بسم الله الرحمن الرحیم
ایک بوڑھا باپ اپنے بیٹے کے خلاف مقدمہ قاضی صاحب کے سامنے پیش کرنے کے لئے عدالت میں داخل ہوا۔
قاضی صاحب نے بوڑھے باپ سے پوچھا آپ کا مقدمہ کس کے خلاف ہے؟
بوڑھا باپ بولا میرا مقدمہ میرے اپنے بیٹے کے خلاف ہے۔
قاضی صاحب حیران ہوا اور پوچھا کہ بیٹے کے خلاف کیا مقدمہ ہے؟
بوڑھا باپ بولا میں اپنے بیٹے سے بیٹے کی استطاعت کے مطابق ماہانہ خرچہ مانگ رہا ہوں۔
قاضی صاحب بولا یہ تو آپ کا اپنے بیٹے پر ایسا حق ہے کہ جس کے لئے دلائل سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
بوڑھے باپ نے کہا قاضی صاحب! میں مالدار ہوں اور پیسوں کا محتاج بھی نہیں ہوں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹے سے ماہانہ خرچہ وصول کرتا رہوں۔
قاضی صاحب حیرت میں پڑ گیا اور بوڑھے باپ سے بیٹے کا نام اور پتہ لے کر بیٹے کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا۔
بیٹا عدالت میں حاضر ہوا تو قاضی صاحب نے بیٹے سے پوچھا کیا یہ بوڑھا شخص آپ کے والد ہیں؟
بیٹے نے جواب دیا جی ہاں! یہ میرے والد ہیں۔
قاضی صاحب نے بیٹے سے کہا کہ آپ کے والد نے آپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ آپ اپنے والد کو ماہانہ خرچہ ادا کریں۔
بیٹے نے حیرت سے کہا میرے والد مجھ سے خرچہ کیوں مانگ رہے ہیں۔ جبکہ میرے والد خود بہت مالدار ہیں اور اُنہیں میری مدد کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
قاضی صاحب نے کہا یہ آپ کے والد کا تقاضا ہے۔ اور آپ کے والد اپنے تقاضے میں آزاد اور حق بجانب ہیں۔
بوڑھے باپ نے کہا قاضی صاحب! اگر آپ بیٹے کو صرف ایک دینار ماہانہ ادا کرنے کا حکم دیں تو میں خوش ہوجاؤں گا۔ بشرطیکہ وہ یہ دینار مجھے اپنے ہاتھ سے ہر مہینے بِلا تاخیر اور بِلا واسطہ دیا کرے۔
قاضی صاحب نے کہا بالکل ایسا ہی ہوگا یہ آپ کا حق ہے۔
پھر قاضی صاحب نے حکم جاری کیا کہ فلان ابن فلان اپنے والد کو تاحیات ہر ماہ ایک دینار بِلا تاخیر اپنے ہاتھ سے بِلا واسطہ دیا کرے گا۔
بیٹے نے کہا جی قاضی صاحب آپ کا فیصلہ مجھے منظور ہے۔
کمرہ عدالت چھوڑنے سے پہلے قاضی صاحب نے بوڑھے باپ سے پوچھا کہ آپ نے یہ مقدمہ کیوں دائر کیا؟ جبکہ آپ مالدار ہیں اور آپ نے بہت ہی معمولی رقم کا مطالبہ کیا۔
بوڑھے باپ نے روتے ہوئے کہا قاضی صاحب! میں اپنے اِس بیٹے کو دیکھنے کے لئے ترس گیا ہوں اور ترس رہا ہوں۔ اور اِس بیٹے کو اِس کے کاموں نے اتنا مصروف کر رکھا ہے کہ میں ایک طویل زمانے سے بیٹے کا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔ جبکہ میں اپنے بیٹے سے بہت ہی زیادہ محبت کرتا ہوں۔ اور ہر وقت میرے دل میں بیٹے کا خیال رہتا ہے۔ مگر یہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا۔ چاہے مہینہ میں ایک دفعہ ہی سہی۔ اِس لئے میں نے یہ مقدمہ درج کیا ہے۔
بوڑھے باپ کی فریاد سُن کر قاضی صاحب بےساختہ رونے لگے۔ پھر قاضی صاحب نے اُس بوڑھے باپ سے کہا الله کی قسم اگر آپ مجھے پہلے اِس حقیقت سے آگاہ کرتے تو میں اِس بیٹے کو جیل بھیجتا اور خوب کوڑے لگواتا۔
بوڑھے باپ نے بیٹے کی محبت میں رمسکراتے ہوئے قاضی صاحب سے کہا! قاضی صاحب آپ کا یہ حکم میرے دل کو بہت تکلیف دیتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کاش اولاد جانتی کہ والدین کی دِلوں میں اولاد کے لئے کتنی محبت ہے۔ جاگئیے اِس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔
الله رب العالمین ہمیں اپنے والدین کے لئے قدردان بنا دے۔ آمین
یاالله والدین کا سایہ تادیر ہمیں سروں پر قائم ودائم رکھ۔ ثم آمین
الله رب العزت ہمارے والدین کو اپنے دَر کے سِوا کسی کا محتاج نہ بنا۔ اللھم آمین یا رب العالمین
