اپنی نمازوں کی خبرلیجئے
ناصرالدین مظاہری
میں سنی سنائی اورہواہوائی نہیں بلکہ اآنکھوں دیکھی لکھ رہاہوں،جگ بیتی نہیں آپ بیتی سنارہاہوں،آپ کسی ایسی بستی یاکسی ایسے علاقہ میں پہنچئے جہاں سرکاری ٹنکیاں اورمساجدمیں وضوکی ٹونٹیاں نہ ہوں توایسی صورت میں ٹیوب ویل بورویل کے ذریعہ پانی حاصل کیاجاتاہے وہ پانی ایک ٹنکی میں جمع رہتاہے یہی پانی وضوغسل وغیرہ میں استعمال میں لایاجاتاہے،میں جولکھنے والاہوں ذراسنجیدگی سے پڑھ لیجئے گاممکن ہے حساس طبیعت والے لوگ اس پانی سے وضوکرناہی چھوڑدیں۔
مسجدکی چھت پرموجودپانی کی ایک ٹنکی میں بندروں نے آتنک مچارکھاتھا،غسل فرمارہے تھے اورائمہ حضرات کوپتہ بھی نہیں تھاکہ وضووالے پانی کے ساتھ بندرکیاکررہے ہیں،بندر بندرہے کوئی انسان نہیں ہے ،یہ بندرجب غسل کررہے ہیں توعین ممکن ہے کہ پیشاب وغیرہ بھی کردیں کس نے دیکھاہے ،وہی پانی ہمارے غسل میں ،ہمارے وضومیں اورکلی کے ذریعہ ہمارے منہ تک پہنچتاہے ، بہت سے لوگ تواس پانی کے دوچارگھونٹ پی بھی لیتے ہیں۔
لوگوں نے جب مسجدکے ذمہ داروں کوبتایاتوپتہ چلاکہ بندروں نے اس ٹنکی کاڈھکن کھول کرپھینک دیاہے ،پرندے بھی اسی میں غسل کررہے ہیں اوربلی وبندربھی فیضیاب ہورہے ہیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ بلی کاجھوٹاپاک ہے ،لیکن یہ صرف شرعی مسئلہ ہے آپ نے کبھی بلی کاجھوٹاپیابھی ہے یانہیں ؟بندرتوناپاک ہے اوراس کاجھوٹابھی ناپاک ہے چنانچہ میں دارالعلوم دیوبندکاایک فتویٰ ہی پیش کئے دیتاہوں ،مستفتی نے سوال کیاتھا:
’’ہمارے یہاں مسجد میں استنجاء خانوں کے اوپر پانی کی ٹنکی سیمنٹ کی بنی ہوئی ہے اور اس کا اوپری حصہ کھلا ہوا ہے۔ مسجد میں بندر اکثر آتے ہیں اور وہ اوپر کے کھلے حصے میں منھ ڈال کر پانی پی لیتے ہیں۔ کیا بندر کا جھوٹا پاک ہے؟ اگر ناپاک ہو تو اس پانی کی ٹنکی کو پاک کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ ناپاک ہونے کی صورت میں ابھی تک جو نمازیں اس پانی کو استعمال کرکے پڑھی گئیں ان کا کیا حکم ہوگا؟
ارباب دارالافتائ نے جواب دیاکہ:
’’بندر کا جھوٹا ناباک ہے: وسوٴر خنزیر و کلب وسبع بھائم نجس (الدر المختار مع الشامي، ط زکریا : ج۱ ص۳۸۹) اس طرح کی ٹنکیوں میں جو پانی ہوتا ہے وہ چوں کہ عموماً ماء راکد قلیل (ٹھہرا ہوا تھوڑا پانی) ہوتا ہے اس لیے بندر کے منھ ڈالنے سے ایسا پانی ناپاک ہوجائے گا۔ اور اس کے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ٹنکی میں ایک طرف سے پانی داخل کیا جائے اور دوسری طرف سے نکالا جائے، دوسری طرف سے پانی نکلتے ہی ٹنکی اور پائپ وغیرہ سب پاک ہوجائیں گے۔ پاک کرنے کے لیے پانی کی کوئی خاص مقدار نکالنا ضروری نہیں۔ البتہ احتیاط یہ ہے کہ بندر کے پیتے وقت جتنا پانی ٹنکی میں موجود رہا ہو اتنا پانی نکال دیا جائے:
وقال أبوجعفر الھندواني: یطھر بمجرد الدخول من جانب والخروج من جانب وإن لم یخرج مثل ما کان فیہ، وھو أي قول الھندواني اختار الصدر الشھید حسام الدین لأنہ حینئذ یصیر جاریًا والجاري لا ینجس ما لم یتغیر بالنجاسة (شرح منیة بحوالہ آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام: ص۱۸۵)
یہ تو ہوا ٹنکی کے پانی کا شرعی حکم اور اس کے پاک کرنے کا طریقہ، البتہ مسجد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ ٹنکی کو ڈھک دے یا جال لگادے تاکہ بندر پانی کو ناپاک نہ کرسکیں۔ رہا نماز کا مسئلہ تو اگر بندر کو ٹنکی سے پانی پیتے ہوئے دیکھا گیا ہو تو چوں کہ یہ پانی اس صورت میں ناپاک ہوجائے گا اس لیے اس کو استعمال کرکے پڑھی گئی نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
دیکھاآپ نے ایسے گندے پانی سے پڑھی گئی نمازوں کوشریعت واجب الاعادہ قراردے رہی ہے۔اورہماری بے حسی یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ ہم بنیادی ضروری امورکی انجام دہی میں غافل ہیں،کیایہ بھی اماموں کی ذمہ داری ہے؟بہت سے لوگ تواماموں کے سرتھوپ کر’’نزلہ برعضوضعیف‘‘پرعمل کریں گے۔حالانکہ یہ انتظامی چیزہے ،کتنوں کی نمازیں خراب ہوئیں ،کتنی نمازیں خراب ہوئیں ،حساب لگانے پرآئیں گے توپیروں تلے سے زمین کھسک جائے گی۔
بہرحال مسجدوالوں نے تمام پانی ضائع کیا،پانی ختم ہونے کے بعدکی صورت حال پہلے سے بھی خراب تھی ،جی ہاں کم ازکم ایک بالشت گندگی تہ میں موجودتھی،بدبوسے سانس لینابھی دشوارتھا،بڑی محنت سے وہ گندگی ہٹائی گئی پھردوبارہ پانی بھراگیااوروضوکے لائق ہوسکا۔
یہ توخیرپاکی ناپاکی کامسئلہ تھاجوبنیادی چیزہے ،اب آتے ہیں نفاست اورلطافت پر،بہت سی مساجدمیں اب بھی شہری سہولتیں نہیں ہیں تووہاں وضوکے لئے لوہے یاالمونیم اورپلاسٹک کے لوٹے رکھے ہوئے ہیں ،لوگ لوٹے میں پانی لے کروضوکرلیتے ہیں لیکن آپ کبھی اس لوٹے کے اندرونی حصہ میں جھانک کرتودیکھیں اتنی کائی اوراتنی گندگی آپ کودیکھنے کوملے گی کہ نفیس طبیعت لوگ ایسے لوٹے کوہاتھ بھی لگانا پسندنہیں کریں گے،سرکاری پانی میں اسی لئے ایک خاص کیمیکل ڈالاجاتاہے تاکہ کائی وغیرہ ختم ہوتی رہے لیکن پرائیویٹ اورنجی ٹنکیوں میں عموماً غفلت برتی جاتی ہے ۔
بہرحال ہمیں نمازجیسی عبادت کے لئے نمازکی کنجی وضواوروضوکے لئے موجودپانی کی پاکی اورناپاکی کاخودہی خیال رکھناچاہئے ،جہاں ٹنکیاں کھلی ہوں ،یااتنظامیہ سست اورکاہل ہووہاں بندروں کی آمداورپانی کی ناپاکی سے انکارمشکل ہے ۔نمازاپنی ہے ،وضوبھی اپناہے ، جواب دہی بھی ہمیں ہی کرنی ہے توپھراپنے گھرسے ہی وضوکرکے جائیں تاکہ سکون قلب بھی حاصل ہو اورنمازیں بھی قبول ہوں ۔
محراب میں جومصلیٰ بچھاہواہے عموماً وہ مصلیٰ اپنی عمرطبعی کوپہنچ کرضائع ہوجاتاہے لیکن پانی کی دسترس سے بے چارہ دورہی رہتاہے،بعض مساجدمیں نمازپڑھانے کاموقع ملاتومصلے کی گندگی کی وجہ سے سجدے میں سانس لینامشکل ہوگیا۔
یہ سب چیزیں امام کی نفاست اورعدم نفاست کی گواہی دیتی ہیں ۔سوچئے جس مصلے پربیٹھ کرآپ پاکی اورنفاست کاہرجمعہ میں درس دیتے ہیں وہی مصلیٰ شکوہ سنج ہے کہ اسے کس غلطی کی سزامل رہی ہے۔
