رمضان اور کرنے کے کام

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الغزالی ممبران!** ☪️☪️☪️
رمضان المبارک تیزی سے قریب آ رہا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اسے پورے جوش و خلوص کے ساتھ استقبال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
ہمیں رمضان کی تیاری اسی طرح کرنی چاہیے جیسے کوئی رنر میراتھن کے لیے تیاری کرتا ہے۔ ان شاء اللہ، رمضان کی تیاری میں مدد کے لیے ہم"رمضان اور کرنے کے کام " کے عنوان پر غور و فکر کریں گے۔
میں آپ سب کو دعوت دیتی ہوں کہ اس موضوع پر اپنے خیالات شیئر کریں۔ یہاں کچھ سوالات ہیں جو آپ کی مدد کر سکتے ہیں:
1️⃣ رمضان کی تیاری کے لیے ہمیں قرآن سے کیا ہدایت ملتی ہے؟
2️⃣ ہم رمضان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے کیا عملی اور روحانی تیاریاں کر سکتے ہیں؟
3️⃣ روزے اور رمضان کے مقاصد کیا ہیں اور ہم کیسے یقینی بنائیں کہ ہم انہیں پورا کر رہے ہیں؟
4️⃣ کون سی آیات ہمیں رمضان کے لیے متحرک کرنے میں مدد دے سکتی ہیں؟
5️⃣ آپ اس رمضان میں کیا مختلف کرنا چاہتے ہیں؟
6️⃣ ہم اس رمضان میں قرآن کے ساتھ کیسے بہتر تعلق قائم کر سکتے ہیں اور اس حوالے سے دوسروں کو کیا مشورہ دے سکتے ہیں؟

مجھے آپ کے خیالات اور تدبرات کےانتظار رہے گا ، اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ ہمیں ایسی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اسے راضی کر دے۔ آمین۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
مرحبا رمضان
خوش آمدید رمضان
شعبان کا چاند طلوع ہوتے ہی رمضان کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ دل میں خوشی کے جذبات امنڈ نے لگتے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو ایک معزز مہمان کی آمد آمد ہے جو سب کے لیے رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کے خزانے لیے آرہا ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ گزشتہ رمضان میں عبادت کر رہے تھے مگر! آج وہ دنیا میں موجود نہیں۔۔۔ آج وہ مساجد میں نہیں۔۔۔ قبرستانوں میں ہیں۔۔۔
ہمیں چاہیے کہ پوری محبت سے رمضان کو خوش آمدید کہیں، نیکی کے تمام مواقع سے خوب فائدہ اٹھانے کے لیے پورے جوش و خروش سے تیاری شروع کر دیں اور رمضان کی آمد کے ساتھ ہی نیکیوں میں آگے بڑھنے کی پکار پر دل و جان سے لبیک کہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَیُنَادِي مُنَادٍ: یَا بَاغِيَ الْخَیْرِ! أَقْبِلْ، وَیَا بَاغِيَ الشَّرِّ! أَقْصِرْ
اور ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے: اے نیکیوں کے طالب! خوب پیش قدمی کر! اور اے برائیوں کے طالب! باز آجا۔ (جامع الترمذي، الصوم، باب ما جاء في فضل شھر رمضان،حدیث: 682)

کرنے کے کام​

ایسی کتب کا مطالعہ کریں یا لیکچرز سننے کا اہتمام کریں جن سے روزے سے متعلق احکامات تازہ ہو جائیں تا کہ پورے آداب و شرائط کے ساتھ روزہ رکھ سکیں۔
گھر والوں، دوست احباب اور ہمسائیوں کے ساتھ رمضان کے بارے میں باہم گفتگو کر کے انہیں ذہنی طور پر رمضان کے لیے تیار کریں۔
رمضان سے متعلق معلومات، کتب کیسٹس، سی ڈیز لوگوں تک پہنچائیں یا انہیں بطور تحفہ دیں۔
گھر کی صفائی اچھی طرح کر لیں۔ تمام اشیاء کو منظم طریقے سے رکھ لیں مثلا کام کے دوران قرآن مجید سننے کے لیے سی ڈی اور کیسٹ پلیئر، دعاؤں کی کتب وغیرہ۔
