کیا صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں صرف صحیح احادیث ہی موجود ہیں؟
بسم الله الرحمن الرحيم
چونکہ آج کل ایک بار پھر منکرین حدیث کا شور اٹھا ہوا ہے اور عوام الناس کے اذہان کو تشویش میں ڈالتے ہیں ان کو شک میں ڈالتے ہیں کہ بخاری میں اتنے اتنے احادیث ضعیف ہیں مسلم میں اتنے اتنے احادیث ضعیف ہیں۔ کبھی بکواس کرتے ہیں کہ احادیث ظنی ہے وغیرہ وغیرہ۔
ان کا مقصد صحیح اور ضعیف احادیث کا بیان نہیں ہوتا بلکہ احادیث سے انکار کا ایک حیلہ ایک راستہ ہے لیکن یاد رہے کہ ان منکرین حدیث کے آباو واجداد کو اللہ عزوجل نے ہر موڑ پر ذلیل ورسوا کیا تھا تو یہ انجاس بھی ذلیل ورسوا ہوجائے گے۔ ان شاء اللہ
اصول حدیث کی کتابوں میں اس پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ صحیحین کے تمام مسند متصل رویات بالکل صحیح ہیں۔ بلکہ بعض علماء سے یہ بھی مروی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر صحیح بخاری میں کوئی ضعیف روایت ہو تو میری بیوی طلاق ہے۔ تو ایسے شخص کی بیوی پر طلاق نہیں پڑتی۔ دیکھیے ( مقدمۃ لابن الصلاح مع التقیید والایضاح للامام العراقی صفحہ 38 )
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ دونوں کا اپنی صحیحین کے بارے میں دعویٰ یہ ہے کہ ان کی صحیحین میں موجود تمام روایات صحیح حدیث کے درجے کو پہنچتی ہیں ۔
امام بخاری رحمہ اللہ اپنے صحیح کے بارے میں فرماتے ہیں :
ما أدخلت في ھٰذا الکتاب إلا ما صحَّ
میں نے اپنی اس کتاب میں صرف صحیح روایات ہی کو بیان کیا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء : ج10، ص283)
ما أدخلت في الصحیح حدیثًا إلا بعد أن استخرت الله تعالی وتیقَّنتُ صحَّتَه
میں نے اپنی ’صحیح‘ میں کوئی حدیث اس وقت تک نہیں لکھی جب تک میں نے اللہ سے استخارہ نہیں کر لیا اور مجھے اس حدیث کی صحت کا یقین نہیں ہو گیا۔
(هدي الساري مقدمة فتح الباری ، ص347)
ما أدخلت في کتابِي الجامع إلامَاصَحَّ
میں نے اپنی کتاب ’الجامع‘ میں صرف صحیح احادیث ہی بیان کی ہیں ۔( تهذیب الکمال:ج24، ص442)
امام مسلم رحمہ اللہ اپنے صحیح کے بارے میں فرماتے ہیں :
لیس کل شيء عندي صحیح وضعتُه ھٰھنا، إنما وضعت ھٰھنا ما أجمعوا علیه
میں نے ہر صحیح حدیث اپنی کتاب میں بیان نہیں کی بلکہ میں نے اس کتاب میں وہ حدیث بیان کی ہے کہ جس کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔( صحیح مسلم:تحت الحدیث 612)
عرضت کتابي ھذا (المسند) علی أبی زرعة فکل ما أشار علی في ھذا الکتاب أن له علة وسببًا ترکتُہ وکل ما قال: إنه صحیح لیس له علة فھو الذي أخرجتُ ( سیر أعلام النبلاء:ج10، ص384)
میں نے اپنی کتاب (معروف نقاد محدث) ابو زرعہ پر پیش کی تو اُنہوں نے میری اس کتاب میں جس حدیث کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اس میں کوئی ضعف کا سبب یا علت ہے تو میں نے اس حدیث کو چھوڑ دیا اور جس کے بارے میں بھی اُنہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی علت (خفی کمزوری) نہیں ہے تو اسکو میں نے اپنی اس کتاب میں بیان کیا ہے۔
إنَّما أخرجتُ ھٰذا الکتاب وقلتُ: ھو صحاح ولم أقل أن ما لم أخرجه من الحدیث في ھذا الکتاب ضعیفٌ ولکن إنما أخرجتُ ھٰذا من الحدیث الصحیح لِیَـکون مجموعًا عندي وعند من یکتبه عني فلایرتاب في صحتھا
میں نے تو صرف یہی کتاب لکھی ہے اور اس کو صحیح کا نام دیا ہے اور میں یہ نہیں کہتا کہ جس حدیث کو میں نے اپنی اس کتاب میں بیان نہیں کیا، وہ ضعیف ہے۔ میں نے تو اس کتاب میں صحیح احادیث کا ایک حصہ بیان کیا ہے تاکہ خود میرے اور مجھ سے آگے نقل کرنے والوں کے لیے ایک صحیح احادیث کا مجموعہ تیار ہو سکے جس کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہ ہو۔
امام ابو عبد اللہ حمیدی رحمہ اللہ (بخاری ومسلم کے استاذ حدیث )فرماتے ہیں :
لم نجد من الأئمة الماضین من أفصح لنا في جمیع ما جمعه بالصحة إلا ھذین الأمامین ( مقدمہ ابن الصلاح، ص13)
ہم نے پچھلے ائمہ میں سے، امام بخاری و امام مسلم کے علاوہ کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پایا کہ جس نے یہ وضاحت کی ہو کہ اس کی تمام جمع کردہ روایات صحیح ہیں ۔
بلکہ محدثین کا یہ دعویٰ ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔
ابن الصّلاح رحمہ اللہ کہتے ہیں :
جمیع ما حَکَمَ مسلمٌ بصحَّته من ھٰذا الکتاب فھو مقطوع بصحته والعلم النظري حاصل بصحته في نفس الأمر وھٰکذا ما حَکَمَ البخاري بصحته في کتابه وذلك لأن الأمة تلقَّتْ ذلك بالقبول سوٰی من لا یعتد بخلافه ووفاقه في الإجماع ( صیانة صحیح مسلم ، ص85)
وہ تمام احادیث جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے، ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں (حتمی)علم نظری حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ ان احادیث کا بھی ہے جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اُمت کے نزدیک ان کتابوں کو ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہے، سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اِجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
شاہ ولی اللہ الدھلوی رحمہ اللہ " حجۃ اللہ البالغہ " میں لکھتے ہے :
’صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کے تمام متصل اور مرفوع احادیث یقیناً صحیح ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچی ہیں۔ جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی سینکڑوں اقوال موجود ہیں ۔
ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ : صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں متصل سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی بھی احادیث ہیں وہ سارے کے سارے یقیناً صحیح اور بےغبار ہیں ان میں سے ایک بھی ضعیف نہیں اور اگر جو شخص اس کو نہیں مانتے ( کہ صحیحین کے مسند متصل روایات میں ضعیف موجود ہے ) تو وہ ہمیں بتادے کہ کونسی روایت ضعیف ہے ؟ اور اس میں مقال کیا ہے ؟ اور یہ بھی یاد رہے کہ وہ حدیث شیخین کے اصول کے خلاف ہو! پس لادے کوئی۔
والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