بزورِ قوت بیوی کو گھر واپس لانے کا بیان

ابو داؤد

طالب علم
رکن
بزورِ قوت بیوی کو گھر واپس لانے کا بیان

فتاوى عبر الأثير (( 2 ))

السؤال:- تزوجت امرأة، وبعد الزواج بأسبوع ذهبت لأهلها، وترفض العودة لبيتى، فهل يحق لى اخذها بالقوة لبيتى؟

سوال: میں نے ایک عورت سے شادی کی، شادی کے ایک ہفتہ بعد وہ اپنے میکے چلی گئی، اور اس نے میرے گھر واپس آنے سے انکار کر دیا، کیا مجھے یہ حق ہے کہ میں اسے زبردستی اپنے گھر لے آؤں؟

الجواب:- لا ينبغى إستعمال القوة فى ردها إلى بيت الزوجية ،كما أن السائل لم يذكر سبب ذهاب المرأة إلى بيت أهلها ،وهل كان هناك سبب منه يقتضى أن تنفر المرأة منه، كظلم ،أو ضرر معتبر ونحو ذلك أم لا .


– فإن كان كذلك ،فالواجب عليه أن يعاملها بالمعروف، ويعتذر إليها مما جرى منه، وإن لم يكن منه سبب فالواجب عليها هى أن تعود إلى بيت زوجها ،وتتوب إلى الله تعالى .

– فإن أبت، فإنها تعتبر ناشزا ،يسقط حقها فى النفقة ،والسكنى، وغيرها ،وللزوج أن يستعين بالعقلاء من أهلها ،وجيرانها ليردها إلى طاعته .


– فإن تعذر الإصلاح ،فالأولى رفع الأمر إلى المحكمة الشرعية، لتلزم هذه المرأة بطاعة زوجها ،والعودة إلى بيت الزوج، فإن كانت كارهة لزوجها ونحو ذلك، فيفرق بينهما بالمخالعه، وإن كان الزوج فاسد، أو كان به عيب معتبر شرعاً، فرق بينهما ،هذا والله تعالى أعلم.

جواب:
اسے واپس لانے کے لیے طاقت کا استعمال یعنی زور زبردستی مناسب نہیں، اور جیسا کہ سائل نے وہ وجہ بیان نہیں کی کہ جس سے بیوی روٹھ کر اپنے میکے گئی ہے، آیا اس کی طرف سے کوئی ایسی وجہ تو نہیں جس کے سبب بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی، جیسے ظلم یا معتبر ضرر وغیرہ ،

لہذا اگر وجہ خاوند کی طرف سے ہے تو اس پر واجب ہے کہ بیوی کے ساتھ بھلائی والا معاملہ کرے اور سابقہ زیادتی پر بیوی سے معذرت کرے، اور اگر خاوند کی طرف سے ایسی کوئی معقول اور معتبر وجہ نہیں ہے جو بیوی کے روٹھ کر میکے جانے کا سبب بنی ہے تو بیوی پر واجب ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر لوٹ آئے، اور اللہ تعالیٰ سے اپنے کیے پر نادم ہو اور توبہ کی طلب گار ہو،

لیکن اگر عورت لوٹنے سے انکار کرے، تو اس صورت میں عورت کو نافرمان سمجھا جائے گا، اور خاوند پر سے اس کے نان نفقے، رہائش وغیرہ کا حق ساقط ہو جائے گا۔ پس خاوند کو چاہیے کہ بیوی کے گھرانے یا اس کے پڑوس کے دانا افراد سے اس معاملے میں مدد طلب کرے تاکہ اسے خاوند کی اطاعت کی طرف لایا جائے،


اگر اصلاح ممکن نہ ہو تو بہتر ہے کہ اس معاملے میں شرعی عدالت سے رجوع کیا جائے تاکہ وہ بیوی کو اپنے شوہر کی اطاعت اور شوہر کے گھر لوٹنے کا پابند بنائے، اگر وہ پھر بھی اپنے شوہر سے کراہت اختیار کرے تو خلع کے ذریعے ان کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے گا، اور اگر خرابی شوہر میں ہو یا اس میں کوئی معتبر شرعی عیب ہو تو ان کے مابین تنسیخ ِ نکاح کے ذریعے علیحدگی کردی جائے گا۔
والله أعلم بالصواب و علمه أتم

مترجم: ندائے حق اردو
 
Top