تمام ضروری کام مثلاً ماہانہ راشن، تمام اہل خانہ، ملازمین اور زیر کفالت افراد کے لیے عید کے کپڑے، دوستوں رشتہ داروں کے لیے عید کے تحائف وغیرہ کی خریداری کر لیں تا کہ رمضان کی عبادت میں خلل واقع نہ ہو۔
صدقہ و خیرات کے لیے رقم اور ضروری چیزیں الگ کرلیں اور اس بات کا تعین بھی کر لیں کہ کس کس کو، کتنا کیا اور کب دینا ہے۔
روز مرہ کاموں کی فہرست بنالیں اسی طرح عبادات مثلاً قرآن مجید کی تلاوت، حفظ، نوافل، ذکر، دعا اور صدقہ وغیرہ کے لیے اہداف وغیرہ کا تعین کرنے کے علاوہ ان کے لیے اوقات کی منصوبہ بندی بھی کر لیں۔
تلاوت قرآن مجید، صبح کے اذکار، مطالعہ دینی کتب، طلوع شمس سے ظہر تک اشراق و چاشت کے نوافل، دورۂ قرآن سننا یا کروانا، نماز ظہر اور روزمرہ کے کام کاج، ظہر سے عصر تک قیلولہ و دیگر ضروری کام اور نماز عصر، عصر سے مغرب تک افطاری کی تیاری، شام کے اذرکار و دعائیں، افطاری، نماز مغرب، کھانا اور تراویح کی تیاری پھر نماز عشاء اور تراویح کے بعد رات کا ایک حصہ آرام، سحری سے قبل نوافل، استغفار اور سحری کی تیاری اور پھر نئے دن کا آغاز۔۔۔
اس بات کا پختہ عزم کر لیں کہ اس ماہ میں ایمانی و روحانی ترقی، اخلاقی بہتری اور نیکیوں میں سبقت لے جااا ہے اور اس رمضان کو پچھلے رمضان سے بہتر بنانا ہے۔
یا د رکھیں! یہ گنتی کے چند دن ہیں لہذا زیادہ وقت عبادات اور باعث اجر کاموں پر لگائیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
التخلية قبل التحلية
یہ ایک بنیادی اصول ہے ، خاص طور پر جب بات زندگی بھر کی عبادت کی تیاری کرنے کی ہو۔۔۔ یعنی رمضان کا مہینہ
مجھے انٹیریئر ڈیزائننگ کا بہت شوق ہے۔ لہذا یہ تصور ڈیزائن کے اصولوں کے ساتھ بہت اچھی طرح فٹ آتا ہے۔ آپ کسی گندے گھر کو نہیں سجا سکتے ہیں - عقل کا تقاضا یہی ہے کہ آپ کو اسے صاف کرنا چاہئے ۔ اس تمام گندگی اور کچرے کو ہٹانا چاہیے جو برسوں سے موجود ہیں اور پھر نئی سجاوٹ کا آغاز کرنا چاہیے۔
شعبان کا مہینہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم رمضان المبارک کے استقبال کی تیاری میں اپنے گھروں کو سجاتے ہیں۔
لیکن کیا یہ سوال آپ کے ذہن میں بھی آتا ہے کہ:
ایسے گھر کی سجاوٹ کا کیا ہے جہاں شیطانوں کی کثرت اور فرشتوں نہ آتے ہوں؟
رمضان المبارک میں گھروں کو لالٹینوں سے روشنی کا کیا فائدہ جہاں قرآن کی روشنی ہی نہ ہو؟
جہاں ہر سال ہم اپنے گھروں کو سجاتے ہیں روشنیاں کرتے ہیں تو اس سال سورۃ بقرۃ اور آل عمران کی روشنی بھی کریں گے۔
ہمارے دل بھی ایک گھر کی مانند ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنی راتوں کو دعاؤں اور دن کو روزوں سے مزین کریں ، اس سے پہلے کہ ہم ذکر اور قرآن کی روشنی سے اپنے دل کو چراغاں کریں ، اس سے پہلے کہ ہم اس دل میں صدقہ اور مہمان نوازی کی سجاوٹ لگائیں ، ہمیں سب سے پہلے اس دل کے ہر ہر ریشے کو استغفار کے ڈٹرجنٹ سے صاف کرنا ہوگا۔ توبہ سے دل کی کنڈیشنگ کرنی ہو گی۔
یہ میرے نزدیک رمضان کی تیاری کا سب سے ضروری قدم ہے۔
اس صفائی کے بعد ہی دل اللہ تعالی کے ذکر ،قرآن کی روشنی کی سجاوٹ سے آراستہ کرنے کے لئےتیار ہوگا۔ بصورت دیگر یہ ایک غلیظ گھر کو سجانے کے مترادف ہے اور کیا یہ اچھی بات ہو گی ؟
اللہ سبحانہ و تعالی ہمارے گناہوں کو معاف کردے۔۔۔ جن کو ہم دہراتے رہتے ہیں ۔۔۔اورجن کو ہم خوشی سے کرتے ہیں ۔۔۔اور جن پر ہم ٹھوکر کھاتے ہیں ۔۔۔ اللہ تعالی ہمارے دلوں کو پاک کردے۔ امین۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
شیطان آپ کو رمضان کی تیاری سے روکنے نہ پائے!
