حضرت احسن بیگ رحمہ اللہ

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت احسن بیگ :اللہ حضور میں

ناصرالدین مظاہری

میں سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کا دل سے معترف ہوں کیونکہ میں نے اپنے استاذ شیخ الادب حضرت مولانا اطہرحسین ؒکو اس سلسلہ کی تعریف میں رطب اللسان دیکھا ہے،اب جب میرے استاذمحترم ہی اس سلسلہ کی تعریف کررہے ہیں تو مجھے نہ تو مزید کچھ فضائل جاننے کی ضرورت رہ جاتی ہے نہ ہی کسی شک اور ابہام کی گنجائش۔

آنکھوں میں بس کے دل میں سماکرچلے گئے:

حضرت شیخ الادب مولانا اطہرحسینؒ نے ایک بار سلسلہ کے عظیم بزرگ حضرت مولانا اللہ یارخانؒ (مؤلف :دلائل السلوک) کا تذکرہ کیا اور پھر فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ’’ میں مولانا کے پاس جاؤں اور پاس انفاس کروں‘‘یہ اُس وقت کی بات ہے جب راقم السطور کو لفظ ’’انفاس‘‘سے بھی واقفیت نہ تھی سوچتا تھاکہ انفاس ،نفس کی جمع ہے توپھر’’پاس انفاس‘‘ کیا چیز ہے؟ شیخ الادب ؒ نہایت بارعب شخصیت تھے، اُن سے اُس زمانہ میں سوال کی ہمت نہیں ہوتی تھی ۔(بعدمیں خود مولانا نے ہی شفقت و مروت کا وہ معاملہ فرمایا کہ میں نے مظاہر علوم کی چہار دیواری میں شاید سب سے زیادہ ان ہی سے اکتساب فیض کیا ہے) پھر دسیوں سال بعد ایک دن دفتر مظاہرعلوم میں سنا گیا کہ سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ کے ایک بڑے بزرگ حضرت احسن بیگ مدظلہ پاکستان سے تشریف لا رہے ہیں۔

پھر حضرت احسن بیگ تشریف لائے تو گویا ’’ آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے‘‘ کیا عجیب بزرگ تھے، خوبصورت وجیہ، پرکشش، با رعب، ذکر خدا میں زبان ہر وقت مصروف ،تسبیح پر انگلیاں ہمہ وقت رینگتی ہوئی، اللہ اللہ سے ان کی زبان ہمہ وقت ہلتی ہوئی، صاف محسوس ہوتا کہ بات کے درمیان بھی ذکر کر رہے ہیں۔

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا:

مسجد اولیاء ( دفتر والی مسجد) میں بین العشائین حضرت احسن بیگ مدظلہ کا خطاب ہونا تھا، مجھے تعجب ہورہا تھاکہ اتنے سارے لوگ کشاں کشاں کیونکر بغیر کسی اعلان و اشتہار کے کہاں سے آتے جارہے ہیں اور پھرمغرب بعد متصلاً حضرت والا کا بیان ہوا، پوری مسجد انسانی ہجوم سے بھری ہوئی، سامعین پر ایسا سناٹا گویا پہلی بار کوئی نئی اور انہونی بات سن رہے ہیں ، مجمع پر ایک کیف اور کیفیت طاری، بہتوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ، ہر فرد گوش برآواز، تقریر کیا تھی دل کھول کر رکھ دیا، عجائبات کے پردے ہٹادئے گئے، غرائبات کے نقشے سامنے رکھدئے گئے،جو بات بھی ارشاد فرمائی دل پر اثرانداز ہوئی،تقریر کے بعد دعا کرائی اور واللہ ! کیا عجیب وغریب دعا تھی ، دل کھنچتا اور ڈولتا محسوس ہورہا تھا۔

کشف یاکرامت:

مجھے رہ رہ کر بچھتاوا بھی ہورہا تھا کہ کاش میں پروگرام سے پہلے حضرت احسن بیگ سے اپنے والد ماجد نظام الدین مرحوم (متوفی۸؍جنوری ۲۰۱۲ عیسوی ) کے لئے دعائے مغفرت کی درخواست کردیتا توممکن ہے اللہ اپنے اس محب و محبوب کی دعاقبول کرلیتا اور میرے والدماجد کا بیڑہ پار لگ جاتا، ابھی میں اپنے دل میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ فوراً حضرت والابکی اگلی دعا زبان مبارک سے نکلی:رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا‘‘ یقین جانیے مجھے رونا آگیا کہ یااللہ! یہ کیسے بزرگ ہیں ادھر میں اپنے والد ماجد کے لئے دعاکی درخواست نہ کر پانے کا ملال کر رہا ہوں اور ادھر اللہ تعالیٰ حضرت والا کی زبان سے وہ کلمات جوخالص والدین کے لئے ہی خوداللہ پاک نے اپنے کلام میں ارشاد فرمائے ادا کرادئے۔

دعا ختم ہوئی تو میرے دل پر اطمینان کی ایک مسرت آمیز خوشی تھی اور اللہ وحدہ لا شریک لہ کی ذات رحمت سے پر امید بھی اللہ نے ضرور میرے والد صاحب کے ساتھ کرم کا معاملہ کیا ہوگا، میں نے دعا کے بعد اپنے دوست ،نوجوان عالم،سلسلۂ اویسیہ کے سالک اورحضرت احسن بیگ کے مستر شد مفتی محمد راشد ندوی مظاہری سے یہ واقعہ بتایا تو وہ بھی خوشی سے نہال ہوگئے ۔

میں نہیں کہہ سکتا کہ بیگ صاحب کے ’’بیگ‘‘ میں اور کیا کیا کرامات موجود تھیں ،کہنے کو تو وہ اصطلاحی عالم نہیں تھے لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وہ عالم جو سند یافتہ ہو مگر کسی مصلح، مرشد اور اللہ والے سے مربوط نہ ہو تو اس کا بہکنا، بھٹکنا، راہ راست سے ہٹ جانا، راندہ و آوارہ ہوجانا سب کچھ ممکن ہے لیکن جن کو اہل اللہ کی صحبت مل جائے ،جنہیں ایک مضبوط آستانہ اور حِصنِ حَصِین میں جگہ مل جائے تواُن کے بہکنے کے امکانات نہایت کم ہوجاتے ہیں۔

احسن بیگ صاحب کے تمام مناظراَحسن ہیں :

اُن کوجن کی صحبت ملی وہ بڑوں کے تربیت یافتہ،عظیم نسبتوں کے حامل، عجیب حالات و کرامات رکھنے والے ،زندہ دل، زندہ فکر ،زندہ دماغ، علوم نبویہ و روحانیہ سے مالا مال ، دین کے پیام بر، سلوک کے پیغام بر، اسلاف کی تعلیمات کے خوگر، روحانیات کے نامہ بر، تو پھر ان کی صحبتوں کا اثر احسن صاحب پر کیو نکر نہ ہوتا ،اثرہوا اور جم کر ہوا،چھایا اور جم کر چھایا:ع

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

آپ نے ہمیشہ دیکھا ہوگا کہ مریدین و مسترشدین ہی اپنے پیر و مرشد کی شان میں رطب اللسان ہوتے ہیں ان کی تعریف و تحسین کرتے ہیں ان کے لئے بلند و بالا الفاظ استعمال کرکے اپنی عقیدت و محبت کا نذرانہ پیش کرتے ہیں لیکن ایسا بہت کم دیکھا ہوگا کہ خود پیر و مرشد ہی اپنے مرید و مسترشد کی تعریف کر رہاہو، اس کی شان بیان کررہا ہو، مسترشد کا روحانیت کے باب اور سلوک واحسان کی کتاب میں کیا مقام و مرتبہ ہے واضح کررہا ہو اور تاکید و تعقید کے ساتھ بتارہا ہوکہ احسن بیگ جو مقام بلند رکھتے ہیں ان کی نظیر ملنی مشکل ہے، ان کی صحبت کو غنیمت جانو ، ان کے فیوض سے اپنے دامن مراد کو بھرلو ہرگز ہرگز اس میں کوتاہی مت کرو۔

