میرا عمل اور قرآن کی پکار

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
آج میں نے اپنے کمرے کی دیوار پر ایک ٹڈی کو دیکھا، اس کی حرکات نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ اس نے اپنی ٹانگوں اور اینٹینا سے دیوار کو نوچا، پھر ان حصوں کو اپنے منہ تک لے آیا۔ اس کی بار بار کی جانے والی حرکتوں سے تنگ آکر میں نے اسے اڑانے کے لیے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، اور وہ چوکنا ہو گیا، اپنی حرکت کو اس طرح بدلنے لگا جیسے خطرے کو محسوس کر رہا ہو۔ تاہم پھر سے اپنی سابقہ حالت میں واپس آ گیا۔
بار بار ہاتھ کے اشارے کے باوجود ٹڈی نے مزید کوئی نوٹس لینے سے جیسے انکار کر دیا ہو۔ لیکن جب میں نے اونچی آواز سے اسے اڑانا چاہا تو اس نے اس نئی آواز کو خطرہ سمجھا اور ایک دوسری دیوار کی طرف اڑ گیا، جہاں یہ اب بھی تشریف فرما ہے اور میری طرح طرح کی آوازوں سے بھی بے نیاز ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ٹڈیاں مانوس آوازوں کو پہچانتی ہیں اور ان کے موافق طرز اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ انسانی آوازوں کو پس منظر کے شور کے طور پر دیکھتے ہیں، انہیں ڈی کوڈ کرنے سے قاصر ہیں۔
جس چیز نے مجھے حیران کیا وہ ٹڈی کا ردعمل تھا۔ شروع میں، میرے ہاتھ کے اشارے نے اسے الرٹ کیا، لیکن بعد میں تکرار نے اسے معمول بنا دیا۔ ایک نیا محرک—اچانک آواز—پھر اس کی توجہ مبذول ہوئی۔
ایسا ہی رد عمل ہمارا قرآن کریم کی نشانیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب کبھی نئے حالت، نئی مصیبت یا نئی مشکل کا سامنا ہوتا ہے، تو ہم لمحہ بہ لمحہ خبردار رہتے ہیں، دعا کرتے ہیں اور تبدیلی کا عہد کرتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، ہم انتباہی علامات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے پرانے طرز عمل پر لوٹ آتے ہیں۔
میں اس ٹڈی کے لیے جان لیوا خطرہ تھی لیکن اس نے مجھے ایک دو بار کے بعد نظر انداز کر دیا۔ بدقسمتی سے ہم قرآنی پیغامات کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہم سے پہلے کئی اقوام کو ان کے گناہوں کے سبب مٹا دیا۔
وَلَقَدْ جَآءَهُـمْ مِّنَ الْاَنْبَآءِ مَا فِيْهِ مُزْدَجَرٌ (4) حِكْـمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ (5) فَتَوَلَّ عَنْـهُـمْ ۘ يَوْمَ يَدْعُ الـدَّاعِ اِلٰى شَىْءٍ نُّكُـرٍ (6) خُشَّعًا اَبْصَارُهُـمْ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ كَاَنَّـهُـمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ (7) (سورۃ القمر)
اور ان کے پاس وہ خبریں آچکی ہیں جن میں کافی تنبیہ ہے۔ اور پوری دانائی بھی ہے پر ان کو ڈرانے والوں سے فائدہ نہیں پہنچا۔ پس ان سے منہ موڑ لے، جس دن پکارنے والا ایک نا پسند چیز کے لیے پکارے گا۔ اپنی آنکھیں نیچے کیے ہوئے قبروں سے نکل پڑیں گے جیسے ٹڈیاں پھیل پڑی ہوں۔

آیت 7 کا اختتام قیامت کے دن کافروں کے انجام کو بیان کرتے ہوئے ہوا ہے اور انہیں بکھری ہوئی ٹڈی دل سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اگر میں اپنا محاسبہ کروں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں اس دنیا میں اسی طرح کا کمتر وجود لیے آباد ہوں۔ اگر قرآنی آیات (نباء) مجھ پر گہرا اثر نہیں ڈالتی ہیں، اگر میں حكمةٌ بالغة کو حکمت اخذ کرنے کے بجائے محض ماضی کی اقوام کے تاریخی واقعات کے طور پر دیکھوں، تو مجھ میں اور اس ٹڈی میں کیا فرق ہے؟
اگر قرآنی احکام مجھے نفسانی خواہشات کی پیروی سے روکنے میں ناکام رہتے ہیں یا صرف وقتی طور پر مجھ پر اثر انداز ہوتے ہیں، تو مجھے غور کرنا چاہیے کیا میں حکمۃ بالغۃ مل چکنے کے باوجود زندگی کی مہلت کو ضائع نہیں تو نہیں کر رہی؟
کیا میں نے رب تعالی کی کی طاقت کو نظر انداز کر دیا ہے؟ اللہ تعالی نے مجھے انسان پیدا کیا ہے عزت و تکریم عطا فرمائی ہے میں کیوں ایک ٹڈی کے مماثل بن رہی ہوں جس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا؟
گزشتہ اقوام کے عبرت ناک انجام پڑھ اور دیکھ لینے کے بعد بھی میں انہیں کے نقش قدم پر تو نہیں چل رہی کہ جس کا انجام ٹڈیوں جیسا ہی ہے؟
اللہ رب العزت ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے اور ہم سب کو اس کی حکمت (حكمة بالغة) کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
آج جیسے ہی تلاوت کے لیے قرآن کریم کھولا تو سورۃ الحاقۃ پر آ رکی۔ ہار جیت کی کہانی، کامیابی اور ناکامی کو بیان کرتی خوبصورت سورۃ۔
میرا تھریٹکل فزکس کا دوسرا سمسٹر تھا۔ نتیجے کا دن تھا۔ صبح کے سات بجے میں گھر پر تھی ایک طرف میرے بابا بیٹھے تھے دوسری طرف بڑے بھائی صاحب۔ سب انتظار میں تھے کہ کیا رزلٹ آتا ہے۔ جیسے ہی رجسٹریشن نمبر اینٹر کیا اور رزلٹ دیکھا تو حیران کن نتیجہ۔۔۔۔!!!