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ نظر سے گزرا کہ چیٹ جی پی ٹی سے سوال کیا جاتا ہے : اگر تم شیطان ہوتے تو فلاں کو تباہ کرنے کے لئے کیا کرتے "؟
میں نےرمضان کے موضوع کے لئے اسے آزمانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا کہ شیطان نے اس رمضان لوگوں کو گمراہ اور غافل رکھنے کے لیے کیا سوچ رکھا ہو گا؟
چیٹ جی پی ٹی نے جواب دیا (اردو ترجمہ)
شیطان لوگوں کو رمضان سے غافل رکھنے کے لیے مندرجہ ذیل حکمت عملی استعمال کرے گا:
1. روحانی تیاری میں تاخیر
تاخیر پر تاخیر اور وقت گزر جائے گا۔۔۔لیکن ہمارے پاس ابھی بھی وقت ہےہم رمضان سے پہلے تیاری شروع کرسکتے ہیں۔
2. لوگوں کو دنیاوی زندگی میں مصروف رکھنا
شیطان ہمیں کام ، تفریح اور معاشرتی واقعات میں مصروف رکھے گا تاکہ ہم رمضان کی اہمیت پر غور نہ کر سکیں۔
3. حوصلہ افزائی پر زیادہ انحصار کو فروغ دینا
شیطان ہماری حوصلہ افزائی کرے گا کہ "رمضان خود تمہیں متاثر کرے گا، رمضان آنے دو تم خود ہی بدل جاؤ گے، لہذا پہلے ہی اچھی عادات بنانے کی ضرورت نہیں۔"
4. رمضان المبارک سے پہلے روزہ رکھنے کو نظرانداز کرنا
شعبان میں روزہ رکھنے کی حوصلہ شکنی کرے گا تاکہ ہمارے کے جسم کے اعضاء اور دماغ جسمانی یا روحانی طور پر تیار نہ ہوں۔
5. غیر صحت بخش رمضان کے معمولات کی حوصلہ افزائی کرنا
شیطان ہمیں یہ جھانسہ دے گا کہ "سحور اور افطار پر جتنا ہو سکے کھاؤ ، اور سارا دن سو جاؤ۔"
6. رمضان کی خریداری اور کھانے کے جنون میں مشغول ہونا
شیطان ہماری اس بات پر زیادہ توجہ مرکوز کرائے گا کہ ہم کیا کیا کھائیں، افطاری میں کیا کیا مینیو رکھیں۔
7. تلاوت قرآن کی حوصلہ شکنی کرنا
شیطان ہماری ذہن سازی کرے گا کہ قرآن کو صرف رمضان میں ہی پڑھنا، ابھی شروع کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔
8.صلاۃ و خشوع کو کمزور کرنا
شیطان ہمیں نماز سےروکے گا تاکہ رمضان میں تراویح اور قیام ایک بوجھ محسوس ہو۔۔۔
9: اچھے کاموں میں تاخیر کرنے پر راضی کرنا
شیطان ہمیں یہ سجھائے گا کہ صدقہ خیرات کنا، غریبوں کو کھانا کھلانا اور دیگر سب اچھے کام رمضان کے اختتام پرکرنا ابھی تو بالکل نہیں۔
10: توبہ کے بغیر گناہ کی حالت میں رکھنا
شیطان ہمیں بہکائے گا کہ رمضان ہی تو رحمت و مغفرت و نجات کا مہینہ ہے بس آنے ہی والا ہے اسی میں گناہوں کی توبہ کرنا۔ ابھی کرنے کی کیا ضرورت کیا معلوم قبول ہو یا نہ ہو۔۔۔
11: رمضان کے فوائد کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا
شیطان کی یہ سرگوشی کہ: "گزشتہ رمضان نے تمہیں تبدیل نہیں کیا ، تو پھراب کیوں توقع ہے کہ اس سال رمضان مختلف ہوگا؟"
12. خاندان اوربرادری کو نظرانداز کرنا
شیطان تو یہی چاہے گا کہ مسلمان رشتہ دار آپس میں قطع تعلق کیے رہیں۔
قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَہُمۡ صِرَاطَکَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (سورۃ الاعراف آیت 16)
(شیطان) بولا کہ مجھے تو تو نے گمراہ کیا ہی ہے میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان کو گمراہ کرنے کے لئے بیٹھوں گا۔
وَ لَا یَصُدَّنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ ۚ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ (سورۃ زخرف آیت 62)
اور کہیں شیطان تم کو اس سے روک نہ دے۔ وہ تو تمہارا اعلانیہ دشمن ہے۔​
اس سال شیطان کا مقصدیہی ہے کہ ہمارا یہ رمضان اللہ تعالی کی رضا حال کیے بغیر ہی گزر جائے۔اور ہمیں اللہ سے دور کر دے۔
