آواز اور اس کی اقسام
عربی میں ہر قسم کی آواز کے لیے
صوت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ وہ خواہ بولنے سے پیدا ہو یا چیزوں کے ٹکرانے سے۔
صوت کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے
"منہ سے نکلی ہوئی شے اگر الفاظ اور حروف پر مشتمل نہ وہ تو وہ صوت ہے"
یہ تعریف قابل اعتبار نہیں۔ قرآن میں ہے:
یٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَكُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِىِّ(سورۃ الحجرات آیت 2)
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو
ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی حضور اکرمﷺ سے بامعنی کلام ہوتی تھی۔ بے معنی آوازیں نہ ہوتی تھیں۔ البتہ ابن فارس سے صوت کی جامع تعریف کی ہے۔ وہ کہتے ہیں
" ہر وہ کچھ جو سننے والے کے کان سے ٹکرائے وہ آواز (صوت) ہے''
قرآن کریم میں کچھ تو جانداروں کی آوازیں مذکور ہیں اور کچھ بے جان چیزوں کی۔ ہم اسی ترتیب سے انہیں بیان کرتے ہیں۔
جانداروں کی آوازیں:
صَدّ، صرخ، ہمْس، حَسِیْس، مُکَاءً، تَصْدِیَۃ، ضَبَح، خُوَار، زَفِیْر، شَہیْق، لہث
1) صَدّ (یَصِدُّ صَدِیْدًا):
کسی انسان کے گرنے کے وقت کی چیخ و پکار اور کراہنے کی آواز۔ لیکن یہ لفظ قرآن کریم میں محض چیخنے چلانے کے معنوں میں آیا ہے۔
وَلَمَّا ضُرِبَ ابۡنُ مَرۡيَمَ مَثَلاً اِذَا قَوۡمُكَ مِنۡهُ يَصِدُّوۡنَ(سورۃ زخرف آیت 57)
اور جب (عیسٰی) ابنِ مریم (علیہما السلام) کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ چلا اٹھتے تھے۔
2) صرخ:
مصیبت اور گھبراہٹ میں چلانے کی آواز، فریاد، ارشاد باری تعالی ہے۔
وَهُمۡ يَصۡطَرِخُوۡنَ فِيۡهَا ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَـعۡمَلۡ صَالِحًـا غَيۡرَ الَّذِىۡ كُـنَّا نَـعۡمَلُؕ (سورۃ فاطر آیت 37)
اور وہ اس دوزخ میں چِلّائیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں (یہاں سے) نکال دے، (اب) ہم نیک عمل کریں گے ان (اَعمال) سے مختلف جو ہم (پہلے) کیا کرتے تھے۔
3) ھمْس:
انسان کی کسی بھی حرکت کی آواز، کھسر پھسر یا کانا پھوسی کی آواز (منجد)۔ گویا اس سے مراد انسان کی کوئی بھی دھیمی اور قابل محسوس آواز ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَوۡمَٮِٕذٍ يَّتَّبِعُوۡنَ الدَّاعِىَ لَا عِوَجَ لَهٗؕ وَخَشَعَتِ الۡاَصۡوَاتُ لِلرَّحۡمٰنِ فَلَا تَسۡمَعُ اِلَّا هَمۡسًا(سورۃ طہ آیت 108)
اس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چلتے جائیں گے اس (کے پیچھے چلنے) میں کوئی کجی نہیں ہوگی، اور (خدائے) رحمان کے جلال سے سب آوازیں پست ہوجائیں گی پس تم ہلکی سی آہٹ کے سوا کچھ نہ سنوگے۔
4) حَسِیْس:
قدموں کی آہٹ، چاپ، خفیف سی آواز (منجد) آگ بھڑکنے کی آواز۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لَا يَسۡمَعُوۡنَ حَسِيۡسَهَاۚ وَهُمۡ فِىۡ مَا اشۡتَهَتۡ اَنۡفُسُهُمۡ خٰلِدُوۡنَۚ (سورۃ انبیاء آیت 102)
وہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے اور وہ ان (نعمتوں) میں ہمیشہ رہیں گے جن کی ان کے دل خواہش کریں گے
5) مَکَاءً:
منہ سے سیٹی بجانا (منجد) اور اس میں موسیقی کے تمام سر تال بھی شامل ہیں۔
6) تَصْدِیَۃ:
دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجانا اور اس میں تمام ساز و مضراب شامل ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمۡ عِنۡدَ الۡبَيۡتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصۡدِيَةً ؕ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ ( سورۃ انفال آیت 35)
اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔ تو تم جو کفر کرتے تھے اب اسکے بدلے عذاب کا مزہ چکھو۔
7) ضَبَحَ:
گھوڑے کے تیز دوڑنے کی وجہ سے اس کے ہانپنے کی آواز۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَالۡعٰدِيٰتِ ضَبۡحًا (سورۃ العادیات آیت 1)
(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں
8) خُوَار:
بیل، گائے یا بچھڑے کی آواز۔ قرآن کریم میں ہے:
وَاتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰى مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ حُلِيِّهِمۡ عِجۡلاً جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ (سورۃ الاعراف آیت 148)
اور موسٰی کے بعد انکی قوم نے اپنے زیور سے ایک بچھڑا بنا لیا وہ ایک جسم تھا جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی
9) زَفِیْر:
زفر بمعنی لمبا سانس باہر نکالنا اور
زفیر بمعنی گدھے کے رینگنے کی ابتدائی آواز جو آہستہ آواز سے اونچی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
10) شَہیْق:
گدھا جب رینگنے کو ختم کرنے لگے تو آخر کی آواز جو اونچی آواز سے پست ہونا شروع ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَاَمَّا الَّذِيۡنَ شَقُوۡا فَفِىۡ النَّارِ لَهُمۡ فِيۡهَا زَفِيۡرٌ وَّشَهِيۡقٌۙ ( سورۃ ھود آیت 106)
تو جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے اس میں ان کو چلانا اور دھاڑنا ہو گا۔
یہ آوازیں یا تو جہنم کی آگ سے پیدا ہوں گی جو انہیں سننا پڑیں گی یا گرمی اور پیاس کی شدت سے خود ان کے اندر سے منہ کے راستہ ایسی آوازیں نکلیں گی۔
11) لہث:
کتے کے ہانپنے کی آواز جس کی وجہ گرمی یا پیاس کی شدت ہوتی ہے اور وہ زبان باہر نکال کر ہانپنے یا ہونکنے لگتا ہے (منجد)۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰهُ بِهَا وَلٰـكِنَّهٗۤ اَخۡلَدَ اِلَى الۡاَرۡضِ وَاتَّبَعَ هٰوٮهُۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الۡـكَلۡبِۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ اَوۡ تَتۡرُكۡهُ يَلۡهَث (سورۃ الاعراف آیت 176)
اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس کے درجے کو بلند کر دیتے۔ مگر وہ تو پستی کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا۔ تو اسکی مثال کتے کی سی ہو گئ کہ اگر اس پر حملہ کرو زبان نکالے رہے یا اسے یونہی چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے۔
بے جان چیزوں کی آوازیں:
12) رِکْز:
خفیف اور دھیمی آواز اور بعض کے نزدیک بھنک، مکھی کی بھنبھناہٹ، ارشاد باری تعالی ہے:
وَكَمۡ اَهۡلَكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍؕ هَلۡ تُحِسُّ مِنۡهُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَوۡ تَسۡمَعُ لَهُمۡ رِكۡزًا (سورۃ مریم آیت 98)
اور ہم نے ان سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کر دیا ہے بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یا کہیں انکی بھنک سنتے ہو۔
13) صَیْحَۃً:
آواز پھاڑ پھاڑ کر چلانا، صور پھونکنے کی آواز، ایسی آواز جس سے دل دہل جائیں، گرج دار آواز، دھماکہ، یعنی جب کسی بھی آواز میں شدت پیدا ہو جائے۔ ہر بے معنی اور بلند آواز کو
