کاغذ کی مہک (۲)

ابنِ سراج قاسمی

وفقہ اللہ
رکن
دن گزرتے رہے، مطالعے کا شوق فزوں تر ہوتا گیا، اب پرائمری پنجم کے اختتام اور حفظ کے آغاز کا زمانہ آگیا، ایک مرتبہ ممبئی سے آمد کے وقت بڑے بھائی نے پوچھا کہ تمہارے واسطے کیا لائیں؟ (یعنی کھانے پینے اور کھیلنے کے سامان) میں نے کتابوں کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ اس مرتبہ اردو اخبارت کے ساتھ چند کتابیں بھی لائے: ’’حجاز کی آندھی‘‘ (دو جلدیں)، ’’ستارہ جو ٹوٹ گیا‘‘ (دو جلدیں): عنایت اللہ التمش۔ ’’اور تلوار ٹوٹ گئی‘‘: راہی حجازی۔ (ایک جلد) ۔۔۔دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ سارے لوگ کھانے پینے کی چیزوں میں مگن تھے اور میں کتابیں کھول کھول کر دیکھ رہا تھا۔ مت پوچھئے کتنی خوشی ہوئی!!!
کتابیں اٹھا کر ایک محفوظ جگہ رکھ دیں اور ترتیب وار ایک ایک کتاب کا مطالعہ شروع کیا، یہ تاریخی ناولیں ایک نیا طرز اور آہنگ لیے ہوئے تھیں، کہانی اور کوئی واقعہ بیان کرنے کا طرز، منظر نگاری، کرداروں کی تصویر کشی، جوں جوں کتاب آگے بڑھتی، واقعات پیچ در پیچ ہوتے چلے جاتے اور تجسس اور سسپنس بڑھتا جاتا۔ پڑھتا اور لطف اٹھاتا!!!
کتاب ہاتھ میں ہوتی تو کھانے کا خیال کس کو ہوتا تھا؟کھانے کا وقت ہوجاتا، پھر بھی کتاب ہاتھ سے نہ چھوٹتی تھی، کھانے کے لیے کئی مرتبہ تقاضا کرنا پڑتا اور پھر ڈانٹ پڑتی، اگر کبھی اکیلے کھانے کا موقع ہوتا، تو نگاہ کھلی ہوئی کتاب کی سطروں کا طواف کرتی اور ہاتھ پلیٹ میں گردش کر رہا ہوتا۔ اس کی وجہ سے کئی مرتبہ ڈانٹ پڑتی، جب ڈانٹ بھی کام نہ کرتی، تو والدہ مرحومہ (اللہ انھیں غریق رحمت فرمائے) کتاب اٹھاکر طاق پر رکھ دیتیں۔ اب یاد نہیں کہ یہ کتابیں کتنے دنوں میں ختم ہوئیں، البتہ ختم ہونے کے بعد میں نے انھیں دوبارہ سہ بارہ پڑھا۔
جب گاؤں کے مدرسہ کی لائبریری ’’آزاد لائبریری‘‘ سے استفادہ کا موقع ملا، تو کتابوں کی ایک نئی دنیا سے آشنا ہوا، مختلف فنون اور انواع و اقسام کی کتابیں!!! گویا قسم قسم کے لذیذ پکوانوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع میسر آیا۔
ایک مرتبہ لائبریری کی بوسیدہ اور کِرم خوردہ کتابیں چھانٹ کر مدرسے کے تالاب کے پاس ڈال دی گئی تھیں، میں نے وہاں سے متعدد قابل استفادہ کتابوں کو چُنا اور ’’مال مفت‘‘ سے ’’بے رحمی‘‘ کے ساتھ استفادہ کیا۔
لائبریری کے توسط سے مختلف قسم کے ماہناموں سے روشناس ہوا، ان میں ایک نمایاں رسالہ ’’کھلونا‘‘ تھا، ماہنامہ ’’کھلونا‘‘ کی کچھ پرانی فائلیں پڑی ہوئی تھیں، ان سے جی بھر کر سیر ہوا، تاریخی ناولیں بھی اس وقت خوب پڑھیں، عنایت اللہ التمش، نسیم حجازی، اسلم راہی۔ ان حضرات کی تحریر کردہ ناولیں خوب پڑھیں اور تھوڑا بہت صادق سردھنوی کو، چوں کہ اس وقت اچھے برے کی تمیز تھی نہیں، اس لیے جو کچھ ملتا، پڑھ ڈالتا۔

سن ۲۰۰۲ء کے آس پاس مدرسہ عربیہ ریاض العلوم، گورینی، جون پور میں عربی سوم میں داخلہ ہوا، وہاں کے پرسکون ماحول، نیک اور صالح فضا، عمدہ اخلاق و کردار کے مالک اساتذہ کرام، نیکی اور تقوی کے پتلے مشائخ عظام، علم و تحقیق کے دریا بہانے والے بعض سلاطین علم و فن، ہم درد و غم خوار ساتھی طلبہ، طلبہ اور اساتذہ کے تئیں ہم دردی اور غم خواری کا جذبہ رکھنے والی اور علم و ہنر کی سر پرستی کرنے والی فعال انتظامیہ۔ ان سب عوامل نے یہاں کے ماحول کو تعلیم و تعلم کے حوالے سے ایسا پُراثر اور پُر بہار بنادیا تھا کہ علم و تحقیق کے شناوروں اور فکر وفن کے جویا لوگوں کو یہاں پہنچ کر ’’چشمہ حیواں‘‘ ملنے کا گمان ہوتا تھا، چنانچہ یہاں آکر تعلیم و تعلم کے ساتھ اور بہت کچھ سیکھنے اور وہاں کے کتب خانے اور طلبہ کی لائبریری سے استفادے کا خوب موقع ہاتھ لگا۔ اور یہ احساس ہوا کہ
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا
دو سال یہاں گزارنے کے بعد جب دار العلوم دیوبند پہنچا، تو پھر تو ایک نئی دنیا دیکھی، ہر مہ و کہ، ہر کس و ناکس، ہر استاذ و طالب علم کو علم و تحقیق اور مطالعہ کا رَسیا پایا، جنھیں دن کا چین و سکون اور راتوں کا آرام کتاب کے رخِ زیبا کو دیکھ کر ہی حاصل ہوتا، گویا علم و تحقیق کی ایک نازنیں ہو، جس کی ناز برداری ہر ایک کا شیوہ اور مشغلہ تھا، احاطہٴ دار العلوم میں مطالعہ و تکرار کی گہما گہمی اور بیرونِ احاطہ کھانے پینے کی دوکانوں کے ساتھ کتب خانوں کی بھرمار، جہاں تشنگان علم کی آمد و رفت اور کتابوں کی خریداری کے لیے ہوڑ لگی ہوئی، خود طلبہٴ دار العلوم، دار العلوم وقف اور دیوبند کے چھوٹے بڑے مدرسے کے طلبہ، اس کے علاوہ ملک و بیرونِ ملک سے کتابوں کی خریداری کے آرڈر، غرض ہر طرف کتابیں اور انھیں کی بو باس نظر آتی تھی۔ ایسے ماحول میں کتابوں سے جتنا لگاؤ، انسیت، کتابوں کا رس کشید کرنے کی جتنی لگن پیدا ہوجائے، قرین قیاس ہے۔ چنانچہ صفہ نبوی سے بہنے والی اس نہر فیاض سے جی بھر کر سیر ہوا۔
توفیق ایزدی شاملِ حال رہی، تو اس حوالے سے مزید خامہ فرسائی ہوگی۔ ان شاء اللہ
 
Top