاتم سیدنا عبد الله بن السعدي سیدنا عبد الله بن عامر بن ربيعة سیدنا السائب بن يزيد، سیدنا ثعلبة بن أبي مالك القُرظي ام المومنین حفصة بنت عمر، سیدنا أبو سعيد سعد بن مالك الخدري سیدنا النعمان بن بشير سیدنا أبو الطفيل سیدنا عقبة بن عامر سیدنا يعلى بن أمية سیدنا عبد الله بن سَرْجِس سیدنا شُرحبيل بن السِّمْط رضی اللہ عنھم اجمعین
3)وہ صحابہ کرام جنہوں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایات بیان کیں۔
سیدنا زيد بن خالد الجهني سیدنا عبد الله بن الزبير سیدنا أنس بن مالك سیدنا السائب بن يزيد رضی اللہ عنھم اجمعین
4)وہ صحابہ کرام جنہوں نے سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایات بیان کیں۔
سیدنا الحسين بن علي سیدنا عبد الله بن عباس سیدنا عبد الله بن جعفر سیدنا أبو جُحيفة سیدنا النزّال بن سَبْرة سیدنا أبو الطفيل عامر بن واثلة رضی اللہ عنھم اجمعین
5)سیدنا عبد الله بن عباس سیدنا عبد الله بن عامر بن ربيعة رضی اللہ عنھما نے سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه سے روایات بیان کی ہیں۔
6)سیدنا سائب بن یزید نے سیدنا طلحۃ بن عبیداللہ سے روایت بیان کی ہے۔
7)سیدنا عبداللہ بن زبیر نے اپنے والد زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے۔
8)سیدنا جابر بن سمرۃ اور عبداللہ بن عمر نے سیدنا سعد بن ابی وقاص سے روایت بیان کی ہے۔
9)سیدنا عمرو بن حریث نے سعید بن زید بن عمرو سے روایت بیان کی ہے۔
10)سیدنا جابر بن عبداللہ نے سیدنا ابو عبیدۃ بن الجراح سے روایت بیان کی ہے۔
11)سیدنا ابو موسیٰ اشعری انس بن مالک اور النزَّال ابن سَبْرة نے سیدنا ابن مسعود سے روایت بیان کی ہے۔
12)سیدنا ابو موسیٰ نے عمار بن یاسر سے روایت بیان کی ہے۔
13)سیدنا انس بن مالک اور ابو الطفیل نے سیدنا معاذ بن جبل سے روایت بیان کی ہے۔
14)سیدنا ابن عباس سیدنا انس بن مالک اور ابو ایوب انصاری نے سیدنا ابی بن کعب سے روایت بیان کی ہے۔
15)سیدنا عبداللہ بن عباس اور انس بن مالک نے سیدنا ابو ذر غفاری سے روایت بیان کی ہے۔
16)سیدنا انس بن مالک نے مالک بن صعصعۃ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے۔
17)سیدنا عمار بن ياسر جندُب عبد الله بن يزيد أبو الطفيل عامر بن واثلة اور عبد الله بن عُكَيم نے سیدنا حذيفة بن اليمان سے روایت بیان کی ہے۔
18)سیدنا انس بن مالک نے ابو موسیٰ اشعری سے روایت بیان کی ہے۔
19)سیدنا انس نے جریر بن عبداللہ البجلی سے روایت بیان کی ہے۔
20)سیدنا عبد الله بن عمر أنس بن مالک عبد الله بن يزيد، سهل بن أبي حثمة اور أبو سعيد الخدري نے زيد بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے۔
21)سیدنا جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن عمر نے ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے۔
22)سیدنا ابن عباس زيد بن خالد أنس بن مالك اور وعبد الله بن أبي طلحة نے أبو طلحة الأنصاري رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے۔
23)سیدنا جابر بن عبداللہ عبداللہ بن عباس اور انس بن مالک نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے۔
24)سیدنا انس بن مالک اور محمود بن الربیع نے سیدنا عبادۃ بن الصامت سے روایت بیان کی ہے۔
25)سیدنا البراء بن عازب عبد الله بن يزيد اور سیدنا جابر ابن سمرة نے سیدنا أبو أيوب الأنصاري رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے۔
26)سیدنا المسور بن مخرمة نے سیدنا عمرو بن عوف البدري سے روایت بیان کی ہے۔
27)سیدنا ابن عمر نے سیدنا ابو لبابۃ سے روایت بیان کی ہے۔
28)سیدنا انس نے محمود بن الربیع سے وہ عتبان بن مالک سے روایت بیان کرتے ہیں۔پھر سیدنا انس نے عتبان بن مالک سے روایت بیان کی ہے۔
29)سیدنا انس بن مالک اور ابو سعید الخدری نے اسید بن حضیر سے روایت بیان کی ہے۔
30)سیدنا انس بن مالک نے ابو اسید الانصاری سے روایت بیان کی ہے۔
31)سیدنا ابو سعید الخدری نے سیدنا ابو قتادۃ سے روایت بیان کی ہے۔
32)سیدنا جابر بن عبداللہ نے ابو حمید الساعدی سے روایت بیان کی ہے۔
33)سیدنا ابن عمر اور سائب بن یزید نے رافع بن خدیج سے روایت بیان کی ہے۔
34)سیدنا عبداللہ بن یزید نے ابو مسعود انصاری سے روایت بیان کی ہے۔
35)سیدنا انس بن مالک نے زید بن ارقم سے روایت بیان کی ہے۔
36)سیدنا ابو جحیفۃ اور عبداللہ بن یزید نے براء بن عازب سے روایت بیان کی ہے۔
37)سیدنا عبداللہ بن عباس نے اپنے بھائی فضل بن عباس سے روایت بیان کی ہے۔
38)سیدنا ابن عباس نے اسامہ بن زید سے روایت بیان کی ہے۔
39)سیدنا ابن عباس نے خالد بن ولید سے روایت بیان کی ہے۔
40)سیدنا مسور بن مخرمۃ اور اور ابو الطفیل نے سیدنا ابن عباس سے روایت بیان کی ہے۔
41)سیدنا عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عامر نے عامر بن ربیعۃ سے روایت بیان کی ہے۔
42)سیدنا ابن عمر كعب بن عُجْرة أبو عبد الله عبد الرحمن بن عُسَيلة الصُّنَابحي نے سیدنا بلال بن رباح سے روایت بیان کی ہے۔
43)سیدنا عبد الله بن وديعة الأنصاري اورشُرحبيل بن السِّمْط الكندي نے سیدنا سلمان الفارسي رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے۔
44)سیدنا سليمان بن صُرَد نے سیدنا جبير بن مطعم سے روایت بیان کی ہے۔
45)سیدنا عبد الله بن الزبير السائب بن يزيد نے سفيان بن أبي زهير سے روایت بیان کی ہے۔
46)سیدنا السائب بن يزيد نے العلاء بن الحضرمي سے روایت بیان کی ہے۔
47)سیدنا ابن عباس نے الصعب بن جَثّامة سے روایت بیان کی ہے۔
48)سیدنا ابن عباس نے أبو سفيان بن حرب سے روایت بیان کی ہے۔
49)سیدنا ابن عباس أبو سعيد الخدري جرير بن عبد الله، اور السائب بن يزيد نے معاوية بن أبي سفيان سے روایت بیان کی ہے۔
50)سیدنا المسور بن مخرمة نے المغيرة بن شعبة سے روایت بیان کی ہے۔
51)سیدنا عبد الله بن مسعود نے سعد بن معاذ سے روایت بیان کی ہے۔
52)سیدنا أنس بن مالك نے ثابت بن قيس بن شَمّاس سے روایت بیان کی ہے۔
53)سیدنا أبو سعيد الخدري نے قتادة بن النعمان سے روایت بیان کی ہے۔
54)سیدنا النعمان بن بشير نے عبد الله بن رواحة سے روایت بیان کی ہے۔
55)سیدنا المسيَّب بن حزن نے اپنے والد حزن سے روایت بیان کی ہے۔
56)سیدنا جابر بن سمرة نے نافع بن عتبة بن أبي وقاص سے روایت بیان کی ہے۔
57)سیدنا أبو الطفيل نے حذيفة بن أَسِيد سے روایت بیان کی ہے۔
58)سیدنا عبد الله بن عمرو نے عبد الله بن السائب سے روایت بیان کی ہے۔
59)سیدنا أبو أمامة نے عمرو بن عَبَسَة سے روایت بیان کی ہے۔
60)سیدنا ابن عباس نے ذُؤَيبٍ أبي قَبيصة سے روایت بیان کی ہے۔
61)سیدنا واثلة بن الأسقع نے أبو مرثد الغَنَوي سے روایت بیان کی ہے۔
62)ام المومنین عائشة نے فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم سے روایت بیان کی ہے۔
63)سیدنا عبد الله بن الزبير أبو موسى الأشعري، أبو هريرة، اور زينب بنت أبي سلمة نے عائشة بنت الصديق سے روایت بیان کی ہے۔
