رمضان نے مجھے کیا سکھایا؟

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ!
امید کرتی ہوں آپ سب بخیر و عافیت ہوں گے۔ آپ سب کی عید شاندار گزری ہو گی۔
رمضان آیا۔۔۔ اور پلک جھپکتے ہی رخصت ہو گیا۔ وہ مہینہ جو ہماری روح کو نکھارنے، دل کو نرم کرنے اور ہمیں اللہ کے قریب کرنے آیا تھا، اب ہم سے جدا ہو چکا ہے۔ لیکن کیا واقعی وہ گیا ہے؟ یا اس کی خوشبو، اس کی روشنی، اس کی برکتیں اب بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں؟
ہم نے سحری کی برکتیں محسوس کیں، افطار کی لذت میں شکر گزاری سیکھی، تراویح کی رکعتوں میں اللہ سے قربت کا مزہ چکھا، اور تلاوتِ قرآن میں ایسا سکون پایا جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے اپنی ذات کو بدلا، اپنے اندر جھانکا، گناہوں سے معافی مانگی، نیکیوں میں سبقت لی۔ لیکن اب، رمضان کے بعد، سب سے بڑا سوال یہی ہے: کیا یہ تبدیلی عارضی تھی؟
رمضان ایک معلم کی طرح آیا تھا، اس نے ہمیں ضبطِ نفس سکھایا، صبر کا ہنر دیا، دل کو نرم کیا اور روح کو روشنی بخشی۔ اب وقت ہے کہ ہم اس روشنی کو اپنی زندگی میں برقرار رکھیں، ورنہ اندیشہ ہے کہ کہیں ہم پھر پرانی تاریکیوں میں واپس نہ چلے جائیں۔
ہم سب کے لیے یہ لمحہ فکر ہے کہ "رمضان نے مجھے کیا سکھایا؟" کیا میں نے واقعی کچھ سیکھا، یا یہ بھی ایک عارضی جذباتی لمحہ تھا جو وقت کے ساتھ ماند پڑ جائے گا؟ اگر رمضان نے دل میں اللہ کی محبت جگائی، تو اب یہ میرا امتحان ہے کہ اس محبت کو کیسے زندہ رکھوں؟
آپ کی زندگی میں کون سی آیات تھیں جنہوں نے آپ کے دل پر دستک دی؟ کون سا لمحہ تھا جب آپ نے اپنے اندر تبدیلی محسوس کی؟ اپنی سوچیں، اپنے تجربات ہمارے ساتھ شیئر کریں تاکہ یہ چراغ، جو رمضان نے جلایا ہے، صرف ہمارے دلوں میں ہی نہیں بلکہ اوروں کے دلوں میں بھی روشنی پھیلائے۔
کیوں نہ ہم سب ایک دوسرے کے لیے ہدایت اور ترغیب کا ذریعہ بنیں؟ آئیں، اپنی تحریروں، تجربات اور تأثرات کو بانٹیں، تاکہ ہم سب مل کر "بعد از رمضان" بھی اسی روش پر گامزن رہ سکیں، جس پر رمضان نے ہمیں گامزن کیا تھا۔
میں منتظر ہوں کہ آپ رمضان کی برکتوں کو لفظوں میں سمیٹیں اور اس کارِ خیر میں حصہ لیں!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ضبطِ نفس: بندگی کا پہلا زینہ​

ہر انسان کے اندر ایک طاقتور دریا بہتا ہے… خواہشات کا دریا… یہ دریا نفس کی سرزمین میں بہتا ہے، جسے اگر چھوڑ دیا جائے تو وہ سب کچھ بہا لے جاتا ہے… حیا، غیرت، مقصد، عبادت، حتیٰ کہ انسان کی انسانیت بھی۔
رمضان میں ہم نے پہلی بار سیکھا کہ اس دریا کو بند بھی کیا جا سکتا ہے… ہم نے "چاہنے کے باوجود" خود کو روکا۔ اور اسی لمحے، ایک عجیب سی روشنی دل میں اترنے لگی۔ کیوں؟ کیونکہ وہی لمحہ عبودیت کا نقطۂ آغاز تھا۔
جب ایک بندہ اپنی چاہت کو رب کی چاہت کے نیچے رکھ دیتا ہے، وہ بندہ عام انسان نہیں رہتا… وہ "عبد" بننے لگتا ہے۔
رمضان میں ہم نے کھانے، پینے، سونے اور یہاں تک کہ غصہ، نفرت اور کینہ جیسے جذبات پر بھی قابو پایا۔ لیکن یہ صرف ایک تربیت تھی… اصل امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى ٱلنَّفْسَ عَنِ ٱلْهَوَىٰ فَإِنَّ ٱلْجَنَّةَ هِىَ ٱلْمَأْوَىٰ" (النازعات: 40-41)
"اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا اور نفس کو بری خواہشات سے روکتا رہا، تو یقیناً جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔
یہ آیت گویا رمضان کا نچوڑ ہے۔ ہم نے جو خود کو روکا، وہ محض ثواب کمانے کے لیے نہیں تھا، بلکہ اپنے نفس کو جہنم کے راستے سے موڑنے کے لیے تھا۔
علماء کے مطابق نفس کی تین حالتیں ہوتی ہیں:
نفسِ امّارہ – جو برائی کا حکم دیتا ہے۔
نفسِ لوّامہ – جو برائی پر ملامت کرتا ہے۔
نفسِ مطمئنہ – جو اللہ سے راضی، اور اللہ جس سے راضی۔
رمضان میں ہم نے شاید پہلی بار اپنے نفسِ امّارہ کو دبایا اور نفسِ لوّامہ کی آواز سنی۔ وہ دل کی خلش… وہ احساسِ ندامت… وہ آنکھ سے بہتا آنسو… یہ سب دل کے بیدار ہونے کی علامت تھے۔ اور اگر ہم نے مسلسل کوشش کی، تو ہمیں نفسِ مطمئنہ کی طرف بڑھنے کا موقع ملا… وہ مقام جہاں خواہشات مات کھا جاتی ہیں، اور اللہ کی رضا سب کچھ بن جاتی ہے۔
نفس ہمیں دھوکہ دیتا ہے، یہ کہہ کر: "بس تمہارا دل خوش ہو جائے، باقی سب ثانوی ہے۔"
مگر رمضان ہمیں سکھاتا ہے: "تمہارا دل صرف رب کی رضا سے خوش ہو، ورنہ یہ سکون تمہیں بظاہر ملے گا، حقیقت میں چھن جائے گا۔"
ہم نے دیکھا: روزہ کی حالت میں ایک نظر، ایک جھوٹ، ایک غصہ بھی دل کا سکون چھین لیتا تھا۔
اور اللہ کے لیے رو لینا، کسی کو معاف کر دینا، بھوکا سونا… دل کو روشنی سے بھر دیتا تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کو دو حقیقتوں کا علم ہوتا ہے: خواہش پوری ہونے میں لذت ہے، لیکن اللہ کے لیے روکنے میں نور ہے۔
نفس کہتا ہے: "خود کو خوش کرو"
اور روح کہتی ہے: "اللہ کو راضی کرو، تم خود بخود خوش ہو جاؤ گے"
ہم سمجھتے ہیں روزہ بھوکا رہنے کا نام ہے، لیکن نہیں… روزہ دل کے تخت پر نفس کی بادشاہت کو ہٹا کر رب کی حکمرانی قائم کرنے کا اعلان ہے۔
روزہ کہتا ہے: "اگر تم اپنی بھوک پر قابو پا سکتے ہو، تو تم اپنی شہوت پر بھی قابو پا سکتے ہو۔ اگر تم پانی کے قطرے کو اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پیتے، تو تم کسی کا دل بھی رب کی رضا کے خلاف نہیں توڑ سکتے۔"
اب میرے دل سے ایک سوال ہے: رمضان تو چلا گیا، لیکن کیا میں اپنی نگاہ، اپنی زبان، اپنی نیت، اپنے نفس کو قابو میں رکھ رہی ہوں؟ کیا میں اس "نفس" سے لڑ رہی ہوں، یا اس کے ہاتھوں ہار مان چکی ہوں؟ کیا میں اپنے نفس کو روز رب کے سامنے پیش کرتی ہوں اور کہتی ہوں:
"یا اللہ! آج بھی میں نے تیری رضا کو اپنی رضا پر مقدم رکھا…"
رمضان کے بعد کی اصل جنگ "میں چاہتا ہوں" اور "اللہ کیا چاہتا ہے" ہوتی ہے۔ جب کوئی بات دل کو بھا جائے، لیکن شریعت روکے… جب زبان کچھ کہنے کو مچلے، لیکن ضمیر روک لے… جب نظر بھٹکنے لگے، لیکن تقویٰ سنبھال لے… یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جہاں رمضان کا اصل سبق یاد آتا ہے۔کیونکہ ضبطِ نفس، ایک دفعہ کے صبر کا نام نہیں… بلکہ ہر دن، ہر لمحہ، ہر فیصلہ… اللہ کی رضا کو اپنی رضا پر ترجیح دینا ہے۔
کبھی سوچا؟ ہم روزہ افطار کرتے وقت پانی کو لبوں تک لا کر، اذان کا انتظار کرتے ہیں۔ اگرچہ ایک لمحے کی تاخیر بھی تکلیف دہ ہوتی ہے، پھر بھی ہم اذان کے بغیر نوالہ نہیں لیتے۔یہی ہمارا عملی اعلان ہوتا ہے: "یا اللہ! تو کہے گا تب ہی میں اپنی خواہش پوری کروں گا…"اگر ہم صرف اس ایک سبق کو اپنی زندگی میں اتار لیں… تو ہم واقعی رمضان سے کچھ پا گئے۔
آخر میں ایک التجا، ایک دعا ہے:
"یا رب! ہم کمزور ہیں، ہمارا نفس ہم پر حاوی ہو جاتا ہے… لیکن تُو سب سے بڑا ہے۔ ہمیں وہ قوت عطا فرما، جو خواہش کے سمندر کو عبور کر جائے، ہمیں وہ قلب عطا فرما، جو ہر فیصلہ تیری رضا کے تابع کرے۔ اور ہمیں وہ آنکھیں عطا فرما، جو تیرے خوف سے نم رہیں…"
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

