آباد ہونا(بسنا) رہنا
کے لیے سکن، تبوا، ثوی، بدا، حضرا، خلد، عاشر اور غنی کے الفاظ قرآن کریم میں مستعمل ہوئے ہیں۔1:سکن:
سکون کا لفظ اضطرار اور حرکت کی ضد ہے۔ لہذا آباد ہونا کے مفہوم میں جب سکن کا استعمال ہو گا تو اس کے معنی ہوں گے "کسی دوسرے مقام سے آ کر رہائش پذیر ہونا" اور قرآن کریم میں ہے:
وَقُلْنَا يَآ اٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ (سورۃ البقرۃ آیت 35)
اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو
تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی پیدائش جنت کے علاوہ کسی دوسرے مقام پر ہوئی تھی۔اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو
حضرت ابراہیم نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو لا بسایا تو فرمایا:
رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِۙ(سورۃ ابراہیم آیت 37)
اے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو میدان (مکہ) میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت (و ادب) والے گھر کے پاس لا بسائی ہے۔
2: تبوا:اے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو میدان (مکہ) میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت (و ادب) والے گھر کے پاس لا بسائی ہے۔
اس کا مادہ (ب و ء) سے ہے۔ اس کے مفہوم میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ 1: رجوع الی الشئی اور برابر سرابر ہونا۔ اور اس لفظ کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب کسی رہائشی مقام کی فضا اور ماحول رہنے والے کی طبیعت کے موافق اور سازگار ہو یا کوئی شخص جس مقصد کے لیے کسی رہائشی جگہ کا انتخاب کرتا ہے وہ اس کے لیے موافق اور سازگار ہو۔ مثلاً
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوۡسُفَ فِىۡ الۡاَرۡضِۚ يَتَبَوَّاُ مِنۡهَا حَيۡثُ يَشَآءُؕ (سورۃ یوسف آیت 56)
اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی اور وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے
اسی طرح اللہ تعالی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی اور وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ( سورۃ آل عمران آیت 121)
اور اس وقت کو یاد کرو جب تم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لئے مورچوں پر موقع بہ موقع متعین کرنے لگے اور اللہ سب کچھ سنتا ہے جانتا ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جنگ کے موقع و محل کے لحاظ سے ہر ایک کو مخصوص مقامات پر متعین فرماتے تھے۔اور اس وقت کو یاد کرو جب تم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لئے مورچوں پر موقع بہ موقع متعین کرنے لگے اور اللہ سب کچھ سنتا ہے جانتا ہے۔
3: ثوی:
بمعنی دفن کیا جانا، کسی جگہ ٹھہرنا، آباد ہونا۔ ثوی الرجل آدمی کا مرنا (منجد) (لغت اضداد) اور بمعنی کسی جگہ کو مستقل طور پر اقامت گاہ بنا لینا۔ آباء و اجداد سے کسی ایک مقام پر ہی رہائش اختیار کیے رکھنا۔ اللہ تعالی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہیں:
وَلٰكِنَّـآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْـهِـمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِـىٓ اَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِنَاۙ وَلٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ (سورۃ قصص آیت 45)
لیکن ہم نے (موسیٰ کے بعد) کئی اُمتوں کو پیدا کیا پھر ان پر مدت طویل گذر گئی اور نہ تم مدین والوں میں رہنے والے تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے تھے۔ ہاں ہم ہی تو پیغمبر بھیجنے والے تھے۔
4: خلد:لیکن ہم نے (موسیٰ کے بعد) کئی اُمتوں کو پیدا کیا پھر ان پر مدت طویل گذر گئی اور نہ تم مدین والوں میں رہنے والے تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے تھے۔ ہاں ہم ہی تو پیغمبر بھیجنے والے تھے۔
کسی جگہ پر ایک طویل عرصہ تک رہنا جہاں تغیر و فساد واقع نہ ہو۔ اللہ تعالی اہل جنت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