64) سیدنا جابر بن عبد الله نے أم كلثوم بنت أبي بكر سے وہ ام المومنین عائشة سے روایت بیان کی ہے۔
65)سیدنا ابن عمر المطلب بن أبي وداعة السهمي نے حفصة بنت عمر سے روایت بیان کی ہے۔
66)زينب بنت أم سلمة نے أم المومنین أم حبيبة بنت أبو سفيان سے روایت بیان کی ہے۔
67)سیدنا ابن عباس نے ميمونة بنت الحارث سے روایت بیان کی ہے۔
68)سیدنا ابن عباس نے جويرية بنت الحارث سے روایت بیان کی ہے۔
69)سیدنا ابن عباس نے سودة بنت زمعة سے روایت بیان کی ہے۔
70)سیدنا ابن عباس نے اپنی والدہ أم الفضل بنت الحارث سے روایت بیان کی ہے۔
71)سیدنا ابن عباس نےعن أسماء بنت أبي بكر سے روایت بیان کی ہے۔
72)سیدنا أنس نے أم حرام بنت ملحان سے روایت بیان کی ہے۔
73)سیدنا أنس نے أم سليم بنت ملحان سے روایت بیان کی ہے۔
74)سیدنا جابر بن عبد الله نے أم شريك سے روایت بیان کی ہے۔
74)سیدنا سعد بن أبي وقاص نے خولة بنت حكيم سے روایت بیان کی ہے۔
75)ام المومنین عائشة نے جُدامة بنت وهب سے روایت بیان کی ہے۔
76)سیدنا جابر بن عبد الله نے أم مبشر الأنصارية سے روایت بیان کی ہے۔رضی اللہ عنھم اجمعین
امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فهذا جملة ما صح في كتاب البخاري ومسلم، أو أحدهما، من رواية بعض الصحابة عن بعض
یہ وہ تمام صحابہ کرام ہیں جن کا ایک دوسرے سے روایات بیان کرنا صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کتاب میں صحیح ثابت ہے۔
وفي كل ذلك دلالةٌ على إتقانهم رضي الله عنهم في الرواية، وأنهم كانوا سابقين بكل خير ونعمة، وكيف لا يكونون كذلك وقد صحبوا خيرَ الخلق بأحسنِ صحبة، وجهدوا في جمع سنته للاقتداء بهديه حسب الطاقة، ولذلك قال صلى الله عليه وسلم: "خير الناس قرني"، وفقنا الله تعالى للاقتداء بهديهم، والاستنان بسنتهم، ولزوم طريقتهم في تثبيت خبر الواحد وقبوله والعمل به.
ان تمام روایات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے روایات بیان کرنے میں پختگی کی اور اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہر خیر و فضل میں سبقت لے جانے والے ہیں اور وہ اس طرح کیوں نہ ہوں حالانکہ یقینًا وہ مخلوق میں سب سے افضل انسان کی صحبت میں بہترین اہتمام کے ساتھ رہے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کی پیروی کرتے ہوئے آپ کے فرامین جمع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سب سے بہترین زمانہ میرا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام کے راستے کی پیروی ان کے منھج کی اتباع اور خبر واحد کے اثبات و قبول اور اس پر عمل کرنے میں ان کے راستے کو لازم پکڑنے کی توفیق دے۔
المدخل إلى السنن الكبرى (١٩٣/١)
لَمْ يَكُنْ عُمَرُ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنَ الْمَجُوسِ حَتَّى شَهِدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ
عمر رضی اللہ عنہ نے پارسیوں سے جزیہ نہیں لیا تھا یہاں تک کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے پارسیوں سے جزیہ لیا تھا (تو وہ بھی لینے لگے تھے )۔(صحیح البخاری 3157)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَفِي الْحَدِيثِ قَبُولُ خَبَرِ الْوَاحِدِ وَأَنَّ الصَّحَابِيَّ الْجَلِيلَ قَدْ يَغِيبُ عَنْهُ عِلْمُ مَا اطَّلَعَ عَلَيْهِ غَيْرُهُ مِنْ أَقْوَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَحْكَامِهِ
اس حدیث میں خبر واحد کی قبولیت اور اس بات پر دلیل ہے کہ بسا اوقات کسی عظیم صحابی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال و اقوال پوشیدہ ہوتے ہیں جس پر کوئی دوسرا صحابی مطلع ہوتا ہے(فتح الباری 262/6)
علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:وَفِي الحَدِيث قبُول خبر الْوَاحِد
اس حدیث میں خبر واحد کی قبولیت پر دلیل ہے۔(عمدة القاري 80/15)
امام بیھقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس باب کے تحت ذکر فرمایا ہے:باب ما ورد عن الخلفاء الراشدين وغيرهم من الصحابة من تثبيت خبر الواحد، وقبوله، والعمل به
ان روایات کا بیان جس میں خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام سے خبر واحد کے اثبات و قبول اور اس پر عمل کرنے کا ذکر ہے۔(المدخل إلى السنن الكبرى١٤٨/١)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں (شراب کی حرمت نازل ہونے سے قبل) سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر لوگوں کو شراب پلا رہا تھا پس شراب کی حرمت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والے شخص کو حکم دیا پس اس نے شراب کی حرمت کا اعلان کر دیا۔
سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا:باہر نکلو اور دیکھو کہ یہ کیسی آواز ہے؟ پس میں باہر گیا اور میں نے کہا:یہ ایک اعلان کرنے والا اعلان کر رہا ہے کہ بلا شبہ شراب حرام کر دی گئی ہے۔ سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا:جاؤ اور شراب بہا دو۔۔۔۔(صحیح البخاری 4620)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:قال ابن التين وغيره: في حديث أنس وجوب قبول خبر الواحد والعمل به في النسخ وغيره،
علامہ ابن التین(محمد بن عبد الواحد السفاقسي) اور ان کے علاؤہ اہل علم کہتے ہیں:سیدنا انس بن مالک کی روایت میں خبر واحد کے قبول اور(احکامات کے) نسخ وغیرہ میں معمول بھا ہونے کی دلیل ہے۔(فتح الباری 279/8)
امیر المؤمنین سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک دن نماز(عصر) تاخیر سے ادا کی تو عروۃ بن زبیر ان کے پاس آئے اور بتلایا کہ ایک دن مغیرۃ بن شعبۃ رضی اللہ عنہ نے نماز تاخیر کے ساتھ ادا کی جب وہ عراق میں تھے تو سیدنا ابو مسعود الانصاری رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا:مَا هَذَا يَا مُغِيرَةُ ؟ مغیرہ یہ کیسا کام ہے ؟
أَلَيْسَ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ جِبْرِيلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ فَصَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ : " بِهَذَا أُمِرْتُ " ؟
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے نماز پڑھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرائیل علیہ السلام نے نماز پڑھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرائیل علیہ السلام نے نماز پڑھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ میں اسی طرح حکم دیا گیا ہوں ؟
سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عروہ سے کہا:اعْلَمْ مَا تُحَدِّثُ، أَوَأَنَّ جِبْرِيلَ هُوَ أَقَامَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقْتَ الصَّلَاةِ ؟
خوب جان لو جو آپ بیان کر رہے ہو۔ کیا جبریل علیہ السلام نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات کی خبر دی تھی ؟
قَالَ عُرْوَةُ : كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ.
