صلہ رحمی کا مفہوم:۔
رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا۔ یعنی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، اپنی ہمت کے بقدران کامالی تعاون کرنا،ان کی خدمت کرنا، ان کی ملاقات کے لیے جاتے رہنا، وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ ان کےساتھ بہترتعلقات قائم رکھنااوران کی ہم دردی وخیرخواہی کےجذبات سے سرشار رہنا ۔
اصول:۔
اس میں”اصول“ (جیسےوالدہ اور والدہ کے آگے والدین،اسی طرح والد اور والد کےآگےوالدین )اور”فروع“ (جیسے بیٹی اور بیٹی کی آگے اولاد ،نیز بیٹے او ربیٹےکی آگے اولاد)کےساتھ ساتھ قریب وبعید کےباقی تمام رشتہ دار بھی داخل ہیں۔ البتہ جو زیادہ اقرب ہے اُس کا حق مقدم ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
اللہ کے نزدیک مبغوض:۔
اِس کے برخلاف رشتہ ناطہ کو توڑدینا اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک حد درجہ مبغوض ہے۔ نبی اکرم ﷺنے اِرشاد فرمایا:
حقوق رشتہ داری:۔
ہمارے معاشرے میں قطع رحمی بڑھتی جارہی ہے، اچھے دین دار لوگ بھی رشتہ داروں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے۔ جب کہ رشتہ داروں کے شریعت میں بہت سے حقوق بتائے گئے ہیں۔
حدیث میں ہے:
حدیث شریف کی علمی تحقیق کچھ بھی ہو، تاہم اتنی بات یقینی ہے کہ وسعتِ رزق اور درازیٔ عمر کے جملہ اسباب میں صلہ رحمی اور رشتے ناتے کے حقوق کی ادائیگی ایک یقینی سبب ہے جس کو ادا کرکے اپنے رزق اور عمر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
قطعی رحمی کی سزا دنیا وآخرت میں
حدیث میں ہے:
رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا۔ یعنی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، اپنی ہمت کے بقدران کامالی تعاون کرنا،ان کی خدمت کرنا، ان کی ملاقات کے لیے جاتے رہنا، وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ ان کےساتھ بہترتعلقات قائم رکھنااوران کی ہم دردی وخیرخواہی کےجذبات سے سرشار رہنا ۔
اصول:۔
اس میں”اصول“ (جیسےوالدہ اور والدہ کے آگے والدین،اسی طرح والد اور والد کےآگےوالدین )اور”فروع“ (جیسے بیٹی اور بیٹی کی آگے اولاد ،نیز بیٹے او ربیٹےکی آگے اولاد)کےساتھ ساتھ قریب وبعید کےباقی تمام رشتہ دار بھی داخل ہیں۔ البتہ جو زیادہ اقرب ہے اُس کا حق مقدم ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ (20) وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (21) وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (22) جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ (23) سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (24)[الرعد: 20-24]
ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں ،اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا ،اور نماز قائم کی ، اور ہم نے انہیں جو رزق عطا کیا اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا، اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے انجام کا گھر ہوگا، ہمیشہ رہنے کے باغات، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباء، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی، اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے، یہ کہتے ہوئے کہ "سلام ہو تم پر" بسبب تمہارے صبر کرنے کے، سو کیا ہی خوب ہے انجام کا گھر۔
تین صفات والا انسان:۔ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں ،اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا ،اور نماز قائم کی ، اور ہم نے انہیں جو رزق عطا کیا اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا، اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے انجام کا گھر ہوگا، ہمیشہ رہنے کے باغات، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباء، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی، اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے، یہ کہتے ہوئے کہ "سلام ہو تم پر" بسبب تمہارے صبر کرنے کے، سو کیا ہی خوب ہے انجام کا گھر۔