وَ لَہمۡ فِیۡہاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہرَۃٌ وَّ ھمۡ فِیۡہا خٰلِدُوۡنَ (سورۃ بقرۃ آیت 25)
اور وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔
5،6 حضرا، بدا:اور وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔
کسی شہر میں مقیم ہونا۔ شہری رہائش اختیار کرنا اور حضر کی ضد بدو ہے۔
بدا (یبدؤا بداواۃ) کے معنی کسی گاؤں یا دور افتادہ جگہ کا باشندہ ہونا۔ بدا کے لغوی معنی (ظاہر ہونا) بھی ہے اور اس سے ایک مقام رہائش مراد ہوتا ہے جہاں بلند عمارتیں نہ ہونے کی وجہ سے سب کچھ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ اس سے بادیۃ بمعنی صحرا، بادی صحرا نشین اور بدوی بمعنی دیہاتی کے الفاظ مشتق ہیں۔ اب ان کی قرآن کریم سے مثالیں دیکھئے۔
فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْؕ-تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ- (سورۃ بقرۃ آیت 196)
اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مکے میں نہ رہتے ہوں ۔
اور یوسف علیہ السلام اللہ تعالی کے احسانات کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مکے میں نہ رہتے ہوں ۔
وَ قَدۡ اَحۡسَنَ بِیۡۤ اِذۡ اَخۡرَجَنِیۡ مِنَ السِّجۡنِ وَ جَآءَ بِکُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ نَّزَغَ الشَّیۡطٰنُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَ اِخۡوَتِیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَطِیۡفٌ لِّمَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہ ھوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ (سورۃ یوسف آیت 100)
اور اس نے مجھ پر (بہت سے) احسان کئے ہیں کہ مجھ کو جیل خانے سے نکالا۔ اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا۔ آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بے شک میرا پروردگار جو چاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے۔
7: عاشر: اور اس نے مجھ پر (بہت سے) احسان کئے ہیں کہ مجھ کو جیل خانے سے نکالا۔ اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا۔ آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بے شک میرا پروردگار جو چاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے۔
اس کا مادہ عشر ہے۔ جس کے دو بنیادی معنی ہیں۔ ایک دس کا عدد اور مخالطت اور مداخلت یعنی آپس میں مل جل کر رہنا۔ اسی سے لفظ عشیرۃ مشتق ہے جس کے معنی قبیلہ کے ہیں اور عاشر کے معنی ایک کنبہ کے ساتھ مل جل کر رہنا۔ قرآن کریم میں ایسے مردوں کو جنہیں اپنی بیویوں پر کچھ شکایات ہوں حکم دیا گیا ہے کہ:
وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ ۚ (سورۃ النساء آیت 19)
اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو
8: غنی بالمکان:اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو
بمعنی کسی مقام پر طویل مدت تک آرام و اطمینان سے رہنا۔ گویا وہ دوسری جگہوں سے بے نیاز ہے قرآن میں ہے:
الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاۚۛ-اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَ (سورۃ الاعراف آیت 92)
یہ لوگ جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی ایسے برباد ہوئے تھے کہ گویا وہ ان میں کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے غرض جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ خسارے میں پڑ گئے
ماحصل: یہ لوگ جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی ایسے برباد ہوئے تھے کہ گویا وہ ان میں کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے غرض جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ خسارے میں پڑ گئے
- سکن: کسی دوسرے مقام سے آ کر آباد ہونے کے لیے
- تبوا: موافق اور سازگار ماحول میں آباد ہونے کے لیے
- ثوی: موروثی طور پر کسی جگہ پر آباد ہونے کے لیے
- خلد: طویل عرصہ کے لیے جس میں تغیر و فساد نہ ہو
- حضر: کسی شہر میں رہنے کے لیے
- بدا: کسی دیہات یا جنگ میں رہنے کے لیے
- عاشر: اپنے خاندان میں مل جل کر رہنے کے لیے
- غنی: طویل مدت تک آرام و اطمینان سے رہنے کے لیے