عروۃ بن زبیر نے کہا:مجھے بشیر بن مسعود نے اپنے والد سے یوں ہی بیان کیا ہے۔(صحیح البخاری 521)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:و(فیہ) قبول خبر الواحد الثبت.
اس حدیث میں اکیلے ثقہ شخص کی بیان کردہ روایت(خبر واحد) کو قبول کرنے کی دلیل ہے۔(فتح الباري ٦/٢)
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وفيه ما عرف من فعل السلف، فى قبول خبر الواحد والعمل به فى الديانات
اس حدیث میں اس چیز کی دلیل ہے جو سلف کے فعل سے معروف ہے (یعنی) دینی امور میں خبر واحد کو قبول اور اس پر عمل کرنا ہے۔(إكمال المعلم ٥٦٥/٢)
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ اور ان کے علاؤہ اہل علم نے اس روایت سے دلیل لی کہ قابل حجت صرف متصل روایت ہے نا کہ منقطع کیونکہ جب عروہ بن زبیر نے مرسل روایت بیان کی تو سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے سوال پر اس واسطہ کا ذکر کیا جس سے انہوں نے روایت لی تھی۔
گویا کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے انہیں کہا:آپ اپنی بات پر غور و خوض کریں شاید کہ آپ کو یہ بات کسی غیر ثقۃ شخص کے واسطہ سے پہنچی ہو تو عروۃ بن زبیر نے انہیں جواب دیا:میں نے یہ روایت ایسے شخص سے سنی ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سے یہ روایت سنی اور اس صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے۔(فتح الباري ٦/٢)
علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات لکھی ہے:فِيهِ أَن الْحجَّة فِي الحَدِيث الْمسند دون الْمَقْطُوع، وَلذَلِك لم يقنع عمر بِهِ، فَلَمَّا أسْند إِلَى بشير بن أبي مَسْعُود قنع بِهِ. (عمدة القاري ٥/٥)
علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَلَمْ تَخْتَلِفِ الْآثَارُ وَلَا اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْخَبَرِ وَالسِّيَرِ أَنَّ الصَّلَاةَ إِنَّمَا فُرِضَتْ عَلَى النَّبِيِّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - بِمَكَّةَ حِينَ أُسْرِيَ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ثُمَّ عُرِجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ أَتَاهُ جِبْرِيلُ مِنَ الْغَدِ فَصَلَّى بِهِ الصَّلَوَاتِ لِأَوْقَاتِهَا
اس متعلق تمام روایات محدثین اور سیرت نگار متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز مکہ میں فرض کی گئی جب انہیں مسجد الحرام سے مسجد اقصی اور پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر کروائی گئی پھر اگلے دن جبریل امین علیہ السلام تشریف لائے اور تمام نمازوں کی ان کے اوقات میں امامت کروائی ۔۔۔(الاستذکار 17/1)
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:مجھے مذی بکثرت آتی تھی اور میں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا داماد تھا اس لئے میں نے سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ اس متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کریں۔
انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وضو کرو اور اپنی شرمگاہ دھو لو۔(صحیح البخاری 269)
علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:قبُول خبر الْوَاحِد، والاعتماد على الْخَبَر المظنون مَعَ الْقُدْرَة على الْمَقْطُوع بِهِ، فَإِن عليا اقْتصر على قَول الْمِقْدَاد مَعَ تمكنه من سُؤال النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم.
اس حدیث میں خبر واحد کے مقبول اور دلیلِ ظنی پر اعتماد کے جواز کی دلیل ہے باوجود کہ انسان کے لئے دلیلِ قطعی کا حصول ممکن ہو کیونکہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے سیدنا مقداد کے قول پر اکتفاء کیا باوجود کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر سکتے تھے۔(عمدة القاري ٢١٩/٣)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اس استدلال کو محل نظر قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں:وَفِيهِمَا نَظَرٌ لِمَا قَدَّمْنَاهُ مِنْ أَنَّ السُّؤَالَ كَانَ بِحَضْرَةِ عَلِيٍّ ثُمَّ لَوْ صَحَّ أَنَّ السُّؤَالَ كَانَ فِي غَيْبَتِهِ لَمْ يَكُنْ دَلِيلًا عَلَى الْمُدَّعَى لِاحْتِمَالِ وُجُودِ الْقَرَائِنِ الَّتِي تَحُفُّ الْخَبَرَ فَتُرَقِّيهِ عَنِ الظَّنِّ إِلَى الْقَطْعِ
اس حدیث سے مستدَلّ یہ دونوں مسائل محل نظر ہیں کیونکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ سیدنا مقداد بن اسود کا یہ سوال سیدنا علی المرتضی کی موجودگی میں تھا۔ پھر اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ سوال کے وقت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ موجود نہیں تھے تو پھر بھی یہ حدیث مدعٰی (دوسری بات) پر دلیل نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ مقداد بن اسود کی بیان کردہ روایت میں ایسے قرائن موجود ہوں جن سے وہ درجہ ظن سے یقین تک پہنچ گئی ہو۔(فتح الباری 381/1)
علامہ عینی رحمہ اللہ شاید ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ پر ہی رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:قَالَ بَعضهم لَعَلَّ عليا رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ كَانَ حَاضرا وَقت السُّؤَال فَلَا دَلِيل عَلَيْهِ
بعض لوگوں نے کہا ہے:شاید کہ سیدنا مقداد بن اسود کا سوال سیدنا علی المرتضی کی موجودگی میں تھا پس اس پر کوئی دلیل نہیں۔
پھر علامہ عینی رحمہ اللہ خود ہی چند سطور بعد لکھتے ہیں:.وَجَاء أَيْضا فِي النَّسَائِيّ مَا يثبت الِاحْتِمَال الْمُتَقَدّم فَقلت لرجل جَالس إِلَى جَنْبي سَله فَقَالَ فِيهِ الْوضُوء
سنن نسائی میں ایک روایت موجود ہے جو سابق الذکر احتمال کو ثابت کرتی ہے.(اس روایت کے الفاظ ہیں سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں نے اپنی جانب بیٹھے ایک شخص سے کہا:تم سوال کرو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس میں وضو ہے۔(عمدة القاري٢١٦/٢)
یہ روایت سنن النسائی میں (152) نمبر پر ہے۔
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ یہ روایت ان الفاظ "فَقُلْتُ لِرَجُلٍ جَالِسٍ إِلَى جَنْبِي" کے ساتھ شاذ ہے کیونکہ ابو حصین سے انہیں بیان کرنے میں ابوبکر بن عیاش متفرد ہیں اور دیگر ثقات انہیں بیان نہیں کرتے۔۔۔۔۔
علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں:نَعَمْ إنْ وُجِدَتْ رِوَايَةٌ مُصَرِّحَةٌ بِأَنَّ عَلِيًّا أَخَذَ هَذَا الْحُكْمَ عَنْ الْمِقْدَادِ، فَفِيهِ الْحُجَّةُ.
