لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے
قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے
اکبر الہ آبادی
اٹھایا اس نے بیڑا قتل کا کچھ دل میں ٹھانا ہے
چبانا پان کا بھی خوں بہانے کا بہانہ ہے
مردان علی خاں رانا
گلوری رقیبوں نے بھیجی ہے صاحب
کسی اور کو بھی کھلا لیجئے گا
واجد علی شاہ اختر
ہونٹوں میں داب کر جو گلوری دی یار نے
کیا دانت پیسے غیروں نے کیا کیا چبائے ہونٹھ
اسد علی خان قلق
جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر
کس رنگ سے کرے ہے باتیں چبا چبا کر
میر تقی میر
بالوں میں بل ہے آنکھ میں سرمہ ہے منہ میں پان
گھر سے نکل کے پاؤں نکالے نکل چلے
امداد علی بحر
سنا کے کوئی کہانی ہمیں سلاتی تھی
دعاؤں جیسی بڑے پان دان کی خوشبو
بشیر بدر
پان کے ٹھیلے ہوٹل لوگوں کا جمگھٹ
اپنے تنہا ہونے کا احساس بھی کیا
عبد الرحیم نشتر
تھا بہت ان کو گلوری کا اٹھانا مشکل
دست نازک سے دیا پان بڑی مشکل سے
ریاضؔ خیرآبادی
بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب
یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا
عبدالرحمان احسان دہلوی
کاجل مہندی پان مسی اور کنگھی چوٹی میں ہر آن
کیا کیا رنگ بناویگی اور کیا کیا نقشے ڈھالے گی
نظیر اکبرآبادی
ہم نہ اٹھتے ہیں نہ وہ دیتے ہیں
ہاتھ میں پان ہے کیا مشکل ہے
حفیظ جونپوری
تمہارے لب کی سرخی لعل کی مانند اصلی ہے
اگر تم پان اے پیارے نہ کھاؤ گے تو کیا ہوگا
آبرو شاہ مبارک
پان کھا کر جو اگال آپ نے تھوکا صاحب
جوہری محو ہوے لعل یمن یاد آیا
آغا اکبرآبادی
مرے قتل پر تم نے بیڑا اٹھایا
مرے ہاتھ کا پان کھایا تو ہوتا
امداد علی بحر
جبھی تو پان کھا کر مسکرایا
تبھی دل کھل گیا گل کی کلی کا
عبدالوہاب یکروؔ
پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں
ظہیرؔ دہلوی
تیرے ہونٹوں کے تئیں پان سے لال
دیکھ کر خون جگر کھاتا ہوں
خون عشاق ہے معانی میں
شوق سے پان کھائیے صاحب
سخی لکھنوی
ہاتھ میں لے کر گلوری مجھ کو دکھلا کر کہا
منہ تو بنوائے کوئی اس پان کھانے کے لیے
لالہ مادھو رام جوہر
آئے بھی تو کھائے نہ گلوری نہ ملا عطر
روکی مری دعوت مجھے مہماں سے گلا ہے
امداد علی بحر
آتے ہیں وہ کہیں سے تو اے مہرؔ قرض دام
چکنی ڈلی الاچی منگا پان چھالیا
حاتم علی مہر
سدا پان کھا کھا کے نکلے ہے باہر
زمانے میں خوں خوار پیدا ہوا ہے
مصحفی غلام ہمدانی
گر مزہ چاہو تو کترو دل سروتے سے مرا
تم سپاری کی ڈلی رکھتے ہو ناحق پان میں
مصحفی غلام ہمدانی
کیا ہے مجھے دیتے ہو گلوری
چونے میں کہیں نہ سنکھیا ہو
امداد علی بحر
خون عشاق کا اٹھا بیڑا
بے سبب کب وہ پان کھاتا ہے
میر کلو عرش
پان کھانے کی ادا یہ ہے تو اک عالم کو
خوں رلائے گا مری جاں دہن سرخ ترا
مصحفی غلام ہمدانی
کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے
کس روز مرے قتل کا بیڑا نہیں اٹھتا
قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے
اکبر الہ آبادی
اٹھایا اس نے بیڑا قتل کا کچھ دل میں ٹھانا ہے
چبانا پان کا بھی خوں بہانے کا بہانہ ہے
مردان علی خاں رانا
گلوری رقیبوں نے بھیجی ہے صاحب
کسی اور کو بھی کھلا لیجئے گا
واجد علی شاہ اختر
ہونٹوں میں داب کر جو گلوری دی یار نے
کیا دانت پیسے غیروں نے کیا کیا چبائے ہونٹھ
اسد علی خان قلق
جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر
کس رنگ سے کرے ہے باتیں چبا چبا کر
میر تقی میر
بالوں میں بل ہے آنکھ میں سرمہ ہے منہ میں پان
گھر سے نکل کے پاؤں نکالے نکل چلے
امداد علی بحر
سنا کے کوئی کہانی ہمیں سلاتی تھی
دعاؤں جیسی بڑے پان دان کی خوشبو
بشیر بدر
پان کے ٹھیلے ہوٹل لوگوں کا جمگھٹ
اپنے تنہا ہونے کا احساس بھی کیا
عبد الرحیم نشتر
تھا بہت ان کو گلوری کا اٹھانا مشکل
دست نازک سے دیا پان بڑی مشکل سے
ریاضؔ خیرآبادی
بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب
یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا
عبدالرحمان احسان دہلوی
کاجل مہندی پان مسی اور کنگھی چوٹی میں ہر آن
کیا کیا رنگ بناویگی اور کیا کیا نقشے ڈھالے گی
نظیر اکبرآبادی
ہم نہ اٹھتے ہیں نہ وہ دیتے ہیں
ہاتھ میں پان ہے کیا مشکل ہے
حفیظ جونپوری
تمہارے لب کی سرخی لعل کی مانند اصلی ہے
اگر تم پان اے پیارے نہ کھاؤ گے تو کیا ہوگا
آبرو شاہ مبارک
پان کھا کر جو اگال آپ نے تھوکا صاحب
جوہری محو ہوے لعل یمن یاد آیا
آغا اکبرآبادی
مرے قتل پر تم نے بیڑا اٹھایا
مرے ہاتھ کا پان کھایا تو ہوتا
امداد علی بحر
جبھی تو پان کھا کر مسکرایا
تبھی دل کھل گیا گل کی کلی کا
عبدالوہاب یکروؔ
پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں
ظہیرؔ دہلوی
تیرے ہونٹوں کے تئیں پان سے لال
دیکھ کر خون جگر کھاتا ہوں
خون عشاق ہے معانی میں
شوق سے پان کھائیے صاحب
سخی لکھنوی
ہاتھ میں لے کر گلوری مجھ کو دکھلا کر کہا
منہ تو بنوائے کوئی اس پان کھانے کے لیے
لالہ مادھو رام جوہر
آئے بھی تو کھائے نہ گلوری نہ ملا عطر
روکی مری دعوت مجھے مہماں سے گلا ہے
امداد علی بحر
آتے ہیں وہ کہیں سے تو اے مہرؔ قرض دام
چکنی ڈلی الاچی منگا پان چھالیا
حاتم علی مہر
سدا پان کھا کھا کے نکلے ہے باہر
زمانے میں خوں خوار پیدا ہوا ہے
مصحفی غلام ہمدانی
گر مزہ چاہو تو کترو دل سروتے سے مرا
تم سپاری کی ڈلی رکھتے ہو ناحق پان میں
مصحفی غلام ہمدانی
کیا ہے مجھے دیتے ہو گلوری
چونے میں کہیں نہ سنکھیا ہو
امداد علی بحر
خون عشاق کا اٹھا بیڑا
بے سبب کب وہ پان کھاتا ہے
میر کلو عرش
پان کھانے کی ادا یہ ہے تو اک عالم کو
خوں رلائے گا مری جاں دہن سرخ ترا
مصحفی غلام ہمدانی
کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے
کس روز مرے قتل کا بیڑا نہیں اٹھتا