یہ آج سے تقریبا تیس برس پہلے کی بات ہے، تب نہ انٹر نیٹ کی نیرنگیاں تھیں اور نہ سوشل میڈیا کا یہ منھ زور طوفان، وقت گزاری کے لیے لوگ تاش کے پتوں سے دل بہلاتے، نئی عمر کے لڑکے گلی ڈنڈا،چور سپاہی، زمین پر نشان کھینچ کر گوٹیوں کا کھیل، کبڈی، باغ باغیچوں میں جھولا جھول کر، تالاب کے پانی میں نہا کر اپنے ذوق کی تسکین کیا کرتے تھے، جو لوگ کچھ پڑھے لکھے اور باشعور ہوتے، وہ بیت بازی، قصے کہانی پڑھ اور سن کر وقت کو مفید بنانے کی کوشش کرتے، رات میں دادی اور نانی کا پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو قصے سنانا ایک معمول کی بات تھی۔
اسی زمانے کی بات ہے،عمریہی کوئی دس بارہ سال رہی ہوگی۔ اب یاد نہیں کہ پرائمری دوم کا سال تھا یا سوم کا، مطالعے کا ایسا چسکا پڑ گیا کہ بغیر مطالعے کے قرار نہ ہوتا تھا، گھر میں کتابوں کا ذخیرہ کیا تھا؟ بڑے بھائیوں کی درجہ پرائمری پنجم تک کی پڑھی ہوئی کتابیں!!! ابر رحمت اردو، ہماری پوتھی ہندی، جغرافیہ، ہماری سائنس، ہمارا سماج، غرض اردو، ہندی کی جتنی کتابیں تھیں، چند دن میں پڑھ ڈالیں، ذخیرہ کے نام پر بس یہی چند کتابیں تھیں، جو ختم ہوگئیں، اب تلاش تھی کسی نئی کتاب کی۔ بڑے بھائی عربی دوم پڑھتے تھے، انھوں نے فارسی کی کچھ کتابیں خرید رکھی تھیں، ان کتابوں کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو نامانوس اور ناقابل فہم معلوم ہوئیں۔ گلستاں، بوستاں کے حاشیہ پر نمایاں خط میں ’’ب‘‘ لکھا ہوا دیکھتا، خوشی ہوتی کہ ایک مانوس حرف ملا، مگر حوض میں کودتا، تو پھر وہی نامانوس الفاظ پیش نظر ہوتے، تعجب ہوتا کہ اردو (فارسی رسم الخط) میں لکھے ہوئے الفاظ سمجھ میں کیوں نہیں آتے؟ اس وقت تک اتنا شعور نہیں تھا کہ اردو سے الگ یہ کوئی اور زبان ہے۔
گلستاں کے حاشیہ پر کبھی دوچار سطر اردو پڑھنے کو مل جاتی، تو بڑی خوشی ہوتی، (دراصل وہ مختصر الفاظ میں حکایت کا خلاصہ لکھا ہوا ہے) مگر پھر وہی نامانوس الفاظ سدِّ راہ ہوتے … پھر ان کتابوں کو ان کی اپنی جگہ اٹھا کر رکھ دیا۔ مگر پیاس اور بڑھ گئی کہ کیا پڑھیں؟؟؟
کسی طرح چند دنوں میں کچھ پیسے جمع کیے اور چوراہے پر کتاب کی ایک دوکان پر پہنچ گیا، دوکان دار (اسلم چچا) نے کچھ کتابوں کو ڈوری کی ایک الگنی پر الٹا لٹکا رکھا تھا، اردو کی ایک کتاب پر نظر پڑی، جس کا نام تھا ’’مسلمان خاوند‘‘ ۔ مجھے تو پڑھنے کے لیے اردو کتاب چاہیے تھی اور کسی کتاب کا نام ذہن میں تھا نہیں، لہذا میں نے اسی کتاب کو طلب کیا، قیمت ادا کرکے خوش خوش کتاب گھر لے آیا اور مطالعہ میں منہمک ہوگیا، حالاں کہ اس عمر اور صلاحیت کے اعتبار سے کتاب اونچے درجے کی تھی اور اس کے بعض مضامین (مثلا: عزل وغیرہ کا مسئلہ) ناقابل فہم تھے، لیکن چوں کہ اردو میں تھے، اس لیے سب پڑھ ڈالی۔
جب یہ کتاب ختم ہوگئی تو دوسری کی تلاش ہوئی، پھر پیسے جوڑنے شروع کیے اور چند دنوں بعد کتاب کی ایک دوسری دوکان پر پہنچا (وِدِّھیارتی، بک ڈپو) ان کے پاس انگریزی نصاب کی کتابیں تھیں، میں نے ان سے اردو کی کوئی کتاب طلب کی، تو انھوں نے اردو میں لکھی گئی سائنس کی ایک ابتدائی کتاب تھمادی، اس میں تصویروں کی مدد سے سائنس کی بنیادی معلومات سمجھائی گئی تھیں، مثلا: دنیا گول ہے، اس کی گردش اور اس کے سبب رات و دن کا آنا جانا وغیرہ۔ چاند نکلتا ہے تو پتلا دبلا رہتا ہے، پھر پھیلتا چلا جاتا ہے، یہ کیوں کر اور کیسے ہوتا ہے؟ اس قسم کی بہت سی دل چسپ معلومات!!!