اگر کسی روایت میں صراحت موجود ہو کہ سیدنا علی المرتضی نے یہ حکم مقداد بن اسود سے ہی لیا تو اس میں خبر واحد کے مقبول ہونے کی دلیل ہے۔(إحكام الأحكام ١١٦/١)
علامہ نووی رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں:وَأَنَّهُ يَجُوزُ الِاعْتِمَادُ عَلَى الْخَبَرِ الْمَظْنُونِ مَعَ الْقُدْرَةِ عَلَى الْمَقْطُوعِ بِهِ لِكَوْنِ عَلِيٍّ اقْتَصَرَ عَلَى قَوْلِ الْمِقْدَادِ مَعَ تَمَكُّنِهِ مِنْ سُؤَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اس حدیث میں دلیلِ ظنی پر اعتماد کے جواز کی دلیل ہے باوجود کہ انسان کے لئے دلیلِ قطعی کا حصول ممکن ہو کیونکہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے سیدنا مقداد کے قول پر اکتفاء کیا باوجود کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر سکتے تھے۔(شرح النووي على مسلم ٢١٣/٣)
اگر سنن النسائی والی روایت ان الفاظ "قُلْتُ لِرَجُلٍ جَالِسٍ إِلَى جَنْبِي" کے ساتھ شاذ ہو جیسا کہ بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے تو پھر علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ کا استدلال درست معمول ہوتا ہے بصورتِ دیگر علامہ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کی بات مضبوط ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:بعض اہل علم نے "خبر واحد" کی حجیت پر اس آیت سے استدلال کیا ہے۔
یَـٰۤأَیُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغۡ مَاۤ أُنزِلَ إِلَیۡكَ مِن رَّبِّكَۖ وَإِن لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَهُۥۚ وَٱللَّهُ یَعۡصِمُكَ مِنَ ٱلنَّاسِۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا یَهۡدِی ٱلۡقَوۡمَ ٱلۡكَـٰفِرِینَ
اے رسول! آپ پہنچا دیں جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ بے شک اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔[المائدة ٦٧]
أَنَّهُ كَانَ رَسُولًا إِلَى النَّاسِ كَافَّةً وَيَجِبُ عَلَيْهِ تَبْلِيغُهُمْ فَلَوْ كَانَ خَبَرُ الْوَاحِدِ غَيْرَ مَقْبُولٍ لَتَعَذَّرَ إِبْلَاغُ الشَّرِيعَةِ إِلَى الْكُلِّ ضَرُورَةً لِتَعَذُّرِ خِطَابِ جَمِيعِ النَّاسِ شِفَاهًا وَكَذَا تَعَذُّرُ إِرْسَالِ عَدَدِ التَّوَاتُرِ إِلَيْهِمْ
بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کی طرف مبعوث فرمائے گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام لوگوں تک پیغام پہنچانا فرض تھا پس اگر خبر واحد مقبول نہیں تو یقینًا لازمی طور پر تمام لوگوں تک پیغام پہنچانا ناممکن ہے کیونکہ تمام لوگوں سے بالمشافہ گفتگو کرنا بھی محال ہے اور اسی طرح متواتر حدیث میں مطلوب لوگوں کی تعداد (کے ساتھ بھی پیغام)بھیجنا ممکن نہیں ہے۔
اس کے بعد حافظ صاحب فرماتے ہیں:وَهُوَ مَسْلَكٌ جَيِّدٌ (خبر واحد کی حجیت ثابت کرنے کا)یہ اچھا طریقہ ہے۔(فتح الباري 235/13)
ہم ان شاء اللہ احادیث کے بعد قرآن مجید کی ان آیات کا ذکر بھی تفصیل سے کریں گے جن سے اہل علم نے خبر واحد کی حجیت کا استدلال کیا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ، إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ، وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا، وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ، فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں:لوگ قباء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی اثناء میں ایک شخص آیا اور اس نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رات کو قرآن نازل ہوا ہے اور انہیں کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس تم اپنے چہرے کعبہ کی جانب کر لو۔
ان لوگوں کے چہرے شام کی جانب تھے پس وہ کعبہ کی جانب مڑ گئے۔ صحيح البخاري ٤٠٣
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَفِيهِ قَبُولُ خَبَرِ الْوَاحِدِ وَوُجُوبِ الْعَمَلِ بِهِ
اس حدیث میں خبر واحد کو قبول کرنے اور اس پر عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔
وَنَسْخُ مَا تَقَرَّرَ بِطَرِيقِ الْعِلْمِ بِهِ لِأَنَّ صَلَاتَهُمْ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ كَانَتْ عِنْدَهُمْ بِطَرِيقِ الْقَطْعِ لِمُشَاهَدَتِهِمْ صَلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِهَتِهِ وَوَقَعَ تَحَوُّلُهُمْ عَنْهَا إِلَى جِهَةِ الْكَعْبَةِ بِخَبَرِ هَذَا الْوَاحِدِ
اور خبر واحد کے ساتھ اس چیز کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے جو قطعی دلیل کے ساتھ ثابت ہو کیونکہ صحابہ کی بیت المقدس کی جانب نماز پڑھنے کی دلیل قطعی تھی کہ انہوں نے بیت المقدس کی جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی نماز کا مشاہدہ کیا تھا اور ان لوگوں کا بیت المقدس سے کعبہ کی جانب پھرنا خبر واحد کے ساتھ تھا۔ فتح الباری ۔۔۔507/1
علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فِيهِ دَلِيل على قبُول خبر الْوَاحِد مَعَ غَيره من الاحاديث، وَعَادَة الصَّحَابَة رَضِي الله عَنْهُم، قبُول ذَلِك، وَهُوَ مجمع عَلَيْهِ من السّلف مَعْلُوم بالتواتر من عَادَة النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي تَوْجِيهه ولاته وَرُسُله آحاداً إِلَى الْآفَاق ليعلموا النَّاس دينهم، ويبلغوهم سنة رسولهم.