اس رمضان ہمیں شیطان کی تمام حکمت عملیوں کو ناکام بنانا ہے اور صدق دل سے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
گزشتہ دنوں ہم چند دوستوں نے لنچ کے لئے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ہم سب پرجوش تھیں۔ ایک طویل وقت کے بعد اکٹھے ہو رہی تھیں۔ ٹیبل پر بیٹھے، ہم سب باتوں میں مشغول تھیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں جو کچھ ہوا تھا اس پر تبادلہ خیال جاری تھا کہ میری دو دوستوں کے مابین تھوڑا سا تناؤ پیدا ہو گیا۔ پھر اچانک ہماری آنکھوں کے سامنے دونوں میں تلخ الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ اور اس سے پہلے کہ ہم باقی دوستوں میں سے کوئی کچھ کہتیں وہ دونوں اس جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئیں، اس بات کا عزم کرتے ہوئے کہ دوبارہ کبھی بات نہیں کریں گی! سبحان اللہ!
ہم میں سے بہت سے لوگوں کو زندگی میں کئی بار اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ ہمارے خاندان کے لوگ، عزیز دوست ایک چھوٹی سی بات پر بحث کر بیٹھتے ہیں اور سالوں بات نہیں کرتے ہیں، سالوں ناراض رہتے ہیں۔ اور پھر وقت گزرنے کے بعد بعض اوقات تو یاد تک نہیں رہتا کہ کیوں لڑ رہے ہیں!
ارشادی باری تعالی ہے:
الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ (20) وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (21) وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (22) جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ (23) سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (24)[الرعد: 20-24]
ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں ،اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا ،اور نماز قائم کی ، اور ہم نے انہیں جو رزق عطا کیا اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا، اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے انجام کا گھر ہوگا، ہمیشہ رہنے کے باغات، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباء، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی، اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے، یہ کہتے ہوئے کہ "سلام ہو تم پر" بسبب تمہارے صبر کرنے کے، سو کیا ہی خوب ہے انجام کا گھر۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اور اسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپﷺنے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر، جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر، اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھے اللہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم :3912)
صلہ رحمی کرنا تو اللہ کی رحمت کا موجب ہے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا :
أَنَا اللّٰہُ، وَأَنَا الرَّحْمٰنُ،خَلَقْتُ الرَّحِمَ، وَشَقَقْتُ لَہَا اسْمًا مِنِ اسْمِیْ،فَمَنْ وَصَلَہَا وَصَلْتُہُ ،وَمَنْ قَطَعَہَا قَطَعْتُہُ ۔ أو قَالَ : بَتَتُّہُ (الحاکم:174/4)
''میں اللہ ہوں اور میں رحمن ہوں۔ میں نے رحم کو پیدا کیا اور میں نے اس کا نام اپنے نام سے نکالا۔ لہٰذا جو شخص اسے ملائے گا میں اسے ملاؤں گااور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا۔''
