اذکار و دعوات کی تقسیم

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے اذکار و دعوات کو دس قسموں میں تقسیم کیا ہے:

۱:… تسبیح۔
۲:… تحمید۔
۳:…تہلیل۔
۴:…تکبیر۔
۵:… فوائد طلبی اور پناہ خواہی۔
۶:… اظہار فروتنی و نیاز مندی۔
۷:… توکل۔
۸:… استغفار۔
۹:… اسمائے الٰہی سے برکت حاصل کرنا۔
۱۰:… درود شریف۔‘‘

محدث دارالعلوم دیو بند حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم ذکر کردہ تقسیم کی تشریح یوں فرماتے ہیں:

’’پہلا اور دوسرا ذکر تسبیح و تحمید ہیں۔ تسبیح کے معنی ہیں تمام عیوب و نقائص سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا۔

تحمید کے معنی ہیں تعریف کرنا، یعنی تمام خوبیوں اور کمالات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو متصف کرنا۔ جب کسی جملہ میں تسبیح و تحمید دونوں جمع ہوجائیں تو وہ معرفت ربانی کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے، جیسے: ’’سبحان اللّٰہ وبحمدہٖ‘‘یعنی اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور خوبیوں کے ساتھ متصف ہیں ’’سبحان اللّٰہ العظیم‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور عظیم المرتبت ہیں۔ بڑے مرتبے والا وہی ہوتا ہے جو خوبیوں کے ساتھ متصف ہو، اسی وجہ سے حدیث میں ان دونوں جملوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دونوں جملے زبان پر ادائیگی میں ہلکے اور ترازو یعنی ثواب میں بھاری اور رحمن (مہربان ہستی) کو بہت پیارے ہیں ۔

تیسرا ذکر تہلیل ہے۔ ’’لاإلہ إلا اللّٰہ‘‘میں توحید اور شانِ یکتائی کا بیان ہے۔ یہ جملہ شرک جلی و خفی کو دفع کرتا ہے اورجملہ حجابات کو رفع کرتا ہے۔ حدیث میں ہے’’ لاإلہ إلا اللّٰہ‘‘ کے لیے اللہ تعالیٰ سے وَرے کوئی حجاب نہیں، یہاں تک کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔

چوتھا ذکر تکبیر ہے۔ ’’أللّٰہ أکبر‘‘کے ذریعے اللہ کی عظمت و قدرت اور سطوت و شوکت کو پیش نظر لایا جاتا ہے اور یہ جملہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی طرف مشیر ہے۔ حدیث میں اس کی یہ فضیلت آئی ہے کہ اللہ اکبر آسمان و زمین کو بھردیتا ہے۔

پانچواں ذکر فوائد طلبی اور پناہ خواہی ہے، یعنی ایسی دعائیں جن میں ایسی مفید چیزیں طلب کی جائیں جو جسم یا روح کے لیے مفید ہوں، خواہ نفع خلقت کے اعتبار سے ہو یا دل کے سکون کے اعتبار سے، جیسے آنکھوں کا نور اور دل کا سرور طلب کرنا اور خواہ ان فوائد کا تعلق اہل و عیال سے ہو یا جاہ و مال سے، اسی طرح مضر چیزوں سے پناہ چاہنا بھی اس زمرہ میں آتا ہے۔

چھٹا ذکر اظہار فروتنی و نیاز مندی ہے۔ یہ عبدیت (بندگی) انسان کا امتیازی وصف اور بڑا کمال ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں انتہائی تذلل و بندگی، عاجزی و سرافگندگی اور محتاجی و مسکینی کا اظہار کرنا ہی بندگی ہے۔ بندگی انسان کا مقصد تخلیق ہے، اسی مقصد کی تحصیل کے لیے نماز مقرر کی گئی ہے۔ نماز میں اور نماز سے باہر اذکار اور بہت سی دعائیں مشروع کی گئی ہیں۔

ساتواں ذکر توکل ہے۔ توکل کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنا۔ اور توکل کی روح ہے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ تام، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ سب کچھ کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، بندہ بذات خود کچھ نہیں کرسکتا۔ انسان کے تمام معاملات پر مکمل غلبہ انہی کو حاصل ہے، انہی کی تدبیر کارگر ہے،باقی تمام تدابیر مقہور و مغلوب ہیں۔ مگر توکل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ظاہری اسباب اختیار نہ کرے۔ صحیح توکل یہ ہے کہ اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر اعتماد کرے، کام کا انجام ان پر چھوڑ دے اور جو کچھ غیب سے ظاہر ہو اس پر مطمئن رہے۔

آٹھواں ذکر استغفار ہے۔ استغفار کے معنی ہیں تو بہ کرنا، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگنا اور رحمت الٰہی کا جویاں ہونا۔ استغفار کی روح یہ ہے کہ آدمی اپنے ان گناہوں کو سوچے جنہوں نے اس کے نفس کو میلا اور گندہ کردیا ہے اور اسباب مغفرت اختیار کرکے نفس کو ان گناہوں سے پاک کرے۔ اسباب مغفرت نیک اعمال، اپنے احوال کو ملائکہ کے مشابہ کرنا اور ندامت کے آنسو بہانا ہیں۔

نواں ذکر اللہ کے ناموں سے برکت حاصل کرنا ہے۔ اللہ کے ناموںکی برکت ہی سے مخلوقات منور ہوتی ہیں، پس جو بندہ ان ناموں کی طرف متوجہ ہوگا، وہ اللہ کی رحمت کو خود سے قریب پائے گا۔

دسواں ذکر درود شریف ہے۔ نبی کریم ا کے احسانات امت پر بے حساب ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ مومنین آپ ا کا ذکر خیر کریں اور ہر وقت یاد رکھیں، اسی لیے درود مشروع کیا گیا۔‘‘

(تحفۃ الالمعی: ۸؍۴۲ )
 
Top