باپ
باپ کے لیے دو الفاظ آتے ہیں۔ والد اور اب1: والد
والد کا لفظ صرف باپ کیلیے استعمال ہوتا ہے یعنی صرف وہ شخص جس نے جنا ہو۔ اسی طرح والدہ کا لفظ صرف اس عورت کے لیے جس نے بچہ جنا ہو۔ ارشاد باری ہے:يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمۡ وَاخۡشَوۡا يَوۡمًا لَّا يَجۡزِىۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِهٖ وَلَا مَوۡلُوۡدٌ هُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِهٖ شَيۡـــًٔاؕ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ (سورۃ لقمان آیت 33)
لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے۔ اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کام آ سکے۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے۔ اور نہ وہ بڑا فریب دینے والا شیطان تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے۔
اور ماں باپ دونوں کے لیے والدین کا لفظ آئے گا۔ جیسےلوگو اپنے پروردگار سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے۔ اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کام آ سکے۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے۔ اور نہ وہ بڑا فریب دینے والا شیطان تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے۔
وَوَصَّيۡنَا الۡاِنۡسٰنَ بِوٰلِدَيۡهِۚ حَمَلَتۡهُ اُمُّهٗ وَهۡنًا عَلٰى وَهۡنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِىۡ عَامَيۡنِ اَنِ اشۡكُرۡ لِىۡ وَلِـوَالِدَيۡكَؕ اِلَىَّ الۡمَصِيۡرُ (سورۃ لقمان آیت 14)
اور ہم نے انسان کو جسے اسکی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے پھر اسکو دودھ پلاتی ہے اور آخرکار دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے میں نے تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی کہ تمکو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
اور ہم نے انسان کو جسے اسکی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے پھر اسکو دودھ پلاتی ہے اور آخرکار دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے میں نے تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی کہ تمکو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
2: اب
لیکن اب کا لفظ بہت وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ باپ دادا پر دادا اور اوپر کی سب پشتوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور ماں باپ کے لیے حسب موقع ابوین یا ابوان آتا ہے۔اب ان کی مثالیں دیکھیے :
صرف ماں باپ کے لیے
وَاَمَّا الۡغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤۡمِنَيۡنِ فَخَشِيۡنَاۤ اَنۡ يُّرۡهِقَهُمَا طُغۡيَانًا وَّكُفۡرًاۚ (سورۃ الکہف آیت 80)
اور وہ جو لڑکا تھا اسکے ماں باپ دونوں مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ بڑا ہو کر بدکردار ہوگا تو کہیں انکو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے۔
کئی پشتوں کے لیےاور وہ جو لڑکا تھا اسکے ماں باپ دونوں مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ بڑا ہو کر بدکردار ہوگا تو کہیں انکو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے۔
مَّا سَمِعۡنَا بِهٰذَا فِىۡۤ اٰبَآٮِٕنَا الۡاَوَّلِيۡنَۚ (سورۃ المؤمنون آیت 24)
ہم نے اپنے اگلے باپ دادا میں تو یہ بات کبھی سنی نہیں۔
اور یہ پشتیں بہت زیادہ بھی ہو سکتی ہیں۔ جیسے:ہم نے اپنے اگلے باپ دادا میں تو یہ بات کبھی سنی نہیں۔
وَجَاهِدُوۡا فِىۡ اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖؕ هُوَ اجۡتَبٰٮكُمۡ وَمَا جَعَلَ عَلَيۡكُمۡ فِىۡ الدِّيۡنِ مِنۡ حَرَجٍؕ مِلَّةَ اَبِيۡكُمۡ اِبۡرٰهِيۡمَؕ هُوَ سَمّٰٮكُمُ الۡمُسۡلِمِيۡنَ (سورۃ الحج آیت 78)
اور اﷲ (کی محبت و طاعت اور اس کے دین کی اشاعت و اقامت) میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (یہی) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے۔ اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا
واضح رہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم میں قریباً 62 پشتوں کا فاصلہ تھا۔ حتی کہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے بھی جو نوع انسان کے جد اعلیٰ میں اب کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے مثلاً :اور اﷲ (کی محبت و طاعت اور اس کے دین کی اشاعت و اقامت) میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (یہی) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے۔ اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا
يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ لَا يَفۡتِنَـنَّكُمُ الشَّيۡطٰنُ كَمَاۤ اَخۡرَجَ اَبَوَيۡكُمۡ مِّنَ الۡجَـنَّةِ يَنۡزِعُ عَنۡهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوۡءٰتِهِمَا (سورۃ الاعراف آیت 27)
اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر بہشت سے نکلوا دیا اور ان سے ان کے کپڑے اتروا دیئے تاکہ ان کے ستر انکو کھول کر دکھا دے۔
اب اصل میں ابو ہے۔ اور یہ کسی کی تربیت اور خوراک کی فراہمی پر دلالت کرتا ہے (م ل) اس لیے بیٹا اگر باپ سے مخاطب ہو تو عموماً ابّ کا لفظ ہی استعمال ہو گا جیسے :اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر بہشت سے نکلوا دیا اور ان سے ان کے کپڑے اتروا دیئے تاکہ ان کے ستر انکو کھول کر دکھا دے۔
حضرت یوسف علیہ السلام اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے یوں گویا ہوئے:
وَرَفَعَ اَبَوَيۡهِ عَلَى الۡعَرۡشِ وَخَرُّوۡا لَهٗ سُجَّدًاۚ وَقَالَ يٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاۡوِيۡلُ رُءۡيَاىَ مِنۡ قَبۡلُ قَدۡ جَعَلَهَا رَبِّىۡ حَقًّاؕ (سورۃ یوسف آیت 100)
اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب انکے آگے سجدے میں گر پڑے اور اس وقت یوسف نے کہا ابا جان یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے بچپن میں دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اسے سچ کر دیا۔
پھر اب کا لفظ بعض دفعہ کسی خاص صفت کی وجہ سے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے میزبان کو ابو الاضیاف اور جنگجو کو ابو الحرب کہ دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ابو لہب کا لفظ اسی صفت کی وجہ سے استعمال ہوا ہے کہ اس کا رنگ شعلہ کی طرح دیکھتا تھا۔ اسی طرح کسی چیز سے نسبت اور پیار کی وجہ سے کنیت رکھ لیتے ہیں جیسے ابو ہریرہ اور ابو تراب وغیرہ۔ نیز دیکھیے کنیت اور نسب میں فرق بیٹا۔ بیٹی میں۔اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب انکے آگے سجدے میں گر پڑے اور اس وقت یوسف نے کہا ابا جان یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے بچپن میں دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اسے سچ کر دیا۔