"خاموشی کی طاقت: رمضان میں زبان کی حفاظت کا سبق"​

رمضان وہ موسمِ نور ہے، جب دل بولنے لگتے ہیں اور زبانیں خاموش ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب انسان کو پہلی بار یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ "بولنا ایک طاقت ہے… اور خاموش رہنا، اس طاقت کا اختیار۔"
ہم نے محسوس کیا کہ خاموشی صرف الفاظ کی کمی نہیں، بلکہ ''روح کا رب کی طرف جھکنا" ہے۔ جب انسان خود کو روک لیتا ہے، تو رب اُس کے دل کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔
اس رمضان، ایک نیا منظر دل میں اُبھرنے لگا… میں چپ تھی، لیکن میرا ضمیر بول رہا تھا۔ میں خاموش تھی، لیکن میری روح رب سے سوال کر رہی تھی:
"یا رب! کیا تو میرے سکوت کو بھی سن رہا ہے؟"
اور دل کے کسی گوشے سے جواب آیا:
"ہاں، میں تمہارے صبر کو، تمہاری خاموشی کو، تمہاری ٹوٹ پھوٹ کو جانتا ہوں…"
روزہ صرف پیٹ کا بھوکا رکھنا نہیں… یہ زبان کی پیاس بجھانے سے بھی رکنے کا نام ہے۔ ہم نے سیکھا کہ:
کسی کو نیچا دکھانے سے رک جانا
بدلے کے لفظوں کو نگل لینا
دلیل کی جگہ دعا کو ترجیح دینا
اور جذبات کے شور میں خاموشی کا انتخاب کرنا
یہ سب ضبطِ نفس کی وہ سطحیں ہیں جہاں انسان "ظاہر" سے نکل کر "باطن" میں داخل ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"کلمۃ طیبۃ صدقۃ"
"اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے۔" (صحیح بخاری)
اور کبھی تو بات اچھی ہو کر بھی غیر ضروری ہوتی ہے۔ رمضان میں میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ بعض اوقات خاموشی ہی سب سے بڑا صدقہ ہے…
کیونکہ وہ دلوں کو بچا لیتی ہے… رشتوں کو جوڑ لیتی ہے… دل کے اندر اک سکون بسا دیتی ہے، جو بولنے سے پہلے کبھی نصیب نہ تھا۔
خاموشی صرف چپ رہنا نہیں… ایک شعور ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْهِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ" (ق: 18)
"انسان جو بھی بات کرتا ہے، اُس پر نگران مقرر ہوتا ہے، ہر وقت تیار رہنے والا۔"
یہ آیت رمضان میں مجھ پر ایسے کھلی جیسے پہلے کبھی نہ کھلی تھی۔ مجھے لگا جیسے ہر لفظ، ہر جملہ، ہر ردعمل کسی غیبی قلم میں نقش ہو رہا ہے۔ تو میں کیوں نہ خاموش ہو جاؤں؟ کیوں نہ اپنے ہر لفظ سے پہلے "اللہ کا خوف" اور "اللہ کی رضا" کو دیکھوں؟
اکثر ہم سمجھتے ہیں کہ دعا وہ ہے جو الفاظ سے کی جائے، مگر رمضان نے سکھایا کہ خاموشی بھی ایک سجدہ ہے… وہ سجدہ جو انسان زبان سے نہیں، دل سے کرتا ہے۔ جب دل کی گہرائیوں سے ایک آہ نکلے:
"یا اللہ! میں سب کہہ سکتی تھی، مگر تیری رضا کے لیے خاموش رہی…"
تو شاید وہ آہ، ہزاروں دعاؤں سے زیادہ مقبول ہو جاتی ہے۔
اب جب رمضان جا چکا ہے… کیا میں زبان کی حفاظت جاری رکھوں گی؟ کیا میں ہر بات کہنے سے پہلے رکوں گی؟ کیا میں وہ دل بن سکوں گی، جو کہنے سے پہلے سوچے: "کیا یہ رب کی رضا کا ذریعہ بنے گا؟"
اے ربِ کریم! ہماری خاموشیوں کو عبادت بنا دے، ہمارے ضبط کو نیکی بنا دے، ہمارے الفاظ کو ایسا نور عطا فرما جو دلوں کو روشن کرے، نہ کہ زخمی۔ ہمیں وہ سکوت عطا کر جو تجھ سے قریب کرے، اور وہ زبان دے جو تیری رضا کے سوا کچھ نہ کہے۔ بس یہی دعا ہے… اور یہی عہد بھی۔
آمین یا رب العالمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

وقت کی قدر: رمضان کا چھپا ہوا خزانہ​

رمضان آیا… اور جیسے ہی آیا، وقت کی رفتار بدل گئی۔ ہر دن بھاگنے کی بجائے تھم سا گیا، فجر کے بعد کی دھیمی روشنی، عصر کے بعد کی خاموشی، افطار سے پہلے کی بےچین دعائیں، قرآن کی تلاوت کے درمیان گزرتے ہوئے وہ انجان لمحے… یہ سب ہم سے کچھ کہنے لگے
"اب میں قیمتی ہوں… مجھ سے وہ لو جو باقی مہینوں میں کھو گیا تھا۔ میں لمحہ ہوں… میں وقت ہوں… اور میں تمہیں رب سے جوڑنے آیا ہوں!"
ہم نے دیکھا:سحری کے چند لمحے اذکار میں گزرے، تو پورا دن ہلکا لگنے لگا۔قرآن کی ایک آیت صبح کے وقت پڑھی، اور دل شام تک روشن رہا۔افطار سے ایک منٹ پہلے مانگی گئی دعا، دل کے سب پردے ہٹا گئی۔یہ وہی لمحے تھے جنہیں ہم باقی سالوں میں ضائع کر دیتے تھے، اور رمضان نے ہمیں پہلی بار بتایا کہ:
"وقت صرف گھڑی کی سوئیاں نہیں، یہ تمہاری زندگی کے صفحات ہیں جن پر تمہارے اعمال لکھے جا رہے ہیں۔"
ہم نے جانا کہ وقت ایک "نعمت" ہے اور اس نعمت پر بھی پوچھا جائے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں رہتے ہیں: صحت اور فراغت۔" (صحیح بخاری)
رمضان نے سکھایا کہ فرصت کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ وہ لمحہ ہے جو یا تو نیکی بن سکتا ہے، یا حسرت۔
ہم نے محسوس کیا:
جب فجر کا وقت گزرتا ہے، اور ہم سوتے رہتے ہیں… صرف وقت نہیں جاتا، ایک "موقع" جاتا ہے… ایک "تقرب کا لمحہ" جاتا ہے…
جب ہم دن کا وقت فضول باتوں میں گنوا دیتے ہیں… صرف منٹ نہیں گرتے، بلکہ "ثواب کے سکے" چھن جاتے ہیں۔
رمضان میں وقت کو ہم نے شمار کیا… "ابھی دو رکعت پڑھ سکتے ہیں، ابھی ایک سورت سن سکتے ہیں، ابھی ایک دعا مانگ سکتے ہیں…"
اور جب عید آئی… تو لگا جیسے وقت پر بھی پردہ پڑ گیا ہو… وہی وقت جو روشنی تھا، اب پھر سے بوجھ لگنے لگا۔ تب دل نے دھیرے سے کہا:
"تم نے رمضان میں وقت کو عبادت بنایا، کیا اب دوبارہ اسے غفلت میں بہا دو گی؟"
قرآن میں وقت کی قسم کھائی گئی:
"وَالْعَصْرِ ۝ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ" (العصر: 1-2)
"زمانے کی قسم، یقیناً انسان خسارے میں ہے۔"
رمضان میں یہ آیت مجھے بہت گہری محسوس ہونے لگی… ہم واقعی خسارے میں رہتے ہیں جب وقت صرف دنیا کے لیے استعمال کریں، اور رب کو بھول جائیں۔
اب سوال یہ ہے:رمضان جا چکا… کیا ہم اب بھی دن کے چند لمحے رب کے نام کر سکیں گے؟ کیا ہم وقت کے اس قیمتی احساس کو باقی گیارہ مہینوں میں بھی زندہ رکھ سکیں گے؟ یا صرف رمضان کا وقت ہی مقدس تھا، اور باقی سب ہماری مرضی؟
بس یہی دعا ہے یا اللہ! ہمیں وقت کی قدر عطا فرما، ہمیں ہر لمحہ تیری رضا کے لیے جینے کی توفیق دے، اور جب ہم گھڑی دیکھیں، تو دل میں یہ خیال آئے "اس وقت کے بدلے میں کل میں کیا لے کر جاؤں گا؟"
آمین، یا رب العالمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رمضان نے مجھے سکھایا: "سادگی میں سکون ہے"​