میں نے بہت اعلی جی پی اے کے ساتھ اپنے کالج میں دوسرے سمسٹر میں ٹاپ کیا تھا۔ میں نے نہ جانے کتنی بار اپنا نتیجہ دیکھا ہاں میرا ہی تھا۔ والد صاحب نے شاندار دعوت کا انتظام کیا اور سب میرا من پسند مینیو رکھا۔ سب نے بہت حوصلہ افزائی کی۔ یقینا وہ دن ایک شاندار دن تھا۔
لیکن یہاں اسلامک یونیورسٹی میں اسلامک سٹڈیز میں ماسٹر شروع کیا تو پہلے ہی سمسٹر میں بری طرح ناکام رہی۔ پھر کوشش کی۔ لیکن جب آخری سمسٹر میں پہنچی تو ایک مضمون میں ناکام ہو گئی۔ ایک مضمون تھا دوبارہ داخلہ بھیجا امتحان دیا اور ماسٹرز کی ڈگری مکمل ہو گئی۔
لیکن اس ناکامی پر جو شرمندگی ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ سب نے یہی کہا اگر محنت کرتی تو کامیاب ہو جاتی۔ کم از کم پاسنگ مارکس ہی لے لیتی فیل تو نہ ہوتی۔
یہ آیات میرے تجربہ کو بہت اچھے سے بیان کر تی ہیں۔
فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ فَیَقُوۡلُ ہَآؤُمُ اقۡرَءُوۡا کِتٰبِیَہۡ ﴿ۚ۱۹﴾ اِنِّیۡ ظَنَنۡتُ اَنِّیۡ مُلٰقٍ حِسَابِیَہۡ ﴿ۚ۲۰﴾ فَہُوَ فِیۡ عِیۡشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ ﴿ۙ۲۱﴾ فِیۡ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ ﴿ۙ۲۲﴾ قُطُوۡفُہَا دَانِیَۃٌ ﴿۲۳﴾ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا ہَنِیۡٓـئًۢا بِمَاۤ اَسۡلَفۡتُمۡ فِی الۡاَیَّامِ الۡخَالِیَۃِ ﴿۲۴﴾
اب جس کا اعمال نامہ اسکے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ دوسروں سے کہے گا کہ لیجئے میرا نامہ اعمال پڑھیے۔مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب کتاب ضرور ملے گا۔ پس وہ شخص من مانے عیش میں ہو گا۔ یعنی اونچے باغ میں۔ جس کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے۔ان سے کہا جائے گا کہ جو اعمال تم ایّام گذشتہ میں آگے بھیج چکے ہو ان کے عوض مزے سے کھاؤ اور پیو۔
وَ اَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِشِمَالِہٖ ۬ۙ فَیَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ لَمۡ اُوۡتَ کِتٰبِیَہۡ ﴿ۚ۲۵﴾ وَ لَمۡ اَدۡرِ مَا حِسَابِیَہۡ ﴿ۚ۲۶﴾ یٰلَیۡتَہَا کَانَتِ الۡقَاضِیَۃَ ﴿ۚ۲۷﴾ مَاۤ اَغۡنٰی عَنِّیۡ مَالِیَہۡ ﴿ۚ۲۸﴾ ہَلَکَ عَنِّیۡ سُلۡطٰنِیَہۡ ﴿ۚ۲۹﴾ خُذُوۡہُ فَغُلُّوۡہُ ﴿ۙ۳۰﴾ ثُمَّ الۡجَحِیۡمَ صَلُّوۡہُ ﴿ۙ۳۱﴾ ثُمَّ فِیۡ سِلۡسِلَۃٍ ذَرۡعُہَا سَبۡعُوۡنَ ذِرَاعًا فَاسۡلُکُوۡہُ ﴿ؕ۳۲﴾
اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائےگا تو وہ کہے گا اے کاش مجھ کو میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا۔ اور مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ اے کاش موت میرا کام تمام کر چکی ہوتی۔ آج میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا۔ مجھ سے میرا اقتدار جاتا رہا۔ حکم ہو گا کہ اسے پکڑ لو اب اسے طوق پہنا دو۔ پھر دوزخ کی آگ میں اسے جھونک دو۔ پھر زنجیر سے جس کی لمبائی ستر گز ہے جکڑ دو۔

ان آیت کو پڑھ کر بے اختیار یہ واقعات ذہن میں آ گئے۔ خود سے سوال کیا
سب سے بڑے امتحان میں پاس ہونے کے لیے میں نے کتنی تیاری کی ہے؟
کیا میں اصحاب الیمین میں سے ہوں گی؟ یا میرا انجام اصحاب الشمال کے ساتھ ہو گا؟
کیا مجھے یقین ہے مجھے میرا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا؟ یا بائیں ہاتھ تھمایا جائے گا؟
کیا میں بخوشی کامیابی کا نعرہ بلند کر سکوں گی یا مر مٹ جانے کی تمنا کروں گی؟
کیا اللہ تعالی جنت میں میری پسند کے مطابق مہمان نوازی کریں گے؟ یا دوزخ میں زقوم اور کھولتا پانی اور پیپ سے پیٹ بھروں گی؟
کیا مجھے جنت کی طرف ایک وفد کی شکل میں لے جائے گا یا جہنم کی جانب دھتکارتے ہوئے ہانکا جائے گا؟
ان سب سوالوں کے جواب میری اس زندگی کے اعمال طے کریں گے۔
اللہ تعالی ہم سب کو اعمال صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
وَكَانُوا۟ يَنْحِتُونَ مِنَ ٱلْجِبَالِ بُيُوتًا ءَامِنِينَ (سورۃ الحجر آیت 82)
فَأَخَذَتْهُمُ ٱلصَّيْحَةُ مُصْبِحِينَ(سورۃ الحجر آیت 83)