اس روایت میں بھی دیگر روایات کے ساتھ خبر واحد کے قبول کرنے کی دلیل ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عادت تھی کہ وہ خبر واحد قبول کرتے تھے اور سلف صالحین کا اس پر اجماع ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت سے متواتر معلوم ہے کہ آپ مختلف علاقوں کی جانب اپنا نائب و پیغام رساں بنا کر ایک شخص کو بھیجتے تھے تا کہ وہ لوگوں کو ان کا دین سکھائے اور ان تک ان کے رسول کی سنت پہنچائے۔(عمدۃ القاری248/1)
سیدنا ضِمام بن ثعلبۃ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قسم دیکر کچھ سوالات پوچھے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ ہم دن اور رات میں پانچ نمازیں ادا کریں ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ ہم اس ماہ کے روزے رکھیں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سوالات کے جوابات دیے کہ ہاں اللہ نے مجھے حکم دیا ہے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ، وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي
میں آپ کی پیش کردہ تعلیمات پر ایمان لاتا ہوں اور میں اپنی قوم کا نمائندہ ہوں۔(صحیح البخاری 63)
١)علامہ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فِيهِ قبُول خبر الْوَاحِد، لِأَن قومه لم يَقُولُوا لَهُ: لَا نقبل خبرك عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حَتَّى يأتينا من طَرِيق آخر
اس حدیث میں خبر واحد کے قبول کرنے کی دلیل ہے کیونکہ ان کی قوم نے ضمام بن ثعلبۃ کو یہ نہیں کہا کہ ہم آپ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردہ بات اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک یہ بات کسی دوسری سند سے ہم تک نہ پہنچ جائے.
شرح صحيح البخاري لابن بطال ١٤٤/١ عمدة القاري شرح صحيح البخاري ٢٢/٢
٢)علامہ شمس الدين أبو عبد الله محمد بن موسى البرماوي الشافعي رحمہ اللہ لکھتے ہیں:وفيه قَبول خبر الواحد لقَبول قومه خبرَه من غير توقُّفٍ على خبرٍ آخر،
اس حدیث میں خبر واحد کے قبول کرنے کی دلیل ہے کیونکہ ضمام بن ثعلبۃ کی قوم نے کسی دوسری خبر پر توقّف کیے بغیر ان کی خبر پر اعتماد کیا۔
اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح ٣٤٧/١
٣)حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وفي هذا الحديث من الفوائد غير ما تقدم العمل بخبر الواحد
اس حدیث میں سابق الذکر فوائد کے علاؤہ متعدد فوائد ہیں (جن میں) خبر واحد پر عمل کرنا ہے۔
فتح الباری ١٥٣/١
سیدنا عبداللہ بن عباس اور حرّ بن قیس الفزاری رضی اللہ عنھما کے مابین اس مسئلہ پر اختلاف ہوا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کون تھے ؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا وہ خَضِر تھے۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی بارے اختلاف ہو گیا ہے کیا آپ نے اس متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی حدیث سنی ہے ؟ سیدنا ابی بن کعب کہتے ہیں:جی ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے:ایک دن موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے۔موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر علیہ السلام سے ملنے کی کیا صورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو لوٹ جاؤ، تب خضر سے تمہاری ملاقات ہو گی۔
تب موسیٰ علیہ السلام دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے، کیا آپ نے دیکھا تھا، میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی۔ تب وہ اپنے نشانات قدم پر باتیں کرتے ہوئے لوٹے انہوں نے خضر علیہ السلام کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری 74)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:والعمل بخبر الواحد الصدوق اس حدیث میں یکتا سچے آدمی کی بیان کردہ حدیث پر عمل کے جواز کی دلیل ہے۔(فتح الباری ١٦٩/١)
علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فِيهِ قبُول خبر الْوَاحِد الصدوق حدیث میں یکتا سچے انسان کی بیان کردہ روایت کے قبول کرنے کی دلیل ہے۔(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ٦٥/٢)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:كُنْتُ أَسْقِي أَبَا طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ ، وَأَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ ، وَأُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ شَرَابًا مِنْ فَضِيخٍ وَهُوَ تَمْرٌ ،
میں سیدنا ابوطلحہ انصاری، ابوعبیدہ بن الجراح اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم اجمعین کو کھجور کی شراب پلا رہا تھا۔
فَجَاءَهُمْ آتٍ ، فَقَالَ : إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ : يَا أَنَسُ قُمْ إِلَى هَذِهِ الْجِرَارِ ، فَاكْسِرْهَا ،
اتنے میں ایک آنے والے شخص نے آ کر خبر دی کہ شراب حرام کر دی گئی ہے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کی خبر سنتے ہی کہا: انس! ان مٹکوں کی جانب بڑھو اور ان سب کو توڑ دو۔
قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى مِهْرَاسٍ لَنَا فَضَرَبْتُهَا بِأَسْفَلِهِ حَتَّى انْكَسَرَتْ
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک پتھر کی طرف بڑھا جو ہمارے پاس تھا اور میں نے اس کے نچلے حصہ سے ان مٹکوں پر مارا جس سے وہ ٹوٹ گئے۔(صحيح البخاري ٧٢٥٣)
١)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "كتاب أخبار الآحاد" اور "بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الْأَذَانِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالْأَحْكَامِ" کے تحت ذکر کیا ہے۔
٢)امام اہل السنہ شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ان اہل علم کے ہاں شراب حلال تھی پس ایک آنے والے شخص نے انہیں شراب کی حرمت بارے خبر دی تو انہوں نے اسے قبول کیا اور مٹکے توڑ ڈالے سیدنا انس یا ان میں کسی ایک صحابی نے بھی یوں نہیں کہا:نَحن عَلَى تحليلها حَتَّى نلقى رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - مَعَ قربه منا، أَو يأتينا خبر عَامَّة
ہم اسے حلال ہی سمجھیں گے جب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہ کر لیں باوجود کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قریب ہیں یا ہمارے پاس ایسی خبر پہنچے جس میں شک کی گنجائش نہ ہو۔ (الرسالة للشافعي ص ٤١٠)
٣)امام ابو القاسم اسماعیل الأصبھانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الحجة في بيان المحجة" (337/1) میں حجیتِ "خبر واحد" پر اس حدیث سے استدلال کیا اور امام شافعی رحمہ اللہ والی بات لکھی ہے۔ (الحجة في بيان المحجة ٣٧٧/١)
٤)حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وهو حجة قوية في قبول خبر الواحد؛ لأنهم أثبتوا به نسخ الشيء الذي كان مباحا حتى أقدموا من أجله على تحريمه والعمل بمقتضى ذلك.
یہ حدیث خبر واحد کو قبول کرنے میں مضبوط دلیل ہے کیونکہ صحابہ کرام نے اس خبر واحد کے ساتھ ایک چیز کی اباحت ختم کرتے ہوئے اسے حرام سمجھا اور خبر واحد کے مطابق عمل کیا۔(فتح الباري ٢٣٨/١٣)
٥)علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے بھی یہ بات لکھی ہے وہ فرماتے ہیں:وَهُوَ حجَّة قَوِيَّة فِي قبُول خبر الْوَاحِد لأَنهم أثبتوا نسخ الشَّيْء الَّذِي كَانَ مُبَاحا حَتَّى أقدموا من أَجله على تَحْرِيمه وَالْعَمَل بِمُقْتَضى ذَلِك. (عمدة القاري شرح صحيح البخاري ١٦/٢٥)
٦)حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:ہیں:قال ابن التين وغيره: في حديث أنس وجوب قبول خبر الواحد والعمل به في النسخ وغيره،
علامہ ابن التین(محمد بن عبد الواحد السفاقسي) اور ان کے علاؤہ اہل علم کہتے ہیں:سیدنا انس بن مالک کی روایت میں خبر واحد کے قبول اور(احکامات کے) نسخ وغیرہ میں معمول بھا ہونے کی دلیل ہے۔(فتح الباری 279/8)
٧)علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:العمل بخبر الواحد ، وأن هذا كان معروفا عندهم .
