قرآن ڈائری

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
ایک سال سے میرا دوسرا ریسرچ پیپر التوا میں پڑا تھا۔ آج دل مضبوط کیا اور سوچا کہ اب اس کا تنقیدی جائزہ لیتی ہوں، تاکہ یہ کام مکمل ہو سکے۔
جب تحریر نکالی اور پڑھنے بیٹھی، تو دل ہی بجھ سا گیا۔ یہ میں نے لکھا تھا؟
کچھ خاص نہیں تھا۔۔۔ جملے بےجان، اسلوب کمزور، دلائل ادھورے۔۔۔
اگر میرے اپنے الفاظ، میرے اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی تحریر، میرے اپنے معیار پر پوری نہیں اتر رہی، تو میرے اعمال۔۔۔ جو میں روزانہ لکھتی جا رہی ہوں۔۔۔ ان کا کیا عالم ہو گا؟ میرا اعمال نامہ جو ربِ ذوالجلال کے سامنے پیش ہونا ہے کیا وہ بھی ایسا ہی ہوگا؟
خالی جذبوں سے، بےروح عملوں سے، کمزور نیتوں سے بھرا ہوا؟ کیا وہ بھی میرے ہاتھوں کی تحریر ہوگا، جسے میں خود ہی دیکھنے سے کتراؤں گی؟
ہم دنیا کے تحقیقی پیپرز پر مہینوں محنت کرتے ہیں۔۔۔ ترمیم پہ ترمیم، ایک ایک لفظ، ایک ایک حوالہ، بار بار پرکھا جاتا ہے۔
مگر اعمال نامے پر؟ کوئی ریویو، کوئی نظرِ ثانی، کوئی سنوارنے کی فکر؟ کیوں نہیں کرتی میں اپنے دنوں کے "اعمالی مسودے" کا تنقیدی جائزہ؟ کیوں نہیں پوچھتی خود سے: "کیا یہ عمل میں کل رب کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہے؟"
تحریری تحقیق تو مکمل کرلوں گی، مگر اس سے بھی بڑھ کر۔۔۔ اپنے عمل کی تحقیق، اپنی نیت کی تطہیر، اپنے وقت کی تطبیق۔۔۔ اس کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ جس دن رب کہے گا:
"اقْرَأْ كِتَابَكَ"
تو یہ ریسرچ پیپر نہیں، میری زندگی کا اعمال نامہ میرے ہاتھ میں ہوگا۔ اور تب کوئی peer review نہیں، صرف رب کی رضا ہوگی۔
اللَّهُمَّ اجعل أعمالنا خالصةً لوجهك، واجعل كتابنا يوم نلقاك مرضيًا عنّا، ولا تجعلنا ممّن يندمون إذا قرأوا كتابهم۔۔۔ آمین یا رب!
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
کل لیکچر کے دوران ایک عجیب سی الجھن پیش آئی۔ انٹرنیٹ بار بار ڈسکنکٹ ہو رہا تھا۔ میں نے وائی فائی ریفریش کیا، سیٹنگز چیک کیں، کیبلز دوبارہ لگائیں۔۔۔ بظاہر سب کچھ درست تھا، مگر کنکشن بدستور غائب۔
سوچا، پہلے لیکچر مکمل کر لیتی ہوں۔ ڈیٹا پیکیج آن کیا، لیکچر پورا کیا پھر واپس وائی فائی کی طرف متوجہ ہوئی۔
کافی کوششوں کے بعد آخرکار اصل مسئلہ کھلا: پیکیج ختم ہو چکا تھا!