قوم ثمود کے لوگ قوی الجسامت، لمبی عمر والے اور ماہر انجنئیرقسم کے لوگ تھے۔ پتھروں کو تراش کر گھر بناتے اور یہ گھر اتنے مضبوط ہوتے کہ ان پر ارضی و سماوی آفات مثلا زلزلہ، سیلاب ، طوفان اور بادوباراں وغیرہ کا اثر نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالی نے اس قوم کو نہایت حیرت انگیز طریقے سے ہلاک کیا۔اور اس حیرت انگیز طریقے کے سامنے ان کی مہارت بے کار ثابت ہوئی۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے انہیں "صیحہ" سے ہلاک کیا ۔
صیحہ کیا ہوتا ہے؟
آواز پھاڑ پھاڑ کر چلانا، صور پھونکنے کی آواز، ایسی آواز جس سے دل دہل جائیں، گرج دار آواز، دھماکہ، یعنی جب کسی بھی آواز میں شدت پیدا ہو جائے۔ ہر بے معنی اور بلند آواز کو صیحۃ کہتے ہیں۔
سورۃ الحاقۃ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ (سورۃ الحاقۃ آیت 5)
الطاغیۃ کے لغوی معنی حد سے گزر جانے والی چیز کے ہیں۔ یعنی انتہائی شدت والی چیز۔ طاغیۃ بمعنی حد سے بڑھا ہوا عذاب، طوفان، زبردست کڑک۔
ہماری روز مرہ گفتگو کی آواز میں لاؤڈنس چار فٹ کی دوری سے 50 سے60 dB کے درمیان ہوتی ہے۔ آواز کی لاؤڈنس اگر 80 ڈیسی بیلز (dB)سے زیادہ ہو جائے تو یہ انسانی کان کے پردوں اور اندرونی اعضا کو متاثر کرتی ہے۔
150 dB سے اوپر کی آوازیں جان لیوا مسائل پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ 170-200 dB کے درمیان کی آوازیں اتنی شدید ہیں کہ پلمونری ایمبولزم، پلمونری کنٹوژن اور پھیپھڑوں کے پھٹ جانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اور اگر آواز کی لاؤڈنس 240 dB تک پہنچے تو انسان کا سر پھٹ جاتا ہے۔
185 ڈی بی سے اوپر کی آوازیں (زوردار دھماکے، راکٹ لانچ)اور انفراساؤنڈ خاص طور پر 7 ہرٹز Hzپرانسان کی موت ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالی نے ماہر انجینئرز کی قوم کو "آواز" سے ہلاک کر دیا۔ ان کی انجنئیرنگ میں مہارت انھیں اللہ تعالی کے عذاب سے نہ بچا سکی۔کتنی حیرت کی بات ہے۔
لیکن یہاں یہ بات اہم نہیں ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ سوچنے کی بات ہے یہ کیوں ہوا؟ اللہ تعالی نے ایک پوری قوم کو ایک ہی "صیحۃ" سے کیو ں ہلاک کر دیا؟
اس قوم کی نافرمانیو ں کے سبب۔۔۔ اللہ تعالی کے رسول کو جھٹلانے کے سبب۔۔۔ اللہ تعالی کی آیات کو جھٹلانے کے سبب۔۔۔ حضرت صالح علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کے سبب۔۔۔
اللہ تعالی ہم سب کو قرآن کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہمیں گزشتہ اقوام کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ابھی جب میں نے اپنی نماز مکمل کی تو میں سوچ رہی تھی
پہلے میں نماز کیسے پڑھتی تھی؟ میں نماز کو ایک بوجھ کیوں سمجھتی تھی؟
میری نمازیں اتنی بے اثر کیوں تھیں؟
میری تلاوت کیوں بے اثر تھی؟
میری عبادت ایک مختصر، مشینی رسم، گہرائی اور بغیر غور و فکر کے کیوں تھی؟
میری تلاوت کیوں سطحی رہی؟ میں نے کیوں محض عربی کے فقرے بغیر سمجھے اور جذبہ کے دہرائے؟
بحیثیت مسلمان میں نے اسلام کو سمجھنے میں اتنی دیر کیوں لگائی؟
میں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ غفلت میں کیوں ضائع کیا؟
میرا اسلام صرف ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے تک کیوں محدود تھا؟
صحیح معنوں میں اسلام قبول کیے بغیر مسلمان پیدا ہونا ہی کیوں کافی تھا؟
یہ افسوسناک خیالات مجھ پر حاوی ہو رہے تھے، میری روح کو کھا رہے تھے۔ جیسے مایوسی کے اندھیرے ہر طرف چھا رہے ہوں۔ لیکن اس آیت نے ان سب خیالات کو دور کر دیا۔ یقینا اللہ نے مجھے اپنے ایمان کو زندہ کرنے کے لیے برقرار رکھنے کا موقع دیا ہے، اور میرےزندگی کے آنے والے دنوں کے لیے اس آیت کو رہنما بنایا ہے۔
وَلَلْءَاخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ ٱلْأُولَىٰ سورة ٩٣ : الضحى الآية: ٤
اس آیت میں مجھے نہ صرف امید دیتی ہے بلکہ یہ آیت میری دعاؤں کی عکس بھی ہے۔ میں نے دل سے دعا کی کہ:
میری آنے والی نمازیں میری پچھلی نمازوں سے زیادہ اچھی اور خشوع و خضوع سے بھرپور ہوں۔
میری آنے والی دعائیں میری پچھلی دعاؤں سے زیادہ اچھی ہوں۔
میری مستقبل کی تلاوتیں میرے ماضی سے زیادہ اچھی ہوں۔