اس حدیث میں خبر واحد پر عمل کی دلیل ہے اور یہ صحابہ کرام کے مابین معروف تھا۔(شرح النووي ١٥٠/١٣)
اس حدیث کے ساتھ علامہ آمدی نے "الإحكام في أصول الأحكام" (٦٥/٢) علامہ فخر الدین رازی نے "المحصول" (374/4) میں "خبر واحد" کی حجیت پر استدلال کیا ہے۔
سیدنا مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم کچھ ہم عمر نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بیس (20) دن ٹہرے۔۔۔۔۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم واپس پلٹ جاؤ اور اپنے لوگوں کے درمیان ٹہرو اور انہیں دین سکھاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید کچھ نصیحتیں فرمائیں اور فرمایا:وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ ".
تم نماز اسی طرح پڑھنا جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔پس جب نماز کا وقت ہو تو تمہارے لئے تم میں سے ایک اذان کہے اور تم میں جو بڑھا ہے وہ تمہیں امامت کروائے۔(صحيح البخاري ٧٢٤٦ صحيح مسلم ٦٧٤)
١)اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یوں باب قائم کیا:بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الْأَذَانِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالْأَحْكَامِ
اس حدیث کی مذکورہ باب کے ساتھ یوں مطابقت ہے کہ اکیلے شخص کی دی ہوئی اذان سے نماز کا وقت معلوم ہوتا ہے اور لوگ اسی مطابق عمل کرتے ہیں۔
٢)حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وفي الحديث إجازة خبر الواحد وقيام الحجة به
اس حدیث میں خبر واحد کے نفاذ اور اس کے ساتھ حجت کے قائم ہونے کی دلیل ہے۔(١٧٢/٢)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡعٰی ۫ قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ الۡمَلَاَ یَاۡتَمِرُوۡنَ بِکَ لِیَقۡتُلُوۡکَ فَاخۡرُجۡ اِنِّیۡ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیۡنَ
اور ایک آدمی شہر کے سب سے دور کنارے سے دوڑتا ہوا آیا، اس نے کہا اے موسیٰ! بے شک سردار تیرے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ تجھے قتل کر دیں، پس نکل جا، یقینا میں تیرے لیے خیرخواہوں سے ہوں۔ سورة القصص آيت ٢٠
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس اکیلے شخص کی بیان کردہ خبر پر اعتماد کیا اور وہ علاقہ چھوڑ دیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:فَجَآءَتۡہُ اِحۡدٰٮہُمَا تَمۡشِیۡ عَلَی اسۡتِحۡیَآءٍ ۫ قَالَتۡ اِنَّ اَبِیۡ یَدۡعُوۡکَ لِیَجۡزِیَکَ اَجۡرَ مَا سَقَیۡتَ لَنَا ؕ فَلَمَّا جَآءَہٗ وَ قَصَّ عَلَیۡہِ الۡقَصَصَ ۙ قَالَ لَا تَخَفۡ ٝ۟ نَجَوۡتَ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ
تو ان دونوں میں سے ایک بہت حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی، اس نے کہا بے شک میرا والد تجھے بلا رہا ہے، تاکہ تجھے اس کا بدلہ دے جو تو نے ہمارے لیے پانی پلایا ہے۔ تو جب وہ اس کے پاس آیا اور اس کے سامنے حال بیان کیا تو اس نے کہا خوف نہ کر، تو ان ظالم لوگوں سے بچ نکلا ہے۔(سورة القصص آيت ٢٥)
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس اکیلی عورت کی بیان کردہ روایت پر اعتماد کیا اور اس کے ساتھ چل دئیے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اہل یمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا:ابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا يُعَلِّمْنَا السُّنَّةَ وَالْإِسْلَامَ.
ہمارے ساتھ ایک آدمی کو بھیجیں جو ہمیں سنت اور اسلام کی تعلیم دے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو عبیدۃ بن الجراح رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ یہ اس امت کے امین ہیں۔
أخرجه الإمام مسلم في "الصحيح" (٢٤١٩) و قال البغوي رحمه الله:هَذَا حَدِيثٌ مُتَّفَقٌ عَلَى صِحَّتِهِ
یہی روایت امام بخاری رحمہ اللہ "كتاب أخبار الآحاد" "بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الْأَذَانِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالْأَحْكَامِ" میں لائے ہیں۔لیکن وہاں "اہل یمن" کی جگہ "اہل نجران" کے الفاظ ہیں۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فإن كان الراوي تجوز عن أهل نجران بقوله: " أهل اليمن " لقرب نجران من اليمن وإلا فهما واقعتان، والأول أرجح
اگر راوی نے اہل نجران کو یمن کے قریب ہونے کہ وجہ سے "اہل یمن" سے تعبیر کیا ہے(تو درست وگرنہ) یہ دو مختلف واقعات ہیں اور پہلی بات راجح ہے(کہ واقعہ ایک ہی ہے بس ایک جگہ راوی نے اہل نجران کو "اہل یمن" سے تعبیر کیاہے)۔ (فتح الباری)
ناصر السنة الإمام المحدث الألباني رحمه الله فرماتے ہیں:وفي الحديث فائدة هامة، وهي أن خبر الآحاد حجة في العقائد، كما هو حجة في الأحكام،
اس حدیث میں بہت اھم فایدہ ہے اور وہ یہ کہ خبر واحد عقائد میں اسی طرح دلیل ہے جس طرح احکام میں دلیل ہے۔
لأننا نعلم بالضرورة أن النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - لم يبعث أبا عبيدة إلى أهل اليمن ليعلمهم الأحكام فقط، بل والعقائد أيضا،
کیونکہ یہ بات تو ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ بن الجراح کو اہل یمن کی جانب صرف احکامات سکھانے نہیں بھیجا تھا بلکہ عقائد سکھانے کے لئے بھی بھیجا تھا۔
فلو كان خبر الآحاد لا يفيد العلم الشرعي في العقيدة، ولا تقوم به الحجة فيها، لكان إرسال أبي عبيدة وحده إليهم ليعلمهم، أشبه شيء بالعبث.