لہذا رمضان آنے سے قبل اللہ کی رضا کی خاطر، اللہ کی رحمت کا مستحق بننے کی خاطر ہم جن رشتہ داروں سے، جن دوستوں سے ناراض ہیں، قطع تعلق کیے ہوئے ہیں ان سب سے صلہ رحمی کریں۔ سب کو دل سے معاف کر دیں۔ خندہ پیشانی سے ملیں۔ سلام میں پہل کر لیں۔ نرم بات کہیں۔ اگر ان کا قصور ہے تب بھی درگزر سے کام لیں۔ خاطر داری و خاکساری سے پیش آئیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
خوبصورت سرسبز درختوں کی قطاروں پر قطار اور گھنے باغات۔۔۔ یہ مناظر نہ صرف جمالیاتی اعتبار سے خوبصورت ہیں بلکہ ذہنی تندرستی کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ یقینا اس طرح کے حیرت انگیز مقامات انتہائی مشقت اور محنت کا نتیجہ ہیں جن کی طرف اکثر کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ زمین کو تیار کرنے اور بیج بونے تک، ننھے پودے کی کیڑوں سے حفاظت سے لے کر ایک سایہ دار درخت بننے تک کا سفر پرورش اور نگہداشت کا ایک طویل عمل ہے۔ بعض اوقات باغ میں خود رو جھاڑیاں اگ آتی ہیں اور باغبان اپنے پودوں کی حفاظت کے لیے ان کو ہٹاتا رہتا ہے۔ چاہے موسم گرما کی گرمی ہو یا سردیوں کی سردی، وہ نازک پودوں کو ان برے عناصر سے بچانے کے لئے حد درجہ محنت کرتا ہے۔ اس جدوجہد کے بعد ، کچھ پودے خوشبودار پھولوں والے بن جاتے ہیں ، کچھ پھل دار اور کچھ سایہ دار درخت ہوتے ہیں۔ بچے بھی ایسے ہی پودوں کی مانند ہی اور والدین باغبان۔ جس طرح کسی پودے کو مستقل نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے ، اسی طرح بچوں کو ذمہ دار، اخلاقی اور کامیاب فرد بننے کے لیے جاری رہنمائی اور پرورش کی ضرورت ہوتی ہے۔
رمضان المبارک کا ماہ مبارک جلد ہی ان شاء اللہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہوگا، نیکیوں کا موسم بہار کہلانے والا یہ ماہ مبارک اپنی تمام برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ آنے والا ہے۔ اس رمضان بھر پور کوشش کریں کہ خیر و برکت کا یہ سرمایہ ہمارے بچوں کے لیے بھی خوب فائدہ مند بنے۔

کرنے کے کام:

1️⃣ بچوں کو نماز کا پابند بنائیں۔
2️⃣ جھوٹ، دوسروں کو برا بھلا کہنا، مارپیٹ کرنا، غصہ کرنا، سب برے کام ہیں۔ ان تمام رذائل اخلاق کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔
3️⃣اگر کسی بچے پر ابھی روزہ فرض نہیں ہوا اور وہ روزہ رکھنا چاہتا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ اس کے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ روزہ رکھ سکتا ہے تو انہیں ڈانٹیں نہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
4️⃣ افطار کے وقت بچوں کے ذمہ چھوٹے چھوٹے کام لگائیں، مثلاً ایک بچّہ پانی پلائے ، دوسرا شربت کا انتظام سنبھالے وغیرہ اس طرح ان کے اندر احساس ذمہ داری بھی پیدا ہوگا اور دوسروں کی خدمت کا جذبہ بھی پروان چڑھے گا۔
5️⃣ رمضان میں قرآن پڑھنے پڑھانے کا شوق عروج پر ہوتا ہے۔ اس مہینے خصوصیت کے ساتھ بچّوں سے قرآن کی تلاوت کروائیں۔
6️⃣ ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال یقینی بنائیں۔

اس رمضان اللہ تعالی ہمارے بچوں کو علمی، روحانی اور ایمانی ترقی نصیب عطا فرمائے اور انہیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے۔ آمین
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رمضان شھر الرحمۃ و البرکۃ