صیحۃ کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَاَخَذَتۡهُمُ الصَّيۡحَةُ مُشۡرِقِيۡنَۙ (سورۃ الحجر آیت 73)
پس انہیں طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی سخت آتشیں کڑک نے آلیا
14) صَاخّۃ:
ایسی کرخت آواز جو کانوں کو بہرا کر دے۔ کان پھوڑنے والی آواز، سخت قسم کا شور و غل۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ (سورۃ عبس آیت 33)
پھر جب کان پھاڑ دینے والی آواز آئے گی
15) تَغَیُّظ:
جوش غیظ و غضب میں جھنجھلاہٹ (منجد) مجازًا جہنم کی آگ میں تیز اور جوش کی وجہ سے پیدا شدہ آوازیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
اِذَا رَاَتۡهُمۡ مِّنۡ مَّكَانٍۢ بَعِيۡدٍ سَمِعُوۡا لَهَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيۡرًا (سورۃ الفرقان آیت 12)
جب وہ (آتشِ دوزخ) دور کی جگہ سے (ہی) ان کے سامنے ہوگی یہ اس کے جوش مارنے اور چنگھاڑنے کی آواز کو سنیں گے
16) ہدّ:
کسی عمارت یا دیوار یا ستون وغیرہ کے گرنے کی آواز، دھڑام کی آواز، ارشاد باری تعالی ہے:
تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرۡنَ مِنۡهُ وَتَـنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَتَخِرُّ الۡجِبَالُ هَدًّاۙ (سورۃ مریم آیت 90)
قریب ہے کہ اس جھوٹ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں۔
17) غَلْی:
ہنڈیا کے ابلنے اور جوش مارنے کی آواز، کھولنے کی آواز۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
كَالۡمُهۡلِ يَغۡلِىۡ فِىۡ الۡبُطُوۡنِۙ (سورۃ الدخان آیت 45)
پگھلے ہوئے تانبے کی طرح وہ پیٹوں میں کَھولے گا
18) صَلصَال:
خشک اور پختہ مٹی کے کھنکنے کی آواز، اصل میں یہ
صلّال تھا۔ ایک لام ص سے بدل گیا۔ خشک مٹی جو لوہے کی طرح بجے (منجد) یعنی وہ آواز جو کسی چیز میں میخ یا کیل کے ٹھونکنے سے پیدا ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ كَالۡفَخَّارِۙ (سورۃ الرحمن آیت 14)
اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے بنایا
19) قَارِعَۃ:
قرع کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر مارنا،
قرع الباب بمعنی دروازہ کھکھٹانا (منجد) یعنی جب اس کے ایک پٹ کو دوسرے پٹ سے ٹکرائے یا ہاتھ مار کر یا کسی اور چیز سے آواز پیدا کی جائے۔ قیامت کو اللہ تعالی نے قارعۃ کہا ہے کہ اس وقت ایک دوسرے سے ٹکرا کر آوازیں پیدا ہوں گی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اَلۡقَارِعَةُۙ مَا الۡقَارِعَةُۚ (سورۃ القارعۃ آیت 1،2)
کھڑکھڑا ڈالنے والی۔ کیا ہے وہ کھڑکھڑا ڈالنے والی
ماحصل:
- صوت: عام ہے، ہلکی ہو بلند جاندار کی ہو یا بے جان کی ہو، بے معنی ہو یا بامعنی ہو۔
- صدّ: چیخنا چلانا یا کراہنا۔
- صرخ: فریاد کی صورت میں چلانے کی آواز
- ہمس: انسان کی کسی بھی حرکت کی ہلکی سی آواز
- حسیس: قدموں کی آہٹ کی طرح خفیف آواز
- مکاء: سیٹی کی قسم کی آواز
- تصدیۃ: تالی کی قسم کی آواز
- ضبح: دوڑتے وقت ہانپنے کی آواز
- خوار: بچھڑے کی آواز
- زفیر: گدھے کے رینگنے کی ابتداء
- شہیق: گدھے کےرینگنے کی انتہا
- لہث: کتے کے ہونکنے کی آواز
- رکز: مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی ہلکی آواز
- صیحۃ: بلند اور بے معنی آواز
- صاخّۃ: کان پھوڑنے والی کرخت اور بلند آواز
- تغّیظ: غیظ و غضب میں جھنجھلاہٹ
- ھدّ: دھڑام کی آواز
- غلی: ہنڈیا کے ابلنے کی آواز
- صلصال: پختہ مٹی کے کھنکنے کی آواز
- قارعۃ: کھڑکھڑانے کی آواز