مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے بارے میں سوال

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
میرے ایک بہت ہی قریبی دوست جو مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزار کر آئے تو ان سے میں نے سوال کیا کہ مولانا صاحب کو کیسے پایا؟

جواب دیکھیں

الحمداللہ حضرت کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا،یقین مانیں اللہ کے ولیوں والی صفات ہیں۔
تلاوت،ذکرو اذکار،علم نبویﷺ میں مہارت،بات دلیل سے ،نماز کی پابندی،قرآن کریم از بار یاد کہیں تھوڑا سا آپ کو مشابہ لگ جائے فورا سے قبل جواب دیتے ہیں،ذہین ترین انسان ،سب کی بات تحمل سے سنتے ہیں،بعض اوقات کروی بات کا جواب بھی مسکرا کر دیتے ہیں۔
سفر میں جارہے ہیں نماز کا وقت ہوا تو اگر مقام مقصود تک پہنچنے سے قبل نماز کے کزاہونے کا خطرہ ہو گاڑی رکواکر سڑک کنارے نماز ادا کرتے ہیں۔
حرم شریف میں دیکھا روضہ رسولﷺ پر قدمین مبارک کے پاس بیٹھ کر سر نیچے کرکے گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں،ایک دفعہ از خود کہا تھا کہ وہاں ہر دل کی بات کرتاہوں۔
یکسوئی اور دلجوئی کے ساتھ دعا کرتے دیکھا،سفر میں قرآن کی تلاوت کرتے دیکھا،رمضان المبارک میں تراویح میں 10 دن میں قرآن سناتے دیکھا۔
یہ سب وہ چیزیں ہیں جو لوگوں سے کوسوں دور ہیں۔

میرا دوسرا سوال تھا اگر کوئی مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی عزت بھی کرے ان کی علم کی وجہ سے ان کی شخصیت کی وجہ سے ان کا احترام اور علماء والا مقام بھی دے مگر ان کی سیاست سے اختلاف رکھے اس پر کوئی فتویٰ لگے گا؟

اختلاف سب کو ہو سکتا ہے۔
لیکن بطور ایک عالم سیاست سے اختلاف اخلاق کے دائرے میں کیا جائے۔
طنز یا ایسا کچھ نہیں ہونا چاہئیے۔

بقول حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ جو علماء پر طنز کرے،برا بھلا کہے،یا ایسا کچھ کرے تو موت کے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوگا۔

حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرمایا کرتے تھے جو علماء پر طنز کرتاہو قبر کھول کر دیکھ لو اس کا منہ کعبہ سے ہٹ چکا ہوگا۔


اختلاف کسی سے بھی ہو سکتا ہے،لیکن وہ اخلاقیات کے حدود میں رکھا جائے۔
 

رعنا دلبر

وفقہ اللہ
رکن
جس نے قریب سے جس کو دیکھا ہو وہی بتا سکتا ہے کہ سامنے والے کی خلوت و جلوت کیا ہے۔
آج کر علماء پر طنز کرنا معمول بن گیا ہے ، ہو نہ ہو بس موضوع عالم دین ہے۔
آپ کے دوست نے بات درست کی اختلاف کرو ، مگر اخلاقیات سے مت گرجاو۔
 
Top