مترادفات القرآن (ب)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بہتان

کے لیے بہتان، افك اور افتراء کے الفاظ آئے ہیں۔

1: بہتان

بهت کے معنی حیران اور متحیر ہونا (مف) یا حیرانی کی وجہ سے خاموش اور دم بخود ہو جانا ہے (منجد) اور بہتان ایسی بات کو کہتے ہیں جسے سن کر لوگ ہوش کھو دیں اور حیران و ششدر رہ جائیں اور انہیں یقین نہ آئے کہ یہ بات ممکن العمل ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہ قُلۡتُمۡ مَّا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَکَلَّمَ بِہٰذَا ٭ۖ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ النور آیت 16)
اور جب تم نے اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہدیا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں۔ پروردگار تو پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔

2: افك

افک کے معنی کسی چیز کو اس کے صحیح رخ سے موڑ دینا ہے (مف) قرآن میں ہے:
قَالُوۡۤا اَجِئۡتَنَا لِتَاۡفِکَنَا عَنۡ اٰلِہتِنَا ۚ فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ (سورۃ الاحقاف آیت 22)
کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہمکو ہمارے معبودوں سے پھیر دو۔ اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو اسے ہم پر لے آؤ۔
اسی طرح حق سے باطل کی طرف یا سچ سے جھوٹ کی طرف یا اچھے کاموں سے برے کاموں کی طرف پھرنے کو افک کہتے ہیں۔ اور اسی لحاظ سے من گھڑت اور جھوٹی بات اور الزام کو بھی افک کہتے ہیں۔ اور افّاک بمعنی جھوٹی اور من گھڑت باتیں گھڑنے والا الزام تراش ہے اور ابو ہلال عسکری کے الفاظ میں افک ایسا جھوٹ ہے جس کا تعلق فاحش القبح سے ہو۔ ارشادِ باری ہے:
وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہ قُلۡتُمۡ مَّا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَکَلَّمَ بِہٰذَا ٭ۖ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ النور آیت 16)
اور جب تم نے اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہدیا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں۔ پروردگار تو پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
گویا افک کا واقعہ اس لحاظ سے کہ وہ بے بنیاد باتوں پر استوار تھا افک تھا اور اس لحاظ سے کہ وہ اتنا بڑا جھوٹ تھا کہ عقل سلیم دنگ رہ جائے بہتان تھا۔

3: افتری

فری کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لیے کاٹنے کے ہیں اور افتراء کے معنی اسے خراب کرنے کے لیے کاٹنے کے (مف) اور فری یفری بمعنی طوفان جوڑنا (منجد) اور افتری کا لفظ اصلاح و فساد دونوں کے لیے آتا ہے۔ لیکن اس کا زیادہ استعمال فساد ہی کے معنوں میں ہوتا ہے (مف) قرآن پاک میں یہ لفظ جھوٹ، شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے۔ اور افتراء سے مراد عموماً وہ بناوٹی عقائد ہیں جو خود تراش کر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیے جاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہ کَذِبًا (سورۃ الانعام آیت 93)
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے
اور فریّا کا معنی کسی کے ذمہ بہتان اور جھوٹی بات لگا دنیا (منجد)، ارشاد باری ہے:
فَاَتَتۡ بِہٖ قَوۡمَہا تَحۡمِلُہ ؕ قَالُوۡا یٰمَرۡیَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَیۡئًا فَرِیًّا (سورۃ مریم آیت 27)
پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی برادری والوں کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تو نے برا کام کیا۔

ماحصل:

  • افک: بے بنیاد الزامات، اصل بات کو توڑ مروڑ کر بنایا ہوا قصہ۔
  • بہتان: ایسا الزام جو کسی کو ورطہ حیرت میں ڈال دے۔
  • افتراء: بناوٹی عقائد جو خود تراش اللہ کی طرف منسوب کر دیئے جائیں۔ یا جو اصلاح کی بجائے بگاڑ پیدا کریں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بہکنا اور بہکانا

کے لیے ضلّ، غوی اور تاہ کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: ضلّ

کے معنی کسی چیز کا ضائع ہو کر کسی دوسرے حق میں چلا جاتا ہے (م ل) یعنی جس مقصد کے لیے کوئی کام کیا جائے وہ نتیجہ برآمد نہ ہونا۔ یا راہ راست سے ہٹ جانا ۔ قرآن میں ہے:
اَلَّذِیۡنَ ضَلَّ سَعۡیُہمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ ہمۡ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہمۡ یُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا (سورۃ الکہف آیت 104)
یہ وہ لوگ ہیں جنکی دوڑ دھوپ دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئ۔ اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔
نیز فرمایا:
اَلَمۡ یَجۡعَلۡ کَیۡدَہمۡ فِیۡ تَضۡلِیۡلٍ ۙ (سورۃ الفیل آیت 2)
کیا اس نے ان کا داؤں غلط نہیں کیا؟
اور یہ بے راہ روی قصدا بھی ہو سکتی ہے اور اضطرارا بھی۔ اگر اضطرارا یعنی ترک ضبط وجہ ہو تو اس کے معنی بھولنا ہوں گے یعنی کسی بات یا واقعہ یا اس کا کچھ حصہ بھول جانا۔ ارشاد باری ہے:
فَاِنۡ لَّمۡ یَکُوۡنَا رَجُلَیۡنِ فَرَجُلٌ وَّ امۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّہدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰىہمَا فَتُذَکِّرَ اِحۡدٰىہمَا الۡاُخۡرٰی ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 282)
اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو کافی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلا دے گی۔
اس لحاظ سے ضلال یا ضلالۃ کی ضد حق بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے:
فَذٰلِکُمُ اللّٰہ رَبُّکُمُ الۡحَقُّ ۚ فَمَا ذَا بَعۡدَ الۡحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ۚۖ فَاَنّٰی تُصۡرَفُوۡنَ (سورۃ یونس آیت 32)
یہی اللہ تو تمہارا حقیقی پروردگار ہے اور حق بات کے ظاہر ہونے کے بعد گمراہی کے سوا ہے ہی کیا؟ تو تم کہاں پھرے جاتے ہو؟
اور ہدایت بھی جیسے فرمایا:
وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہدٰی (سورۃ الضحی آیت 7)
اور تمہیں رستے سے ناواقف دیکھا تو سیدھا رستہ دکھایا۔

2: غوی

کے معنی کسی کام میں لا علمی کی بناء پر غلط کام میں پھنس جانا (م ا) اور پھر راہ راست سے نا امید ہو جانا ہے (م ا) اور اس کا استعمال صرف دینی معاملات میں ہوتا ہے۔ (فق ل 177) ارشاد باری ہے:
فَاَکَلَا مِنۡہا فَبَدَتۡ لَہمَا سَوۡاٰتُہمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ۫ وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہ فَغَوٰی (سورۃ طہ آیت 121)
سو دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو ان پر انکی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں اور وہ اپنے اوپر بہشت کے پتے چپکانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو وہ اپنے مقصد سے بے راہ ہو گئے۔
اور غیّ (مع) کی ضد رشد ہے یعنی سیدھی راہ پر گامزن ہو جانا اور نیک چلن اختیار کرنا ۔ اور رشید بمعنی ہدایت یافتہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَاۤ اِکۡرَاہ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہا ؕ وَ اللّٰہ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 256)
دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔ تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسّی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سب کچھ سنتا ہے سب کچھ جانتا ہے۔
نیز ارشاد باری ہے:
مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی ۚ (سورۃ النجم آیت 2)
کہ تمہارے رفیق یعنی ہمارے نبی نہ رستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں

3: تاہ

(تیہ) اور تیہا ایسے چٹیل میدان کو کہتے ہیں جس میں چلنے والا بھٹک جائے ۔ اور تاہ کے معنی متحیر ہو کر سرگشتہ پھرنا ہے (منجد) ارشاد باری ہے:
قَالَ فَاِنَّہا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہمۡ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۚ یَتِیۡہوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ فَلَا تَاۡسَ عَلَی الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 26)
اللہ نے فرمایا کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کیلئے حرام کر دیا گیا کہ وہاں جانے نہ پائیں گے یہ اسی علاقے میں جہاں اب ہیں سرگرداں پھرتے رہیں گے تو ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کرو۔

ماحصل:

  • ضلّ: عمدا یا سہوا بے راہ رو ہونے کے لیے۔
  • غوی: دینی امور میں بے راہ آدمی کے غلط کام میں پھنس جانے کے لیے (ضلالت سے اگلا درجہ)
  • تاہ: حیرت و سراسیمگی میں بھٹکتے رہنے کے لیے آتا ہے۔
اور بہکانا یا گمراہ کرنا کے لیے ضلّ سے اضلّ اور غوی سے اغوی آئیں گے مثلاً:
وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہمۡ وَ مَا یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہ فَیَقُوۡلُ ءَاَنۡتُمۡ اَضۡلَلۡتُمۡ عِبَادِیۡ ہٰۤؤُلَآءِ اَمۡ ہمۡ ضَلُّوا السَّبِیۡلَ (سورۃ الفرقان آیت 17)
اور جس دن اللہ انکو اور انکو جنہیں یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں جمع کرے گا تو فرمائے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود گمراہ ہو گئے تھے۔
قَالَ الَّذِیۡنَ حَقَّ عَلَیۡہمُ الۡقَوۡلُ رَبَّنَا ہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ اَغۡوَیۡنَا ۚ اَغۡوَیۡنٰہمۡ کَمَا غَوَیۡنَا ۚ تَبَرَّاۡنَاۤ اِلَیۡکَ ۫ مَا کَانُوۡۤا اِیَّانَا یَعۡبُدُوۡنَ (سورۃ القصص آیت 63)
تو جن لوگوں پر عذاب کا حکم ثابت ہو چکا ہو گا وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار یہ وہ لوگ ہیں جنکو ہم نے گمراہ کیا تھا۔ اور جس طرح ہم خود گمراہ ہوئے تھے اسی طرح ہم نے انکو گمراہ کیا تھا اب ہم تیری طرف متوجہ ہو کر ان سے بیزار ہوتے ہیں یہ ہمیں نہیں پوجتے تھے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بھاگنا – بھگانا