میرےزندگی آنے والے دن گزرے ہوئے دنوں سے کہیں زیادہ اعمال صالح پر مشتمل ہوں۔
میرے مستقبل کے اعمال میرے ماضی کے اعمال سےاچھے ہوں۔
میری آنے والی زندگی میرے رب کو میری پچھلی زندگی سے زیادہ پسند ہو۔
اللہ کرے کہ ہمارے باقی دن ہمارےگزشتہ غفلت میں گزرے دنوں میں بہترین ہوں۔ آمین
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ (سورۃ النساء آیت 14)
لوگوں کے لیے آراستہ کی گئی ان خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ جیتی دنیا کی پونجی ہے اور اللہ ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا۔
محبت یعنی قلبی میلان کا کسی چیز کی طرف ہونا۔ یہ میلان خواہ اللہ کی ذات کی طرف ہو یا مادی اشیاء کی طرف۔
محبت لفظ حبّ سے ہے۔ عربی زبان میں حبّ اور حبّۃ جو یا گندم کے دانے کو بھی کہتے ہیں۔ حبّ (دانہ) جب زمین میں جاتا ہے تو زمین اس کی کتنی دیکھ بھال کرتی ہے اسے پنپنے دیتی ہے اس کی جڑیں خود میں بڑھنے دیتی ہیں تا کہ یہ مضبوط درخت بن سکے۔ جب ہمارا قلبی میلان کسی کی طرف بڑھتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے خواہ اللہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہو یا دنیاوی محبت یا ہماری خواہشات سے محبت۔ دل بھی اسی زمین کی طرح بن جاتا ہے خوب خوب اس دانے (محبت) کی نشو و نما ہوتی ہے۔ اور دانہ جس چیز کا زمین میں جائے گا وہی فصل اگے گی۔
یہ آیت مجھے سوچنے پر مجبور کرتی ہے میرے دل میں کس کی محبت آراستہ ہے؟ کیا میرے دل میں ڈھیر سارےسونے چاندی، بہت پیارا اور بڑا سا گھر، بہت سارے زیوارت کی محبت ہے؟
کیا میرے دل میں اپنی خواہشات کی محبت ہے یا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی؟
کیا میرے دل میں اپنے شوہر، والدین، بہن بھائیوں سے محبت، اللہ کی محبت سے بڑھ کر ہے؟
کیا میرے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے زیادہ دنیاوی فائدوں سے محبت ہے؟
کیا میرے دل میں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے بڑھ کر دنیا کی محبت ہے؟
لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“۔
اللہ تعالی میرے دل میں سب دنیا کی محبت سے بڑھ کر اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت ڈال دے۔ ہم سب کو اللہ اور رسول کی سچی محبت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اللہ تعالی نےحضرت آدم علیہ السلام کوجہاں ساری جنت سے بغیر روک ٹوک کھانے کا کہا تھا وہیں ایک "شجر ممنوعہ" کا پھل کھانے سے منع فرمایا تھا۔ بقیہ ساری جنت میں جیسے چاہیں کھائیں لیکن اس شجر کے پاس بھی نہیں پھٹکنا۔ یہ "شجر ممنوعہ"اللہ تعالی کی طرف سے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے ایک حد تھی جس کی خلاف ورزی کرنامنع تھا۔ لیکن حضرت آدم علیہ السلام کو شیطان نے بہکا دیا۔ فرشتہ بن جانے اور ہمیشگی کا لالچ دیااور انھوں نے اس شجر ممنوعہ کو چکھ لیا۔ شیطان نے حضرت آدم اور حضرت حوا علیھما السلام کو بے لباس کروا دیا اور جنت سے نکلوا دیا۔
اس "شجر ممنوعہ" سے ہمارا ہر روز واسطہ پڑتا ہے۔
ہمارے روز مرہ کی بہت ساری چیزیں ہیں جن سے ہمیں روکا گیا ہے۔ جن کے ارتکاب پر سزا ہے۔ وعید ہے۔
چھوٹی چھوٹی باتوں میں جھوٹ "شجر ممنوعہ"۔
غیبت "شجر ممنوعہ"۔
حسد "شجر ممنوعہ"۔
تفاخر "شجر ممنوعہ"۔
تکبر "شجر ممنوعہ"۔
چیزوں میں ملاوٹ "شجر ممنوعہ"۔
کسی کا حق مار لینا یا کم دینا "شجر ممنوعہ"۔
اور بہت سارے روزمرہ کے "شجر ممنوعہ"۔ جن کا بہت کوششوں کے باوجود مجھ سے ارتکاب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے صرف ایک بار غلطی پر حضرت آدم کو جنت سے نکال دیا سب کو اس جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا۔ اللہ تعالی مجھ سے کتنا ناراض ہوتا ہو گا نہ۔
لیکن حضرت آدم نے اپنی غلطی پر اصرار نہیں کیا فورا معافی مانگ لی۔ حضرت آدم نے دعا فرمائی:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (سورۃ الاعراف آیت 23)
اور اللہ تعالی نے بھی ان پر نظر کرم فرمایا ان کی توبہ قبول فرما لی۔
اللہ تعالی ہمارے ہر روز کے تمام چھوٹے بڑے گناہوں، غلطیوں سے درگزر فرمائے۔ ہم سب پر رحم فرمائے۔ آمین!