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ حَاسَبَهُ اللهُ حِسَابًا يَسِيرًا وَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: تُعْطِي مَنْ حَرَمَكَ، وَتَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَكَ، وَتَصِلُ مَنْ قَطَعَكَ. قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ، فَمَا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنْ تُحَاسَبَ حِسَابًا يَسِيرًا وَيُدْخِلَكَ اللهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ". (المستدرک علی الصحیحین للحاکم :3912)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپﷺنے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپﷺنے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔
اللہ کے نزدیک مبغوض:۔
اِس کے برخلاف رشتہ ناطہ کو توڑدینا اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک حد درجہ مبغوض ہے۔ نبی اکرم ﷺنے اِرشاد فرمایا:
میدانِ محشر میں رحم (جو رشتہ داری کی بنیاد ہے) عرشِ خداوندی پکڑکر یہ کہے گا کہ جس نے مجھے (دُنیا میں) جوڑے رکھا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے جوڑے گا (یعنی اُس کے ساتھ انعام وکرم کا معاملہ ہوگا) اور جس نے مجھے (دُنیا میں) کاٹا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے کاٹ کر رکھ دے گا (یعنی اُس کو عذاب ہوگا)"۔ (بخاری:5989، مسلم:2555، الترغیب والترہیب:3832)
نیز احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ دُنیا میں بالخصوص دو گناہ ایسے شدید تر ہیں جن کی سزا نہ صرف یہ کہ آخرت میں ہوگی، بلکہ دُنیا میں بھی پیشگی سزا کا ہونا بجا ہے: ایک ظلم، دُوسرے قطع رحمی۔ (ابن ماجہ:4211، ترمذی:2511، الترغیب:3848)حقوق رشتہ داری:۔
ہمارے معاشرے میں قطع رحمی بڑھتی جارہی ہے، اچھے دین دار لوگ بھی رشتہ داروں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے۔ جب کہ رشتہ داروں کے شریعت میں بہت سے حقوق بتائے گئے ہیں۔
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّه وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّـلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللهِ وَاُولٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ [الروم:35]
ترجمہ:”سو (اے مخاطب) تو قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور (اسی طرح) مسکین اور مسافر کو۔ ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب رہتے ہیں اور یہی لوگ تو فلاح پانے والے ہیں“۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:”سو (اے مخاطب) تو قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور (اسی طرح) مسکین اور مسافر کو۔ ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب رہتے ہیں اور یہی لوگ تو فلاح پانے والے ہیں“۔
”خلق الله الخلق، فلما فرغ منه قامت الرحم، فأخذت بحقوي الرحمان، فقال: مه؟ قالت: هذا مقام العائذ بک من القطیعة، قال: ألا ترضین أن أصل من وصلک، وأقطع من قطعک؟ قالت:بلیٰ یا رب! قال فذاک. متفق علیه.“ (مشکوٰة:419)
ترجمہ:”اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کردیا جن پر وہ پیدا ہوں گی، جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہوا، پروردگار نے فرمایا: کہہ کیا چاہتا ہے؟ رحم نے عرض کیا:یہ قطع رحمی کے خوف سے تیری پناہ کے طلب گار کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (یعنی کہ میں تیرے رو برو کھڑا ہوں اور تیرے دامنِ عزت وعظمت کی طرف دستِ سوال دراز کیے ہوئے ہوں، تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتاہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کے بجائے اس کو تار تار کردے)پروردگار نے فرمایا: کیا تو اس پر راضی نہیں ہے جو شخص (رشتہ داری اور عزیزوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ذریعہ) تجھ کو قائم وبرقرار رکھے اور اس کو میں بھی اپنے احسان وانعام اور اجر وبخشش کے ذریعہ قائم وبرقرار رکھوں اور جو شخص رشتہ داری اور حقوق کی پامالی کے ذریعہ تجھ کو منقطع کردے، میں بھی (اپنے احسان وانعام) کا تعلق اس سے منقطع کرلوں؟ رحم نے عرض کیا کہ: پروردگار! بے شک میں اس پر راضی ہوں، پرووردگار نے فرمایا: اچھا تو وعدہ تیرے لیے ثابت وبرقرار ہے“۔