اس بار ہر سال کی طرح نہ افطاری کی رنگا رنگ میز سجی، نہ کپڑوں کی لمبی فہرست بنی، نہ بازاروں کی رونق دل کو کھینچ سکی…
اور پہلی بار احساس ہوا کہ جب زندگی سادہ ہوتی ہے، تو دل ہلکا ہوتا ہے… اور جب دل ہلکا ہوتا ہے، تو رب قریب لگتا ہے۔
میں نے سیکھا… کم کھانے سے پیٹ نہیں، دل بھرتا ہے۔ کم بولنے سے زبان نہیں، روح پاک ہوتی ہے۔ کم خرچ کرنے سے جیب نہیں، نفس آزاد ہوتا ہے۔
رمضان نے مجھے یہ سبق دیا کہ سادگی غربت نہیں، دانائی ہے۔ یہ وہ طرزِ زندگی ہے جو ہمیں دنیا کی چمک سے ہٹا کر، دل کے سکون کی طرف لے جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (الاعراف: 31)
"کھاؤ، پیو، مگر اسراف نہ کرو، بے شک اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"
ہم نے رمضان میں سادہ افطار سے روزے کھولے… کھجور، پانی، شاید ایک پھل…
اور دل نے کہا: "یہی برکت ہے… یہ قناعت ہے… اور یہ ہی اصل سکون ہے۔"
رمضان نے سکھایا کہ ایک سادہ چٹائی پر قرآن کھولنا، صوفے پر بیٹھ کر فون گھمانے سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ خاموشی سے افطار کرنا، ہنر مندی سے پکے کھانوں سے بڑھ کر تسکین دیتا ہے۔ کپڑوں کی چمک نہیں، نیت کی پاکیزگی اصل خوبصورتی ہے۔
اور یہی سادگی ہمیں وہ دل کا سکون عطا کرتی ہے، جس کی تلاش میں ہم دنیا بھر کی مصروفیات میں بھٹکتے ہیں۔
میں نے یہ بھی محسوس کیا… ہمارے پیارے نبی ﷺ کی زندگی بے حد سادہ تھی، مگر دلوں پر حکمرانی کرتی تھی۔ ایک چٹائی، چند کھجوریں، ایک خالی کمرہ… مگر اس میں وہ سکون تھا جو آج کے محلوں میں بھی نہیں۔
رمضان ہمیں اُس سنت کی یاد دلاتا ہے… جہاں کم چیزیں، زیادہ برکت لاتی ہیں… جہاں کم الفاظ، زیادہ تاثیر رکھتے ہیں… جہاں سادہ زندگی، اعلیٰ سوچ پیدا کرتی ہے۔
اور اب سوال اپنے دل سے… رمضان تو رخصت ہوا… لیکن کیا میں اس سادگی کو اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی؟ کیا میں بازاروں کے شور کے بجائے دل کی خاموشی سے جڑ سکوں گی؟ کیا میں دکھاوے کی دنیا سے نکل کر رب کی رضا کی طرف پلٹوں گے؟
یا اللہ! ہمیں دنیا کی چمک دمک سے بچا لے، ہمارے دل کو قناعت دے، زبان کو شکر، اور زندگی کو سادگی عطا فرما۔ ہمیں وہ نظر دے جو چیزوں کی قیمت سے زیادہ ان کی برکت کو پہچانے، اور وہ دل دے جو تیرے قرب کو سب سے بڑی نعمت سمجھے۔
آمین یا رب العالمین۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

"قرآن سے رشتہ، دل سے جُڑنے کا ذریعہ ہے"​

رمضان میں قرآن کچھ اور ہی لگتا ہے… جیسے کوئی پرانا، بھولا ہوا دوست، اچانک دل کے دروازے پر آ کر کہے: "چلو، پھر سے بات کریں…"
ہم نے بچپن سے قرآن پڑھا، لیکن شاید رمضان پہلی بار وہ لمحہ لاتا ہے، جب ہم قرآن کو پڑھنے کے بجائےسننے لگتے ہیں۔
سننا… صرف کانوں سے نہیں… دل سے۔ جیسے ہر آیت ہمیں ہماری اپنی کہانی سنا رہی ہو۔ ہر لفظ، جیسے ہمارے دل کے حال کا جواب ہو۔ ہر سطر، جیسے رب کی طرف سے خاص ہمارے لیے ہو۔
قرآن کہتا ہے:
"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ" (الرعد: 28)
"خبردار! دلوں کا سکون تو صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔"
اور قرآن؟ وہ تو اللہ کا سب سے حسین ذکر ہے۔ ایسا ذکر، جو صرف زبان کو نہیں، روح کو چھو لیتا ہے۔
اس رمضان، میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ قرآن فقط علم کا خزانہ نہیں، یہ محبت کا خط ہے… رب کی طرف سے بندے کے نام ایک ذاتی پیغام۔
جب ہم قرآن کھولتے ہیں، تو وہ صرف ہمیں احکام نہیں دیتا… وہ ہمیں اپنے قریب بلاتا ہے۔
کبھی کسی ڈرانے والی آیت سے آنکھ بھر آتی ہے… کبھی کسی وعدے پر دل خوشی سے لرزنے لگتا ہے… کبھی کسی قصے میں اپنا عکس نظر آتا ہے… اور کبھی کسی آیت میں وہ سکون، جس کی تلاش دنیا میں کبھی پوری نہ ہوئی۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تمہارا درد چھپا نہیں، تمہاری دعائیں سنی جا رہی ہیں، تم گناہ گار ہو، مگر رب رحیم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں قرآن صرف سمجھنے کے لیے ہے، مگر رمضان نے بتایا: قرآن کو محسوس بھی کیا جاتا ہے۔
روز تلاوت کرتے ہوئے کبھی آیت رک جاتی ہے… زبان پڑھتی رہتی ہے، مگر دل رک جاتا ہے۔ کیونکہ وہ آیت، بس دل کے اندر اُتر جاتی ہے۔
یہی قرآن سے رشتہ ہے… جسم سے نہیں، دل سے جڑنے کا۔ یہ رشتہ رمضان کے بعد بھی باقی رہے، تو ہی رمضان کامیاب ہے۔
اب سوال یہ ہے… رمضان تو گزر چکا ہے، مگر کیا میرا قرآن سے رشتہ باقی رہے گا؟ کیا میں روز ایک آیت سے دل جوڑنے کی کوشش کروں گی؟ کیا میں قرآن کو رب کی طرف سے اپنا ذاتی خط سمجھ کر کھولوں گی؟ کیا میں اس کے ہر حکم کو، ہر دعا کو، ہر قصے کواپنے لیے پڑھوں گی؟
بس یہی دعا ہے "یا اللہ! قرآن کو ہم سب کے دل کا نور بنا دے… اس سے ہمارا رشتہ صرف الفاظ کا نہ ہو، احساس، ایمان، اور محبت کا ہو۔ قرآن صرف رمضان کی مہمانگی نہ کرے، ہماری زندگی کا ساتھی بن جائے… اور آخرت کی زندگی میں ہمارا رفیق رہے…
آمین یا رب العالمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