ناصرالدین مظاہری
میں سنی سنائی اورہواہوائی نہیں بلکہ اآنکھوں دیکھی لکھ رہاہوں،جگ بیتی نہیں آپ بیتی سنارہاہوں،آپ کسی ایسی بستی یاکسی ایسے علاقہ میں پہنچئے جہاں سرکاری ٹنکیاں اورمساجدمیں وضوکی ٹونٹیاں نہ ہوں توایسی صورت میں ٹیوب ویل بورویل کے ذریعہ پانی حاصل کیاجاتاہے وہ پانی ایک ٹنکی میں جمع رہتاہے یہی پانی وضوغسل وغیرہ میں استعمال میں لایاجاتاہے،میں جولکھنے والاہوں ذراسنجیدگی سے پڑھ لیجئے گاممکن ہے حساس طبیعت والے لوگ اس پانی سے وضوکرناہی چھوڑدیں۔
مسجدکی چھت پرموجودپانی کی ایک ٹنکی میں بندروں نے آتنک مچارکھاتھا،غسل فرمارہے تھے اورائمہ حضرات کوپتہ بھی نہیں تھاکہ وضووالے پانی کے ساتھ بندرکیاکررہے ہیں،بندر بندرہے کوئی انسان نہیں ہے ،یہ بندرجب غسل کررہے ہیں توعین ممکن ہے کہ پیشاب وغیرہ بھی کردیں کس نے دیکھاہے ،وہی پانی ہمارے غسل میں ،ہمارے وضومیں اورکلی کے ذریعہ ہمارے منہ تک پہنچتاہے ، بہت سے لوگ تواس پانی کے دوچارگھونٹ پی بھی لیتے ہیں۔
لوگوں نے جب مسجدکے ذمہ داروں کوبتایاتوپتہ چلاکہ بندروں نے اس ٹنکی کاڈھکن کھول کرپھینک دیاہے ،پرندے بھی اسی میں غسل کررہے ہیں اوربلی وبندربھی فیضیاب ہورہے ہیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ بلی کاجھوٹاپاک ہے ،لیکن یہ صرف شرعی مسئلہ ہے آپ نے کبھی بلی کاجھوٹاپیابھی ہے یانہیں ؟بندرتوناپاک ہے اوراس کاجھوٹابھی ناپاک ہے چنانچہ میں دارالعلوم دیوبندکاایک فتویٰ ہی پیش کئے دیتاہوں ،مستفتی نے سوال کیاتھا:
’’ہمارے یہاں مسجد میں استنجاء خانوں کے اوپر پانی کی ٹنکی سیمنٹ کی بنی ہوئی ہے اور اس کا اوپری حصہ کھلا ہوا ہے۔ مسجد میں بندر اکثر آتے ہیں اور وہ اوپر کے کھلے حصے میں منھ ڈال کر پانی پی لیتے ہیں۔ کیا بندر کا جھوٹا پاک ہے؟ اگر ناپاک ہو تو اس پانی کی ٹنکی کو پاک کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ ناپاک ہونے کی صورت میں ابھی تک جو نمازیں اس پانی کو استعمال کرکے پڑھی گئیں ان کا کیا حکم ہوگا؟
ارباب دارالافتائ نے جواب دیاکہ:
’’بندر کا جھوٹا ناباک ہے: وسوٴر خنزیر و کلب وسبع بھائم نجس (الدر المختار مع الشامي، ط زکریا : ج۱ ص۳۸۹) اس طرح کی ٹنکیوں میں جو پانی ہوتا ہے وہ چوں کہ عموماً ماء راکد قلیل (ٹھہرا ہوا تھوڑا پانی) ہوتا ہے اس لیے بندر کے منھ ڈالنے سے ایسا پانی ناپاک ہوجائے گا۔ اور اس کے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ٹنکی میں ایک طرف سے پانی داخل کیا جائے اور دوسری طرف سے نکالا جائے، دوسری طرف سے پانی نکلتے ہی ٹنکی اور پائپ وغیرہ سب پاک ہوجائیں گے۔ پاک کرنے کے لیے پانی کی کوئی خاص مقدار نکالنا ضروری نہیں۔ البتہ احتیاط یہ ہے کہ بندر کے پیتے وقت جتنا پانی ٹنکی میں موجود رہا ہو اتنا پانی نکال دیا جائے:
وقال أبوجعفر الھندواني: یطھر بمجرد الدخول من جانب والخروج من جانب وإن لم یخرج مثل ما کان فیہ، وھو أي قول الھندواني اختار الصدر الشھید حسام الدین لأنہ حینئذ یصیر جاریًا والجاري لا ینجس ما لم یتغیر بالنجاسة (شرح منیة بحوالہ آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام: ص۱۸۵)