ایک بوڑھا باپ اپنے بیٹے کے خلاف مقدمہ قاضی صاحب کے سامنے پیش کرنے کے لئے عدالت میں داخل ہوا۔
قاضی صاحب نے بوڑھے باپ سے پوچھا آپ کا مقدمہ کس کے خلاف ہے؟
بوڑھا باپ بولا میرا مقدمہ میرے اپنے بیٹے کے خلاف ہے۔
قاضی صاحب حیران ہوا اور پوچھا کہ بیٹے کے خلاف کیا مقدمہ ہے؟
بوڑھا باپ بولا میں اپنے بیٹے سے بیٹے کی استطاعت کے مطابق ماہانہ خرچہ مانگ رہا ہوں۔
قاضی صاحب بولا یہ تو آپ کا اپنے بیٹے پر ایسا حق ہے کہ جس کے لئے دلائل سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
بوڑھے باپ نے کہا قاضی صاحب! میں مالدار ہوں اور پیسوں کا محتاج بھی نہیں ہوں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹے سے ماہانہ خرچہ وصول کرتا رہوں۔
قاضی صاحب حیرت میں پڑ گیا اور بوڑھے باپ سے بیٹے کا نام اور پتہ لے کر بیٹے کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا۔
بیٹا عدالت میں حاضر ہوا تو قاضی صاحب نے بیٹے سے پوچھا کیا یہ بوڑھا شخص آپ کے والد ہیں؟
بیٹے نے جواب دیا جی ہاں! یہ میرے والد ہیں۔
قاضی صاحب نے بیٹے سے کہا کہ آپ کے والد نے آپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ آپ اپنے والد کو ماہانہ خرچہ ادا کریں۔
بیٹے نے حیرت سے کہا میرے والد مجھ سے خرچہ کیوں مانگ رہے ہیں۔ جبکہ میرے والد خود بہت مالدار ہیں اور اُنہیں میری مدد کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
قاضی صاحب نے کہا یہ آپ کے والد کا تقاضا ہے۔ اور آپ کے والد اپنے تقاضے میں آزاد اور حق بجانب ہیں۔
بوڑھے باپ نے کہا قاضی صاحب! اگر آپ بیٹے کو صرف ایک دینار ماہانہ ادا کرنے کا حکم دیں تو میں خوش ہوجاؤں گا۔ بشرطیکہ وہ یہ دینار مجھے اپنے ہاتھ سے ہر مہینے بِلا تاخیر اور بِلا واسطہ دیا کرے۔
قاضی صاحب نے کہا بالکل ایسا ہی ہوگا یہ آپ کا حق ہے۔
پھر قاضی صاحب نے حکم جاری کیا کہ فلان ابن فلان اپنے والد کو تاحیات ہر ماہ ایک دینار بِلا تاخیر اپنے ہاتھ سے بِلا واسطہ دیا کرے گا۔
بیٹے نے کہا جی قاضی صاحب آپ کا فیصلہ مجھے منظور ہے۔
کمرہ عدالت چھوڑنے سے پہلے قاضی صاحب نے بوڑھے باپ سے پوچھا کہ آپ نے یہ مقدمہ کیوں دائر کیا؟ جبکہ آپ مالدار ہیں اور آپ نے بہت ہی معمولی رقم کا مطالبہ کیا۔
بوڑھے باپ نے روتے ہوئے کہا قاضی صاحب! میں اپنے اِس بیٹے کو دیکھنے کے لئے ترس گیا ہوں اور ترس رہا ہوں۔ اور اِس بیٹے کو اِس کے کاموں نے اتنا مصروف کر رکھا ہے کہ میں ایک طویل زمانے سے بیٹے کا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔ جبکہ میں اپنے بیٹے سے بہت ہی زیادہ محبت کرتا ہوں۔ اور ہر وقت میرے دل میں بیٹے کا خیال رہتا ہے۔ مگر یہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا۔ چاہے مہینہ میں ایک دفعہ ہی سہی۔ اِس لئے میں نے یہ مقدمہ درج کیا ہے۔
بوڑھے باپ کی فریاد سُن کر قاضی صاحب بےساختہ رونے لگے۔ پھر قاضی صاحب نے اُس بوڑھے باپ سے کہا الله کی قسم اگر آپ مجھے پہلے اِس حقیقت سے آگاہ کرتے تو میں اِس بیٹے کو جیل بھیجتا اور خوب کوڑے لگواتا۔
بوڑھے باپ نے بیٹے کی محبت میں رمسکراتے ہوئے قاضی صاحب سے کہا! قاضی صاحب آپ کا یہ حکم میرے دل کو بہت تکلیف دیتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کاش اولاد جانتی کہ والدین کی دِلوں میں اولاد کے لئے کتنی محبت ہے۔ جاگئیے اِس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔
الله رب العالمین ہمیں اپنے والدین کے لئے قدردان بنا دے۔ آمین
یاالله والدین کا سایہ تادیر ہمیں سروں پر قائم ودائم رکھ۔ ثم آمین
الله رب العزت ہمارے والدین کو اپنے دَر کے سِوا کسی کا محتاج نہ بنا۔ اللھم آمین یا رب العالمین