 
Last edited:

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
آج میں اپنے کمرے میں بیٹھی لیپ ٹاپ پر اپنا کام کر رہی تھی کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ صرف لیپ ٹاپ کی روشنی تھی جسے میں نے بند کر دیا۔ اور کمرے میں بالکل اندھیرا چھا گیا۔ پچ بلیک۔۔۔
میں کچھ نہیں دیکھ سک رہی تھی۔ اگرچہ یہ میرا اپنا کمرہ تھا لیکن مجھ میں حرکت کی ہمت نہیں تھی اس خوف سے کہ کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ہم ایک نامعلوم وقت کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔۔۔ جب اسی طرح اندھیرا ہوگا یا شاید اس سے بھی بدتر۔۔۔ پچ بلیک سے بھی آگے۔۔۔
جب میں۔۔۔ اور آپ۔۔۔ اور تمام بنی نوع انسان۔۔۔ اندھیرے میں، ایک پل کے سامنے جمع ہوں گے۔۔۔
ایک پل جو تلوار سے تیز اور بالوں سے زیادہ پتلا ہے۔۔۔
ایک پل جسے "پل صراط" کہا جاتا ہے۔۔۔ جہنم کی آگ پر پل۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اس پل کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ایک پھسلنے کا مقام ہو گا وہاں آنکڑے ہوں گے اور کانٹے جیسے نجد میں ایک کانٹا پایا جاتا ہے، جس کو سعدان کہتے ہیں یعنی (ٹیڑھے سر والا)، مؤمن اس پر سے گزریں گے بعض پلک جھپکنے کی سی تیز رفتاری میں، بعض بجلی کی طرح، بعض پرندے کی مانند، بعض تیز گھوڑوں کی طرح، بعض اونٹوں کی طرح اور بعض بالکل جہنم سے بچ کر پار ہو جائیں گے، اور بعض کچھ صدمہ اٹھائیں گے لیکن پار ہو جائیں گے اور بعض صدمہ اٹھا کر جہنم میں گر جائیں گے۔" (صحیح مسلم كتاب الإيمان، باب معرفة طريق الرؤية، ١ / ١٦٧، رقم الحديث: ١٨٣)
حکم ہوگا کہ ہم سب اس پل پر سے گزریں۔ اور ہمارے پاس اپنے مالک و مالک رب العالمین کے حکم کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ لیکن یہ انتہائی تاریک ہو گا، تاریک سے تاریک تر، جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اور اس ہولناک دن ہم سب بے چین ہوں گے، کچھ بھی کرنے کے لیے،کوئی ایسی روشنی حاصل کرنے کے لیے جس سے ہم اس صراط کو دیکھ سکیں، اسے عبور کر سکیں۔ ہمیں روشنی چاہیے ہوگی۔
لیکن، کیا ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ روشنی صرف اس نور ایمان کے مطابق ہوگی جو اس دنیا میں ہمارے دل میں تھی۔
اگر ہمارا ایمان مضبوط تھا، تو یہ روشنی بھی مضبوط اور روشن ہوگی۔ اور اگر ایمان کمزور تھا تو یہ روشنی بھی کمزور، مدھم، کمزور اور کمزور ہوگی۔
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں کہا ہے:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان میں بعض کا نور پہاڑوں کے برابر ہو گا اور بعض کا کھجوروں کے درختوں کے برابر اور بعض کا کھڑے انسان کے قد کے برابر سب سے کم نور جس گنہگار مومن کا ہو گا اس کے پیر کے انگوٹھے پر نور ہو گا جو کبھی روشن ہوتا ہو گا اور کبھی بجھ جاتا ہو گا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:672/11] ‏
اگر ہم نے نیکی اور تقویٰ کی زندگی گزاری، اسلام کے مطابق، اللہ سبحانہ و تعالی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے، اسے توبہ کرتے ہوئے، اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے، اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے، اس کے غضب سے ڈرتے ہوئے، اس کی نافرمانی نہ کرنے کا خیال رکھتے ہوئے تو ان شاء اللہ ہمارے لیے خوشخبری ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارا راستہ پل صراط پر اسی طرح منور کرے گا جس طرح اس نے اس دنیا میں ہمارے دلوں کو ہدایت اور راستبازی سے منور کیا۔
لیکن۔۔۔!