اگر خبر واحد عقائد میں علمِ شرعی کا فائدہ نہیں دیتی اور نہ ہی اس سے حجت قائم ہوتی ہے تو ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو تنہا اہل یمن کی جانب تعلیم کی غرض سے بھیجنا عبث و بے فائدہ ہے۔
سلسلة الأحاديث الصحيحة....٦٠٥/٤ (١٩٦٤)
١)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ کرام جن میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے وہ گوشت کھانے لگے تو ازواج مطہرات میں سے کسی ایک نے آواز دی:إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ بلا شبہ یہ گوہ کا گوشت ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسے کھانے سے رک گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم کھاؤ بلا شبہ یہ حلال ہے لیکن میں اسے نہیں کھاتا۔
صحيح البخاري (٧٢٦٧) صحيح مسلم (١٩٤٤)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے:بَابُ خَبَرِ الْمَرْأَةِ الْوَاحِدَةِ. اکیلی عورت کی (بیان کردہ) خبر کا بیان
اس حدیث کی باب سے مطابقت یوں ہے کہ صحابہ کرام نے ایک عورت کی بات سن کر کھانے سے ہاتھ روک لیا۔۔۔۔
علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:فَدلَّ ذَلِك على أَن خبر الْمَرْأَة الْوَاحِدَة العدلة يعْمل بِهِ
یہ روایت اس بات کی دلیل ہے اکیلی ثقہ عورت کی بیان کردہ روایت پر عمل کیا جائے گا۔(عمدة القاري ٢٢/٢٥)
٢)سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب وفدِ عبدالقیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:ہمیں ایسی چند چیزیں بتلائیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم جنت میں بھی داخل ہو جائیں اور جو لوگ ہمارے پیچھے ہیں ہم انہیں بھی وہ چیزیں بتلائیں۔۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ نصیحتیں فرما کر کہا:احْفَظُوهُنَّ وَأَبْلِغُوهُنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ ". ان باتوں کو خوب یاد کر لو اور اپنے دیگر افراد تک انہیں پہنچاؤ۔
صحيح البخاري (٧٢٦٦) صحيح مسلم (١٧)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا:بَابُ وَصَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وُفُودَ الْعَرَبِ أَنْ يُبَلِّغُوا مَنْ وَرَاءَهُمْ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عرب سے آنے والے وفود کو اس بات کی وصیت کرنے کا بیان کہ وہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی باتیں اور سیکھے ہوئے اعمال) اپنے دیگر افراد تک پہنچائیں۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فإن الأمر بذلك يتناول كل فرد، فلولا أن الحجة تقوم بتبليغ الواحد ما حضهم عليه.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم وفد میں شامل تمام افراد کو شامل ہے اور اگر فردِ واحد کی تبلیغ سے حجت کی قائم نہیں ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس کام پر نہیں ابھارتے۔(فتح الباري ٢٤٥/١٣)
یہ حدیث اس بات کی بھی صریح دلیل ہے کہ خبر واحد عقائد میں بھی حجت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان افراد کو جن اشیاء کی تبلیغ پر ابھارا ان میں سرفہرست "ارکان اسلام" تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو خط دیکر کسرٰی کی جانب بھیجا اور حکم دیا کہ وہ یہ خط بحرین کے گورنر کو دے دیں اور وہ اسے کسرٰی تک پہنچائے گا۔
جب کسرٰی نے خط پڑھا تو اس نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف بد دعا کی کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔
صحيح البخاري ٧٢٦٤
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے:بَابُ مَا كَانَ يَبْعَثُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأُمَرَاءِ وَالرُّسُلِ وَاحِدًا بَعْدَ وَاحِدٍ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یکے بعد دیگرے اپنے قاصد اور امراء روانہ کرنا۔
حدیث کی باب کے ساتھ مطابقت بلکل واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی دعوت کے ابلاغ کی غرض سے خط لکھا اور اسے پہنچانے کی ذمہ داری تنہا سیدنا عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ پر لگائی۔
اگر اکیلے شخص کی خبر قابل حجت نہیں ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی انہیں تنہا روانہ نہیں کرتے۔
اس بات کو امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی "الرسالة" وغیرھا میں خبر واحد کی حجیت کے اثبات میں پیش کیا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دینِ اسلام کی تبلیغ کی خاطر تنہا صحابی کو روانہ کرتے جو لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین بیان کرتا ان سے زکاۃ جمع کرتا ان پر حدود قائم کرتا اور احکام نافذ کرتا۔۔۔۔ اگر اس اکیلے شخص کے ساتھ حجت ہی قائم نہیں ہو سکتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تنہا نہیں بھیجتے۔۔۔۔۔۔۔(اختلاف الحديث للشافعي)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف علاقوں کی جانب مختلف صحابہ کرام کو عامل مقرر فرمایا ہم ان صحابہ کے نام بھی جانتے ہیں اور ان علاقوں کے نام بھی جانتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین سے آئے ہوئے وفد کے ساتھ (ابان)بن سعید بن العاص کو روانہ کیا اور اہل یمن کی جانب روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ سیدنا معاذ کی پیروی کرنے والے ان کی نافرمانی کرنے والوں سے قتال کریں اور سیدنا معاذ انہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرض کردہ احکام سکھلائیں اور ان سے زکاۃ وصول کریں کیونکہ وہ لوگ سیدنا معاذ ان کا مقام و مرتبہ اور ان کی سچائی بار مے معرفت رکھتے تھے۔۔۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کرام کو اسی لئے عامل بنا کر بھیجا کیونکہ ان کے ساتھ ان لوگوں پر حجت قائم ہو جاتی تھی۔(الرسالة للشافعي)
سیدنا سلمة بن أكوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے"اسلم" قبیلہ کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ عاشورہ کے دن اپنی قوم میں جا کر اعلان کر دے:أَنَّ مَنْ أَكَلَ فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ أَكَلَ فَلْيَصُمْ
جس شخص نے آج کچھ کھایا ہے پس وہ بقیہ دن (کچھ کھائے بغیر) مکمل کرے اور جس نے کچھ نہیں کھایا وہ روزہ رکھ لے۔
صحيح البخاري ٧٢٦٥ صحيح مسلم ١١٣٥
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس باب کے تحت ذکر کیا:بَابُ مَا كَانَ يَبْعَثُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأُمَرَاءِ وَالرُّسُلِ وَاحِدًا بَعْدَ وَاحِدٍ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف علاقوں اور لشکروں کا امیر بھی شخصِ واحد مقرر کرتے اور کسی قوم قبیلہ یا کفا ر کی جانب پیغام رسانی کے لیے بھی یکتا شخص کا انتخاب کرتے تھے۔
اہل اسلام تو درکنار کبھی کسی غیر مسلم نے بھی کسی بات کا رد اس بنیاد پر نہیں کیا کہ خبر لانے والا ایک شخص ہے تو ہم اس اکیلے شخص کی مان کر اپنی دین و مذھب کیسے ترک کر دیں ؟
اس شخص کی بیان کردہ خبر میں قطعیت اتنی ہوتی کہ صرف اس اکیلے شخص کی دعوت کا انکار کرنے والوں کی گردنوں کو اڑایا جاتا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جاتا تھا۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:واسم هذا الرجل هند بن أسماء بن حارثة الأسلمي، له ولأبيه ولعمه هند بن حارثة صحبة
(جس آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام دیکر "اسلم" قبیلے کی جانب بھیجا)ان کا نام ھند بن اسماء بن حارثة الأسلمي ہے۔یہ خود ان کے والد اور ان کے چچا هند بن حارثة تینوں صحابی ہیں۔ رضي الله عنهم (فتح الباري)
سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا مِسور بن مخرمة رضی اللہ عنہ کا مقام ابواء پر باہم ایک مسئلہ پر اختلاف ہو گیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ مُحرم آدمی سر دھو سکتا ہے جبکہ سیدنا مسور بن مخرمۃ کہتے تھے کہ مُحرم آدمی سر نہیں دھو سکتا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے عبداللہ بن حنین (ثقۃ تابعی) کو سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی جانب بھیجا کہ وہ ان سے اس متعلق سوال کریں۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
صحیح البخاری (١٨٤٠) صحيح مسلم (١٢٠٥)
١)حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔۔۔وقبولهم لخبر الواحد ولو كان تابعيا ۔۔۔۔۔۔
اس حدیث میں صحابہ کرام کے خبر واحد قبول کرنے کی دلیل ہے اگرچہ اسے بیان کرنے والا تابعی ہی ہو۔(فتح الباري ٥٧/٤)
یہی بات علامہ بدر الدین العینی الحنفی رحمہ اللہ نے بھی لکھی وہ فرماتے ہیں:وَفِيه: قبُول خبر الْوَاحِد وَلَو كَانَ تابعيا (عمدة القاري شرح صحيح البخاري ٢٠٢/١٠)
٢)علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى قَبُولِ خَبَرِ الْوَاحِدِ، وَأَنَّ الْعَمَلَ بِهِ سَائِغٌ شَائِعٌ بَيْنَ الصَّحَابَةِ؛ لِأَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَرْسَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ حُنَيْنٍ لِيَسْتَعْلِمَ لَهُ عِلْمَ الْمَسْأَلَةِ، وَمِنْ ضَرُورَتِهِ: قَبُولُ خَبَرِهِ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ فِيمَا أُرْسِلَ فِيهِ.