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے قرب الٰہی، برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے دن پھر سے قریب آ رہے ہیں۔ یہ دن بیشک رحمت مغفرت اور نجات کے دن ہیں۔ ایک مرتبہ پھر اللہ سبحانہ و تعالی رمضان المبارک کے بابرکت ایام نصیب فرما رہے ہیں۔ یقینا خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جو ان دنوں سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے رب کا قرب، اس کی خوشنودی، اس کا رحم اور فضل اور برکتیں تلاش کریں گے جو ان بابرکت ایام میں اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھی ہیں۔
رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خصوصی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے۔ شیاطین کو قید کر کے اپنے بندوں کو نیکی کے کاموں کی رغبت دلاتا ہے تا کہ بھلائی کے کام کرنا ان کے لیے آسان ہو جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِذَا كَانَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ (صحيح مسلم:2496)
''جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔''
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ:
قَدْ جَاءَكُمْ رَمَضَانُ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا، قَدْ حُرِمَ (مسند احمد، 7148)
تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آرہا ہے یہ مبارک مہینہ ہے اللہ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں اس مبارک مہینے میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ اس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس کی خیر و برکت سے محروم رہا وہ مکمل طور پر محروم ہی رہا۔

کرنے کے کام:

ارشاد باری تعالی ہے:
کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ (سورۃ الانعام آیت 54)
''تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کا معاملہ لازم کرلیا ہے۔''
وَ رَبُّکَ الۡغَفُوۡرُ ذُو الرَّحۡمَۃِ ؕ (سورۃ الکہف آیت 58)
''اور تمہارا پروردگار بخشنے والا صاحب رحمت ہے۔''
1️⃣ اس رمضان اللہ کی رحمت پانے کے لیے ہر اچھے کام مثلاً عبادات، صدقہ خیرات، دوسروں کی مدد کی بھرپور کوشش کریں۔
2️⃣سلام اور مسکراہٹ وغیرہ میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔
يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ أَصْلِحُ لِي شَأْنِيْ كُلَّهُ وَلَا تَكِلْنِي إِلى نَفْسِى طَرْفَةَ عَيْنٍ (سن الكبرى للنسائی:10404)
''اے زندہ اور قائم رہنے والے! تیری رحمت کے سبب سے فریاد کرتی ہوں کہ میرے سب کاموں کی اصلاح فرما دے اور پلک جھپکنے تک کے لیے بھی مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کر۔''
آمین
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رمضان قریب آ رہا ہے، اور میں خاموشی سے بیٹھی سوچ رہی ہوں کہ گزشتہ سال رمضان میں جو ارادے کیے تھے، وہ کہاں تک پورے ہوئے؟
زیادہ کچھ حاصل نہیں کر سکی۔۔۔ نہ رمضان کے دوران، نہ بعد میں۔ دل میں تھوڑی سی شرمندگی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ سوچنا اور خود کا جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے۔
میں نے گزشتہ سال کیا حاصل کیا؟
پھر سوچتی ہوں، شاید تبدیلی ہمیشہ نظر نہیں آتی۔ شاید وہ چھوٹے چھوٹے لمحوں میں ہوتی ہے جن پر ہم دھیان نہیں دیتے۔۔۔رات کی وہ دعائیں جو دل سے نکلیں۔۔۔ وہ صبر جو اس وقت آیا جب ہمت ختم ہو چکی تھی۔۔۔ یا وہ پل جب دل سے خاموشی سے اللہ کی طرف رجوع کیا۔
اب رمضان قریب ہے، تو میں خود سے ایک اور سوال کرتی ہوں:
اس بار مجھے اصل میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا چیز سب سے زیادہ ضروری ہے؟
مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آتی ہے جو ہمیشہ میرے دل کو چھو جاتی ہے:
وَ مَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَہَا سَعۡیَہَا وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 19)
اور جو شخص آخرت کا خواستگار ہو اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے۔
اللہ ہماری کوششوں کو دیکھتا ہے، چاہے نتائج نہ بھی نظر آئیں۔
اس رمضان میں اپنے ارادے آسان اور چھوٹے رکھوں گی۔ ایسے کام جو میرے دل کو سکون دیں، نہ کہ بوجھ بن جائیں۔ شاید قرآن کی روز ایک آیت پڑھنا۔۔۔ اسے سمجھنا اور اس پر غور کرنا۔۔۔شاید ہر نماز کے بعد چند لمحے رک کر اللہ سے دل کی بات کرنا۔۔۔شاید اپنی زندگی کی نعمتوں کو دیکھنے اور ان پر شکر ادا کرنے کی عادت بنانا۔
اہم بات یہ ہے کہ کام میں اخلاص ہو۔
اہم بات یہ ہے کہ نیت ہو ۔
اہم بات یہ ہے کہ یاد رکھوں، اللہ ہماری کوششوں کو قبول کرتا ہے، نتیجوں کو نہیں دیکھتا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
میرے بھتیجے کے سکول میں سپورٹس ڈے تھا۔ سب بچے بہت پرجوش تھے۔ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بالآخر سب سپورٹس ڈے کی فائنل دوڑ کے مقابلے تک پہنچے تھے۔
وہاں پر دو طرح کے رنرز تھے، ایک سپرنٹرز اور دوسرے میراتھون رنرز۔ سپرنٹرز بہت تيز رفتار ہوتے ہیں اور وہ زیادہ تر چھوٹے فاصلوں والی دوڑ میں سب سے آگے ہوتے ہیں لیکن وہ زیادہ لمبی دوڑ میں کامیاب نہیں ہوتے، کیونکہ وہ اپنی ساری توانائی تیز رفتاری میں خرچ کر دیتے ہیں اور جلد تھک جاتے ہیں ۔ دوسری طرف میراتھون رنرز بہت تيز رفتار نہیں ہوتے لیکن اپنی توانائی کو لمبی دوڑ میں برقرار رکھ سکتے ہیں اور زیادہ تھکے بغیر لمبی دوڑ لگا سکتے ہیں ۔
جو بچے 100میٹر کی دوڑ میں سب سے آگے تھے وہ 200 میٹر کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ گئے۔ ایک اورقابل غور بات جو میں نے نوٹ کی کہ 200میٹر کی دوڑ کے شروع میں دو بچے سب سے آگے تھے یہاں تک کہ ان میں اور باقی بچوں میں تقریباً 50 میٹر کا فاصلہ تھا، پھر رفتہ رفتہ ان میں سے ایک کی رفتار کم ہوتی چلی گئی اور وہ کافی پیچھے رہ گیا۔ لیکن دوسرے بچے نے اپنی رفتار بدستور برقرار رکھی۔ دیکھنے والوں کا خیال تھا کہ عنقریب یہ بھی تھک کر آہستہ ہو جائے گا اور پیچھے رہ جائے گا لیکن اس بچے نے سب کا قیاس غلط ثابت کیا اور اپنی رفتار کو مسلسل برقرار رکھتے ہوئے باقی سب سے نمایاں برتری حاصل کی۔
آپ نے غور کیا کہ ایسا کیوں ہوا؟ وہ بچہ باقی سب کی طرح تھک کر پیچھے کیوں نہیں رہا؟ کیونکہ اسے عادت تھی اتنی لمبی دوڑ لگانے کی۔ کیونکہ وہ مسلسل اپنی کارکردگی پر کام کر رہا تھا، اس نے اپنی توانائی کو فاصلے کے حساب سے ایک تناسب سے تقسیم کیا تھا، نہ اتنا تیز کہ بہت جلدی تھک جائے اور نہ اتنا آہستہ کہ سب سے پیچھے رہ جائے۔ یہ تناسب ایک دن، ایک ہفتے، ایک مہینے میں نہیں آجاتا۔ یہ ہر روز گاہے بگاہے سیکھنا پڑتا ہے، پورا سال جدوجہد جاری رکھنی پڑتی ہے۔ ایسی کارکردگی پورا سال مسلسل محنت مانگتی ہے ۔
اب میں سوچ رہی ہوں میری کارکردگی کا کیا حال ہوتا ہے رمضان میں۔۔۔ کیا یہ کارکردگی ایک سپرنڑر کی مانند ہے یا ایک میراتھون رنر کی مانند؟ ماہ رمضان میں خوب تيز رفتاری ہوتی ہے، قرآن پہ قرآن ختم ، نوافل پہ نوافل ادا، پوری پوری رات جاگ کر عبادت ، اور پھر رمضان ختم ہوتے ہی تھک کر بیٹھ جانا۔۔۔۔ یا پھر ایک مناسب انداز میں سب عبادات کرنا اور رمضان کے مہینے کے بعد بھی اپنی کارکردگی کو برقرار رکھنا یہاں تک کہ اسی مستقل مزاجی کے ساتھ اللہ کی رضا سے اگلا رمضان پا لوں ؟