اگر ہم نے رب العالمین کی نافرمانی کی جرأت کی، خواہشات کی پیروی کی، حرام کمائی، جھوٹ بولنا، دھوکہ دہی، غیبت کرنا، ہر قسم کے گناہوں میں ملوث ہونا اور آخرت کو بھول جانا، تو اعمال کے اعتبار سے نور مدھم اور کمزور ہوگا۔
ایسی صورت حال میں ایک شخص کی مایوسی، مایوسی اور ناامیدی کا تصور کریں!
مکمل، سراسر اندھیرا۔۔۔ اور ایک پل، جسے اسے عبور کرنا ہے۔۔۔ ایک پل بال کی طرح باریک اور پھسلن والا اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز، جہنم کی آگ پر پھیلا ہوا۔۔۔ اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا! اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے۔
افسوس۔۔۔ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
لیکن، ہمارے لیے زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ ہمارے پاس ابھی بھی وقت ہے۔ اب بھی اپنی روشنی کو بڑا اور مضبوط بنانے کا موقع ہے۔ ہمیں بس اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے اور صدق دل سے توبہ کرنی ہے۔ جس چیز کا اللہ سبحانہ و تعالی نے حکم دیا ہے اس کی اطاعت کرنی اور جس سے روکا ہے اس سے دور رہنا ہے۔ تقوی اختیار کرنا ہے۔ اور یقننا اللہ تعالی ہمارے دلوں کو ایمان سے منور کر دے گا، اس دنیا میں ہماری زندگی کو منور کر دے گا اور پل صراط سے جنت تک کا راستہ روشن کر دے گا۔
رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(سورۃ تحریم آیت 8)
اے ہمارے رب!ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں بخش دے، بیشک تو ہر چیز پرخوب قادرہے۔"

اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن کی روشنی پہاڑ سے زیادہ اور سورج سے زیادہ روشن ہے۔ آمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
کچن میں مٹھائی کی پلیٹ بغیر کور کیے رہ گئی تھی اور تھوڑی دیر بعد پلیٹ میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کا انبار لگ گیا۔ ایک قطار میں پلیٹ تک ان کی آمد و رفت جاری تھی۔ کتنا نظم ہوتا نہ اس چھوٹی سی مخلوق میں۔۔۔!
تین طرح کی چیونٹیاں تھیں۔ ایک بہت باریک، ایک اس سے بڑی، اور ایک بڑی اور موٹی سی۔ کافی انہماک سے انہیں دیکھ رہی تھی اور ساتھ سوچ رہی تھی کہ انہیں میں کتنی بڑی دکھائی دے رہی ہوں گی؟ شاید ایک مونسٹر۔۔۔ انسانی مونسٹر۔۔۔ ہاہاہا
یہ آیت جب بھی میرے مطالعہ میں آتی ہے ہر بار سوچتی ہوں اللہ تعالی کا عرش کتنا عظیم ہو گا اور اس کے سامنے انسان کتنی چھوٹی مخلوق ہے؟
ایک ایٹم 30 سے 300 پیکو میٹر کا ہوتا ہے۔ یعنی ایک میٹر کا 10 ارب حصہ۔ تقریباً 100 ٹریلیئن ایٹمز سے مل کر ایک سیل بنتا ہے۔ قریبا 20 میلین سیلز سے ایک چیونٹی بنتی ہے۔
انسان تقریباً چیونٹی سے 750 گنا بڑا ہے۔ زمین کا قطر ایک انسان کی لمبائی سے 4400 گنا بڑا ہے۔ ہمارے اس سیارے زمین میں 49 چاند فٹ آ سکتے ہیں۔ سولر سسٹم کے سب سے بڑے سیارے جیوپیٹر میں 318 زمینیں سما سکتی ہیں۔ اس سے آگے سورج۔۔۔ سورج میں تیرہ لاکھ زمین کے سائز کے سیارے فٹ آ سکتے ہیں۔ ہماری گلیکسی "ملکی وے" میں تقریباً 150 سے 240 میلین سولر سسٹم ہیں۔ یا اس سے بھی زیادہ۔۔۔ ملکی وے کا قطر ایک لاکھ نوری سال ہے۔
اب تک کی سب سے بڑی گلیکسی "ایکلیانس" ہماری گلیکسی سے 160 نوری سال بڑی ہے۔
اور نہ جانے کتنی بڑی بڑی گلیکسیز موجود ہوں گی۔ اس سے آگے سات آسمان کتنے بڑے ہوں گے۔۔۔!
ارشاد باری ہے:
وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ (سورۃ البقرۃ آیت 255)
روایات میں آتا ہے ساتوں آسمان کرسی کے آگے ایسے ہیں جیسے صحرا میں ایک چھلا پڑا ہو اور عرش کرسی کے مقابلے میں اتنا بڑا ہے جیسے چھلے کے مقابلے میں صحرا۔ (کتاب العظمۃ، ص83، حدیث:208)
اللہ اکبر کبیرا! اتنی وسعت۔۔۔!
