آہ! حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
آہ! حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی

قابل رشک صحت دیکھی، ہری بھری جوانی دیکھی، اسٹیج پر شعلہ بیانی دیکھی،مسند پر درس حدیث کے جلوے دیکھے،قرطاس و قلم کا دھنی دیکھا ،دل و دماغ کا غنی دیکھا،جی ہاں ہر مجلس، ہر محفل ، ہر نشست اور ہر میٹنگ میں اپنی مخصوص منفرد شناخت و پہچان رکھنے والا والا ایک ایسا عالم اور عامل شریعت دیکھا جس نے ہرملاقات پر پچھلی ملاقات کو بھلادیا،ہر بات پر ہنسنے کے لئے د بے قرار ہوا،لاضرر ولاضرار مؤمن کامل کی جو صفت حدیث شریف میں بیان ہوئی ہے اس کا عکس اور نقش اس ایک بندے میں قسام ازل نے کوٹ کوٹ کر رکھ دیا تھا،کتنی خوبیاں اس ایک بندے میں ودیعت تھیں کہ قلم کی روشنائی خشک ہوجائے۔آپ کیسے لکھوں ،کیونکر بتاؤں کہ دیوبند میں میرے لئے پرکشش شخصیات کا ایک باب بند ہوگیا۔حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رحمہ اللہ نے 2000عیسوی سے پہلے میرا تعارف مولانا سے کرایا تھا،تعارف بھی کچھ نہیں تھا بس میرا ایک مضمون 1998میں ندائے دارالعلوم میں "جمال مصطفی" کے نام سے چھپا تھا وہی مضمون تعارف کا ذریعہ و زینہ بنا،سبحان تیری قدرت ،سیرت رسول ، اسوہ رسول مقبول،پدر بتول صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ یہاں بھی اس عظیم و ضخیم ہستی سے تعارف اور شناخت کا سبب بنا کل قیامت میں اس ہستی کے نام نیکو اور شفاعت عظمی سے کتنے لوگ سیراب و فیضیاب ہوں گے کچھ پتہ نہیں۔

ابھی ابھی میں کلیر ضلع ہریدوار کے ایک مکان میں تھا کہ سوشل میڈیا پر بڑی سادگی کے ساتھ خبر پڑھنے کو ملی کہ"حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی دیوبند کا انتقال ہوگیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔

یہ خبر خبر نہیں میرے لئے دھماکہ تھی کچھ دیر کے لئے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کروں،کلمہ ترجیع پڑھوں یا آنکھوں کو برسنے کی اجازت دوں، حیراں ہو دل کو روؤں ، پریشان ہوں کہ کیسے جگر کو پیٹوں لیکن قربان میری جان محمد کے نام پر جنھوں نے ایسے کسی بھی حادثہ پر اس طرح کے کاموں سے منع فرمادیا ہے بس پھر یہی سوچ کر کچھ آیات پڑھ کر ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کی توفیق ملی اور دل سے بار بار آواز آتی رہی کہ یہی ہونا ہے ہربندے کے ساتھ، لافانی تو صرف قادر مطلق ہے ،باقی تو سب فانی ہیں ،کل من علیہا فان ارشاد رب و رحمان ہے اسی نے ہمیں پیدا کیا اسی نے ہمیں حیات مستعار دی، اسی نے صحت سے نوازا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے جی ہاں:

لائی حیات آئی قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

حضرت مولانا محمداسلام قاسمی نے دارالعلوم کے خیرالقرون کو دیکھا ، حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی کے دور عروج کو دیکھا ، فتن اور فتینوں کو دیکھا، صاحبان عبا و قبا اور حاملان جبہ و دستار کو دست و گریباں دیکھا، سنتی ہوئی آستینیں ، تنی ہوئی گردنیں اور سنگینیں دیکھیں جہاں پر الااللہ کی ضربیں لگتی تھیں وہاں سے فتنوں کو جنم لیتے دیکھا، اجلاس صد سالہ سے حکیم الاسلام سیمینار تک بے شمار پروگراموں میں شرکت کی، عظیم ہستیوں سے شرف تلمذ حاصل کیا، بے باک قلم ، بے باک زبان اور قابل رشک عربی و اردو صلاحیت سے مالامال تھے، سچ کہوں تو ایسی موفق شخصیات خوش نصیب اداروں کو اور ایسے خوش نصیب ادارے خوش نصیب افراد کو ملتے ہیں۔
افسوس کہ آج میں اپنے ایک اور محسن و کرم فرما سے محروم ہوگیا۔
ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ باجل مسمی فلتصبر ولتحتسب۔
ناصرالدین مظاہری
26/ذوالقعدہ 1444ھ
وارد حال کلیر/ہریدوار/اتراکھنڈ
 
Top