آپ خود بتائیں ان دونوں میں سے کس کارکردگی میں آگے بڑھنے کا چانس زیادہ ہے؟ کون اگلے رمضان میں پچھلے رمضان کی نسبت بہتر کارکردگی دکھائے گا؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں روزے رکھنے کا مقصد تقوی بیان فرمایا ہے۔ تو کیا تقویٰ صرف رمضان کے مہینے تک محدود ہے؟ ایسا بالکل نہیں ہے، تقوی کو تو سال بھر مینٹین رکھنے کی ضرورت ہے ۔ رمضان تو ایک مؤمن کا ٹریننگ گراؤنڈ ہے ۔ یہاں سے جو ٹریننگ لی جاتی ہے اسے سال بھر اپنے عمل میں شامل کرنے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے اور یہ کام وہی کر سکتا ہے جو میراتھون رنر کی طرح لمبی دوڑ لگانے کا عادی ہو ۔
اس ماہ مبارک میں جب آپ اور میں داخل ہوں تو اس نیت کے ساتھ کہ یہاں سے جو ٹریننگ ہم لیں گے اسے حتی الامکان اپنی مسلسل کارکردگی کا حصہ بنائیں گے، اتنی تیز رفتاری نہ دکھائیں کہ جلدی تھک کر اپنی ساری ٹریننگ کو ضائع کر دیں بلکہ ایک مناسب انداز میں اپنی رفتار پر بھی کام کریں اور اپنی توانائی بھی برقرار رکھیں ۔
اللّٰهُمَّ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ بِالصِّحَّة وَ العَافِيَةِ وَ الإِيمَانِ
آمین يا رب العالمين
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
رمضان مبارک
جیسے ہی میں یوٹیوب پر رمضان 2025 کے لیے اپنے پسندیدہ علماء کا مواد تلاش کر رہی تھی، مجھے محسوس ہوا کہ یوٹیوب ایک بازار کی طرح ہے، ایک منڈی جہاں ہر کوئی کچھ نہ کچھ بیچ رہا ہے۔ کوئی کھانے کی ترکیبیں بیچ رہا ہے، کوئی فٹنس کے طریقے، کوئی اپنی سفری داستانیں سنا رہا ہے، تو کوئی اپنی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں بتا رہا ہے۔ بہت سے لوگ سائنس اور دیگر علوم بھی بیچ رہے ہیں۔
اب یہ ہمارا انتخاب ہے کہ ہم کیا خریدیں؟ کچھ چیزیں بیکار ہیں، اور کچھ فائدہ مند بھی، لیکن سب کچھ دنیاوی ہے۔ تو پھر کون ہے جو اپنا قیمتی وقت خرچ کرکے اللہ کی ہدایت خریدے گا؟
اللہ قرآن میں فرماتے ہیں:
وَ الۡعَصۡرِ ۙ
اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ
اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ

زمانے کی قسم، بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔(سورہ العصر )
وقت گزرتا جا رہا ہے، اور ہر لمحہ ایک سودہ ہے۔ ہر کلک، ہر سکرول، ہر گھڑی جو ہم کسی چیز کو دیکھنے میں گزارتے ہیں، وہ ایک سرمایہ کاری ہے۔ مگر کس میں؟
دنیا ہمیشہ سے ایک منڈی رہی ہے۔ پرانے بازاروں میں لوگ گلیوں سے گزرتے، جہاں مختلف تاجر اپنی آوازیں بلند کرتے، ہر کوئی کچھ نہ کچھ بیچ رہا ہوتا۔ آج ہم ایک ڈیجیٹل بازار میں چل رہے ہیں، جہاں خیالات، طرزِ زندگی، اور تفریحات کا کاروبار ہو رہا ہے۔ لیکن اصول وہی ہے: ہم اپنے وقت کا سودا کس چیز کے لیے کریں گے؟
اللہ ایک اور طرح کی تجارت پیش کرتے ہیں:
اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ
بے شک، اللہ نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔(سورہ التوبہ :111)
رمضان اس تجارت پر غور کرنے کا بہترین وقت ہے۔ روزے کے اوقات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم اپنے جسم کو جو کچھ کھلاتے ہیں، اس پر قابو پا سکتے ہیں۔
تو کیا ہم اس بات پر بھی قابو پا سکتے ہیں کہ ہم اپنا وقت کس چیز پر خرچ کرتے ہیں؟کیا ہم اللہ کی یاد خرید سکتے ہیں، بے فائدہ مشغلوں کے بجائے؟
 
Top