''رمضان نے مجھے رب سے بات کرنا سکھایا"​

پہلے میں دعا مانگتی تھی… جیسے ایک رسمی عمل… ہاتھ اٹھائے، لبوں پر چند مانگیں، اور بس آگے بڑھ گئی۔
مگر رمضان آیا… تو اس نے دعا کا مفہوم بدل دیا۔
اب دعا، صرف الفاظ نہ رہے… یہ رب سے بات کرنے کا ذریعہ بن گئے۔
یہ وہ لمحے تھے، جب میں نے پہلی بار اللہ سے "بات کرنا" سیکھا… نہ عربی میں، نہ کسی خاص انداز میں… بس دل کی زبان میں، خاموشی میں، سجدے میں، آنسوؤں میں۔
رمضان نے مجھے سکھایا کہ دعا وہ پُل ہے، جو مخلوق کو خالق سے جوڑتا ہے… دعا وہ دروازہ ہے، جو ہمیشہ کھلا ہے… اور دعا وہ راز ہے، جو رب کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔
دن میں جب روزے کی تھکن چُور کرتی، رات کو جب تنہائی میں دل بےقرار ہوتا، تب بس ایک دُعا کافی ہو جاتی:
"یا اللہ… تُو سن رہا ہے ناں؟"
اور عجب بات یہ کہ دل مطمئن ہو جاتا… چاہے جواب نہ سنا، مگر محسوس کیا —
کہ کسی نے سن لیا ہے، جواب دے دیا ہے… سکون کے لباس میں۔
قرآن کہتا ہے:
"ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ" (غافر: 60)
"مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا"
لیکن رمضان نے بتایا کہ قبولیت صرف "نتیجہ" نہیں، احساس بھی ہے۔ جب دل خالی ہوتا ہے، اور ہم اسے رب کے سامنے رکھ دیتے ہیں تو وہ دعا بن جاتا ہے۔
کبھی یوں لگا کہ دعا قبول نہیں ہو رہی؟ رمضان نے سکھایا کہ "قبولیت کبھی تاخیر ہوتی ہے، کبھی تبدیلی… اور کبھی وہی دعا، خود بندے کو بدل دیتی ہے۔''
اب جبکہ رمضان گزر چکا ہے۔ اور میں ڈرتی ہوں، کہ کیا میں پھر اسی طرح اللہ سے بات کرتی رہوں گی؟ کیا دعا میری سانسوں کا حصہ بن جائے گی؟ یا میں پھر اُس رسمی عمل کی طرف لوٹ جاؤں گی؟
یا اللہ! ہمیں وہ دُعا دے دے، جو دل سے نکلے، اور تجھ تک پہنچ جائے… بے آواز، بے الفاظ، مگر بے حد قریب!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

معافی مانگنا، طاقت کی علامت ہے… کمزوری نہیں​

رمضان وہ مہینہ ہے، جب دل نرم پڑنے لگتے ہیں، آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، اور وہ باتیں جو سال بھر دل میں دھری رہتی ہیں… اچانک زبان پر آ جاتی ہیں۔
یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہمیں سب سے زیادہ معافی مانگنے اور سب سے پہلے معاف کرنے کی توفیق ملتی ہے۔
لیکن معافی مانگنا آسان نہیں ہوتا… کیونکہ انا بیچ میں آ جاتی ہے، "میں کیوں جھکوں؟"
دل کہتا ہے: "اگر میں نے معافی مانگ لی تو وہ خود کو صحیح سمجھے گا۔"
مگر رمضان آ کر سکھاتا ہے: "جو اپنے رب سے معافی مانگتا ہے، وہ جھکتا نہیں، بلکہ اٹھایا جاتا ہے…"
قرآن ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے:
"وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ" (آل عمران: 134)
"اور وہ جو لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"
یعنی معاف کرنا کمزوری نہیں… بلکہ یہ وہ بلند مقام ہے، جہاں انسان *خود کو* جیت لیتا ہے۔
ہم دن رات اللہ سے کہتے ہیں:
"یا اللہ! مجھے معاف فرما دے…"
کیا کبھی ہم نے سوچا کہ اللہ بھی ہم سے چاہتا ہے کہ ہم دوسروں کو معاف کریں؟
رمضان کی راتیں گواہ ہیں… جب ہم روتے ہوئے سجدوں میں کہتے ہیں:
"اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني"
"اے اللہ! تُو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، پس مجھے معاف فرما دے…"
تو کیا ہم اپنے دل میں بیٹھے اُن ناموں کو بھی معاف کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں دکھ دیا؟ یا پھر ہماری زبان پر دعا ہے، اور دل میں کینہ؟
رمضان نے سکھایا… جس دن ہم معاف کرتے ہیں، اسی دن ہم آزاد ہوتے ہیں۔ جس لمحے ہم "سوری" کہتے ہیں، اسی لمحے ہم خود سے بڑا بننے لگتے ہیں۔
معافی مانگنا اس لیے مشکل ہے کیونکہ وہ ہمارے نفس کو توڑتی ہے… مگر یہی ٹوٹنا، رب کو سب سے زیادہ پسند ہے۔ کیونکہ وہ دل جو جھکتا ہے، وہ رب کے قریب ہوتا ہے۔
ہم نے دیکھا… کبھی کبھی کسی کو معاف کر دینے سے، دل کا بوجھ ایسا ہلکا ہو جاتا ہے کہ جیسے کوئی اندر سے آزاد ہو گیا ہو۔ اور کبھی کسی سے معافی مانگنے سے، آنکھوں سے وہ آنسو بہتے ہیں جو برسوں سے روکے گئے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب ہم اللہ سے معافی مانگتے ہیں، تو کیا ہم بندوں سے بھی معافی مانگنے کو تیار ہیں؟
جب ہم اللہ سے چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے چھپے گناہ معاف کر دے، تو کیا ہم کسی کی چھوٹی غلطی کو معاف کر سکتے ہیں؟
کیا ہم رمضان کے بعد بھی وہ دل بنائیں گے جو انا کی دیواریں توڑ کر عاجزی کی راہ پر چلتا ہے؟
آخر میں دعا ہے اے اللہ! ہمیں وہ دل عطا کر، جو معافی مانگنے میں دیر نہ کرے… ہمیں وہ ظرف دے، جو کسی کو معاف کرنے میں تکبر نہ کرے… اور ہمیں وہ مقام عطا فرما، جہاں ہم تیری صفتِ عفو کے سائے میں جینے لگیں…
آمین، یا رب العالمین۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رمضان نے مجھے میرے اصل سے ملوایا​

رمضان، صرف عبادتوں کا موسم نہیں… یہ روح کی گہرائیوں میں اُترنے کا مہینہ ہے۔ جیسے کوئی آئینہ برسوں بعد صاف کیا جائے، ویسے ہی دل کا آئینہ رمضان میں چمکنے لگتا ہے۔ اور پھر… انسان پہلی بار اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔
ہم اکثر خود کو اپنی مصروفیات، رشتوں، خواہشات، اور دنیا کے شور میں گم کر دیتے ہیں۔ ہم وہی بن جاتے ہیں جو لوگ ہمیں کہتے ہیں… ماں، بیٹی، دوست، طالبعلم… مگر رمضان آتا ہے اور آ کر سوال کرتا ہے:
"تم، اصل میں کون ہو؟ جب سب چھن جائے، تو کیا بچتا ہے؟ جب صرف تم اور تمہارا رب رہ جائے، تو تم کیا ہو؟
رمضان نے مجھے میرے اصل سے ملوایا۔ جب سحری کے وقت آنکھ کھلتی تو پورا گھر سو رہا ہوتا… اور تب میں نے پہلی بار جانا کہ خاموشی میں رب کی آواز سنائی دیتی ہے۔
جب افطار سے کچھ لمحے پہلے ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے، اور آنکھیں خود بخود بھیگنے لگتیں، تو دل نے گواہی دی کہ "یہی ہے تو، تیرا اصل… ایک محتاج، ایک سوالی، ایک کمزور… جو صرف رب کے سامنے جھکتا ہے۔"
رمضان میں مجھے پتہ چلا کہ میں کتنا کچھ بننے کی کوشش کرتی رہی… اور میرا رب مجھے صرف "عبد" دیکھنا چاہتا تھا۔
قرآن، جو پہلے شاید صرف تلاوت کی کتاب تھی، رمضان میں دل کی آواز بن گئی۔ جب اللہ فرماتا ہے:
"وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا، فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا، قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا" (الشمس: 7-9)
"قسم ہے نفس کی اور جیسا اُسے سنوارا، پھر اسے اس کی برائی اور پرہیزگاری سمجھا دی… یقیناً وہی کامیاب ہوا، جس نے اسے پاک کر لیا۔"
مجھے لگا جیسے یہ آیت میرے اندر بول رہی ہے۔ رمضان میں نفس کی آواز کمزور اور روح کی آواز تیز ہو گئی۔ میں نے پہلی بار نفس کی چالیں محسوس کیں… اور پہلی بار خود کو روکا۔ یہیں سے اصل سفر شروع ہوا۔
رمضان نے مجھے سکھایا کہ:
میں صرف جسم نہیں، روح ہوں… میری قدر دنیا سے نہیں، رب کی رضا سے ہے… میری اصل وہ پل ہیں جب میں خاموش ہو کر رب کے حضور آنسو بہاتی ہوں… میرا سکون مال، شہرت یا لوگوں کی توجہ میں نہیں… بلکہ تنہائی کی اُس دعا میں ہے، جسے صرف رب جانتا ہے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا میں رمضان کے بعد بھی اپنی اس "اصل" کو یاد رکھ سکوں گی؟ یا پھر دوبارہ دنیا کی چمک دمک مجھے میرا اصل بھُلا دے گی؟
میرے دل کی دعا ہے:
"یا اللہ! رمضان نے مجھے مجھ سے ملوایا… اب تُو مجھے خود سے جدا نہ ہونے دینا۔ وہ سکون، وہ قرب، وہ آنسو — جو رمضان میں تیرے ساتھ میرا رشتہ بناتے تھے… انہیں باقی رکھنا، یا رب۔"
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