یعنی: نہ نظام خراب تھا، نہ سیٹنگز میں کوئی خلل۔۔۔ بس اندر سے سروس معطل ہو چکی تھی۔
کیا کبھی ہمارا اللہ سے تعلق بھی کچھ ایسا ہی نہیں ہو جاتا؟
ظاہری اعمال تو جاری ہوتے ہیں: نماز، تلاوت، دعائیں، اذکار۔۔۔ ساری سیٹنگز دین دار لگتی ہیں لیکن دل کا کنکشن کام نہیں کر رہا ہوتا۔
روح بےچین، دل خالی، دعا بےاثر، عبادت بےذوق۔ ہم سمجھتے ہیں شاید کسی خارجی سیٹنگ کی خرابی ہے، مگر اصل میں۔۔۔ "روحانی پیکیج" ختم ہو چکا ہوتا ہے۔
یعنی وہ اخلاص، وہ خشیت، وہ محبت، وہ توجہ، وہ تقویٰ جو دراصل ہمیں اللہ سے باطنی طور پر جوڑتے ہیں، وہی مفقود ہو چکے ہوتے ہیں۔
تب دل صدا دیتا ہے:
"وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ ٱلْوَرِيدِ"
"اور ہم تو انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں" (سورۃ ق: 16)
اللہ تو قریب ہی ہوتا ہے، کنکشن وہ توڑتا نہیں، ہم خود اندر سے ڈس کنیکٹ ہو جاتے ہیں۔
بس فرق صرف اتنا ہے: ہم وائی فائی کا بیلنس روز چیک کرتے ہیں۔ مگر دل کا بیلنس؟ کب آخری بار جانچنے کی کوشش کی تھی؟
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
آج انسٹاگرام پر یونہی سکرولنگ کرتے ہوئے ایک ریل سامنے آئی۔
بظاہر ایک عام سی میڈیکل ویڈیو تھی۔ اس ویڈیو میں دو ایکسرے دکھائے گئے تھے۔ ایک سات سال کے بچے کے ہاتھ کا، اور دوسرا ایک پری اسکول بچے کے ہاتھ کا۔
دونوں بچوں کے ہاتھوں کی کلائیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ مگر ان میں ایک نمایاں فرق تھا: سات سال کے بچے کی کلائی میں کئی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں مکمل طور پر جُڑ چکی تھیں، جبکہ پری اسکول بچے کے ہاتھ میں وہ ہڈیاں ابھی غیر واضح، ناتمام اور ناپختہ تھیں۔
پھر ایک جملہ اس ویڈیو میں آیا: "پری اسکول بچہ ٹھیک سے نہیں لکھ سکتا، کیونکہ وہ ابھی لکھنے کے لیے بنا ہی نہیں!"
یہ جملہ سن کر میں جیسے لمحہ بھر کو خاموش ہو گئی۔
کیا واقعی؟ کیا بچے کو قلم پکڑانے سے پہلے ہمیں اُس کے ہاتھ کی ہڈیوں کی زبان سمجھنی چاہیے؟
ایک اور علم یاد آ گیا، جو مجھے میرے نبی ﷺ نے دیا تھا۔
مُروا أولادَكم بالصلاةِ وهم أبناءُ سبعِ سنينَ
"اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں "
(یعنی اُس سے پہلے صرف محبت، شفقت، اور کھیل کود ہو۔)
مجھے آج پہلی بار اس حدیث کی ایک اور پرت سمجھ آئی۔ میرے نبی ﷺ نے جو فرمایا، وہ صرف روح کی تربیت نہیں، جسم کی فطرت کو بھی جاننے کا کمال تھا۔ ہم تو بچے کے ہاتھ میں تین سال کی عمر میں پنسل پکڑا دیتے ہیں۔ ہاتھ ابھی مکمل نہیں بنا، اور ہم دماغ سے لکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔
کیا ہم فطرت سے تیز چلنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم اُس معمارِ کائنات سے زیادہ جانتے ہیں، جس نے جسم کو مرحلہ وار تخلیق کیا؟
"يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِّنۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ" (الزمر:6)