کے لیے فرّ، ابق، زهق ، هَربَ ، استَنْفَر اور شرّد کے الفاظ آئے ہیں۔

1: فرّ

بمعنی بھاگنا عموماً ملزم کے لیے آتا ہے یا کسی قسم کے خوف و خطر سے بھاگنے کے لیے۔ کہتے ہیں فرّ من الحرب فرارا کے معنی میدان کار زار کا چھوڑ دینا یا لڑائی سے فرار ہو جانا اور مفر ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں بھاگ کر پناہ لی جائے۔ اور مفرور وہ ملزم جو بھاگ جائے۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ لَّنۡ یَّنۡفَعَکُمُ الۡفِرَارُ اِنۡ فَرَرۡتُمۡ مِّنَ الۡمَوۡتِ اَوِ الۡقَتۡلِ وَ اِذًا لَّا تُمَتَّعُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا (سورۃ الاحزاب آیت 16)
کہدو کہ اگر تم مرنے یا مارے جانے سے بھاگتے ہو تو بھاگنا تمکو فائدہ نہیں دے گا اور اس صورت میں تم بہت ہی کم فائدہ اٹھاؤ گے۔
نیز یہ لفظ مقابلۃ تیز دوڑنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ الفرّار تیز دوڑنے والے کو کہتے ہیں۔ اور مفر من الخیل اس تیز دوڑنے والے گھوڑے کو کہتے ہیں جو بھاگتے وقت کام میں آئے (منجد) یہ لفظ ان معنوں میں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے ۔ قرآن میں ہے:
فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللّٰہ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ مِّنۡہ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ (سورۃ الذریات آیت 50)
تو تم لوگ اللہ کی طرف دوڑ چلو میں اسکی طرف سے تمکو صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔
اس آیت میں مندرجہ بالا دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں۔

2: ابق

کا لفظ غلام کا اپنے مالک کے ہاں سے بھاگ جانے کے لیے مخصوص ہے (مف، منجد) خصوصاً جب اسے اپنے مالک کی طرف سے کوئی خطرہ بھی نہ ہو (ف ل ۳۱) نیز اس لفظ کا استعمال اپنی ذمہ داریوں سے فرار کی راہ اختیار کرنے پر بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ اَبَقَ اِلَی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ (سورۃ الصافات آیت 140)
جب وہ بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں پہنچے۔
اس آیت میں ابق کا لفظ یہ سب معنی دے رہا ہے۔

3: زهق

کے معنی شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہونا ہے (م ا) کہتے ہیں زَهَقَتْ نَفْسُه اس کی روح نکل گئی۔ یہ لفظ لغت اضداد سے ہے۔ زاهق بمعنی بہت موٹا جانور بھی اور بہت دبلا اور کمزور بھی (منجد) لہذا ازہق سے مراد کسی چیز کا شکست کھا کر یا کمزور اور مضمحل ہو کر نکل بھاگنا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہوۡقًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 81)
اور کہدو کہ حق آ گیا اور باطل نابود ہو گیا بیشک باطل نابود ہونے والا ہے۔
اور کہہ دو آیا سچ اور نکل بھاگا جھوٹ۔ بے شک جھوٹ ہے نکل بھاگنے والا (عثمانیؒ)

4: ھرب

کسی کا خود پکڑے جانے کے خطرہ کی وجہ سے بھاگنا (ف ل ۳۱) جیسے چور کا چوری کرتے وقت اطلاع ہونے پر بھاگ کھڑا ہونا۔ یا مال چوری لے جانا اور تھریب محصول بچانے اور مھرّب سمگلر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (قاموس الجدید ) قرآن میں ہے:
وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنۡ لَّنۡ نُّعۡجِزَ اللّٰہ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَنۡ نُّعۡجِزَہ ہرَبًا (سورۃ الجن آیت 12)
اور یہ کہ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم زمین میں خواہ کہیں ہوں اللہ کو ہرا نہیں سکتے اور نہ بھاگ کر اسکو تھکا سکتے ہیں۔

5: استنفر

نفر کے معنی جنگ وغیرہ کے لیے نکلنا، اور استنفر کے معنی کسی چیز سے بدک کر بھاگنے کو کہتے ہیں (مف) قرآن میں ہے:
کَاَنَّہمۡ حُمُرٌ مُّسۡتَنۡفِرَۃٌ فَرَّتۡ مِنۡ قَسۡوَرَۃٍ (سورۃ مدثر آیت 50، 51)
گویا گدھے ہیں کہ بدک جاتے ہیں جو شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں۔

6: شرّد

شرد البعیر بمعنی اونٹ بدک کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اور شرّد بمعنی ایسا کام کرنا کہ پھر دوسرے اس جیسا کام نہ کریں (مف) اور معنی دھتکارنا، ڈرانا، بھگانا (منجد) گویا اس کا معنی کسی سے عبرتناک سلوک کرکے دوسروں کو بھگا دینا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاِمَّا تَثۡقَفَنَّہمۡ فِی الۡحَرۡبِ فَشَرِّدۡ بِہمۡ مَّنۡ خَلۡفَہمۡ لَعَلَّہمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ (سورۃ الانفال آیت 57)
اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی سزا دو کہ جو لوگ ان کے پس پشت ہوں وہ انکو دیکھ کر بھاگ جائیں عجب نہیں کہ انکو اس سے عبرت ہو۔

ماحصل:

  • فرّ: کسی ملزم کا بھاگنا۔
  • ابق: غلام کا آقا کے پاس سے بھاگنا یا ذمہ داریوں سے بھاگنا۔
  • زہم: کمزور اور شکست کھا ک بھاگ کھڑا ہونا
  • ہرب: مجرم کا جرم کرنے کے دوران بھاگنا کہ پکڑا نہ جائے۔
  • استنفر: بدک کر بھاگنا۔
  • شرد: ایسی عبرت ناک سزا جس سے دوسرے بھاگ کھڑے ہوں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بھائی

کے لیے اخ اور اس کی جمع اخوۃ اور اخوان آتی ہے۔

1: اخوۃ

بمعنی بھائی بھائی۔ نسبی تعلق کے لیے استعمال ہوتا ہے (منجد، مف) اور اس میں سب بہن بھائی شامل ہوتے ہیں۔ جیسے:
فَاِنۡ کَانَ لَہۤ اِخۡوَۃٌ (سورۃ النساء آیت 11)
اگر میت کے بھائی بھی ہوں
میں اخوة کا لفظ بہن بھائی دونوں کے لیے شامل ہے (مف)

2: اخوان

کا لفظ بلحاظ صداقت اور دوستی بھائی کے معنی دیتا ہے۔ ارشادِ باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِہمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ الحشر آیت 10)
اور انکے لئے بھی جو ان مہاجرین کے بعد آئے اور دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ و حسد نہ پیدا ہونے دے اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا ہے مہربان ہے۔
اور قرآن کریم کی اس آیت:
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ (سورۃ الحجرات آیت 10)
مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔​
میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومنوں کو محض صداقت اور دوستی کا تعلق ہی نہ سمجھنا چاہیے بلکہ نسبی برادری کی طرح ایک دوسرے کو سمجھنا چاہیے۔

بھاری ہونا کے لیے "بوجھل ہونا"۔
بھٹکنا کے لیے دیکھیے "بہکنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بھرنا

کے لیے ملء اور امتلا، دہق اور شحن کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ملاً

مَلاً الإناء کے معنی کسی برتن کو بھر دینا اور ملء کسی چیز کی وہ مقدار ہے جس سے کوئی برتن بھر جائے (م ل، منجد) قرآن میں ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡ اَحَدِہمۡ مِّلۡءُ الۡاَرۡضِ ذَہبًا وَّلَوِ افۡتَدٰی بِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ وَّ مَا لَہمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 91)
جو لوگ کافر ہوئے اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے وہ اگر نجات حاصل کرنی چاہیں اور بدلے میں زمین بھر سونا دیں تو ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان لوگوں کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔ اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہو گا۔
اور امتلا بمعنی کسی چیز کا بھر جانا۔ ارشاد باری ہے:
یَوۡمَ نَقُوۡلُ لِجَہنَّمَ ہلِ امۡتَلَاۡتِ وَ تَقُوۡلُ ہلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ (سورۃ ق آیت 30)
اس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے کہ کیا تو بھر گئ؟ وہ کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے؟

2: دھق

پیالہ کے کسی مشروب سے بھر جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے (ف ل 65) قرآن میں ہے:
اِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ مَفَازًا حَدَآئِقَ وَ اَعۡنَابًا وَّکَوَاعِبَ اَتۡرَابًا وَّ کَاۡسًا دِہاقًا (سورۃ النبا آیت 31 تا 34)
بیشک پرہیزگاروں کے لئے کامیابی کا گھر ہے۔ یعنی باغ اور انگور۔ اور ہم عمر بھرپور جوان عورتیں۔ اور شراب کے چھلکتے ہوئے جام۔