''رمضان نے مجھے رشتوں کو نبھانے کا سلیقہ سکھایا''​

رمضان… وہ موسمِ رحمت ہے جو صرف عبادت کا نہیں، محبت، معافی اور مروّت کا بھی سبق دیتا ہے۔
یہ مہینہ صرف رب سے تعلق جوڑنے کا نہیں، بلکہ مخلوق سے تعلقات سنوارنے کا موسم بھی ہے۔
یہ وہ لمحے ہیں جب بندہ اپنے نفس پر قابو پاتے ہوئے… دوسروں کو اپنے ظرف میں سمو لیتا ہے۔
ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ عبادتیں صرف رب سے ملاتی ہیں، لیکن اچھے اخلاق رب کو ہم سے راضی کر دیتے ہیں۔ رمضان کے روزوں نے ہمیں بھوکا تو رکھا… مگر اناؤں کی فصیلیں گرا دیں۔
ہم نے محسوس کیا کہ عبادتوں کا نور اگر ہمارے رویوں میں نہ اترے… اگر ہمارے دل میں نرمی نہ آئے… اگر ہمارے مزاج میں برداشت نہ جھلکے… تو پھر روزہ صرف ظاہری بھوک پیاس بن کر رہ جاتا ہے۔
ہم نے سیکھا کہ:
بات کا جواب دینے کے بجائے چپ رہ جانا… عبادت ہے۔
کسی کا دل دکھانے کے بجائے اسے معاف کر دینا… بندہ نوازی ہے۔
حق پر ہو کر بھی جھک جانا… رب کے قریب لے جاتا ہے۔
رشتوں کی گرہیں انا سے نہیں، عفو سے کھلتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
"وہ شخص سب سے بہتر ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو، اور میں تم سب میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔" (ترمذی)
رمضان نے یہ حدیث گویا دل پر کندہ کر دی۔ اکثر ہم باہر والوں کے ساتھ شائستہ ہوتے ہیں، اور اپنے گھر والوں پر اپنے غصے، تھکن اور بیزاری کا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔
لیکن رمضان نے سکھایا… اصل اخلاق وہ ہے جو پردے کے پیچھے ہو۔ وہ زبان، جو نرمی سے والدین سے بات کرے۔ وہ دل، جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہن بھائیوں کو معاف کر دے۔ وہ رویّہ، جو شریکِ حیات کے ساتھ برداشت کا پیکر بن جائے۔
قرآن کہتا ہے:
"وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ ٱللَّهُ لَكُمْ؟" (النور: 22)
"معاف کر دو، درگزر کرو… کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟
رمضان میں یہ آیت میرے دل پر ٹھہر گئی… جیسے رب نے مجھ سے کہا ہو:
"اگر میری مغفرت چاہتی ہو… تو دوسروں کے لیے تمہارا دل بھی کشادہ ہونا چاہیے۔"
اور میں نے سیکھا کہ رشتے دلیل سے نہیں… دعا سے جیتے جاتے ہیں۔ خلوص وہ طاقت ہے جو فاصلے مٹا دیتا ہے۔ بعض اوقات معافی مانگنے والا نہیں… معاف کرنے والا جیت جاتا ہے۔
اب جب رمضان گزر چکا ہے… تو اصل سوال یہ ہے:
کیا میں اپنی زبان کی نرمی برقرار رکھ سکوں گی؟
کیا میں رشتوں کی قیمت پہ اپنی انا کو قربان کر سکوں گی؟
کیا میں اُن سے محبت کر سکوں گی، جو میری توقعات پر پورا نہ اترے؟
یا رب! ہم نے رمضان میں ضبط سیکھا، درگزر کا ذائقہ چکھا، اور رشتوں کی قیمت جانی… اب ہمیں وہ دل دے، جو رمضان کے بعد بھی محبت کو چُنے… جو معاف کر کے ہلکا ہو جائے… اور جو تیری رضا کے لیے اپنے غصے کو پگھلا دے۔
آمین یا رب العالمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رمضان نے مجھے عادتوں کی غلامی سے نجات دلائی​

ہم سب زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر خود کو ایسی عادتوں کے حصار میں پاتے ہیں جو آہستہ آہستہ ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ وہ عادتیں جو وقت کو نگلتی ہیں، سکون کو چھینتی ہیں، دل کو بے اطمینان کرتی ہیں۔ بعض اوقات ہم جانتے ہیں کہ ہمیں بدلنا ہے… مگر "عادت" کے نام پر خود کو معذور محسوس کرتے ہیں۔
پھر آتا ہے رمضان۔ رمضان نہ صرف عبادت کا موسم ہے بلکہ خود کو پانے کا موقع بھی ہے۔ یہ مہینہ گویا دل پر دستک دیتا ہے:
"تم کمزور نہیں، تمہاری چاہتیں قید نہیں… تم جو چاہو، وہ بن سکتے ہو!"
ہم نے محسوس کیا کہ جو صبح سے شام تک اللہ کے حکم پر بھوکا پیاسا رہ سکتا ہے، جو سحری و افطاری کے وقت جاگنے کی ترتیب بنا سکتا ہے، جو ذکر، دعا، اور قرآن سے دل لگا سکتا ہے، وہ چاہے تو خود پر حاوی ہر عادت کو بدل سکتا ہے۔
رمضان نے ہمیں بتا دیا کہ ہم اپنے نفس کے غلام نہیں، بلکہ اپنی نیت کے بادشاہ ہیں۔
ہم نے سیکھا کہ وقت کی قدر ممکن ہے… اگر اذان کے وقت افطار کر سکتے ہیں تو باقی وقت کا نظم بھی سیکھ سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا سے فاصلہ ممکن ہے… جب قرآن کی تلاوت دل کو بہا لے جائے، تو باقی شور ماند پڑ جاتا ہے۔
غصے پر قابو، نیند کو ترتیب دینا، فضول باتوں سے بچنا… سب کچھ ممکن ہے، اگر دل میں ایک ہی شوق ہو "رب کی رضا!"
قرآن کہتا ہے:
"إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا۟ مَا بِأَنفُسِهِمْ" (الرعد:11)
"بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے"۔
رمضان میں ہمیں یہ تبدیلی کا راز سکھایا گیا… کہ پہلا قدم اللہ کی طرف بڑھاؤ، باقی سفر وہ خود آسان کر دیتا ہے۔
اب جب رمضان کے دن پیچھے رہ گئے ہیں… تو اصل سوال یہ ہے کہ کیا میں وہی نظم، وہی سکون، وہی ضبط اپنے باقی دنوں میں لا پاؤں گی؟ کیا میں اُن عادتوں کو واقعی پیچھے چھوڑ پاؤں گی، جو صرف وقت نہیں، روح بھی زائل کرتی تھیں؟
یا اللہ! جس رمضان میں تُو نے ہمیں خود پر قابو پانے کا سلیقہ سکھایا، اُس سلیقے کو ہماری زندگیوں کا حصہ بنا دے۔ ہمیں اُن بندھنوں سے آزاد کر دے جو تجھ سے دور کرتے ہیں… اور ایسی پاکیزہ عادتیں نصیب فرما، جو ہماری روحوں کو تیرے قریب کرتی رہیں۔
آمین، یا رب العالمین۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