اللہ تعالی کو ہم کیسے نظر آتے ہوں گے؟ ایک ایٹم یا اس سے بھی چھوٹے۔۔۔!
ہم کتنے چھوٹے ہیں۔۔۔!
 
Last edited:

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ہم سب کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہر چیز میں سکوت ساچھا جاتا ہے۔۔۔
ہمارے سامنے ہمیں اپنی جان سے عزیز لوگ زندگی اور موت کی کشمکش کے درمیان ہوتے ہیں۔۔۔
ہم اپنے ماضی پہ نادم ہوتے ہیں پر مستقبل کی طرف قدم بڑھانے کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔ ۔۔۔
ہمارے بس میں تھک ہار کر بیٹھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔۔۔
اس تھکن میں ہم اپنے پیاروں کے لیے کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔۔۔زندگی میں ہر طرف سیاہ اندھیرے محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن ان سیاہ اندھیروں میں بھی ہمارا کریم رب ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔۔ ہم سے کہتا ہے۔۔۔
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ؕاُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ
شہہ رگ سے بھی قریب اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات ہمیں کہتی ہے میں قریب ہی ہوں مجھے پکار کر تو دیکھو۔۔۔ تب ہم اپنے رحمان و رحیم رب سے دعا کرتے ہیں۔۔۔ اس خیر کی جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔۔۔
ہم نہیں جانتے ہمیں کس خیر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہم تو حالات کے آگے گم سم بیٹھےہوتے ہیں۔۔۔ خود کو اپنے ہی شر سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔۔ ایسے میں اگر دعا بھی مانگیں تو جھجھک ہوتی ہے کہ پھر سے کوئی شر ہی نہ مانگ لیں۔ پر رب باری تعالی تو جانتا ہے ہمیں کیا چاہیے۔۔۔ اسی کے سامنے اپنی فقیری اور محتاجی کا کھل کے اظہار کرتے۔۔۔ اور اس خیر کے طلب گار ہوتے ہیں جو ہمارے لیے بہترین ہوتی ہے۔۔۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
آج صبح میرے ساتھ ایک بہت عجیب واقعہ پیش آیا۔ جیسے ہی پانی کا نل کھولا پانی غائب۔۔۔!!! رات کو سونے پہلے پانی کی ٹینکی بھر ی جا چکی تھی۔۔۔ ایک رات میں اتنا پانی کوئی استعمال نہیں کر سکتا تو وہ گیلن پانی کہاں غائب ہوگیا؟ میں نے سوچا اس مسئلے پر بعد میں سوچتی ہوں پہلے دوبارہ پانی بھر لوں۔ لیکن جیسے ہی موٹر کا بٹن آن کیا تو بجلی غائب۔۔۔
قُلْ اَرَاَيْتُـمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَّاْتِيْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِيْنٍ (سورۃ ملک آیت30)
کہہ دو بھلا دیکھو تو سہی اگر تمہارا پانی خشک ہو جائے تو وہ کون ہے جو تمہارے پاس صاف پانی لے آئے گا۔
یہ آیت پہلے بھی کئی بار پڑھی لیکن آج اس آیت نے ایک اور ہی اثر دل و دماغ پر چھوڑا۔ آج اللہ تعالی کی اس نعمت ’’پانی‘‘ کی قیمت کو شکر گزاری اور قدردانی کے جذبات کے ساتھ دل سے تسلیم کیا۔
پلمبر کو بلایا۔ انہوں نے لیکیج تلاش کرنے کے لیے کھدائی شروع کر دی۔ پورے گھر میں ہنگامہ برپا تھا، آج اور کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ سب کچھ پانی پر منحصر ہے۔ بالآخر لیک پائپ کو تلاش کر لیا گیا۔ انتہائی زنگ آلود ہونے کی وجہ سے پائپ ٹوٹ گیا تھا لیکن اس کی مرمت کر دی گئی، پانی کی ٹینکی دوبارہ بھر دی اور زندگی معمول پر آ گئی۔ الحمد للہ!