3: شحن

کشتی یا جہاز کو سوار اور سامان لاد کر بھرنا (ف ل 69) ارشاد باری ہے:
اِذۡ اَبَقَ اِلَی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ (سورۃ الصافات آیت 140)
جب وہ بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں پہنچے۔

ماحصل:

دھق پیالہ بھرنے کے لیے۔ شحن کشتی کا سامان سے بھرنے کے لیے اور ملا کا استعمال عام ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بھوک

کے لیے جُوع ، مسغبۃ، مخمصہ اور خصاصة کے الفاظ آئے ہیں۔

1: جوع

بمعنی کھانے کی طلب پیدا ہونا (ف ل 161) اور اس کی ضد شبع کھا کر سیر ہو جانا ہے۔ (م ل) اور یہ بھوک کا ابتدائی درجہ ہے (فل 161) ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡۤ اَطۡعَمَہمۡ مِّنۡ جُوۡعٍ ۬ۙ وَّ اٰمَنَہمۡ مِّنۡ خَوۡفٍ (سورۃ القریش آیت 4)
جس نے انکو بھوک میں کھانا کھلایا۔ اور خوف سے امن بخشا۔

2: مسغبۃ

سغب بمعنی بھوکا ہونا اور اسغب بمعنی قوم کا قحط سالی میں مبتلا ہونا اور سغاب بھوک کو کہتے ہیں۔ اور یہ بھوک کا دوسرا درجہ ہے (ف ل 161) قرآن میں ہے:
اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ (سورۃ البلد آیت 14)
یا بھوک کے دن میں کھانا کھلانا۔

3: مخمصۃ

خَمَصَة الجوع بمعنی بھوک کا کسی کو دبلے پیٹ والا کر دینا اور مخمصه بمعنی پیٹ کا کھانے سے خالی ہونا ہے (منجد) خوراک کی کمی اور محنت کی زیادتی سے لاغر و کمزور ہونا (ا ل) اور پیٹ کا پچک جانا ۔ اور یہ بھوک کا تیسرا درجہ ہے (ف ل 161) ارشاد باری ہے:
فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ المائدۃ آیت 3)
ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے بشرطیکہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے ہے والا بڑا مہربان ہے۔

4: خَصَاصَة

خَصّ بمعنی محتاج و مفلس ہونا اور خصاصة مصدر ہے اور خصاصة تھوڑا اور قلیل کے معنوں میں آتا ہے (منجد) یعنی مفلسی اور احتیاج کی وجہ سے فاقہ کشی کی نوبت کو پہنچنا ہے۔ ارشادِ باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الۡاِیۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِہمۡ یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہاجَرَ اِلَیۡہمۡ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہمۡ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہمۡ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ (سورۃ الحشر آیت 9)
اور ان لوگوں کے لئے بھی جو مہاجرین سے پہلے اس گھر یعنی مدینے میں مقیم ہیں اور ایمان میں مضبوط ہیں اور جو لوگ ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ انکو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش اور خلش نہیں پاتے اور انکو اپنی جانوں پر مقدم رکھتے ہیں خواہ وہ خود بھی فاقے سے ہوںاور جو شخص خود غرضی سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ بامراد ہیں۔
اگرچہ ہوا ہے اُن پر فاقہ (عثمانیؒ )

ماحصل:

  • جوع: وہ حالت جب انسان کو کھانے کی طلب وہ۔
  • مسغبۃ: قحط سالی کا دور۔
  • مخمصۃ: خوارک کی کمی کی وجہ سے دبلے پیٹ والا ہونا۔
  • خصاصۃ: مفلسی اور محتاجی کی وجہ سے فاقہ کشی کی نوبت آنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بھولنا، بھلانا

کے لیے نسی، سہا، ضلّ اور ذھل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: نسی

بھولنا کے لیے یہ لفظ عام ہے۔ خواہ اس کی وجہ غفلت ہو یا ترک ضبط، یا کوئی اور (مف) ارشاد باری ہے:
وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلۡقَہ ؕ قَالَ مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہیَ رَمِیۡمٌ (سورۃ یس آیت 78)
اور ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا۔ کہنے لگا کہ جب ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی تو انکو کون زندہ کرے گا؟
اور انسی بمعنی کسی دوسرے کو کوئی بات بھلا دینا۔ قرآن میں ہے:
وَ قَالَ لِلَّذِیۡ ظَنَّ اَنَّہ نَاجٍ مِّنۡہمَا اذۡکُرۡنِیۡ عِنۡدَ رَبِّکَ ۫ فَاَنۡسٰہ الشَّیۡطٰنُ ذِکۡرَ رَبِّہٖ فَلَبِثَ فِی السِّجۡنِ بِضۡعَ سِنِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 42)
اور ان دونوں میں سے جس کی نسبت یوسف نے خیال کیا کہ وہ رہائی پا جائے گا اس سے کہا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر بھی کر دینا۔ پھر شیطان نے اسے ان کا اپنے آقا سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف کئ برس قید خانے ہی میں رہے۔

2: سھا

سھوا غفلت کی وجہ سے کسی بات یا کام سے توجہ ہٹ جانا۔ توجہ کا اصل کام سے ہٹ کر دوسری طرف پھر جانا اور ساھی بمعنی غافل اور فراموش کار (م – ر) سجدہ سہو مشہور لفظ ہے۔ یعنی کام اور کوئی کرنا چاہیے تھا بھول کر کوئی اور کر دیا ۔ قرآن میں ہے :
الَّذِیۡنَ ہمۡ فِیۡ غَمۡرَۃٍ سَاہوۡنَ (سورۃ الذریات آیت 11)
جو بیخبری میں بھولے ہوئے ہیں۔

3: ضلّ

ترک ضبط کی وجہ سے کوئی بات یا واقعہ یا اس کا کچھ حصہ بھول جانا۔ (دیکھیے بہکنا)
فَاِنۡ لَّمۡ یَکُوۡنَا رَجُلَیۡنِ فَرَجُلٌ وَّ امۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّہدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰىہمَا فَتُذَکِّرَ اِحۡدٰىہمَا الۡاُخۡرٰی ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 282)
اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو کافی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلا دے گی۔

4: ذَهَل

ذَهَلَ (ذَهُولاً) جب بھولنے کا سبب دہشت ہو یا ایسی مشغولیت جو غم اور پریشانی کا باعث ہو تو اسے ذھول کہتے ہیں (مف) ذَهَلَ (ذهولاً) کے معنی غافل ہونا۔ بھول جانا اور ذهل ذهولا کے معنی ہکا بکا ہونا، حیران رہنا ہے (منجد) ارشادِ باری ہے:
یَوۡمَ تَرَوۡنَہا تَذۡہلُ کُلُّ مُرۡضِعَۃٍ عَمَّاۤ اَرۡضَعَتۡ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمۡلٍ حَمۡلَہا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ہمۡ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہ شَدِیۡدٌ (سورۃ الحج آیت 2)
اے مخاطب جس دن تو اسکو دیکھے گا اس دن یہ حال ہو گا کہ تمام دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی۔ اور تمام حمل والیوں کے حمل گر پڑیں گے اور لوگ تجھ کو مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ عذاب دیکھ کر مدہوش ہو رہے ہوں گے بیشک اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔

ماحصل:

  • نسی: عام استعمال ہوتا ہے، وجہ خواہ کچھ ہو۔
  • سھا: غفلت کی وجہ سے بھولنا، توجہ کا دوسری طرف پھر جانا اور اصل کام کی بجائے کوئی دوسرا کام کرنا۔
  • ضلّ: ترک ضبط کی وجہ سے بھولنا۔
  • ذہل: دہشت اور پریشانی کی وجہ سے بھولنے کو کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بھوننا

بھوننا کے لیے شوی اور حنذ کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: شوی

بمعنی گوشت وغیرہ کو آگ میں بھوننا (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ یَّسۡتَغِیۡثُوۡا یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالۡمُہۡلِ یَشۡوِی الۡوُجُوۡہ ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ ؕ وَ سَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا (سورۃ الکہف آیت 29)
اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے انکی داد رسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم ہو گا اور جو انکے چہروں کو بھون ڈالے گا انکے پینے کا پانی بھی برا اور آرام گاہ بھی بری۔

2: حنذ

الحنذة بمعنی سخت حرارت اور حنیذ بمعنی گرم پانی بھی اور بھونا ہوا گوشت بھی۔ اور حنذته الشمس یعنی سورج کا کسی کو جھلس دینا۔ (منجد) حنذ کے اصل معنی کسی بھی ذریعہ حرارت سے لزوجت اور رطوبت کو خارج کرنا ہے (مف) قرآن میں ہے :
وَ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰہیۡمَ بِالۡبُشۡرٰی قَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنۡ جَآءَ بِعِجۡلٍ حَنِیۡذٍ (سورۃ ھود آیت 69)
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا انہوں نے بھی جواب میں سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ ابراہیم ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔

ماحصل:

  • شوی: آگ سے گوشت وغیرہ کو بھونا اور پکانا۔
  • حنذ: کسی بھی حرارت کے ذریعہ گوشت وغیرہ سے لزوجت اور رطوبت کو خارج کر دیا۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ روایت ہے کہ انہوں نے بچھڑے کی کھال اتار کر اسے دو سخت گرم پتھروں کے درمیان رکھ کر اس گوشت سے لزوجت اور رطوبت خارج کی۔ اور اسے خستہ اور کھانے کے قابل بنا دیا تھا۔ (مف)
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بھیجنا