"معاشرتی اخلاقیات کی اہمیت کا درس"​

"رمضان نے مجھے معاشرتی اخلاقیات کی اہمیت سکھائی"۔ یعنی وہ اخلاق جو صرف فرد کی حد تک نہیں، بلکہ سوسائٹی کو جوڑنے، تعلقات کو سنوارنے، اور دلوں کو نرم رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
رمضان محض انفرادی عبادات کا مہینہ نہیں، بلکہ ایک ایسا اجتماعی تربیتی نظام ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ معاشرت کیسے خوبصورت بنائی جا سکتی ہے کردار، سچائی، برداشت، شفقت اور عدل کے ذریعے۔
رمضان کی پرُنور فضا میں عبادات کا حسن تو اپنی جگہ، لیکن جس بات نے دل کو سب سے زیادہ بدلا وہ تھا دوسروں کے ساتھ رویے کا شعور۔ روزہ صرف بھوک پیاس کا نام نہیں تھا، بلکہ یہ ایک تربیت تھی کہ میرا ہر عمل، ہر لفظ، اور ہر جذبہ میرے رب کے حضور ریکارڈ ہو رہا ہے۔
رمضان نے مجھے سکھایا کہ عبادت صرف سجدے میں نہیں، بلکہ کسی کے لیے راستہ چھوڑ دینے میں، افطار کے وقت کسی کو کھجور پکڑانے میں، تھکن کے باوجود مسکرا کر بات کرنے میں، اور اختلاف کے باوجود خاموش رہنے میں بھی ہے۔
معاشرتی اخلاقیات کا مطلب یہ نہیں کہ میں صرف اچھی نظر آؤں، بلکہ یہ ہے کہ میں واقعی کسی کے لیے آسانی کا ذریعہ بنوں۔ رمضان میں جب ہم دوسروں کے لیے افطار تیار کرتے ہیں، کسی کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں، یا دل پر جبر کر کے معاف کرتے ہیں تو ہم دراصل ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد رکھ رہے ہوتے ہیں جہاں رب کی رضا کو فوقیت حاصل ہے، نہ کہ انا، غصے یا خود غرضی کو۔
اور قرآن مجید ہمیں یہی تربیت دیتا ہے۔ ایک ایسی جامع آیت کے ذریعے جو جیسے اخلاق کا آئینہ ہے:
إِنَّ ٱللَّهَ يَأۡمُرُ بِٱلۡعَدۡلِ وَٱلۡإِحۡسَٰنِ وَإِيتَآئِ ذِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَيَنۡهَىٰ عَنِ ٱلۡفَحۡشَآءِ وَٱلۡمُنكَرِ وَٱلۡبَغۡيِ ۚ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُونَ (سورۃ النحل: 90)
"بیشک اللہ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو دینے کا، اور روکتا ہے بے حیائی سے، برائی سے اور زیادتی سے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔"
یہی آیت ہے جو دل پر دستک دیتی ہے: اگر رمضان کے بعد بھی میرا رویہ عدل، احسان اور صلہ رحمی سے خالی ہے تو میری عبادت ابھی مجھ پر اثرانداز نہیں ہوئی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اَفْضَلُ الْاَعْمَالِ بَعْدَ الْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ تَعَالٰی: إِدْخَالُ السُّرُوْرِ عَلَی الْمُسْلِمِ" (طبرانی)
"اللہ پر ایمان کے بعد سب سے افضل عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان کو خوشی پہنچائی جائے"
رمضان میں جب ہم یہ سیکھتے ہیں کہ کسی کے لیے آسانی پیدا کرنا عبادت ہے، تو یہی اصل معاشرتی اخلاق کی روح ہے۔
رمضان ختم ہو گیا… مگر سوال باقی ہے: کیا میں رمضان کے بعد بھی اتنی ہی نرمی، برداشت اور خوش اخلاقی سے پیش آؤں گی؟ کیا میرے اخلاق رمضان کے اندر اور باہر مختلف تو نہیں؟ کیا میں نے سمجھا کہ لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک صرف ایک دنیاوی رویہ نہیں، بلکہ اللہ کی رضا کی طرف لے جانے والا راستہ ہے؟
یا اللہ! جس طرح رمضان نے ہمارے دلوں کو نرم کیا، ہماری زبانوں کو شائستہ کیا، اور ہمارے رویوں میں توازن پیدا کیا — اس کو مستقل مزاجی عطا فرما۔ ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم تیرے بندوں کے ساتھ اس طرح پیش آئیں جیسے تُو چاہتا ہے — نرمی، عدل، سچائی اور شفقت کے ساتھ۔
اے ربّ کریم! ہمارے اخلاق کو ہمارے ایمان کا ترجمان بنا دے، اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کر جو جہاں بھی ہوں، سوسائٹی میں خیر، محبت اور انصاف کا پیغام بن جائیں۔
آمین یا رب العالمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

"رمضان نے مجھے اللہ کی صفات پر غور کرنے کا موقع دیا"​

رمضان میرے لیے صرف ایک عبادت کا موسم نہیں رہا، یہ ایک "تعارف نامہ" تھا…
میرے رب کی پہچان کا، اس کے صفاتی جمال کا، اس کی ان صفات کا جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتیں، مگر دل کی آنکھ سے محسوس کی جا سکتی ہیں۔
جب روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس حد سے گزرنے لگتی، تو میں "الصبور" کو محسوس کرتی۔ کیسا رب ہے جو اپنے بندے کو صبر سکھانے کے لیے خود "صابر" ہونے کی صفت سے متصف ہے!
جب افطار کے وقت پانی کا پہلا گھونٹ حلق سے گزرتا، تو دل سے بے ساختہ نکلا "تو ہی الرزاق ہے جو وقت پر عطا کرتا ہے، اور بغیر مانگے بھی دیتا ہے۔"
جب سحری کی تنہائی میں آنکھ کھلتی، اور اذان فجر سے پہلے رب کے سامنے گڑگڑا کر دعائیں مانگتی، تو میں "السمیع" اور "القریب" کو محسوس کرتی۔ وہ جو سب کچھ سنتا ہے، اور اتنا قریب ہے کہ میری سانسوں کی لرزش بھی جان لیتا ہے۔
رمضان نے مجھے اللہ کی صفات کو صرف الفاظ کے طور پر نہیں، بلکہ زندگی کی حقیقتوں میں جیتا جاگتا محسوس کرنے کا شعور دیا۔
قرآن کی آیات جیسے میری روح سے ہمکلام ہونے لگیں:
"إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ" (سورۃ یوسف: 100)
"یقیناً میرا رب جو چاہے، لطیف طریقے سے کرتا ہے"
تب میں نے "اللطیف" کو ان لمحوں میں پہچانا، جب کوئی میرے لیے دعا کر گیا، جب وقت پر دروازہ کھلا، جب ناامیدی میں سکون اتر آیا۔ یہ سب کچھ ظاہراً بہت چھوٹا،مگر دل پر اللہ کی "لطافت" کا نشان بن کر رہ گیا۔
رمضان میں رب کی صفات میری زندگی کے ہر گوشے میں اترنے لگیں جب میں نے معافی مانگی، تو وہ "الغفور" بن گیا۔ جب میں نے تھک کر ہار ماننا چاہی، تو وہ "الحنّان" بن کر سہارا بن گیا۔ جب میں نے دل کے نہاں خانوں سے مانگا، تو اس کی "المجیب" صفت نے میرے گمان سے بھی بڑھ کر عطا کیا۔
اور تب مجھے یہ راز سمجھ آیا کہ اللہ کی صفات پر غور کرنا، خالص محبت کی وہ راہ ہے جو بندے کو صرف سجدے تک نہیں، بلکہ اللہ کی قربت کے دروازوں تک پہنچا دیتی ہے۔
اب رمضان رخصت ہو چکا ہے… لیکن میرے اندر سوال گونجتے رہتے ہیں: کیا میں باقی سال بھی رب کی صفات کو اپنی زندگی میں اسی طرح محسوس کر پاؤں گی؟ کیا میں ہر خوشی میں "الکریم" کو، ہر آزمائش میں "الحکیم" کو، اور ہر تاخیر میں "الخبیر" کو پہچان سکوں گی؟ کیا میری عبادتیں رب کی پہچان سے مزین رہیں گی، یا صرف عادت بن کر رہ جائیں گی؟
یا اللہ! جس طرح رمضان نے ہمارے دلوں کو تیری صفات کی روشنی میں منور کیا، اسی طرح ہماری زندگی کا ہر دن تیری کسی صفت کی ایک نئی جھلک بن جائے۔
یا اللہ! ہمیں وہ دل عطا فرما جو تجھے صرف پکارتا نہ رہے، بلکہ تجھے پہچان کر پکارے۔ ہمیں وہ یقین دے، کہ جب ہم "الرحمن" کہوں تو دل میں تیری رحمت اتر آئے، جب "العلیم" کہیں تو اپنے جاہل نفس کا ادراک ہو، اور جب "الحفیظ" کہیں، تو اپنے تمام خوف تیرے سپرد کرنے کا حوصلہ آ جائے۔
یا رب! ہمیں ان خوش نصیبوں میں شامل فرما جنہیں صرف تیرے انعامات نہیں، بلکہ تیری ذات محبوب ہے۔
آمین یا رب العالمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رمضان نے مجھے شکر گزاری کا سلیقہ سکھایا​

