انسانیت سے کنگال شہر
از قلم: جویریہ ارشد
فٹ پاتھ پر لیٹے ہوئے وہ اپنی بل کھاتی درد سے تڑپتی شور مچاتی ہوئی سوکھی انتڑیوں، چکراتے ہوئے سر بھوک کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خالی معدے اور نقاہت سے نڈھال سُست و لاغر بخار میں تپتے جسم کو چاولوں کے ڈھیر کی جانب گھسیٹتے گھسیٹتے وہیں ڈھے گیا۔ لمبی سڑک کے سامنے والے عالیشان بنگلے میں پرسوں رات سالگرہ کی تقریب سے بچنے والے یہ چاول کل رات یہاں فٹ پاتھ پر پھینکے گئے تھے اور وہ ان ضائع شدہ چاولوں کو کھانا چاہتا تھا جو یہاں پڑے پڑے سڑ رہے تھے۔ لیکن بخار اور کئی دنوں سے بھوکے پیاسے رہنے کی وجہ سے وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس تک نہ ہو سکا۔
وہ ایک زندہ لاش تھا جو شکستہ حال، بے سروسامان کئی سالوں سے اس لمبی سڑک کی فٹ پاتھ کا مکین تھا جہاں سے وہ شکم سیر لوگوں کی رزق و روٹی کی بے ادبی، رزق ضائع کرنا اور بہت کچھ دیکھ کر بھی چپ رہتا۔ لیکن آج۔۔ آج۔۔ شاید اسکی خاموشی کے تمام بند ٹوٹنے والے تھے آج وہ بولنا چاہتا تھا وہ فاقوں کی مسلسل ضربوں سے متاثرہ جسم کو بار بار کھانے کی جانب کھینچ رہا تھا لیکن بے سود۔ دو آنسو اس کے بے رونق چہرے سے پھسل کر اس کی ٹوٹی چپل پر ٹہر گئے جو تکیے کی جگہ اس کے سر کے نیچے موجود تھی۔ چونکہ وہ کمزور ہڈیوں کا ڈھانچے بنا ہوا تھا ہلنے جلنے تک سے قاصر رہا جب ہمت جواب دے گئی تو وہ بالآخر تھک ہار کر لیٹے لیٹے ہی چیخ اٹھا۔
اے مَرے ہوئے ضمیر کے ساتھ جینے والے بے درد انسان! یہ جو تمہارے دل پر تکبر کی سیاہی چڑھ گئی ہے یہ مال و دولت شان و شوکت، گاڑی، بنگلہ، اسٹیٹس، اسمارٹ فونز یہ سب تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے۔ آج نہیں تو کل تم خاک میں ملا دیئے جاؤ گے۔ آج تم ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے ہو آہ! کل حشرات الارض تمہارا چہرہ تمہارا جسم نوچ نوچ کر کھا جائیں گے اور ہڈیاں۔۔ ہاں بس کچھ ہی ہڈیاں رہ جائیں گی جنہیں دیکھ کر لوگ خوف کھائیں گے۔ وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگ گیا۔ پھر دوبارہ بولنا شروع کیا۔ مجھے بتاؤ؟ کیا تمہارے اس سیاہ دل میں خوفِ خدا کی گھنٹی نہیں بجتی؟ اگر اس نے رزق روٹی تمہیں تمہاری اوقات سے زیادہ دے دیا ہے تو اسکا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ تم اس رزق سے کھلواڑ کرتے پھرو۔۔ رزق کی حرمت کو پامال کرتے پھرو۔ تمہارے ہاتھ نہیں لرزتے کھانے کا ضیاع کرتے ہوئے؟ تم اسے بے دردی سے کوڑا دان کی نذر کرتے ہو اور پھر کچرے کے اس ڈھیر سے وہ کھانا چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ مجھے خراب ہونے سے پہلے، مجھ میں کیڑے پڑنے سے پہلے مجھے کسی فاقہ زدہ کے شکم میں ڈال دو۔ ک۔۔ کیا؟ روزِ آخرت وہ کھانا تم سے سوال نہیں کرے گا؟ کیا وہ گلو گیر کھانا بن کر تمہارا گلہ نہیں پکڑے گا؟