کے لیے دو لفظ ہیں۔ ارسل اور بعث۔

1: ارسل

کسی کو پیغام، چٹھی یا حکم دے کر بھیجنا یا روانہ کرنا اور ارسال به الیہ کے معنی پیغام کے ساتھ کسی کو کسی کے پاس بھیجنا ہے۔ (منجد) اور رسول بمعنی پیغمبر یا پیغام بر ہے جو انسانوں میں سے بھی ہیں اور فرشتوں سے بھی۔ قرآن میں ہے:
قَالُوۡۤا اَرۡجِہۡ وَ اَخَاہ وَ اَرۡسِلۡ فِی الۡمَدَآئِنِ حٰشِرِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 111)
انہوں نے فرعون سے کہا کہ فی الحال موسٰی اور اسکے بھائی کے معاملے کو موقوف رکھئے اور شہروں میں نقیب روانہ کر دیجئے۔

2: بعث

بنیادی طور پر اس کے دو معنی ہیں۔ (1) ابھارنا، اٹھانا اور(۲) تنہا روانہ کرنا۔ پھر کبھی اس سے ایک ہی مفہوم لیا جاتا ہے۔ مثلاً بعثت البعیر میں نے اونٹ کو اٹھا کر آزاد چھوڑ دیا۔ اور جب یہ روانہ کرنا کے معنی میں ہو تو اس کا مطلب کسی مقصد یا مہم کی تکمیل کے لیے روانہ کرنا ہو گا۔
ارشاد باری ہے:
فَبَعَثَ اللّٰہ غُرَابًا یَّبۡحَثُ فِی الۡاَرۡضِ لِیُرِیَہ کَیۡفَ یُوَارِیۡ سَوۡءَۃَ اَخِیۡہ ؕ قَالَ یٰوَیۡلَتٰۤی اَعَجَزۡتُ اَنۡ اَکُوۡنَ مِثۡلَ ہٰذَا الۡغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوۡءَۃَ اَخِیۡ ۚ فَاَصۡبَحَ مِنَ النّٰدِمِیۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 31)
اب اللہ نے ایک کوابھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے کہنے لگا ہائے کمبختی مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اس کوے جیسا ہی ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا۔ پھر وہ پشیمان گیا۔
دوسرے مقام پر فرمایا :
ہوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہمۡ وَ یُعَلِّمُہمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ (سورۃ جمعہ آیت 2)
وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجے جو انکے سامنے اسکی آیتیں پڑھتے اور انکو پاک کرتے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور اس سے پہلے تو یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔

ماحصل:

  • ارسل: کسی کو پیغام دے کر بھیجنا۔
  • بعث: کسی کو کسی مقصد کی تکمیل کے لیے تنہا روانہ کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بیان کرنا

کے لیے وصف، قصّ، ضَربَ، حَدّ، بیّن، صَرّف ، فَصّل اور فسّر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: وصف

وصف کے معنی کسی کا حلیہ بیان کرنا (م ل) کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنا خواہ وہ صحیح ہو یا غلط (مف) منظر کشی کرنا۔ قرآن میں ہے :
وَ جَآءُوۡ عَلٰی قَمِیۡصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ ؕ قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا ؕ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَ اللّٰہ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 18)
اور انکے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے یعقوب نے کہا کہ یوں نہیں ہے بلکہ تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو اچھا صبر کہ وہی خوب ہے اور جو تم بیان کرتے ہو اسکے بارے میں اللہ ہی سے مدد چاہئیے۔

2: قصّ

کے معنی کسی کے نشان قدم پر چلنا ہے (مف) جیسا کہ قرآن میں ہے.
قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبۡغِ ٭ۖ فَارۡتَدَّا عَلٰۤی اٰثَارِہمَا قَصَصًا (سورۃ الکہف آیت 64)
موسٰی نے کہا یہی تو وہ مقام ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے۔
اسی سے قصّ بمعنی بتدریج اتباع کرتے جانا ہے (منجد) یعنی ایسی بات یا واقعہ بیان کرنا جو لوگوں میں نسلاً بعد نسل بیان ہوتا چلا آ رہا ہو۔ جیسے:
نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ بِمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ ٭ۖ وَ اِنۡ کُنۡتَ مِنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الۡغٰفِلِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 3)
اے پیغمبر ہم اس قرآن کے ذریعے سے جو ہم نے تمہاری طرف بھیجا ہے تمہیں ایک نہایت اچھا قصہ سناتے ہیں۔ اور تم اس سے پہلے بےخبر تھے۔
پھر اس لفظ کا اطلاق عام واقعہ اور قصہ کو بیان کرنے پر بھی ہونے لگا۔ قرآن میں ہے:
فَجَآءَتۡہ اِحۡدٰٮہمَا تَمۡشِیۡ عَلَی اسۡتِحۡیَآءٍ ۫ قَالَتۡ اِنَّ اَبِیۡ یَدۡعُوۡکَ لِیَجۡزِیَکَ اَجۡرَ مَا سَقَیۡتَ لَنَا ؕ فَلَمَّا جَآءَہ وَ قَصَّ عَلَیۡہ الۡقَصَصَ ۙ قَالَ لَا تَخَفۡ ٝ۟ نَجَوۡتَ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 25)
تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک عورت جو شرماتی اور لجاتی چلی آتی تھی۔ موسٰی کے پاس آئی کہنے لگی کہ تمکو میرے والد بلاتے ہیں کہ تم نے جو ہمارے لئے پانی پلایا تھا اسکی تمکو اجرت دیں۔ پھر جب وہ انکے پاس آئے اور ان سے اپنا ماجرا بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ کچھ خوف نہ کرو۔ تم ظالم لوگوں سے بچ آئے ہو۔

3: ضرب

(مثلاً) کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے کوئی دوسری بات سمجھ میں آ جائے۔ (مف) کہاوت یا مثال بیان کرنا ضرب المثل مشہور لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اللّٰہ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہا (سورۃ البقرۃ آیت 26)
اللہ اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھکر کسی چیز مثلاً مکھی مکڑی وغیرہ کی مثال بیان فرمائے۔

4: حدث

حدث کے معنی کسی ایسی چیز کا وجود میں آنا ہے جو پہلے موجود نہ تھی (م ل) اور حدّث کے معنی ایسی بات یا خبر بتلانا جس سے عام لوگ بے خبر ہوں۔ ارشاد باری ہے:
یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہا (سورۃ الزلزال آیت 4)
اس روز وہ اپنے حالات بیان کر دے گی۔

5: بیّن

بیان کے معنی فصیح گفتگو (منجد) اور بیّنة کے معنی دلیل اور ثبوت کے ہیں۔ اور بیّن سے مراد کسی بات کو دلائل سے پیش کرنا ہے۔ ابن الفارس کے نزدیک بیّن میں تین باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں ۔ (۱) افتراق (۲) بعد اور (۳) وضوح یعنی کسی چیز کا دوسری سے جدا اور واضح ہو نا (م - ل) ارشاد باری ہے:
تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہ فَلَا تَقۡرَبُوۡہا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہمۡ یَتَّقُوۡنَ (سورۃ بقرۃ آیت 187)
یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا۔ اسی طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے سمجھانے کے لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیز گار بنیں۔
اسی طرح بیان فرماتا ہے اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے واسطے تا کہ وہ بچتے رہیں۔ (عثمانیؒ)
اور تبین واضح ہونا، جُدا ہونا کے معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ (سورۃ بقرۃ آیت 256)
ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔

6: صرّف

صرّف بمعنی کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری میں پھیر دینا ۔ اور صرف بمعنی بات کو لوٹا لوٹا کہ بیان کرنا ہے (مف) یعنی کسی معاملہ کو سمجھانے کے لیے اسے مختلف انداز سے بیان کرنا اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّہمۡ یَفۡقَہوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 65)
دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں۔

7: فصّل

فصّل کے معنی ایک چیز کا دوسری سے اس طرح الگ ہونا کہ ان کے درمیان فاصلہ ہو جائے اور فصّل کے معنی کسی معاملہ کو الگ الگ کر کے اور ترتیب وار کر کے بیان کرنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ جَعَلۡنَا الَّیۡلَ وَ النَّہارَ اٰیَتَیۡنِ فَمَحَوۡنَاۤ اٰیَۃَ الَّیۡلِ وَ جَعَلۡنَاۤ اٰیَۃَ النَّہارِ مُبۡصِرَۃً لِّتَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ وَ کُلَّ شَیۡءٍ فَصَّلۡنٰہ تَفۡصِیۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 12)
اور ہم نے دن اور رات کو دو نشانیاں بنایا ہے سو رات کی نشانی کو تاریک بنایا۔ اور دن کی نشانی کو روشن۔ تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل یعنی روزی تلاش کرو اور برسوں کا شمار اور حساب جانو۔ اور ہم نے ہر چیز کی بخوبی تفصیل کر دی ہے۔

8: فسّر

الفسر کے معنی کسی چیز کی معنوی صفت بیان کرنا (مف) نیز فسر بمعنی مراد بتلانا اور وضاحت کرنا ہے۔ اور فسّر کسی چیز سے پردہ ہٹانا ہے (م ل، منجد) اور عموماً دو الفاظ سے کی جاتی ہے۔ لفظ ای سے مبہم کی وضاحت اور لفظ او سے معنی اور مراد کی وضاحت کی جاتا ہے۔ اور بمعنی جملہ کے ایک ایک لفظ کو کھول کر بیان کرنا اور تنزیل کا لحاظ رکھنا (فق ل 43)
وَ لَا یَاۡتُوۡنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئۡنٰکَ بِالۡحَقِّ وَ اَحۡسَنَ تَفۡسِیۡرًا (سورۃ الفرقان آیت 33)
اور یہ لوگ تمہارے پاس جو اعتراض کی بات لاتے ہیں ہم تمہارے پاس اس کا معقول اور خوب واضح جواب بھیج دیتے ہیں۔