یہ تو ہوا ٹنکی کے پانی کا شرعی حکم اور اس کے پاک کرنے کا طریقہ، البتہ مسجد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ ٹنکی کو ڈھک دے یا جال لگادے تاکہ بندر پانی کو ناپاک نہ کرسکیں۔ رہا نماز کا مسئلہ تو اگر بندر کو ٹنکی سے پانی پیتے ہوئے دیکھا گیا ہو تو چوں کہ یہ پانی اس صورت میں ناپاک ہوجائے گا اس لیے اس کو استعمال کرکے پڑھی گئی نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
دیکھاآپ نے ایسے گندے پانی سے پڑھی گئی نمازوں کوشریعت واجب الاعادہ قراردے رہی ہے۔اورہماری بے حسی یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ ہم بنیادی ضروری امورکی انجام دہی میں غافل ہیں،کیایہ بھی اماموں کی ذمہ داری ہے؟بہت سے لوگ تواماموں کے سرتھوپ کر’’نزلہ برعضوضعیف‘‘پرعمل کریں گے۔حالانکہ یہ انتظامی چیزہے ،کتنوں کی نمازیں خراب ہوئیں ،کتنی نمازیں خراب ہوئیں ،حساب لگانے پرآئیں گے توپیروں تلے سے زمین کھسک جائے گی۔
بہرحال مسجدوالوں نے تمام پانی ضائع کیا،پانی ختم ہونے کے بعدکی صورت حال پہلے سے بھی خراب تھی ،جی ہاں کم ازکم ایک بالشت گندگی تہ میں موجودتھی،بدبوسے سانس لینابھی دشوارتھا،بڑی محنت سے وہ گندگی ہٹائی گئی پھردوبارہ پانی بھراگیااوروضوکے لائق ہوسکا۔
یہ توخیرپاکی ناپاکی کامسئلہ تھاجوبنیادی چیزہے ،اب آتے ہیں نفاست اورلطافت پر،بہت سی مساجدمیں اب بھی شہری سہولتیں نہیں ہیں تووہاں وضوکے لئے لوہے یاالمونیم اورپلاسٹک کے لوٹے رکھے ہوئے ہیں ،لوگ لوٹے میں پانی لے کروضوکرلیتے ہیں لیکن آپ کبھی اس لوٹے کے اندرونی حصہ میں جھانک کرتودیکھیں اتنی کائی اوراتنی گندگی آپ کودیکھنے کوملے گی کہ نفیس طبیعت لوگ ایسے لوٹے کوہاتھ بھی لگانا پسندنہیں کریں گے،سرکاری پانی میں اسی لئے ایک خاص کیمیکل ڈالاجاتاہے تاکہ کائی وغیرہ ختم ہوتی رہے لیکن پرائیویٹ اورنجی ٹنکیوں میں عموماً غفلت برتی جاتی ہے ۔
بہرحال ہمیں نمازجیسی عبادت کے لئے نمازکی کنجی وضواوروضوکے لئے موجودپانی کی پاکی اورناپاکی کاخودہی خیال رکھناچاہئے ،جہاں ٹنکیاں کھلی ہوں ،یااتنظامیہ سست اورکاہل ہووہاں بندروں کی آمداورپانی کی ناپاکی سے انکارمشکل ہے ۔نمازاپنی ہے ،وضوبھی اپناہے ، جواب دہی بھی ہمیں ہی کرنی ہے توپھراپنے گھرسے ہی وضوکرکے جائیں تاکہ سکون قلب بھی حاصل ہو اورنمازیں بھی قبول ہوں ۔
محراب میں جومصلیٰ بچھاہواہے عموماً وہ مصلیٰ اپنی عمرطبعی کوپہنچ کرضائع ہوجاتاہے لیکن پانی کی دسترس سے بے چارہ دورہی رہتاہے،بعض مساجدمیں نمازپڑھانے کاموقع ملاتومصلے کی گندگی کی وجہ سے سجدے میں سانس لینامشکل ہوگیا۔
یہ سب چیزیں امام کی نفاست اورعدم نفاست کی گواہی دیتی ہیں ۔سوچئے جس مصلے پربیٹھ کرآپ پاکی اورنفاست کاہرجمعہ میں درس دیتے ہیں وہی مصلیٰ شکوہ سنج ہے کہ اسے کس غلطی کی سزامل رہی ہے۔