اے دولت کے نشے میں دھت بنی نوع! کیا تم واقعی انسان ہو؟ یہ سوال تم پر چھوڑ رہا ہوں۔ کیا تم انسان کہنے کے لائق ہو؟ شاید نہیں ہو۔۔ تم۔۔ تم ایک چلتے پھرتے روبوٹ ہو! روٹی کی قدر کئی دونوں کے فاقوں کی گود میں دم توڑتے شخص سے پوچھو؟ جو فٹ پاتھ پر تمہارے باسی کھانے چاولوں کے ڈھیر سے چن چن کر روٹی کھاتا ہے یا جس کھانے کو تم نے اپنی پلیٹ میں فیشن کے طور پر چھوڑ دیا ہے اس مزدور سے پوچھو اس یتیم بچے سے پوچھو جس پر اپنے سارے گھر کے اخراجات کا بوجھ آگیا ہے جو تمہارے جانے کے بعد اسے کھاتا ہے تمہاری پلیٹیں چاٹتا ہے۔۔ یا ان سے پوچھو وہ جس کی پلیٹیں برسوں سے خالی ہیں۔۔ جن کے گھروں میں فاقے دندناتے پھر رہے ہیں۔ یا وہ جن کے بچے بھوک سے ان کے سامنے مر رہے ہیں اس نے ایک سرد آہ بھری۔۔ پھر دوبارہ بول پڑا، آہ! یا وہ گھر جن میں کھانے کو ایک لقمہ تک میسر نہیں ہے۔
تم خود تو ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے دس دس قسم کے کھانوں کی دعوتیں اڑاتے ہو اور وہ؟ انکا کیا جو باسی روٹیوں کو پانی میں ڈبو ڈبو کر کھاتے ہیں؟ تم آدم و حوا کی اولاد ہو کر اتنے بے رحم! بے حس! کیسے ہو سکتے ہو؟ ارے اے پتھر دل مٹی کے پتلے! "تم پتھر ہو" پتھر کے انسان! "
اگر تمہارے رزق کا کچھ حصہ خراب ہونے سے پہلے کسی انسان کی سوکھی انتڑیوں میں چلا جاتا تو کوئی قیامت نہ آجائے گی وہ جو اوپر بیٹھا سب کے اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہے وہ رب تمہیں اس عمل سے خوش ہو کر اور زیادہ نواز دے گا یہ کہہ کر اس کے جسم میں ایک دم سے تحریک پیدا ہوئی۔ اس نے اپنے اوپر سے پھٹا پرانا میلہ کچیلا کمبل اتار پھینکا موسموں کے تغیر اور مقدر کی سختیوں کی زد سے جھلسے ہوئے سیاہ ہاتھوں سے مٹی گرد و غبار میں اٹے بال ماتھے سے پیچھے ہٹائے۔ اپنا پیوند لگا کُرتا جھاڑ کر فٹ پاتھ کی دوسری جانب لپکا اور ایک دم سے اٹھا فٹ پاتھ پر پڑے ایک دن پہلے ڈالے گئے چاولوں کو جو اب بدبودار بھی ہوگئے تھے اس گندگی کے ڈھیر سے لپ لپ ہاتھ بھر کر چاول کھانا شروع کر دئیے۔۔ گوشت نکال کر کھانے لگا اور ہڈیاں کچکچانے لگا۔۔۔
جبکہ چاولوں کے ڈھیر کے اوپر بیٹھی بلی اور گزرنے والے کتے اسے یوں گھور گھور کر دیکھ رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں کہ کیا واقعی یہ ایک انسان ہے؟