رمضان کا مہینہ آیا، اور ہر روز ایک نئی نعمت کی پہچان ساتھ لے آیا۔ روزہ… ایک تربیت ہے… ایک ایسا سفر، جو صرف پیٹ کی بھوک نہیں، دل کی پیاس بھی جگا دیتا ہے۔
ایک افطاری کے وقت، جب پانی کا پہلا گھونٹ لبوں سے لگا… آنکھیں نم ہو گئیں۔ دل نے پہلی بار شدت سے محسوس کیا کہ
"یہ صرف پانی نہیں… یہ اللہ کی محبت ہے، جو ہماری کمزوری پر مہربان ہوتی ہے۔"
اسی لمحے دل میں ایک سوال جاگا:
"جو رب پیاس کے بعد پانی دیتا ہے… وہ باقی وقتوں میں بھی کتنی دعائیں چپ چاپ پوری کرتا ہے؟"
رمضان نے ہمیں چھوٹی چھوٹی نعمتوں کا احساس دلایا:
بجلی کا ہونا، اور کبھی کبھار چلے جانا… ماں کے ہاتھ کا کھانا… کسی کا بلا وجہ ہنس کر بات کر دینا… تندرستی میں سحری و افطار کرنا… یہ سب وہ لمحات ہیں جن میں اللہ کی مہربانی چھپی ہوتی ہے، بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
"نبی کریم ﷺ راتوں کو اتنی طویل نماز پڑھتے کہ قدم مبارک سوج جاتے۔ میں نے عرض کیا:
''یا رسول اللہ! آپ تو معصوم ہیں، آپ کے اگلے پچھلے گناہ سب معاف ہیں…''
تو آپ ﷺ نے فرمایا:
''أفلا أكون عبداً شكوراً؟''
''تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟'' (بخاری و مسلم)
اس ایک جملے نے شکر گزاری کا مفہوم بدل کر رکھ دیا۔ شکر صرف ملنے پر نہیں، بندگی کے جذبے سے ادا کیا جاتا ہے۔
رمضان نے دل میں یہ ادراک بٹھا دیا کہ ہم رب کی نعمتوں کے محتاج ہیں… نہ صرف کھانے پینے میں، بلکہ ہر لمحہ، ہر سانس، ہر رشتے میں۔
رمضان کے آخری دنوں میں، جب تھکن اور سکون ایک ساتھ محسوس ہونے لگا، دل نے کہا:
"یا رب! تُو کتنا قریب ہے… میں نے سحری میں تھوڑا سا پانی مانگا، تُو نے برکت والا دن عطا کیا۔
میں نے افطاری میں دعا کی، تُو نے دل کو سکون بخشا۔
اب میں تُجھ سے مانگتی ہوں: اے میرے رب! مجھے ہمیشہ شکر گزار بندہ بنا دے۔"
یہی تو اس کا وعدہ ہے:
"لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ" (ابراہیم: 7)
''اگر تم شکر کرو گے، تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔''
رمضان گزر چکا ہے… لیکن اب سوال یہ ہے: کیا میں اب بھی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا شکر ادا کروں گی؟ کیا میں ہر نعمت کو عطیۂ ربانی سمجھوں گی؟ کیا میں شکر گزاری کو فقط زبان پر نہیں، عمل اور سوچ میں بھی اتار سکوں گی؟
یا اللہ! ہمیں وہ آنکھ عطا کر جو نعمتوں کو پہچانے، وہ دل دے جو ہر حال میں راضی رہے، اور وہ زبان دے جو نہ صرف تیری حمد کرے… بلکہ تیری مخلوق کی شکر گزار بھی ہو۔
آمین، یا رب العالمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

رمضان نے مجھے راتوں کی تنہائی میں اللہ کو پکارنا سکھایا​

رمضان کی راتیں… ساکت، پرسکون، اور نور سے بھری ہوئی۔ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب پوری دنیا خاموشی کی چادر اوڑھے ہوتی ہے۔
مگر ایک در کھلا ہوتا ہے… رحمت کا در، قبولیت کا در، قربِ الٰہی کا در۔
یہ رمضان ہی تھا جب پہلی بار رات کے آخری پہر میری آنکھ خودبخود کھل گئی۔
نہ کسی الارم نے جگایا، نہ کسی صدا نے بلایا،
بس دل نے سرگوشی کی:
"اٹھ جاؤ، رب تجھے بلا رہا ہے…"
میں اٹھی، وضو کیا، اور سجدے میں گر گئی… اور پہلی بار جانا کہ دعا صرف الفاظ نہیں ہوتی، یہ وہ کیفیت ہے جو آنکھ سے بہہ جاتی ہے، یہ وہ سکوت ہے جو عرش تک سنائی دیتا ہے۔
ان راتوں میں میں نے رب سے وہ باتیں کیں جو کسی انسان سے نہ کر سکی۔ میں نے اپنے ٹوٹے دل، اپنی الجھنیں، اپنے خوف، اپنی امیدیں… سب اس کے سامنے رکھ دیں۔
قرآن کہتا ہے:
"وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِ" (البقرہ: 186)
''اور جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں پوچھیں، تو بے شک میں قریب ہوں، میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔"
رمضان نے یہ آیت میرے دل پر کندہ کر دی۔ مجھے لگا جیسے اللہ میرے قریب آ گیا ہو… یا شاید میں اُس کے قریب ہو گئی ہوں۔
اس ایک مہینے میں میں نے سیکھا کہ سجدے صرف فرض ادا کرنے کا نام نہیں، یہ دل کی گواہی ہیں۔ آنکھوں کے آنسو رب کی رحمت کو بلاتے ہیں۔ وہ خاموش دعائیں جو لفظوں میں نہیں ڈھل سکیں… رب اُنہیں بھی سن لیتا ہے۔
میں نے ان راتوں میں جب رب کو پکارا، تو ایسا لگا جیسے میری ہر بات اُس تک پہنچ گئی ہو، اور اُس نے میرے دل کو تھام لیا ہو۔
کبھی کبھی کچھ بدلا نہیں… مگر دل کے اندر ایک سکون اتر گیا… جیسے رب کہہ رہا ہو:
"میں ہوں تمہارے ساتھ، بس تھوڑا صبر کرو…"
اب جب رمضان اختتام پذیر ہو چکا ہے تو کیا میں ان راتوں کی وہ روشنی بچا پاؤں گی؟ کیا میں رمضان کے بعد بھی اُسی محبت سے رب کو پکار سکوں گی؟ کیا میری روح اسی خشوع کے ساتھ سجدے میں گرے گی؟
یا رب! رمضان کی تنہائیوں میں تو نے ہمیں وہ احساس دیا جو ساری دنیا نہ دے سکی… ہمیں وہ راتیں پھر عطا کرنا… وہ سجدے، وہ دعا، وہ تڑپ… رمضان کے بعد بھی ہمارے اندر زندہ رکھنا۔ ہمیں راتوں کی روشنی عطا فرما، اور وہ دل جو ہمیشہ تیری طرف لوٹتا رہے۔
آمین یا رب العالمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

سخاوت کا مفہوم​

رمضان میں سخاوت صرف مالی نہیں بلکہ روحانی، اخلاقی اور جذباتی سطح پر بھی نمو پاتی ہے۔ رمضان نے مجھے سخاوت کا صحیح مفہوم سکھایا۔
رمضان… وہ مہینہ جو صرف خیرات کا نہیں، خُلق کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ یہ صرف مالی سخاوت کی دعوت نہیں دیتا، بلکہ دل، وقت، توجہ، برداشت اور محبت کی بخشش کا موسم بن کر آتا ہے۔
ہم نے سیکھا کہ سخاوت صرف دینے کا نام نہیں، بلکہ دل سے دینے کا نام ہے… ایسا دینا، جس میں نہ احسان ہو، نہ احساسِ برتری… صرف رضائے الٰہی ہو۔
رمضان نے پہلی بار یہ شعور عطا کیا کہ کسی غریب کو مسکرا کر دیکھ لینا بھی سخاوت ہے۔ غصے کے جواب میں نرمی سے بات کرنا بھی سخاوت ہے۔ کسی کی غلطی پر پردہ ڈال دینا بھی سخاوت ہے۔ مصروفیت میں سے وقت نکال کر کسی کا حال پوچھ لینا بھی سخاوت ہے۔ اور سب سے بڑھ کر… کسی کے ساتھ دل سے خیر خواہی کرنا، وہ عظیم ترین سخاوت ہے، جو روح کو سکون دیتی ہے۔
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
وَمَا تُنفِقُوا۟ مِن شَىْءٍۢ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ (البقرہ: 273)
"اور جو کچھ بھی تم (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہو، یقیناً اللہ اسے جانتا ہے۔"
یعنی تمہارے خلوص کو، تمہارے دل کی نیت کو، تمہارے چھپے ہوئے احسان کو… سب کو وہ رب دیکھ رہا ہے۔
رمضان نے سکھایا کہ اصل سخی وہ نہیں جو بہت کچھ دے… بلکہ وہ ہے جو دیتے وقت دل کو خالی نہیں، بلکہ خوش محسوس کرے۔ جو تھوڑا دے، مگر خلوص سے دے۔ جو احسان نہ جتائے، بلکہ شکر ادا کرے کہ اللہ نے اسے دینے والا بنایا۔
ہم نے جانا کہ سخاوت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وقت کی سخاوت: جب ہم کسی کی بات تحمل سے سنیں۔ علم کی سخاوت: جب ہم کسی کی رہنمائی کریں۔ دُعا کی سخاوت: جب ہم خاموشی سے کسی کے حق میں رب سے مانگیں۔ اور سب سے خوبصورت: دل کی سخاوت… جب ہم کسی کو معاف کر دیں، چاہے وہ معافی نہ مانگے۔
اب جب رمضان رخصت ہو چکا ہے… تو سوال یہ ہے کہ کیا میری سخاوت صرف افطاری کے دستر خوان تک محدود تھی؟ یا میں اب بھی *مسکرا کر دینا، چپ رہ کر معاف کرنا، اور دل سے خیر خواہی کرنا سیکھ چکی ہوں؟ کیا میں اپنے لفظوں، وقت، توجہ اور دل کو رمضان کے بعد بھی بانٹ سکوں گی؟
یا اللہ! رمضان نے ہمیں دینے کا ڈھنگ سکھایا، اب ہمیں وہ دل عطا فرما جو تیرے بندوں کو دے کر خوش ہو، جو احسان نہیں، احسان کا شکر ادا کرے… اور جو ہر عطا کو تیری رضا سے جوڑ دے۔
آمین یا رب العالمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