ماحصل:

  • وصف: کسی چیز کا حلیہ بیان کرنا۔
  • قصّ: کوئی قصہ یا ماجرا بیان کرنا۔
  • ضرب (مثلاً) مثال یا کہاوت بیان کرنا۔
  • حدّث: ایسی چیز بتانا جس سے عام لوگ بے خبر ہوں۔
  • بیّن: بات کو دلائل کے ساتھ بیان کرنا۔
  • صرّف: کسی بات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنا۔
  • فصّل: کوئی بات ترتیب وار بیان اور الگ الگ کر کے بیان کرنا۔
  • فسّر: مبہم اور مشکل مقامات کی وضاحت کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بیٹا – بیٹی

کے لیے ولد، ولید، مولود، ابن اور بنت کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ولد

ہر وہ بچہ جسے ماں سے جنا وہ ولد بھی ہے ولید بھی اور مولود بھی۔ یہ تینوں الفاظ مذکر و مونث دونوں طرح استعمال ہوتے ہیں۔ لغوی لحاظ سے ولید کی مونث ولیدۃ آتی ہے۔ لیکن قرآن میں ولیدۃ کا لفظ نہیں آیا۔ ان تینوں الفاظ میں اگر کچھ فرق ہے تو یہ کہ ولد کا لفظ ہر عمر والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک بوڑھا آدمی بھی اپنے باپ یا ماں کا ویسے ہی ولد ہے جیسے پیدا ہوتے وقت تھا۔ ولید کا لفظ پیدائش سے لے کر بلوغت سے پہلے تک کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں ہے فرعون نے موسی علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا:
قَالَ اَلَمۡ نُرَبِّکَ فِیۡنَا وَلِیۡدًا وَّ لَبِثۡتَ فِیۡنَا مِنۡ عُمُرِکَ سِنِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 18)
فرعون نے موسٰی سے کہا کیا ہم نے تمکو جبکہ تم بچے تھے پرورش نہیں کیا تھا اور تم نے برسوں ہمارے ہاں عمر بسر نہیں کی؟
اور مولود کی نسبت بالعموم باپ کی طرف ہوتی ہے۔ ماں کی طرف کم ہی ہوتی ہے۔ مولود لہ باپ کے معنوں میں اور مولود بیٹا کے معنوں میں آتا ہے۔ اس کا اطلاق بھی عموماً چھوٹے بچہ پر ہوتا ہے (منجد) تاہم بڑے پر بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ وَ اخۡشَوۡا یَوۡمًا لَّا یَجۡزِیۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِہٖ ۫ وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ ہوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِہٖ شَیۡئًا ؕ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ٝ وَ لَا یَغُرَّنَّکُمۡ بِاللّٰہ الۡغَرُوۡرُ (سورۃ لقمان آیت 33)
لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے۔ اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کام آ سکے۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے۔ اور نہ وہ بڑا فریب دینے والا شیطان تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے۔

2: ابن اور بنت

ابن بمعنی بیٹا جمع ابناء اور بنون۔ تصغیر بنی اور بنت بمعنی بیٹی جمع بنات۔ ابّ اور امّ کی طرح یہ الفاظ بھی صرف صلبی بیٹے اور بیٹی کے لیے معنی میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ ان کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ مثلاً بنی آدم، بنو اسمعیل وغیرہ اور قبائل کے تو نام ہی جد امجد کے نام پر چلتے ہیں۔
ولد اور ابن میں دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ ابن اور بنت کے الفاظ نسب اور رشتہ کو ظاہر کرنے کے لیے آتے ہیں۔ جیسے عیسی ابن مریم، مریم بنت عمران۔ بنی اخوانھنّ اور بنات الاخ وغیرہ۔ ولد وغیرہ استعمال نہیں ہوتے۔
اور تیسرا فرق یہ ہے کہ ابن اور بنت کے الفاظ کنیت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اور کنیت میں ابو اور ام بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں ایک ادنی سی مشابہت یا تعلق ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً ابو تراب، ابو ہریرہ، ام الخبائث (شراب)، ام الامراض (قبض) اسی طرح ابن الوقت، ابن السبیل، ابن الادھم، بنت الکرم (انگور) اور بنات النعش (کہکشاں) وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ ولد اور اس کے مشتقات کنیت کے لیے بھی استعمال نہیں ہوتے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بیٹھنا

کے لیے جلس، قعد اور جثا (جثو) کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: جلس

بیٹھ جانے کے معنوں میں اس کا استعمال عام ہے۔ خواہ کوئی لیٹنے کی حالت سے اُٹھ کر بیٹھ جائے یا کہیں سے آ کر یا کھڑے ہونے کے بعد بیٹھ جائے (ضد قام) اور جلس بمعنی بلند اور سخت زمین اور جلس بمعنی کسی سخت جگہ پر اپنی مقعد رکھنا اور بیٹھنے کی جگہ کو مجلس کہا جاتا ہے۔ اور ان لوگوں کو بھی جو اکٹھے بیٹھے ہوں (جمع مجالس) اور جلسہ اسم مرہ ہے بمعنی ایک بار بیٹھنا یا بیٹھنے کی حالت (مف، منجد)۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللّٰہ لَکُمۡ ۚ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللّٰہ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰہ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ (سورۃ المجادلۃ آیت 11)
مومنو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل کر بیٹھا کرو اللہ تمکو کشادگی بخشے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جنکو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کے درجے بلند کرے گا۔ اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔

2: قعد

کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً (1) کھڑا ہونے کی حالت سے بیٹھ جانا اور قعدة اسم مرہ ہے بمعنی ایک بار بیٹھنا جیسا کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھتے ہیں۔ (م ق) قرآن میں ہے:
وَ اِذَا رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ یَخُوۡضُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡہمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖ ؕ وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 68)
اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہوں تو ان سے الگ ہو جاؤ۔ یہاں تک کہ وہ اور باتوں میں مصروف ہو جائیں۔ اور اگر یہ بات شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے پر ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھے رہو۔
(2) بمعنی بیٹھ رہنا، کوئی کام نہ کرنا، اصل کام سے اعراض کرنا ۔ ان معنوں میں جلس استعمال نہیں ہوتا ۔ ارشاد باری ہے:
وَ جَآءَ الۡمُعَذِّرُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ لِیُؤۡذَنَ لَہمۡ وَ قَعَدَ الَّذِیۡنَ کَذَبُوا اللّٰہ وَ رَسُوۡلَہ ؕ سَیُصِیۡبُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 90)
اور صحرا نشینوں میں سے بھی کچھ لوگ عذر کرتے ہوئے تمہارے پاس آئے کہ انکو بھی اجازت دی جائے۔ اور جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول سے جھوٹ بولا وہ گھر میں بیٹھ رہے۔ سو جو لوگ ان میں سے کافر ہوئے ہیں انکو دکھ دینے والا عذاب پہنچے گا۔
(3) بمعنی کھڑا ہونا (قعد لغت ذوی الاضداد سے ہے) قعودا کے معنی بیٹھتے ہوئے بھی اور کھڑے ہوئے بھی۔ اسی طرح مقعد بمعنی بیٹھک بھی اور مقام بھی (م ر، منجد) ارشاد باری ہے:
فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ (سورۃ القمر آیت 55)
یعنی سچی بیٹھک میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بارگاہ میں۔
جو پرہیز گار ہیں وہ باغوں اور نہروں میں ہوں گے (یعنی) پاک مقام میں (سچی بیٹھک میں) (عثمانیؒ)
پھر جس طرح قعد بیٹھ رہنے یا کام نہ کرنے کے معنوں میں آتا ہے کسی کام کے لیے تیار ہو بیٹھنے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ جیسے قعد للحرب بمعنی لڑائی کے لیے تیار ہو بیٹھا (م ق) ارشاد باری ہے:
فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہمۡ وَ خُذُوۡہمۡ وَ احۡصُرُوۡہمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ (سورۃ التوبہ آیت 5)
تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو۔ اور انکو پکڑ لو۔ اور گھیر لو۔ اور ہر گھات کی جگہ انکی طاق میں بیٹھے رہو۔
اور قعیدہ اس عورت کو کہتے ہیں جو گھر کی نگہبان اور محافظ ہو اور گھر میں ہی رہے جمع قواعد۔ ارشاد باری ہے:
وَ الۡقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیۡ لَا یَرۡجُوۡنَ نِکَاحًا (سورۃ النور آیت 60)
اور بڑی عمر کی عورتیں جنکو نکاح کی توقع نہیں رہی

3: جثا

جثا یجثوا جثوا اور جثی یجثی جثیّا دونوں طرح آتا ہے بمعنی زانو کے بل بیٹھنا (مف) دو زانو ہو کر بیٹھنا۔ قرآن میں ہے۔
وَ تَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً ۟ کُلُّ اُمَّۃٍ تُدۡعٰۤی اِلٰی کِتٰبِہا ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ الجاثیۃ آیت 28)
اور تم ہر ایک فرقے کو دیکھو گے کہ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہو گا۔ اور ہر ایک جماعت اپنی کتاب اعمال کی طرف بلائی جائے گی۔ جو کچھ تم کرتے رہے ہو آج تمکو اس کا بدلہ دیا جائے گا۔

