صوفیہ و مشائخ کی بیعت اور ان کی روحانیت سے استفادہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

عقائد علمائے دیوبند​


سوال: کیا صوفیہ کے اشغال اور ان سے بیعت ہونا تمہارے نزدیک جائز ہے۔اور اکابر کے سینے اور قبر سے باطنی فیضان پہنچنے کے قائل ہو یا نہیں اور مشائخ کی روحانیت سے اہل سلوک کو نفع پہنچتا ہے یا نہیں۔

جواب: ہمارے نزدیک مستحب ہے کہ انسان جب عقائد کی درستی اور شرع کے مسائل ضروریہ کی تحصیل سے فارغ ہوجائے تو ایسے شیخ سے بیعت ہو جو شریعت میں راسخ القدم ہو دنیا سے بے رغبت ہو، آخرت کا طالب ہو، نفس کی گھاٹیوں کو طے کرچکا ہو، خوگر ہو، نجات دہندہ اعمال کا اور علیحدہ ہو تباہ کن اعمال سے خود بھی کامل ہو دوسروں کو بھی کامل بناسکتا ہو، ایسے مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنی نظر اس کی نظر متصور رکھے اور صوفیہ کے اشغال یعنی ذکر فکر اور اس میں فناء تام کے ساتھ مشغول ہو اور اس کی نسبت کا اکتساب کرے جو نعمت عظمیٰ اور غنیمت کبریٰ ہے جس کو شرع میں احسان کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے اور جس کو یہ نعمت میسر نہ ہو اور یہاں تک نہ پہنچ سکے اسکو بزرگوں کے سلسلہ میں شامل ہوجانا ہی کافی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آدمی اس کے ساتھ ہے جس کے ساتھ اسے محبت ہو۔وہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا محروم نہیں رہ سکتا اور بحمداللہ ہم اور ہمارے مشائخ ان حضرات کی بیعت میں داخل اور ان اشغال کے مشاغل اور ارشاد و تلقین کے درپے رہے ہیں، والحمد للہ علیٰ ذٰلک، اب رہا مشائخ کی روحانیت سے استفادہ اور ان کے سینوں اور قبروں سے باطنی فیوض پہنچنا سو بیشک صیح ہے، مگر اس طریق سے جو اہل اور خواص کو معلوم ہے نہ اس طرح سے جو عوام میں رائج ہے۔
فائدہ : دیباچہ کتاب میں حضرت مولانا سہارنپوری قدس سرہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ ہم اور ہمارے جملہ متعلقین بحمداللہ سلاسل اربعہ حضرات صوفیہ میں منسلک ہیں اور رشد و ہدایات میں مصروف ہیں۔بحمدللہ ہمارے بزرگوں کی خانقاہیں اللہ کے ذکر سے ہر وقت آباد ہیں اور مسائل تصوف اور تزکیہ باطن میں حضرت حکیم الامتؒ کی کثیر تصانیف عالیہ اس باب میں ایسی شہرت پذیر ہیں کہ جن کی دلیل کی بھی ضرورت نہیں پھر امام غزالیؒ اور شیخ شعرانی کی کتب تصوف کے تراجم حضرت حاجیؒ صاحب کی ارشاد مرشد حضرت گنگوہیؒ کی امداد السلوک فن تصوف میں بے نظیر کتابیں ہیں اور ملک میں شائع ہیں۔
 
Top