بہتان
کے لیے بہتان، افك اور افتراء کے الفاظ آئے ہیں۔1: بہتان
بهت کے معنی حیران اور متحیر ہونا (مف) یا حیرانی کی وجہ سے خاموش اور دم بخود ہو جانا ہے (منجد) اور بہتان ایسی بات کو کہتے ہیں جسے سن کر لوگ ہوش کھو دیں اور حیران و ششدر رہ جائیں اور انہیں یقین نہ آئے کہ یہ بات ممکن العمل ہے۔ ارشاد باری ہے:وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہ قُلۡتُمۡ مَّا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَکَلَّمَ بِہٰذَا ٭ۖ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ النور آیت 16)
اور جب تم نے اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہدیا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں۔ پروردگار تو پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
اور جب تم نے اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہدیا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں۔ پروردگار تو پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
2: افك
افک کے معنی کسی چیز کو اس کے صحیح رخ سے موڑ دینا ہے (مف) قرآن میں ہے:قَالُوۡۤا اَجِئۡتَنَا لِتَاۡفِکَنَا عَنۡ اٰلِہتِنَا ۚ فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ (سورۃ الاحقاف آیت 22)
کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہمکو ہمارے معبودوں سے پھیر دو۔ اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو اسے ہم پر لے آؤ۔
اسی طرح حق سے باطل کی طرف یا سچ سے جھوٹ کی طرف یا اچھے کاموں سے برے کاموں کی طرف پھرنے کو افک کہتے ہیں۔ اور اسی لحاظ سے من گھڑت اور جھوٹی بات اور الزام کو بھی افک کہتے ہیں۔ اور افّاک بمعنی جھوٹی اور من گھڑت باتیں گھڑنے والا الزام تراش ہے اور ابو ہلال عسکری کے الفاظ میں افک ایسا جھوٹ ہے جس کا تعلق فاحش القبح سے ہو۔ ارشادِ باری ہے:کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہمکو ہمارے معبودوں سے پھیر دو۔ اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو اسے ہم پر لے آؤ۔
وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہ قُلۡتُمۡ مَّا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَکَلَّمَ بِہٰذَا ٭ۖ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ النور آیت 16)
اور جب تم نے اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہدیا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں۔ پروردگار تو پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
گویا افک کا واقعہ اس لحاظ سے کہ وہ بے بنیاد باتوں پر استوار تھا افک تھا اور اس لحاظ سے کہ وہ اتنا بڑا جھوٹ تھا کہ عقل سلیم دنگ رہ جائے بہتان تھا۔اور جب تم نے اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہدیا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں۔ پروردگار تو پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
3: افتری
فری کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لیے کاٹنے کے ہیں اور افتراء کے معنی اسے خراب کرنے کے لیے کاٹنے کے (مف) اور فری یفری بمعنی طوفان جوڑنا (منجد) اور افتری کا لفظ اصلاح و فساد دونوں کے لیے آتا ہے۔ لیکن اس کا زیادہ استعمال فساد ہی کے معنوں میں ہوتا ہے (مف) قرآن پاک میں یہ لفظ جھوٹ، شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے۔ اور افتراء سے مراد عموماً وہ بناوٹی عقائد ہیں جو خود تراش کر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیے جاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہ کَذِبًا (سورۃ الانعام آیت 93)
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے
اور فریّا کا معنی کسی کے ذمہ بہتان اور جھوٹی بات لگا دنیا (منجد)، ارشاد باری ہے:اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے
فَاَتَتۡ بِہٖ قَوۡمَہا تَحۡمِلُہ ؕ قَالُوۡا یٰمَرۡیَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَیۡئًا فَرِیًّا (سورۃ مریم آیت 27)
پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی برادری والوں کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تو نے برا کام کیا۔
پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی برادری والوں کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تو نے برا کام کیا۔
ماحصل:
- افک: بے بنیاد الزامات، اصل بات کو توڑ مروڑ کر بنایا ہوا قصہ۔
- بہتان: ایسا الزام جو کسی کو ورطہ حیرت میں ڈال دے۔
- افتراء: بناوٹی عقائد جو خود تراش اللہ کی طرف منسوب کر دیئے جائیں۔ یا جو اصلاح کی بجائے بگاڑ پیدا کریں۔