از قلم: جویریہ ارشد
فٹ پاتھ پر لیٹے ہوئے وہ اپنی بل کھاتی درد سے تڑپتی شور مچاتی ہوئی سوکھی انتڑیوں، چکراتے ہوئے سر بھوک کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خالی معدے اور نقاہت سے نڈھال سُست و لاغر بخار میں تپتے جسم کو چاولوں کے ڈھیر کی جانب گھسیٹتے گھسیٹتے وہیں ڈھے گیا۔ لمبی سڑک کے سامنے والے عالیشان بنگلے میں پرسوں رات سالگرہ کی تقریب سے بچنے والے یہ چاول کل رات یہاں فٹ پاتھ پر پھینکے گئے تھے اور وہ ان ضائع شدہ چاولوں کو کھانا چاہتا تھا جو یہاں پڑے پڑے سڑ رہے تھے۔ لیکن بخار اور کئی دنوں سے بھوکے پیاسے رہنے کی وجہ سے وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس تک نہ ہو سکا۔
وہ ایک زندہ لاش تھا جو شکستہ حال، بے سروسامان کئی سالوں سے اس لمبی سڑک کی فٹ پاتھ کا مکین تھا جہاں سے وہ شکم سیر لوگوں کی رزق و روٹی کی بے ادبی، رزق ضائع کرنا اور بہت کچھ دیکھ کر بھی چپ رہتا۔ لیکن آج۔۔ آج۔۔ شاید اسکی خاموشی کے تمام بند ٹوٹنے والے تھے آج وہ بولنا چاہتا تھا وہ فاقوں کی مسلسل ضربوں سے متاثرہ جسم کو بار بار کھانے کی جانب کھینچ رہا تھا لیکن بے سود۔ دو آنسو اس کے بے رونق چہرے سے پھسل کر اس کی ٹوٹی چپل پر ٹہر گئے جو تکیے کی جگہ اس کے سر کے نیچے موجود تھی۔ چونکہ وہ کمزور ہڈیوں کا ڈھانچے بنا ہوا تھا ہلنے جلنے تک سے قاصر رہا جب ہمت جواب دے گئی تو وہ بالآخر تھک ہار کر لیٹے لیٹے ہی چیخ اٹھا۔
اے مَرے ہوئے ضمیر کے ساتھ جینے والے بے درد انسان! یہ جو تمہارے دل پر تکبر کی سیاہی چڑھ گئی ہے یہ مال و دولت شان و شوکت، گاڑی، بنگلہ، اسٹیٹس، اسمارٹ فونز یہ سب تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے۔ آج نہیں تو کل تم خاک میں ملا دیئے جاؤ گے۔ آج تم ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے ہو آہ! کل حشرات الارض تمہارا چہرہ تمہارا جسم نوچ نوچ کر کھا جائیں گے اور ہڈیاں۔۔ ہاں بس کچھ ہی ہڈیاں رہ جائیں گی جنہیں دیکھ کر لوگ خوف کھائیں گے۔ وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگ گیا۔ پھر دوبارہ بولنا شروع کیا۔ مجھے بتاؤ؟ کیا تمہارے اس سیاہ دل میں خوفِ خدا کی گھنٹی نہیں بجتی؟ اگر اس نے رزق روٹی تمہیں تمہاری اوقات سے زیادہ دے دیا ہے تو اسکا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ تم اس رزق سے کھلواڑ کرتے پھرو۔۔ رزق کی حرمت کو پامال کرتے پھرو۔ تمہارے ہاتھ نہیں لرزتے کھانے کا ضیاع کرتے ہوئے؟ تم اسے بے دردی سے کوڑا دان کی نذر کرتے ہو اور پھر کچرے کے اس ڈھیر سے وہ کھانا چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ مجھے خراب ہونے سے پہلے، مجھ میں کیڑے پڑنے سے پہلے مجھے کسی فاقہ زدہ کے شکم میں ڈال دو۔ ک۔۔ کیا؟ روزِ آخرت وہ کھانا تم سے سوال نہیں کرے گا؟ کیا وہ گلو گیر کھانا بن کر تمہارا گلہ نہیں پکڑے گا؟
