رشتوں کی اہمیت

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
نماز عصر کی ادائیگی کے لیے تیزی سے مسجد کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اچانک مسجد سے کچھ قبل دیکھا ایک شخص ہے جس نے دوسرے کا گریبان پکڑا ہے اور ساتھ ساتھ عظیم القابات سے نواز بھی رہاہے۔ جب قریب پہنچا تو دیکھا کہ گریبان پکڑنے والا نوجوان اور نوجوان نے جس شخص کا گریبان پکڑا ہوا ہے اور اس کو القابات سے نواز رہا تھا وہ شخص اس کے والد کی عمر کا شخص تھا۔
معاملہ کچھ اس طرح تھا کہ وہ بچارہ سڑک پار کرتے ہوئے اس نوجوان کی موٹر سائیکل کی طرف آگیا تھا۔
اس وقت میرا دل مٹھی میں آگیا جب بزرگ نے بے بس ہوکر کہا بیٹا ! معاف کردو۔
آج ایک بزرگ ایک نوجوان کے سامنے گڑ گڑا رہا تھا۔ اس کو اتنی حیا بھی نہ آئی کہ اپنے والد کے عمر کے بندے سے اس طرح سے بات کرے۔ اوپر سے اس وقت پیروں سے زمین نکل گئی کہ اب اس بڑی عمر کے شخص نے بے بس ہوکر سب کے سامنے اپنے بیٹے کی عمر سے معافی مانگی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ۔ بعض اوقات کسی بڑے کے لیے انجانے میں کوئی بات بھی منہ نکل جاتی تو اسی وقت پکڑ ہوجاتی اور درگت بنتی کہ بڑے سے ایسے بات کرتے ہیں۔؟ شرم نام کی کوئی چیز تمہارے اندر ہے بھی سہی یا نہیں۔؟ حتی کے بھائیوں سے بھی کھیل کے دوران کوئی بات منہ سے سرزد ہوجاتی تو خوب درگت بنتی اور کہا جاتا جناب! یہ آپ سے بڑے ہیں۔
بچوں کو سبق دیا جاتا تھا کہ بیٹا! بڑے بھائی باپ کی جگہ اور بڑی بہنیں ماؤں کی جگہ ہوتی ہیں۔ ان کی عزت کیا کرو ، ان کی بات مانو یہ رشتے انمول ہوتے ہیں۔
حتی کہ جب بڑے بھائی کی شادی ہوتی اور ایک نیا رشتہ گھر میں آتا تو گھر میں چھوٹوں کو کہا جاتا تھا کہ بیٹا! ان کو بھابھی ماں کہا کرو۔
ان رشتوں کو اس لیے تشبیہ دیکر بتلایا جاتا تھا کہ
ان رشتوں کی بڑی اہمیتہے ، یہ رشتے بے معنی نہیں ، یہ رشتے بیکار نہیں ، یہ رشتے ایسے رشتے ہیں جو ہمیں ایک دھاگے میں پرو دیتے ہیں۔ بکھرے ہوئے کو جوڑ دیتے ہیں ، جوڑ کر ایک تسبیح بنا دیتے ہیں۔
پھر جو محبتیں ، اخوتیں پیدا ہوتی ہیں جن پر تاریخیں لکھی جاتی ہیں۔پھر یہ ایک مٹھی اور ایک جان بن جاتے ہیں اور ہر مشکل اور پریشانی کو ہنس کر پار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسی وجہ سے ہمیں والد کی عمر کا شخص والد کی شکل میں والد ، بھائی کی عمر والا شخص بھائی کی شکل میں بھائی نظر آتے ہیں اور خود بخود وہی عزت دل میں امڑ آتی ہے جو ایک حقیقی رشتہ کے لیے ہوتی ہے۔
مفتی عدنان کاکا خیلصاحب ایک دن فرمانے لگے:
ایک پاکستانی بھائی سے ملاقات ہوئی۔ وہ روزگار کے سلسلہ میں باہر تھے۔ان کے بچے وہیں پیدا ہوئے اور وہیں ان کی پرورش ہوئی۔ ایک دن انہوں نے بچوں سے ذکر کیا آؤ!پاکستان چلتے ہیں۔ بچوں نے کہا:
بابا!وہاں آپ کے رشتہ دار ہیں۔ ہمارا کون ہے آپ جائیں
اندازہ لگالیں کہ بچے جس معاشرہ میں پلے بڑھے اور جن کے ہاں ان رشتوں کا تصور کم ہی ہے۔ بچوں نے بھی وہی عادات پکڑ لیں۔ حالانکہ جتنے رشتہ دار ان کے والد کے ہیں وہی رشتہ دار ان بچوں کے بھی ہیں۔ لیکن کہتے ہیں بچہ جو دیکھے گا وہی کرے گا۔
آج زمانہ تو ترقی کررہا ہے لیکن ان محبت کے رشتوں میں پستی کا آرہی ہے۔
آج ان رشتوں کو گالی بنا دیا گیا۔ ان رشتوں کے نام پر طرح طرح کے القابات مرتب کردیے گئے ، ان رشتوں کو توڑ دیا گیا۔محبت کے بجائے دشمنی کے بیج بو دیے گئے۔
محبت کے رشتوں کو تحریروں ، ٹیلی ویژن ، ڈراموں کے ذریعے ہمارے نزدیک برا بنا دیا گیا۔ ہمیں ذہنوں میں یہ بات اس طریقے سے بٹھا دی گئی کہ یہ رشتے محبت کے نہیں بربادی کے سبب ہیں اسی لیے ہم خاندانی پستی کا شکار ہیں۔
ان رشتوں کو اہمیت دیں، یہ رشتے بڑے اہم اور عظیم ہوتے ہیں۔
ان کو کھویے مت ورنہ آپ کہیں ہو جائیں گے۔
 
Last edited:
Top