ماحصل:

  • جلس: لیٹنے، کھڑا ہونے یا چلنے کے بعد غرضیکہ کسی بھی حرکت کے بعد بیٹھ جانا۔
  • قعد: بہت وسیع مفہوم میں مستعمل ہے (لغت اضداد سے ہے) بمعنی بیٹھنا، بیٹھ رہنا، بیٹھنا وغیرہ، کا چھوڑ دینا، تیار ہونا۔
  • جثم: زانو کے بل بیٹھنا
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بیمار

کے لیے مریض، سقیم اور حرض کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: سقیم

سقم بیماری، روگ اور غیر درست کلام کو بھی کہتے ہیں (منجد) سقم کا لفظ جسمانی عوارض سے مخصوص ہے (مف) اور صاحب فقہ اللغتہ کے نزدیک بیماری کا پہلا درجہ علالت ہے۔ جبکہ مریض کی طبیعت معمولی خراب ہو تو اسے علیل کہتے ہیں۔ مزید بگڑنے پر اسے سقیم کہیں گے اور جب زیادہ بیمار ہو جائے تو وہ مریض ہوتا ہے (فل ۱۲۳) قرآن میں ہے:
فَنَظَرَ نَظۡرَۃً فِی النُّجُوۡمِ فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ (سورۃ الصافات آیت 88، 89)
تب انہوں (حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی۔ پھر کہا میری تو طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

2: مریض

بیماری کے لحاظ سے سقیم سے اگلا درجہ ہے۔ اور مرض الموت ایسی بیماری کو کہتے ہیں جو جان لیوا ثابت ہو۔ اور مرض کا لفظ جسمانی اور قلبی عوارض دونوں کے لیے آیا ہے۔ قرآن میں ہے :
فِیۡ قُلُوۡبِہمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہمُ اللّٰہ مَرَضًا ۚ وَ لَہمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ ۬ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 10)
ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا اللہ نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بو لنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔
اور قلبی امراض سے مراد اخلاق رذیلہ مثلاً بزدلی، بخل، نفاق ، کفر وغیرہ ہیں۔ اور مریض کی جمع مرضی اور اس کی جمع مراض آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَیۡسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَی الۡمَرۡضٰی وَ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ مَا یُنۡفِقُوۡنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوۡا لِلّٰہ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ مَا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ مِنۡ سَبِیۡلٍ ؕ وَ اللّٰہ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 91)
نہ تو ضعیفوں پر کچھ گناہ ہے اور نہ بیماروں پر اور نہ ان پر جنکے پاس خرچ موجود نہیں کہ شریک جہاد ہوں یعنی جبکہ اللہ اور کے رسول سے مخلص ہوں۔ نیکوکاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

3: حرض

بمعنی بڑی بیماری میں مبتلا ہو کر لاغر و ناتواں ہونا اور احرضہ المرض او الحزن بمعنی اس کو بیماری یا غم نے گھلا دیا (منجد) اور حرض بمعنی سخت لا ر ہو کر موت کے قریب پہنچ جانا۔ (م - ق) قرآن میں ہے :
قَالُوۡا تَاللّٰہ تَفۡتَؤُا تَذۡکُرُ یُوۡسُفَ حَتّٰی تَکُوۡنَ حَرَضًا اَوۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡہٰلِکِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 85)
بیٹے کہنے لگے کہ واللہ آپ تو یوسف کو اسی طرح یاد ہی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ گھل جائیں گے یا جان ہی دے دیں گے۔

ماحصل:

  • سقیم: صرف جسمانی عوارض اور معمولی بیمار کے لیے۔
  • مریض: جسمانی، قلبی معمولی یا سخت ہر طرح کے بیمار کے لیے۔
  • حرض: وہ مریض جو لاغر و ناتواں اور قریب بہ ہلاکت ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بیوی

کے لیے کوئی مخصوص لفظ نہیں ہے۔ اور جتنے الفاظ قرآن کریم کے اس معنی میں آئے ہیں سب مجازاً استعمال ہوئے ہیں اور وہ یہ ہیں:
زوج ، حلائل، امرأة ، صاحبة ، نشاء اور اهل

1: زوج

بمعنی جوڑا ۔ پھر جوڑا میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کا زوج ہے۔ میاں بیوی کا زوج ہے اور بیوی میاں کی زوج۔ مثلاً
عورت کے لیے:
وَ قُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنۡہا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا ۪ وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 35)
اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بے روک ٹوک کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں ہو جاؤ گے۔
مرد کے لیے:
قَدۡ سَمِعَ اللّٰہ قَوۡلَ الَّتِیۡ تُجَادِلُکَ فِیۡ زَوۡجِہا وَ تَشۡتَکِیۡۤ اِلَی اللّٰہ ٭ۖ وَ اللّٰہ یَسۡمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ (سورۃ المجادلۃ آیت 1)
اے پیغمبر ﷺ جو عورت تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث و جدال کرتی اور اللہ سے شکایت رنج و ملال کرتی تھی۔ اللہ نے اسکی التجا سن لی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ سنتا ہے دیکھتا ہے۔
اور دونوں مل کر بھی زوج ہی رہتے ہیں۔

2: حلائل

حلائل حلیلہ کی جمع ہے۔ بمعنی حلال اور منکوحہ عورت یا بیوی۔ اور حلیلۃ حلیل کی مونث ہے۔ مرد کے لیے بیوی حلیلة ہے اور بیوی کے لیے مرد حلیل ہے۔ حلیل اور حليلة دونوں کی جمع حلائل ہے (منجد) حلیل کی مثال قرآن میں نہیں ہے۔
حلیلۃ کی مثال یہ ہے :
وَ حَلَآئِلُ اَبۡنَآئِکُمُ الَّذِیۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِکُمۡ (سورۃ النساء آیت 23)
اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی (حرام ہیں)

3: امراۃ

عام عورت کو کہتے ہیں اور یہ لفظ بیوی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلاً
ضَرَبَ اللّٰہ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ (سورۃ التحریم آیت 10)
اللہ نے کافروں کے لئے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہے۔

4: نساء

امراۃ کی جمع غیر سالم ہے معنی عام عورتیں۔ یہ لفظ بھی بیویوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ (سورۃ الاحزاب آیت 32)
اے پیغمبر کی بیویو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔

5: صاحبة

صاحب یعنی ساتھی اور دوست۔ اور اس سے مونث صاحبۃ ہے جو بیوی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
یَوۡمَ یَفِرُّ الۡمَرۡءُ مِنۡ اَخِیۡہ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیۡہ وَ صَاحِبَتِہٖ وَ بَنِیۡہ (سورۃ عبس آیت 34 تا 36)
اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا۔ اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے۔ اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے بھی۔

6: أهل

اهل الرجل کسی شخص کے ہم نسب لوگ یا وہ جو ایک ہی مسکن میں رہتے ہوں۔ پھر اس لفظ کا استعمال آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر بھی ہوتا ہے۔ اور کبھی اھل الرجل سے مراد بیوی ہوتی ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَہۡلِکَ سُوۡٓءًا (سورۃ یوسف آیت 25)
تو عورت بولی کہ جو شخص تمہاری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اسکی کیا سزا ہے
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بے انصافی یا نا انصافی کرنا

کے لیے عدل، قسط ، ظلم ، حاف (حیف) عال اور ضاز (ضیز) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

1، 2: عدل، قسط

کے لیے دیکھیے انصاف کرنا کیونکہ یہ دونوں لفظ ذو الاضداد سے تعلق رکھتے ہیں۔

3: ظلم

ظلم بنیادی طور پر دو طرح استعمال ہوتا ہے۔ (1) کسی چیز کو نا جائز طریقہ سے اس کے اصل مقام کے علاوہ کسی دوسری جگہ رکھنا اور (2) بمعنی تاریکی جو روشنی اور نور کی ضد ہے۔ اور ظلمت بمعنی تاریکی (جمع ظلمات) اور جمع الجمع ظلام آتی ہے (م - ل)
اور پہلے معنوں میں ظلم کی ضد عدل ہے۔ اور ہر بے انصافی کی بات، خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہو یا حقوق العباد سے، وہ ظلم ہے ۔ اور اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ وَ ہوَ یَعِظُہ یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ لقمان آیت 13)
اور اس وقت کو یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے۔
لَا یُحِبُّ اللّٰہ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 148)
اللہ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ سب کچھ سنتا ہے جانتا ہے۔

4: حاف

کا بنیادی معنی المیل یا کسی جانب جھکاؤ ہے (م ل) یعنی فیصلہ کرتے وقت ایک جانب جھک جانا اور انصاف نہ کرنا (مف) پھر حاف کے معنی کسی چیز کو اطراف سے گھٹانا کے بھی آتے ہیں (منجد) قرآن میں ہے:
اَفِیۡ قُلُوۡبِہمۡ مَّرَضٌ اَمِ ارۡتَابُوۡۤا اَمۡ یَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّحِیۡفَ اللّٰہ عَلَیۡہمۡ وَ رَسُوۡلُہ ؕ بَلۡ اُولٰٓئِکَ ھمُ الظّٰلِمُوۡنَ (سورۃ النور آیت 50)
کیا انکے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں یا انکو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کریں گے؟ نہیں بلکہ یہ خود ہی ظالم ہیں۔