”عن عبد الرحمان بن عوف قال: سمعت رسول الله ﷺ یقول: قال الله تبارک وتعالی: ”أنا الله“ و’’أنا الرحمان‘‘، خلقت الرحم وشققت لها من اسمي، فمن وصلها وصلته ومن قطعها بتته“. (ابوداود، مشکوٰة:420)
ترجمہ:”حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہکہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ وبرتر ارشاد فرماتاہے کہ میں اللہ ہوں ، میں رحمان ہوں (یعنی صفتِ رحمت کے ساتھ متصف ہوں) میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمٰن کے لفظ سے نکالا ہے، لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناتاکے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص سے) جدا کردوں گا“۔ترجمہ:”اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کردیا جن پر وہ پیدا ہوں گی، جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہوا، پروردگار نے فرمایا: کہہ کیا چاہتا ہے؟ رحم نے عرض کیا:یہ قطع رحمی کے خوف سے تیری پناہ کے طلب گار کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (یعنی کہ میں تیرے رو برو کھڑا ہوں اور تیرے دامنِ عزت وعظمت کی طرف دستِ سوال دراز کیے ہوئے ہوں، تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتاہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کے بجائے اس کو تار تار کردے)پروردگار نے فرمایا: کیا تو اس پر راضی نہیں ہے جو شخص (رشتہ داری اور عزیزوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ذریعہ) تجھ کو قائم وبرقرار رکھے اور اس کو میں بھی اپنے احسان وانعام اور اجر وبخشش کے ذریعہ قائم وبرقرار رکھوں اور جو شخص رشتہ داری اور حقوق کی پامالی کے ذریعہ تجھ کو منقطع کردے، میں بھی (اپنے احسان وانعام) کا تعلق اس سے منقطع کرلوں؟ رحم نے عرض کیا کہ: پروردگار! بے شک میں اس پر راضی ہوں، پرووردگار نے فرمایا: اچھا تو وعدہ تیرے لیے ثابت وبرقرار ہے“۔
”عن عبد الرحمان بن عوف قال: سمعت رسول الله ﷺ یقول: قال الله تبارک وتعالی: ”أنا الله“ و’’أنا الرحمان‘‘، خلقت الرحم وشققت لها من اسمي، فمن وصلها وصلته ومن قطعها بتته“. (ابوداود، مشکوٰة:420)
حدیث میں ہے:
”عن أنس قال: قال رسول الله ﷺ من أحب أن یبسط له في رزقه وینسأ له في أثر فلیصل رحمه. متفق علیه.“ (مشکوٰة:419)
ترجمہ:”حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے“۔
جنت میں داخل نہ ہوگا:۔ترجمہ:”حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے“۔
حدیث شریف کی علمی تحقیق کچھ بھی ہو، تاہم اتنی بات یقینی ہے کہ وسعتِ رزق اور درازیٔ عمر کے جملہ اسباب میں صلہ رحمی اور رشتے ناتے کے حقوق کی ادائیگی ایک یقینی سبب ہے جس کو ادا کرکے اپنے رزق اور عمر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
قطعی رحمی کی سزا دنیا وآخرت میں
حدیث میں ہے:
”عن جبیر بن مطعم قال: قال رسول الله ﷺ لایدخل الجنة قاطع. متفق علیه.“ (مشکوٰة:419)
ترجمہ:”حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا“۔”عن أبي بکرة قال: قال رسول الله ﷺ ما من ذنب أحریٰ أن یعجل الله لصاحبه العقوبة في الدنیا مع ما یدخرله في الآخرة من البغي وقطیعة الرحم“. (أبوداود وترمذي، مشکوٰة:420)
ترجمہ:”حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دے اور (مرتکب کو) آخرت میں بھی دینے کے لیے (اس سزا) کو اٹھا رکھے، ہاں دوگناہ اس بات کے لائق ہیں: ایک تو زنا کرنا اور دوسرا ناتا توڑنا“۔