"رمضان نے مجھے انسانیت کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کا موقع دیا"​

رمضان، عبادتوں کا مہینہ ہے، مگر میرے لیے یہ صرف سجدوں کی گنتی کا نام نہیں رہا — یہ میرے اندر کے انسان کو جگانے والا مہینہ بن گیا۔
ہر روزے کے ساتھ، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے اندر سے ایک غفلت کا پردہ اٹھ رہا ہو۔
میں نے جانا کہ دین کی اصل روح صرف ظاہری عبادات نہیں، بلکہ انسانیت کے بنیادی اصول ہیں:
احساس، عدل، رحم، عفو، اور نرمی۔
جیسے جیسے دن گزرتے گئے، میں نے محسوس کیا کہ رمضان مجھے "میں" سے نکال کر "ہم" کی طرف لے جا رہا ہے۔ کہیں کوئی فقیر خاموشی سے مسجد کے دروازے پر کھڑا ہے، کہیں کوئی بزرگ سحر میں تنہا بیٹھا روٹی چائے سے روزہ رکھتا ہے، کہیں کوئی مزدور سخت دھوپ میں کام کرتا ہوا روزہ رکھ رہا ہے…
یہ مناظر میرے لیے ایک آئینہ تھے۔
رمضان نے میرے سامنے انسانیت کا اصل چہرہ رکھا۔ جہاں رنگ، نسل، زبان یا حیثیت نہیں، بلکہ دل کی صفائی، ہاتھ کی سخاوت، اور دوسروں کے لیے درد اصل قدر بن جاتا ہے۔
قرآن میں رب نے فرمایا:
"إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ بِٱلْعَدْلِ وَٱلْإِحْسَـٰنِ"(سورۃ النحل: 90)
"بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے"
رمضان میں یہی دو صفات عدل اور احسان میرے دل میں گہرے نقش چھوڑ گئیں۔
عدل: خود کے لیے جو پسند کرو، وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرو۔
احسان: بغیر مطالبے، بغیر صلے، بغیر شہرت کے، دوسروں کے لیے بھلائی کرتے جانا۔
رسول اللہ ﷺ کا رمضان میں مزاج اور سخاوت عام دنوں سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی تھی، اور آپ ﷺ خود فرماتے:
"أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ سُرُورٌ تُدْخِلُهُ عَلَىٰ مُسْلِمٍ"
"سب سے بہتر عمل وہ ہے جو تم کسی مسلمان کے دل میں خوشی ڈال کر کرو" (طبرانی)
رمضان نے مجھے یہی سکھایا کہ انسانیت صرف ہمدردی کے جذبات کا نام نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی میں ان جذبات کو عمل میں ڈھالنے کا نام ہے۔ کبھی کسی کو معاف کر دینا، کبھی کسی کو برداشت کر لینا، کبھی کسی کی خاموشی کو سن لینا۔ یہی تو دین ہے، یہی تو انسانیت ہے۔
اب رمضان رخصت ہو چکا ہے… مگر میرے دل میں ایک سوال رہ گیا ہے کہ کیا میں سال کے باقی دنوں میں بھی انسانیت کے ان اصولوں پر قائم رہ سکوں گی؟ کیا میں ہر روز اپنے اندر کے "میں" کو تھوڑا کم اور "ہم" کو تھوڑا زیادہ کر سکوں گی؟ کیا میں رمضان کے بعد بھی انسانوں سے ویسا ہی سلوک کروں گی جیسا اللہ نے اپنے بندوں سے کرنے کا حکم دیا ہے؟
یا اللہ! جس طرح تُو نے رمضان میں ہمارے دلوں کو انسانیت کا آئینہ دکھایا، ویسا ہی نور باقی دنوں میں بھی عطا فرما۔ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو دوسروں کے لیے آسانی بنیں، جو عدل کریں، احسان کریں، اور تیرے بندوں کے لیے رحمت بنیں۔ ہمارے دلوں کو انسانیت کے درد سے آباد کر دے، اور ہمارے عمل کو تیرے دین کا ترجمان بنا دے۔
آمین یا رب العالمین!
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

"رمضان نے مجھے یہ سکھایا کہ اصل جنگ باطن میں ہے"​

دنیا کی جنگیں ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہیں، لیکن انسان کی سب سے بڑی جنگ… اُس کے باطن میں چلتی ہے۔ رمضان آیا تو ظاہری عمل میں کچھ خاص تبدیلی نہ تھی — وہی دن، وہی معمولات…
لیکن کچھ اندر ہلنے لگا، جیسے کوئی خاموش لڑائی شروع ہو گئی ہو۔ کبھی نیند سے لڑنا… کبھی غصے سے… کبھی دل سے…
اور تب پہلی بار دل نے جانا:
"سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو میرے اپنے نفس کے اندر چھپا ہوا ہے۔"
رمضان کی اصل تربیت یہ نہیں کہ پیٹ خالی ہو، بلکہ *باطن پاک* ہو۔
زبان خاموش ہو، لیکن دل جاگتا رہے۔ ہاتھ رکے رہیں، مگر نیت عمل کرتی رہے۔
قرآن کہتا ہے:
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ" (سورۃ التغابن:16)
"پس اللہ سے ڈرو جتنا تم سے ہو سکے، سنو اور اطاعت کرو، اور خرچ کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا جائے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔"
رمضان نے ہمیں ہمارے اندر جھانکنا سکھایا۔ جہاں خواہشات کا طوفان تھا، جہاں انا کی دھول بیٹھی ہوئی تھی، جہاں نیتیں الجھی ہوئی تھیں، جہاں نفس مسلسل پکار رہا تھا: "اپنے آپ کو سنوارنے سے پہلے، دوسروں کو بدل لو!"
مگر رمضان کی نورانی فضا میں، ایک آواز دل کے اندر سے آئی:
"نہیں… اصل جہاد باہر نہیں، اندر ہے۔"
یہی وہ لمحہ تھا جب احساس ہوا:
لوگوں کی باتوں سے زیادہ، اپنے ردعمل پر نگاہ رکھنی ہے۔
ظاہری عبادت کے ساتھ، نیتوں کی اصلاح ضروری ہے۔
نماز میں قیام سے زیادہ، دل کا اللہ کے آگے جھک جانا ضروری ہے۔
اور سب سے بڑھ کر، شیطان سے پہلے، نفس کو شکست دینا ضروری ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے اللہ کی اطاعت کے لیے۔" (ابن ماجہ)
رمضان نے ہمیں وہ آئینہ دیا جس میں ہم نے دوسروں نہیں، اپنے آپ کو دیکھا۔
ہم نے وہ تلخ حقیقت قبول کی کہ:
ہم دوسروں کے عیب خوب پہچانتے ہیں، مگر اپنے نفس کی کمزوریوں سے غافل ہیں۔
ہم زبان سے تسبیح پڑھتے ہیں، مگر دل میں کینہ رکھتے ہیں۔
ہم نظر جھکا لیتے ہیں، مگر نیتیں نہیں جھکاتے۔
اور پھر دل نے کہا:
"یا اللہ! میرے اندر کا یہ شور، یہ خواہشات کی ہنگامہ خیزی، یہ تکبّر، یہ دکھاوا، یہ خود فریبی…
میں ان سب کے خلاف لڑنا چاہتی ہوں — کیونکہ یہ جنگ سب سے مشکل، اور سب سے ضروری ہے۔"
اب جب رمضان گزر چکا ہے… تو اصل سوال یہی ہے: کیا میں اس جنگ کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھ سکوں گی؟ کیا میں نفس کی ہر چال کو پہچان کر، رب کے سامنے جھک سکوں گی؟ کیا میں ظاہری دینداری سے آگے نکل کر، باطن کی صفائی پر توجہ دے سکوں گی؟
یا اللہ! ہمیں وہ نظر عطا فرما جو اپنے باطن کو دیکھ سکے، اور وہ ہمت عطا فرما جو اپنے نفس سے لڑ سکے۔ ہمیں رمضان کا وہ مجاہد بنا دے جو نفس کو شکست دے کر تیرے قرب کی جانب بڑھے… کیونکہ اصل جیت، باطن میں جیتنا ہے۔
آمین یا رب العالمین!
 
Top