میں نے بے شمار بزرگوں کی زیارت کی ہے ، ان گنت اکابر کی خدمت میں بیٹھا ہوں لیکن میرے دل کی جو حالت آپ کے پاس محسوس ہوئی کبھی کہیں اور محسوس نہیں ہوئی ، آپ کی زبان ہمیشہ ذکر الہیٰ میں متحرک رہی ، مجھے یہ بھی محسوس ہوتا کہ آپ کسی سے بات کرتے وقت بھی ذکر میں مشغول ہیں، اصل میں ان کا قلب جاری ہوچکاتھا ان کی ہر حرکت اور سکون ذکر سے عبارت ہوچکی تھی۔

ان کی شفقتیں ، مروتیں ، عنایتیں سب کچھ سنت و شریعت سے عبارت تھیں ، وہ جب ذکر کا حلقہ لگاتے اور اردو عربی فارسی کے بے شمار اشعار وجد لے لے کر پڑھتے تو اس کی لذت اور حلاوت وہ بھی محسوس کرتے جن کو ان اشعار کا ترجمہ ومطلب بھی معلوم نہ ہوتا ، وہ بھی روتے جن کو زندگی میں کبھی رونا نہ آتا ، وہ قلوب بھی غمناک اور وہ آنکھیں بھی نمناک ہو جاتیں جن آنکھوں نے خشک رہنے کی گویا قسم کھا رکھی تھی ، بڑے دیدہ ور بڑے شناور اور بڑے غواص تھے ان کی دیدہ وری ، شناوری اور غواصی سے انکار صرف شپرہ چشم ہی کرسکتا ہے یا وہ کرسکتا ہے جس نے پہلے سے ہی نہ ماننے نہ سننے کا مزاج مستحکم کر رکھا ہو۔

حضرت احسن بیگ رحمہ اللہ یوں تو ہر سال ہی عموما دیار حرم جاتے تھے خلق کثیر ان سے فیضیاب ہوتی تھی لیکن اس بار حرم گئے نہیں گویا لے جائے گئے ، بیمار تو تھے ہی، عمر طبعی سے مدتوں پہلے آگے بڑھ چکے تھے ، چراغ رہ گزر کی لو بادئی تند و تیز سے کبھی کم کبھی مدھم اور کبھی زیادہ ہوجاتی تھی ، سفینہ حیات یوں ہی رواں دواں تھا لیکن اس سفر میں جس نے بھی دیکھا وہ محسوس کئے بغیر نہ رہا کہ اس بار طبیعت کی ناسازی پہلے سے مختلف ہے ، ہوسپٹل میں داخل کئے گئے ، دوائیں اور دعائیں مسلسل جاری تھیں ، ہزاروں عقیدت مند حرم مکی و مدنی اور دنیا بھر میں رب قدیر وقادر کے حضور دست بہ دعا تھے لیکن

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

مکہ مکرمہ میں 12/جمادی الاخری 1446ھ کوحق تعالی کی طرف سے بلاوا آچکا تھا ، وقت موعود موجود اور مسعود روانگی اڑان بھرنے کے لئے تیار یعنی معبود کی سرگوشی عبد کے گوش میں گونجی یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُالْمُطْمَىٕنَّةُ۔ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۔اور عبد نے بہزار اطاعت و نیاز مندی لبیک و سعدیک کہا اور روح نے قفص عنصری سے پرواز کی۔ آہ کہ وہ زبان مبارک جو چند دن پہلے لبیک اللہم لبیک کی شیرینی وحلاوت سے ترو تازہ تھی اب خاموش ہے وہ لب جو ہمیشہ ذکر خداوندی میں متحرک رہتے تھے اب چپ ہیں وہ قلب جو ہمیشہ جاری رہا اس نے اذن الہی سے خاموشی طاری کرلی۔ عزیزوں ، قریبوں ، مریدوں اور اہل تعلق کے دلوں پر کیا گزری اس کے تصور سے روح کانپ کانپ جاتی ہے۔

بڑے سعید اور نصیبہ ور تھے کہ انھیں مقبرہ شہدائے حرم میں زمین کے حوالے کیا گیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون
 
Top