5: عال

بمعنی ظلم کرنا، سیدھی راہ سے ہٹنا (منجد)، اور العول ہر ایسی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو انسان کو گراں بار کر دے اور وہ اس کے بوجھ تلے دب جائے۔ گویا اس کے معنی حق استحقاق سے زیادہ لے کر بے انصافی کرنا ہے (مف) ارشاد باری ہے:
فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا (سورۃ النساء آیت 3)
اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ کئ عورتوں سے انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت سے نکاح کرو یا باندی سے تعلق رکھو جس کے تم مالک ہو اس طرح تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔

6: ضاز

بمعنی ظلم کرنا، حق کم دینا۔ ضیز بمعنی کجی اور قسمۃ ضیزی بمعنی ناقص اور ظالمانہ تقسیم (منجد) یعنی اپنے اور دوسروں کے حقوق متعین کرتے وقت تمام انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دینا، دھاندلی کرنا۔ ارشاد باری ہے:
اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہ الۡاُنۡثٰی تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی (سورۃ النجم آیت 21، 22)
مشرکو! کیا تمہارے لئے تو بیٹے ہوں اور اللہ کے لئے بیٹیاں۔ یہ تو بہت ہی بے انصافی کی تقسیم ہوئی۔

ماحصل:

  • عدل: دوسرے کو اس کا حق یا اس کا عوض پورا نہ دینا اور توازن و تناسب کا لحاظ نہ رکھنا۔
  • قسط: کسی کے حق کی ادائیگی نہ کرنا ۔ (جبکہ یہ دونوں الفاظ نا انصافی کے معنوں میں آئے ہوں)۔
  • ظلم: ہر بے انصافی کی بات خواہ اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا معاملات سے۔
  • حاف: دوسرے کے حق کی ادائیگی میں جانبداری کرنا اور کم دینا۔
  • عال: ایسی بے انصافی کرنا جس میں دوسرے کا حق بھی تلف ہو۔ اور حق دینے والے کے لیے گراں بار بھی ہو۔
  • ضاز: حقوق کے تعین میں انتہائی بے ضابطگی کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بے رغبتی کرنا

کے لیے رغب عن، حصور اور زاھد کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: رغب عن

رغب بمعنی کسی چیز کی طرف رغبت یا خواہش رکھنا اور اگر اس کا صلہ عن ہو تو اس سے بے رغبتی کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰھٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہ نَفۡسَہ ؕ وَ لَقَدِ اصۡطَفَیۡنٰہ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 130)
اور ابراہیم کے دین سے کون روگردانی کر سکتا ہے بجز اس کے جو نہایت نادان ہو اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا۔ اور آخرت میں بھی وہ نیک لوگوں میں ہوں گے۔

2: حصور

حصر بمعنی تنگ کر کے گھر لینا اور حصر بمعنی تنگ ہونا اور رکنا ۔ اور حصور اس شخص کو کہتے ہیں جو عورتوں کی طرف سے رکا رہے اور ان سے رغبت نہ رکھتا ہو یہ قرآن میں ہے:
فَنَادَتۡہ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ ھوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیۡ فِی الۡمِحۡرَابِ ۙ اَنَّ اللّٰہ یُبَشِّرُکَ بِیَحۡیٰی مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوۡرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 39)
چنانچہ ابھی عبادت گاہ میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ زکریا اللہ تمہیں یحیٰی کی بشارت دیتا ہے جو کلمۃ اللہ یعنی عیسٰی کی تصدیق کریں گے اور سردار ہونگے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے اور ایک پیغمبر یعنی نیکو کاروں میں ہونگے۔

3: زاهد

زهد بمعنی بے غرض ہونا چھوڑ دینا۔ اور زھید بمعنی حقیر چیز اور زاهد في الشئ بمعنی کسی چیز سے بے رغبتی کرنے والا یا حقیر سی چیز پر راضی ہو جانے والا (مف) قرآن میں ہے:
وَ شَرَوۡہ بِثَمَنٍۭ بَخۡسٍ دَرَاھمَ مَعۡدُوۡدَۃٍ ۚ وَ کَانُوۡا فِیۡہ مِنَ الزَّاھدِیۡنَ (سورۃ یوسف آیت 20)
اور انہوں نے اسکو تھوڑی سی قیمت یعنی معدودے چند درہموں پر بیچ ڈالا اور وہ اس سے بیزار ہو رہے تھے۔

ماحصل:

  • رغب عن: بے رغبتی کے لیے عام لفظ۔
  • حصور: وہ شخص جو عورتوں کی طرف سے بے رغبت ہو۔
  • زاهد: کسی چیز کو حقیر اور معمولی سمجھ کر اس سے بے رغبتی کرنے والا یا دلچسپی نہ لینے والا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بیزار ہونا

کے لیے تبرّا، قلی اور مقتا کے الفاظ آتے ہیں۔

1: تبرّا

تبرا کے معنی ہیں کسی مکروہ یا تکلیف دہ چیز سے نجات حاصل کرنا (مف) برءت من المرض بمعنی میں تندرست ہوا۔ اور ابرا المریض یعنی مریض کو شفا دینا (منجد) قرآن میں ہے:
وَ اُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہ وَ الۡاَبۡرَصَ وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہ (سورۃ آل عمران آیت 49)
اور پیدائشی اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں۔ اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔
اور براءة بمعنی بیزاری، قطع تعلق، بائیکاٹ۔ (فق ل ۱۱۳) جیسے فرمایا:
بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 1)
اے اہل اسلام اب اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے ان مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری اور جنگ کی تیاری ہے۔
اور برّا کے معنی کسی کو کسی مکروہ یا تکلیف دہ بات سے نجات دینا۔ بری کرنا یا الزام اور تہمت وغیرہ دور کرنا ۔ قرآن میں ہے:
وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ یوسف آیت 53)
اور میں اپنے آپکو پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ انسان کو برائی ہی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم فرمائے۔ بیشک میرا پروردگار بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
اور تبرا کے معنی مکروہ یا تکلیف دہ بات سے خود بیزار ہو جانا۔ قرآن میں ہے:
اِذۡ تَبَرَّاَ الَّذِیۡنَ اتُّبِعُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتۡ بِہمُ الۡاَسۡبَابُ (سورۃ البقرۃ آیت 166)
اس دن کفر کے پیشوا اپنے پیروؤں سے بیزاری ظاہر کریں گے اور دونوں عذاب الٰہی دیکھ لیں گے اور ان کے آپس کے تعلقات منقطع ہو جائیں گے۔

2: قلی

کسی سے ناراضگی کی بناء پر بیزار ہونا۔ صاحب فقہ اللغۃ قلی کو عداوت کے باب میں دوسرے درجہ پر لاتے ہیں یعنی بغض کے بعد قلی کا درجہ ہے (ف ل 166) ارشاد باری ہے:
مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی (سورۃ ضحی آیت 3)
اے نبی ﷺ تمہارے پروردگار نے نہ تو تمکو چھوڑ دیا اور نہ تم سے ناراض ہی ہوا۔
نہ رخصت کر دیا تجھ کو تیرے رب نے اور نہ بیزار ہوا (عثمانیؒ)
3: مقت
کسی قبیح فعل کے ارتکاب پر سخت ناراض ہونا اور بیزار ہو جانا۔ اور یہ قلی سے اگلا درجہ ہے (ف ل 166) ارشاد باری ہے
وَ لَا تَنۡکِحُوۡا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّہ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ مَقۡتًا ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا (سورۃ النساءآیت 22)
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ دادا نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرنا مگر جاہلیت میں جو ہو چکا سو ہو چکا یہ نہایت بےحیائی اور اللہ کی ناخوشی کی بات تھی۔ اور بہت برا دستور تھا۔

ماحصل:

  • تبرا: کسی مکروہ بات یا تکلیف دہ امر سے بیزار ہونا ۔
  • قلی: کسی سے ناراضگی کی بناء پر اس سے بیزار ہونا۔
  • مقت: کسی قبیح فعل پر سخت ناپسندیدگی اور بیزاری - قلی کا اگلا درجہ
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بیشک

کے لیے ان، ان، لا جرم اور قد کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔ یہ سب تحقیق کے لیے آتے ہیں۔ اور بلاشبہ، بیشک۔ یقیناً کا معنی دیتے ہیں۔

1، 2: ان اور ان

یہ دونوں الفاظ اسم پر داخل ہوتے ہیں۔ ان صدر کلام میں آتا ہے۔ جیسے:
اِنَّ اللّٰہ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ البقرۃ آیت 20)
بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
لیکن ان درمیان میں آتا ہے۔ جیسے:
وَ اعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 260)
اور جان رکھو کہ اللہ غالب ہے صاحب حکمت ہے۔
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ قال اور اس کے مشتقات کے بعد درمیان کلام میں بھی ان ہی آئے گا۔ جیسے قرآن میں ہے:
قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ھیَ ؕ قَالَ اِنَّہ یَقُوۡلُ اِنَّہا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِکۡرٌ ؕ عَوَانٌۢ بَیۡنَ ذٰلِکَ ؕ فَافۡعَلُوۡا مَا تُؤۡمَرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 68)
انہوں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے التجا کیجئے کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ وہ گائے کس طرح کی ہو۔ موسٰی نے کہا پروردگار فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ تو بوڑھی ہو اور نہ بچھڑا بلکہ انکے درمیان یعنی جوان ہو سو جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے ویسا کرو۔
علم اور شھد کے بعد درمیان کلام میں گرائمر کے لحاظ سے ان ہی آنا چاہیے۔ (جیسا کہ اوپر مثال بھی دی گئی ہے) لیکن ایک مقام پر قرآن میں علم اور شھد کے بعد بھی ان استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اللّٰہ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہ ؕ وَ اللّٰہ یَشۡہدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ (سورۃ المنافقون آیت 1)
تو ازراہ نفاق کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بیشک اللہ کے پیغمبر ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ درحقیقت تم اسکے پیغمبر ہو اور اللہ ظاہر کئے دیتا ہے کہ منافق یقینًا جھوٹے ہیں۔