اس حدیث میں خبر واحد کو قبول کرنے کی دلیل ہے اور خبر واحد پر عمل صحابہ کرام کے مابین جائز و معروف تھا کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن حنین کو مسئلہ پوچھنے بھیجا اور اس کا لازمہ تقاضہ ہے کہ وہ ابو ایوب انصاری سے ان کی اس متعلق بیان کردہ خبر قبول کریں گے۔(إحكام الأحكام لابن دقيق ٨٤/٢)
٣)علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:قبول خبر الواحد وأن قبوله كان مشهورا عند الصحابة
اس حدیث میں صحابہ کرام کے خبر واحد کو قبول کرنے کی دلیل ہے اور خبر واحد قبول کرنا صحابہ کرام کے مابین مشہور تھا۔(عون المعبود)
سیدنا عبداللہ بن عباس سیدنا مسور بن مخرمۃ اور سیدنا عبدالرحمن بن ازھر رضی اللہ عنھم اجمعین نے کریب رحمہ اللہ کو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کی طرف بھیجا کہ یہ ان سے عصر کے بعد دو رکعات بارے سوال کریں کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ آپ عصر کے بعد دو رکعات پڑھتی ہیں اور ہمیں یہ بات بھی پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع کیا ہے۔۔۔۔۔
کریب رحمہ اللہ کہتے ہیں:میں ام المومنین عائشہ کے پاس گیا اور اس بارے استفسار کیا تو انہوں نے مجھے کہا:ام المومنین ام سلمہ رضي اللّٰه عنها سے اس بارے پوچھو۔
کریب رحمہ اللہ کہتے ہیں:میں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے یہ سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر کے بعد نماز سے منع کرتے ہوئے سنا ہے۔
پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے نماز عصر کے دو رکعات پڑھیں ۔۔۔۔۔میں نے ایک بچی کو بھیجا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے پوچھے کہ آپ تو اس نماز سے منع کرتے تھے اور آپ نے یہ ادا بھی کی ہے ؟۔۔۔۔۔اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے پاس عبدالقیس کے کچھ لوگ آئے ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے ظہر کے بعد والی دو رکعات سے مشغول کر دیا پس ان دو رکعات کو ابھی ادا کیا ہے۔
صحيح البخاري (١٢٣٣) صحيح مسلم (٨٣٤)
١)حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:غَيْرِهِ وَفِيهِ قَبُولُ أَخْبَارِ الْآحَادِ وَالِاعْتِمَادِ عَلَيْهِ فِي الْأَحْكَامِ وَلَوْ كَانَ شَخْصًا وَاحِدًا رَجُلًا أَوِ امْرَأَةً لِاكْتِفَاءِ أُمِّ سَلَمَةَ بأَخْبَارِ الْجَارِيَةِ
اس حدیث میں آخبار آحاد کے قبول کرنے اور احکام میں ان پر اعتماد کی دلیل ہے اگرچہ بیان کرنے والا ایک مرد یا عورت ہو کیونکہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس بچی کی خبر پر اکتفاء کیا ہے۔(فتح الباري ١٠٧/٣)
٢)علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فيه قبول خبر الواحد والمرأة۔۔۔۔۔
اس حدیث میں اکیلے مرد و عورت کی بیان کردہ روایت کے قبول کرنے کی دلیل ہے۔۔۔۔(شرح النووي على مسلم)
٣)علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَفِيه قبُول خبر الْوَاحِد وَالْمَرْأَة مَعَ الْقُدْرَة على الْيَقِين بِالسَّمَاعِ.
اس حدیث میں اکیلے مرد و عورت کی بیان کردہ روایت کے قبول کرنے کی دلیل ہے جب سماع یقینی ہو۔(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ٣١٧/٧)
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا مغیرہ بن شعبۃ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اور فرمایا:اكْتُبْ إلَيَّ بشَىءٍ سَمِعْتهُ مِنَ النَّبِيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
مجھے کوئی ایسی بات لکھ کر بھیجیں جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو۔
سیدنا مغیرہ بن شعبۃ رضی اللہ عنہ نے لکھا:سَمِعْتُ النبيَّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَقُولُ إنَّ الله كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا قيلَ وقالَ وإضَاعَةَ المالِ وكَثْرَةَ السُّؤَالِ..
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین چیزیں ناپسند کی ہیں۔١)فضول کلام کرنا۔ ٢)فضول خرچی کرنا۔ ٣)کثرت سے سوال کرنا۔
صحيح البخاري (١٤٧٧) صحيح مسلم (٥٩٣)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔۔۔۔وَعَلَى الِاعْتِمَادِ عَلَى خَبَرِ الشَّخْصِ الْوَاحِدِ
اس حدیث میں ایک آدمی کی بیان کردہ خبر پر اعتماد کی دلیل ہے۔(فتح الباري٣٣٢/٢)
علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَفِيه: قبُول خبر الْوَاحِد
اس حدیث میں خبر واحد کے مقبول ہونے کی دلیل ہے۔(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ٦٢/٩)
اس حدیث میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے محبت کی بھی دلیل ہے کہ وہ مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے حصول کی خاطر خط و کتابت کیا کرتے تھے جیسا کہ متعدد احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کسی مسئلہ میں کوئی دشواری ہوتی تو بھی مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے استفسار کیا کرتے جیسا کہ انہوں نے ایک مسئلہ بارے سیدنا ابو موسیٰ اشعری کو خط لکھا کہ وہ اس مسئلہ بارے سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے استفسار کریں۔(السنن الکبری للبیہقی 20553)
اسی طرح ایک عورت کی عدت بارے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا۔(المصنف لعبدالرزاق 11008)
جامع ترمذی (2414) میں ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کو خط لکھا اور فرمایا:أَنِ اكْتُبِي إِلَيَّ كِتَابًا تُوصِينِي فِيهِ۔۔۔۔مجھے کوئی وصیت لکھ کر بھیجیں۔۔۔۔