اے دولت کے نشے میں دھت بنی نوع! کیا تم واقعی انسان ہو؟ یہ سوال تم پر چھوڑ رہا ہوں۔ کیا تم انسان کہنے کے لائق ہو؟ شاید نہیں ہو۔۔ تم۔۔ تم ایک چلتے پھرتے روبوٹ ہو! روٹی کی قدر کئی دونوں کے فاقوں کی گود میں دم توڑتے شخص سے پوچھو؟ جو فٹ پاتھ پر تمہارے باسی کھانے چاولوں کے ڈھیر سے چن چن کر روٹی کھاتا ہے یا جس کھانے کو تم نے اپنی پلیٹ میں فیشن کے طور پر چھوڑ دیا ہے اس مزدور سے پوچھو اس یتیم بچے سے پوچھو جس پر اپنے سارے گھر کے اخراجات کا بوجھ آگیا ہے جو تمہارے جانے کے بعد اسے کھاتا ہے تمہاری پلیٹیں چاٹتا ہے۔۔ یا ان سے پوچھو وہ جس کی پلیٹیں برسوں سے خالی ہیں۔۔ جن کے گھروں میں فاقے دندناتے پھر رہے ہیں۔ یا وہ جن کے بچے بھوک سے ان کے سامنے مر رہے ہیں اس نے ایک سرد آہ بھری۔۔ پھر دوبارہ بول پڑا، آہ! یا وہ گھر جن میں کھانے کو ایک لقمہ تک میسر نہیں ہے۔
تم خود تو ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے دس دس قسم کے کھانوں کی دعوتیں اڑاتے ہو اور وہ؟ انکا کیا جو باسی روٹیوں کو پانی میں ڈبو ڈبو کر کھاتے ہیں؟ تم آدم و حوا کی اولاد ہو کر اتنے بے رحم! بے حس! کیسے ہو سکتے ہو؟ ارے اے پتھر دل مٹی کے پتلے! "تم پتھر ہو" پتھر کے انسان! "
اگر تمہارے رزق کا کچھ حصہ خراب ہونے سے پہلے کسی انسان کی سوکھی انتڑیوں میں چلا جاتا تو کوئی قیامت نہ آجائے گی وہ جو اوپر بیٹھا سب کے اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہے وہ رب تمہیں اس عمل سے خوش ہو کر اور زیادہ نواز دے گا یہ کہہ کر اس کے جسم میں ایک دم سے تحریک پیدا ہوئی۔ اس نے اپنے اوپر سے پھٹا پرانا میلہ کچیلا کمبل اتار پھینکا موسموں کے تغیر اور مقدر کی سختیوں کی زد سے جھلسے ہوئے سیاہ ہاتھوں سے مٹی گرد و غبار میں اٹے بال ماتھے سے پیچھے ہٹائے۔ اپنا پیوند لگا کُرتا جھاڑ کر فٹ پاتھ کی دوسری جانب لپکا اور ایک دم سے اٹھا فٹ پاتھ پر پڑے ایک دن پہلے ڈالے گئے چاولوں کو جو اب بدبودار بھی ہوگئے تھے اس گندگی کے ڈھیر سے لپ لپ ہاتھ بھر کر چاول کھانا شروع کر دئیے۔۔ گوشت نکال کر کھانے لگا اور ہڈیاں کچکچانے لگا۔۔۔
جبکہ چاولوں کے ڈھیر کے اوپر بیٹھی بلی اور گزرنے والے کتے اسے یوں گھور گھور کر دیکھ رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں کہ کیا واقعی یہ ایک انسان ہے؟