3: لا جرم

اس لفظ کے معنی میں علما میں اختلاف ہے۔ اکثر مترجمین اس کا معنی بلا شبہ یا بیشک لکھتے ہیں۔ صاحب منجد اس کا معنی خدا کی قسم لکھتے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ تین بار استعمال ہوا ہے اور تینوں بار ان سے پہلے آیا ہے(سورۃ ھود آیت 22)، (سورۃ النحل آیت 23)، (سورۃ النحل آیت 109) جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تحقیق مزید کے لیے آتا ہے۔ تاہم اگر صاحب منجد کا معنی "خدا کی قسم" کر لیا جائے تو بھی درست ہے اور تاکید مزید ہی پیدا ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَا جَرَمَ اَنَّہمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ھمُ الۡاَخۡسَرُوۡنَ (سورۃ ھود آیت 22)
بلاشبہ یہ لوگ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان پانے والے ہیں۔

4: قد

فعل ماضی پر داخل ہو کر تحقیق کے معنی بھی دیتا ہے اور زمانہ حال کے قریب بھی کر دیتا ہے۔ یعنی فعل ماضی کو ماضی قریب میں بدل دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ سَمِعَ اللّٰہ قَوۡلَ الَّتِیۡ تُجَادِلُکَ فِیۡ زَوۡجِہا وَ تَشۡتَکِیۡۤ اِلَی اللّٰہ ٭ۖ وَ اللّٰہ یَسۡمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ (سورۃ المجادلہ آیت 1)
اے پیغمبر ﷺ جو عورت تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث و جدال کرتی اور اللہ سے شکایت رنج و ملال کرتی تھی۔ اللہ نے اسکی التجا سن لی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ سنتا ہے دیکھتا ہے۔

ماحصل:

ان صدر کلام میں ان درمیان میں آتا ہے۔ لا جرم ان پر داخل ہو کر تاکید مزید پیدا کرتا ہے۔ قد ماضی پر داخل ہو کر ماضی قریب کے معنوں میں بھی کر دیتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بےقرار ہونا -گھبرانا

کے لیے فرغ، جزع ، فزع ، كرب، هَلْع، اضطرۃ اور استفزّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: فرغ

بمعنی خالی ہونا اور اس کی ضد شغل یعنی کسی کام میں مصروف ہوتا ہے اور قلب فارغ ایسی کیفیت ہے جب اس میں کچھ شغل نہ ہو (ف ل 70) یعنی حوصلہ یا صبر نہ رہے اور بے قرار ہو جائے ۔ ارشاد باری ہے:
وَ اَصۡبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوۡسٰی فٰرِغًا ؕ اِنۡ کَادَتۡ لَتُبۡدِیۡ بِہٖ لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّبَطۡنَا عَلٰی قَلۡبِہا لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 10)
اور موسٰی کی ماں کا دل بیقرار ہو گیا اگر ہم انکے دل کو مضبوط نہ کر دیتے تو قریب تھا کہ وہ اس غم کو ظاہر کر دیتیں۔ ہم چاہتے تھے کہ وہ مومنوں میں رہیں۔

2: جزع

اس کی ضد صبر ہے، یعنی بے صبر ہو جانا۔ اور اس لفظ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب انسان کسی دکھ یا مصیبت پر صبر کرنے کے بجائے غم و تکدر کا زبان سے اظہار بھی شروع کر دے (منجد) قرآن میں ہے:
قَالُوۡا لَوۡ ھدٰىنَا اللّٰہ لَہدَیۡنٰکُمۡ ؕ سَوَآءٌ عَلَیۡنَاۤ اَجَزِعۡنَاۤ اَمۡ صَبَرۡنَا مَا لَنَا مِنۡ مَّحِیۡصٍ (سورۃ ابراہیم آیت 21)
وہ کہیں گے کہ اگر اللہ ہم کو ہدایت کرتا تو ہم تم کو ہدایت کرتے۔ اب ہم گھبراہٹ ظاہر کریں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے۔ کوئی جگہ رہائی کی ہمارے لئے نہیں ہے۔
برابر ہے ہمارے حق میں ہم بے قراری کریں یا صبر کریں ہم کو نہیں خلاصی (عثمانیؒ)

3: فزع

بمعنی دہشت زدہ ہو نا (م - ل) اور امام راغب کے نزدیک یہ جزع ہی کی قسم ہے (مف) یعنی جب جزع کے ساتھ گھبراہٹ بھی شامل ہو جائے تو یہ فزع کی کیفیت ہے۔ ارشادِ باری ہے:
مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہ خَیۡرٌ مِّنۡہا ۚ وَ ھمۡ مِّنۡ فَزَعٍ یَّوۡمَئِذٍ اٰمِنُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 89)
جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اسکے لئے اس سے بہتر بدلہ تیار ہے اور ایسے لوگ اس روز گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے۔

4: کرب

ایسی بیقراری جس میں غم بھی شامل ہو (ف ل 170) بے چینی، اضطراب اور گھبراہٹ۔ ارشاد باری ہے:
وَ نُوۡحًا اِذۡ نَادٰی مِنۡ قَبۡلُ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہ فَنَجَّیۡنٰہ وَ اَھۡلَہ مِنَ الۡکَرۡبِ الۡعَظِیۡمِ (سورۃ الانبیاء آیت 76)
اور نوح کا قصہ بھی یاد کرو جب اس سے پیشتر انہوں نے ہمیں پکارا تو ہم نے انکی دعا قبول فرمائی اور انکو اور انکے ساتھیوں کو بڑی گھبراہٹ سے نجات دی۔

5: هلع

صاحب فقه اللغہ کے مطابق یہ جزع کی انتہائی کیفیت ہے ( ف ل 48)بے حوصلہ اور بے صبر ہونا ۔ قرآن میں ہے:
اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہلُوۡعًا اِذَا مَسَّہ الشَّرُّ جَزُوۡعًا (سورۃ المعارج آیت 19، 20)
جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے۔

6: اضْطَرَّ

ضَرّ اور ضرّ بمعنی کس کو تکلیف دینا، نقصان پہنچانا اور اضره علی الامر بمعنی کسی کو کسی کام پر مجبور کر دیا۔ اور اضطر بمعنی کسی کو مجبور کرنا۔ حاجت مند بنانا (منجد) گویا اضطرار ایسی بے قراری ہے جس سے انسان کی کوئی حاجت وابستہ ہو۔ ارشاد باری ہے:
فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہ ؕ اِنَّ اللّٰہ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 173)
ہاں جو مجبور ہو جائے بشرطیکہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور حد ضرورت سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ بخشنے والا ہے رحم کرنے والا ہے۔

7: اسْتَفَزَّ

فَزّ کے معنی کسی کے ہوش اڑا دینا کسی کو گھبراہٹ میں مبتلا کر کے نکال دینا۔ اور استفزّ بمعنی مضطرب کر دینا، ہلکا بنا دینا (مف) اور ذلیل جاننا کے معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡہمۡ بِصَوۡتِکَ وَ اَجۡلِبۡ عَلَیۡہمۡ بِخَیۡلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکۡہمۡ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ وَ عِدۡہمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُھمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 64)
اور ان میں سے جسکو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا کر لاتا رہ اور انکے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدہ کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے۔

ماحصل:

  • فرغ: دل کا صبر و سکون خالی ہونا۔
  • جزع: جب بے صبر بن کر زبان سے واویلا کرنے لگے۔
  • فزع: گھبراہٹ جو کسی چیز کی دہشت کی وجہ سے ہو۔
  • کرب: جس بیقراری میں غم کا عنصر بھی شامل ہو۔
  • هلع: جزع کی انتہائی کیفیت۔
  • اضطر: کسی ضروری حاجت کی تکمیل کے لیے بیقرار ہوتا۔
  • استفزّ: کسی دوسرے کو گھبراہٹ میں مبتلا کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بیکار ہونا

کے لیے فرغ اور عطل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: فرغ

کسی کام سے فارغ ہونا (ضد شغل، مف) یعنی کس شخص کا کسی ایک کام کو ختم کر کے فارغ ہونا ۔ قرآن میں ہے :
فَاِذَا فَرَغۡتَ فَانۡصَبۡ وَ اِلٰی رَبِّکَ فَارۡغَبۡ (سورۃ الانشرح آیت 7، 8)
سو جب تم فارغ ہوا کرو تو عبادت میں محنت کیا کرو۔ اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جایا کرو۔

2: عطل

بمعنی کسی مزدور کا بے کار ہونا یا عورت کا زیور سے خالی ہونا (مف) اور عطّل بمعنی کسی کو بے کار چھوڑ دینا۔ قرآن میں ہے:
وَ اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ (سورۃ التکویر آیت 4)
اور جب بیانے والی اونٹنیاں یونہی چھوڑ دی جائیں گی۔

ماحصل:

فراغت ایک کام کے ختم ہونے اور دوسرا شروع کرنے کے درمیانی وقفہ کا نام ہے۔ اور یہ بے کاری کبھی ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی۔ اور اگر ہو تو عارضی ہوتی ہے۔ اور عطل بے کاری جو اضطرار ہو۔
 
Top