یہ کتاب بڑی دل چسپ ثابت ہوئی اور جلد ہی ختم ہوگئی، اس کے مضامین کو متعدد مرتبہ پڑھا اور پڑھ کر عملی طور پر برتنے کی کوشش کی، جس میں کبھی کامیاب رہا، کبھی ناکام۔ اس دوران ہوا یہ کہ بڑے بھائی ممبئی سے گھر آمد پر ممبئی سے نکلنے والے مشہور اردو اخبارات (اردو ٹائمز، انقلاب اردو) کا پرانا ذخیرہ گھر لے آئے، اب جب بھی گھر آمد ہوتی، اخبارات کا اچھا خاصا ذخیرہ لے آتے اور اس طرح کچھ دنوں کی خوراک کا انتظام ہوجاتا۔
جاری ہے۔۔۔۔
اسی زمانے کی بات ہے،عمریہی کوئی دس بارہ سال رہی ہوگی۔ اب یاد نہیں کہ پرائمری دوم کا سال تھا یا سوم کا، مطالعے کا ایسا چسکا پڑ گیا کہ بغیر مطالعے کے قرار نہ ہوتا تھا، گھر میں کتابوں کا ذخیرہ کیا تھا؟ بڑے بھائیوں کی درجہ پرائمری پنجم تک کی پڑھی ہوئی کتابیں!!! ابر رحمت اردو، ہماری پوتھی ہندی، جغرافیہ، ہماری سائنس، ہمارا سماج، غرض اردو، ہندی کی جتنی کتابیں تھیں، چند دن میں پڑھ ڈالیں، ذخیرہ کے نام پر بس یہی چند کتابیں تھیں، جو ختم ہوگئیں، اب تلاش تھی کسی نئی کتاب کی۔ بڑے بھائی عربی دوم پڑھتے تھے، انھوں نے فارسی کی کچھ کتابیں خرید رکھی تھیں، ان کتابوں کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو نامانوس اور ناقابل فہم معلوم ہوئیں۔ گلستاں، بوستاں کے حاشیہ پر نمایاں خط میں ’’ب‘‘ لکھا ہوا دیکھتا، خوشی ہوتی کہ ایک مانوس حرف ملا، مگر حوض میں کودتا، تو پھر وہی نامانوس الفاظ پیش نظر ہوتے، تعجب ہوتا کہ اردو (فارسی رسم الخط) میں لکھے ہوئے الفاظ سمجھ میں کیوں نہیں آتے؟ اس وقت تک اتنا شعور نہیں تھا کہ اردو سے الگ یہ کوئی اور زبان ہے۔
گلستاں کے حاشیہ پر کبھی دوچار سطر اردو پڑھنے کو مل جاتی، تو بڑی خوشی ہوتی، (دراصل وہ مختصر الفاظ میں حکایت کا خلاصہ لکھا ہوا ہے) مگر پھر وہی نامانوس الفاظ سدِّ راہ ہوتے … پھر ان کتابوں کو ان کی اپنی جگہ اٹھا کر رکھ دیا۔ مگر پیاس اور بڑھ گئی کہ کیا پڑھیں؟؟؟
کسی طرح چند دنوں میں کچھ پیسے جمع کیے اور چوراہے پر کتاب کی ایک دوکان پر پہنچ گیا، دوکان دار (اسلم چچا) نے کچھ کتابوں کو ڈوری کی ایک الگنی پر الٹا لٹکا رکھا تھا، اردو کی ایک کتاب پر نظر پڑی، جس کا نام تھا ’’مسلمان خاوند‘‘ ۔ مجھے تو پڑھنے کے لیے اردو کتاب چاہیے تھی اور کسی کتاب کا نام ذہن میں تھا نہیں، لہذا میں نے اسی کتاب کو طلب کیا، قیمت ادا کرکے خوش خوش کتاب گھر لے آیا اور مطالعہ میں منہمک ہوگیا، حالاں کہ اس عمر اور صلاحیت کے اعتبار سے کتاب اونچے درجے کی تھی اور اس کے بعض مضامین (مثلا: عزل وغیرہ کا مسئلہ) ناقابل فہم تھے، لیکن چوں کہ اردو میں تھے، اس لیے سب پڑھ ڈالی۔
جب یہ کتاب ختم ہوگئی تو دوسری کی تلاش ہوئی، پھر پیسے جوڑنے شروع کیے اور چند دنوں بعد کتاب کی ایک دوسری دوکان پر پہنچا (وِدِّھیارتی، بک ڈپو) ان کے پاس انگریزی نصاب کی کتابیں تھیں، میں نے ان سے اردو کی کوئی کتاب طلب کی، تو انھوں نے اردو میں لکھی گئی سائنس کی ایک ابتدائی کتاب تھمادی، اس میں تصویروں کی مدد سے سائنس کی بنیادی معلومات سمجھائی گئی تھیں، مثلا: دنیا گول ہے، اس کی گردش اور اس کے سبب رات و دن کا آنا جانا وغیرہ۔ چاند نکلتا ہے تو پتلا دبلا رہتا ہے، پھر پھیلتا چلا جاتا ہے، یہ کیوں کر اور کیسے ہوتا ہے؟ اس قسم کی بہت سی دل چسپ معلومات!!!
یہ کتاب بڑی دل چسپ ثابت ہوئی اور جلد ہی ختم ہوگئی، اس کے مضامین کو متعدد مرتبہ پڑھا اور پڑھ کر عملی طور پر برتنے کی کوشش کی، جس میں کبھی کامیاب رہا، کبھی ناکام۔ اس دوران ہوا یہ کہ بڑے بھائی ممبئی سے گھر آمد پر ممبئی سے نکلنے والے مشہور اردو اخبارات (اردو ٹائمز، انقلاب اردو) کا پرانا ذخیرہ گھر لے آئے، اب جب بھی گھر آمد ہوتی، اخبارات کا اچھا خاصا ذخیرہ لے آتے اور اس طرح کچھ دنوں کی خوراک کا انتظام ہوجاتا۔
جاری ہے۔۔۔۔