السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
آج مملکت خداد میں 29 ذی قعدہ ہے،ممکن ہے آج یا کل ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے،بہت سے احباب اسی نسبت سے ’’قربانی کرنے والے کے لیے ذی الحجہ کی یکم تاریخ سے بال اور ناخن نہ کاٹنے کےحکم‘‘ كے بارے میں اور اس كی حكمت كے بارے میں جاننے کے لیے سوالات کررہے ہیں ان کی خدمت میں چند گزار شات عرض ہیں۔
قربانی کرنے والے کے لیے ذی الحجہ کی یکم تاریخ سے بال اور ناخن نہ کاٹنے کےحکم:۔
درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جاندار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔
اب جب کہ قربانی کا مقصد معلوم اور مستحضر ہوگا تو گویا قربانی کرنے والے نے اپنے آپ کو گناہوں کی وجہ سے عذاب کا مستحق سمجھا کہ میں اس قابل ہوں کہ ہلاک ہوجاؤں اور میری جان خدا کے لیے قربان ہوجائے، لیکن شریعت نے جان کے فدیہ میں جانور کی قربانی مقرر کردی، سو یہ جانور انسان کی نیابت میں قربان ہورہاہے، تو قربانی کے جانور کا ہر جزو قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے ۔ لہٰذا جس وقت جانور قربانی کے لیے خریدا جائے یا قربانی کے لیے خاص کیا جائے اس وقت انسانی جسم جس حالت میں ہو، مختص کردہ جانور اس انسانی جسم کے قائم مقام ہوجائے گا، اور جانور قربانی کے لیے خاص کرنے کے بعد جسم کا کوئی جز (نال، ناخن، کھال وغیرہ) کاٹ کر کم کردیا گیا تو گویا مکمل انسانی جسم کے مقابلے میں جانور کی قربانی نہیں ہوگی، جب کہ جانور انسانی جان کا فدیہ قرار پاچکاتھا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ قربانی اور نزولِ رحمت کے وقت انسانی جسم کا کوئی عضو و جزو کم ہو کر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فیضان الٰہی کی برکات سے محروم نہ رہے،تاکہ اس کو مکمل فضیلت حاصل ہو اور وہ مکمل طور پر گناہوں سے پاک ہو ، اس لیے آں حضرتﷺنے مذکور حکم دیا ہے ۔
اہم وضاحت:۔
یہ حکم مستحب ہے اور ان لوگوں کے لئے جو قربانی دینے والے ہوں، ذوالحجہ کا چاند دیکھنے سے لیکر جب تک کہ ان کی طرف سے قربانی نہ ہوجائے۔ اس وقت تک سر کے بالوں اور دیگر بالوں کو نکالنے اور ناخن کاٹنے سے احتیاط کرنا چاہئے، جو لوگ قربانی دینے والے نہیں ہے ان کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص قربانی دینے سے پہلے ایسا کر لے تو کوئی گناہ نہیں اور اس سے قربانی میں خلل نہیں آتا۔ (ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل و احکام: ۳۴)
آج مملکت خداد میں 29 ذی قعدہ ہے،ممکن ہے آج یا کل ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے،بہت سے احباب اسی نسبت سے ’’قربانی کرنے والے کے لیے ذی الحجہ کی یکم تاریخ سے بال اور ناخن نہ کاٹنے کےحکم‘‘ كے بارے میں اور اس كی حكمت كے بارے میں جاننے کے لیے سوالات کررہے ہیں ان کی خدمت میں چند گزار شات عرض ہیں۔
قربانی کرنے والے کے لیے ذی الحجہ کی یکم تاریخ سے بال اور ناخن نہ کاٹنے کےحکم:۔
’’حدثنا ابن أبي عمر المكي، حدثنا سفيان، عن عبد الرحمن بن حميد بن عبد الرحمن بن عوف، سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة رضي الله عنها، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئا، قيل لسفيان: فإن بعضهم لا يرفعه، قال: لكني أرفعه.
اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےارشاد فرمایا:
’’جب ذو الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بال، ناخن یا کھال کا کچھ بھی حصہ نہ کاٹے، جب تک قربانی نہ کردے۔‘‘(صحيح مسلم ج:۳، ص:۱۵۶۵، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)
دوسری روایت میں ارشاد فرمایا:اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےارشاد فرمایا:
’’جب ذو الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بال، ناخن یا کھال کا کچھ بھی حصہ نہ کاٹے، جب تک قربانی نہ کردے۔‘‘(صحيح مسلم ج:۳، ص:۱۵۶۵، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)
’’ اذا رایتم ہلال ذی الحجۃ واراد احدکم ان یضحی فلیمسک عن شعرہ و اظفارہ۔‘‘
جب کسی شخص کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوتے ہی اپنے بال و ناخن کٹوانے سے پرہیز کرے۔(مسلم، حدیث نمبر ۳۶۶۲)
قربانی کا فلسفہ اور اس حکم کی حکمت:جب کسی شخص کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوتے ہی اپنے بال و ناخن کٹوانے سے پرہیز کرے۔(مسلم، حدیث نمبر ۳۶۶۲)
درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جاندار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔
اب جب کہ قربانی کا مقصد معلوم اور مستحضر ہوگا تو گویا قربانی کرنے والے نے اپنے آپ کو گناہوں کی وجہ سے عذاب کا مستحق سمجھا کہ میں اس قابل ہوں کہ ہلاک ہوجاؤں اور میری جان خدا کے لیے قربان ہوجائے، لیکن شریعت نے جان کے فدیہ میں جانور کی قربانی مقرر کردی، سو یہ جانور انسان کی نیابت میں قربان ہورہاہے، تو قربانی کے جانور کا ہر جزو قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے ۔ لہٰذا جس وقت جانور قربانی کے لیے خریدا جائے یا قربانی کے لیے خاص کیا جائے اس وقت انسانی جسم جس حالت میں ہو، مختص کردہ جانور اس انسانی جسم کے قائم مقام ہوجائے گا، اور جانور قربانی کے لیے خاص کرنے کے بعد جسم کا کوئی جز (نال، ناخن، کھال وغیرہ) کاٹ کر کم کردیا گیا تو گویا مکمل انسانی جسم کے مقابلے میں جانور کی قربانی نہیں ہوگی، جب کہ جانور انسانی جان کا فدیہ قرار پاچکاتھا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ قربانی اور نزولِ رحمت کے وقت انسانی جسم کا کوئی عضو و جزو کم ہو کر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فیضان الٰہی کی برکات سے محروم نہ رہے،تاکہ اس کو مکمل فضیلت حاصل ہو اور وہ مکمل طور پر گناہوں سے پاک ہو ، اس لیے آں حضرتﷺنے مذکور حکم دیا ہے ۔
اہم وضاحت:۔
یہ حکم مستحب ہے اور ان لوگوں کے لئے جو قربانی دینے والے ہوں، ذوالحجہ کا چاند دیکھنے سے لیکر جب تک کہ ان کی طرف سے قربانی نہ ہوجائے۔ اس وقت تک سر کے بالوں اور دیگر بالوں کو نکالنے اور ناخن کاٹنے سے احتیاط کرنا چاہئے، جو لوگ قربانی دینے والے نہیں ہے ان کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص قربانی دینے سے پہلے ایسا کر لے تو کوئی گناہ نہیں اور اس سے قربانی میں خلل نہیں آتا۔ (ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل و احکام: ۳۴)