ایسی ہی کہانی ہمارے ایمان اور علم کے ٹینک کے ساتھ ہوتی ہے۔ کبھی کبھی لیکیج آ جاتی ہے اور ہمیں معلوم تک نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بات کبھی بھی تشویش کا باعث نہیں بنتی۔ ہم قرآن و حدیث کے علم سے اپنے دل و دماغ کے ٹینک کو بھر لیتے ہیں۔۔۔ لیکن اگلے دن جب ہم کسی بھی صورت حال کا سامنا کرتے ہیں، دل و دماغ کا نل کھولتے ہیں تو کچھ نہیں نکلتا۔۔۔ نہ صبر، نہ شکر، نہ دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک۔۔۔ سارا علم کہاں گیا؟ کوئی فکر نہیں؟ دل کی لیکیج ڈھونڈنے کی کوئی کوشش نہیں؟
جس طرح پانی نہ ہونے کی صورت میں زندگی رک جاتی ہے، اسی طرح ایمان نہ ہونے کی صورت میں روح مر جاتی ہے۔ ہمارے دین اور دنیا کی بقا کا انحصار اسی پر ہے۔ اگر علم عمل میں نہیں آ رہا تو اس کا مطلب ہے کہ لیکیج کا مسئلہ سنگین ہے۔
ہر وہ گناہ جو ہم سے سر زد ہوتا ہے پائپ پر لگے زنگ کی طرح ہوتا ہے۔۔۔ اگر توبہ سے اس کی مرمت نہ کی جائے اور نہ ہی اس کی اصلاح ہو تو یہ ہمارے دل میں ایک دراڑ پیدا کر دیتے ہیں جہاں سے ایمان ٹپکتا رہتا ہے۔۔۔ لیک ہوتا رہتا ہے اور اس کا احساس تک نہیں ہوتا جب تک کہ سنگین صورت حال در پیش نہ آ جائے۔
لہٰذا جب بھی ہم سے کوئی بھول چوک ہو جائے، کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو فوراً اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ ہمیں ایسی بصیرت عطا فرمائے جس سے ہم اپنی غلطیوں کا ادراک کر سکیں۔ اللہ تعالی کی عطا کردہ ہر نعمت گراں قدر ہے۔ بالخصوص ایمان کی نعمت۔۔۔ کہ اگر ملنے کے بعد چھن جائے تو کون یہ نعمت عطا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی اصلاح کر سکیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں دکھائے کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی اور پھر ایمانداری اور خلوص کے ساتھ اللہ سے معافی مانگیں تاکہ ان شگافوں کو ٹھیک کیا جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہمارا ایمان کا حوض بھرا رہے۔ جس طرح اللہ کے علاوہ زیر زمین پانی کوئی نہیں بہا کر لا سکتا اسی طرح ہدایت کا سرچشمہ بھی کسی اور کے ہاتھ میں نہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آسمان کی ایک بہت اہم ذمہ داری کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ۖ وَهُـمْ عَنْ اٰيَاتِـهَا مُعْرِضُوْنَ (سورۃ الانبیاء آیت 32)
اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، اور وہ آسمان کی نشانیوں سے منہ موڑنے والے ہیں۔
آسمان ایک محفوظ چھت کی طرح بھی کام کر رہا ہے۔ بیسویں صدی میں کی گئی سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔
زمین کے گرد ایٹماسفیئر زندگی کے تسلسل کے لیے اہم کام کرتا ہے۔ بہت سے بڑے اور چھوٹے شہاب ثاقبوں کو زمین کے قریب آتے ہی تباہ کر دیتا ہے تا کہ زمین پر بسنے والے جاندار نقصان پہنچنے سے محفوظ رہیں۔ مزید یہ کہ atmosphere خلا سے آنے والی روشنی کی ان شعاعوں کو فلٹر کرتا ہے جو جانداروں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ Atmosphere کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف بے ضرر اور مفید شعاعوں (نظر آنے والی روشنی، الٹرا وائلٹ روشنی) اور ریڈیو ویووز کو ہی گزرنے دیتا ہے۔ الٹرا وائلٹ شعاعیں، جو صرف جزوی طور پر atmosphere میں داخل ہوتی ہیں، پودوں کے فوٹو سنتھیسز اور تمام جانداروں کی بقا کے لیے بہت اہم ہیں۔ سورج سے خارج ہونے والی شدید الٹرا وائلٹ شعاعوں کی اکثریت atmosphere اوزون تہہ سے فلٹر ہو جاتی ہے۔ الٹرا وائلٹ سپیکٹرم کا صرف ایک محدود اور ضروری حصہ ہی زمین تک پہنچ سکتا ہے۔
آسمان کا حفاظتی کام یہیں ختم نہیں ہوتا۔ atmosphere زمین کو خلاء کی منجمد سردی سے بھی بچاتا ہے، جو کہ تقریباً منفی 270 ڈگری ہے۔
اس کے علاوہ زمین کے میگنیٹک فیلڈ کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایک تہہ جسےVan Allen Belt کہتے ہیں ایک ڈھال کا کام کر رہی ہے۔ اگرVan Allen Belt موجود نہ ہوتی، تو سورج میں لگاتار ہونے والے توانائی کے دھماکے جنہیں solar flares کہتے ہیں زمین کی تمام زندگی کو تباہ کر دیں۔ ایکsolar flares سے تقریباً 10 میلین آتش فشاں پھٹنے جیسے انرجی نکلتی ہے۔
یہ تمام سائنسی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ دنیا ایک خاص طریقے سے محفوظ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس تحفظ کوچودہ صدیاں پہلے قرآن کریم میں بیان کر دیا تھا۔
میں ، آپ ہم سب ہر روز آسمان کی طرف دیکھتے ہیں لیکن آسمان کےاس حفاظتی پہلو کے بارے میں کم و بیش ہی سوچتے ہیں۔ کیا آپ کے ذہن میں بھی کبھی یہ سوال ذہن میں آیا کہ اگر یہ ثقفا محفوظا موجود نہ ہوتا تو دنیا کیسی جگہ ہوتی؟ ہم پر روزانہ نہ جانے کتنے پتھر آ گرتے۔ شاید ہزاروں یا لاکھوں۔۔۔۔۔۔!!! اور زمین ایک نا قابل رہائش جگہ بن جاتی۔ اگرایکsolar flare بھی زمین پر پہنچ جائے تو ہمارا کیا حال ہو؟ بے شک یہ اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے ہماری حفاظت ہے اور قرآن میں بیان کردہ ایک معجزہ ہے۔
 
Top