جسم کی تخلیق ہو یا ذہن کی، رب نے ہر مرحلہ ایک وقت پر رکھا ہے۔ اور نبی ﷺ نے ہر مرحلے کے لیے ایک طرزِ تربیت دیا ہے۔ اب میں سمجھ پائی ہوں کہ سات سال کی عمر تک صرف پیار، صرف ربط، صرف محبت کیوں؟
کیونکہ محبت وہ زمین ہے، جہاں ذہن بھی اگتا ہے، اور ہاتھ کی ہڈیاں بھی۔
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
بارش کئی دنوں سے تھمی نہیں۔ ہوا میں نمی ہے، آسمان جیسے مسلسل رو رہا ہو۔
اور میرے دونوں بچے۔۔۔ وائرل انفیکشن کی لپیٹ میں، نڈھال، بخار، کھانسی، بے چینی۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی۔ دوا دی، غذا کا خیال رکھا، آرام کروایا۔
مگر۔۔۔ ان سب کے بیچ ایک خیال جاگا: کیا ہم صرف جسم کا علاج کرتے ہیں؟ کیا کبھی ہم نے روح کی بیماری کے بارے میں سوچا؟ کیا روح پر بھی کوئی "وائرل" آتا ہے؟
بالکل ویسا ہی جیسے جراثیم نظر نہیں آتے، ویسے ہی کچھ نظروں سے اوجھل وائرل، روح پر بھی حملہ آور ہو جاتے ہیں:
ایک جھوٹ، جو ضمیر کو جھنجھوڑے بغیر گزر جائے۔
ایک نماز، جو دل سے خالی ہو جائے۔
ایک قرآن، جو کئی دنوں سے بند پڑا ہو۔۔۔ اور پھر بھی دل مطمئن رہے۔
یہ سب روحانی انفیکشن کی علامتیں ہیں۔۔۔ خاموش بخار، جو دھیرے دھیرے روشنی بجھا دیتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ:
"وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ" (الاسراء 17:82)
"اور ہم قرآن میں وہ کچھ اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔"
قرآن۔۔۔ صرف الفاظ نہیں، روح کی غذا بھی ہے، دوا بھی، اور ڈھال بھی۔
جب ہم قرآن سے کٹ جائیں۔۔۔ تو دل میں عجیب سا خالی پن، بےمعنویت، جیسے کوئی اندر ہی اندر مرجھا گیا ہو۔ اور جب ہم جڑ جائیں۔۔۔ تو ایک آیت آنکھیں بھگو دیتی ہے، اور دل پھر سے دھڑکنے لگتا ہے۔
آج میں اپنے رب سے دعا کرتی ہوں:
یا اللہ! جس طرح تو نے میرے بچوں کو شفا دینے کے لیے دوا پیدا کی، اسی طرح میری روح کو بھی شفا دے: اپنی کتاب، اپنے ذکر، اور اپنی محبت سے۔ اگر کبھی میں بھٹک جاؤں، تو مجھے میرے دل کی بیماری کا شعور دے۔۔۔ اور اپنی بارش کی طرح مجھے بھی واپس بلا لے، تاکہ میں بھی جی اٹھوں۔۔۔ بالکل اُس سوکھی زمین کی طرح، جو بارش پڑتے ہی زندہ ہو جاتی ہے۔
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
جب بھی میں سوشل میڈیا کھولتی ہوں، ایک لفظ میرے ذہن میں ٹھہر جاتا ہے: "فیڈ"۔ چھوٹا سا، مانوس سا لفظ۔۔۔ لیکن حیرت انگیز حد تک عجیب۔
فیڈ؟ یعنی خوراک؟
اس لفظ سے مجھے فوراً اپنے گھر کا فریج یاد آ جاتا ہے جس میں ہر چیز میں نے خود رکھی ہوتی ہے۔ وہ فریج جس میں سب کچھ میری پسند، میری مرضی، میری پلاننگ کے مطابق رکھا گیا ہوتا ہے۔ ہر شے کسی نہ کسی مقصد کے تحت رکھی گئی ہے: کچھ بچوں کے لیے، کچھ شوہر کی پسند، کچھ مہمانوں کے لیے، اور کچھ میرے دن بھر کے شیڈول کے حساب سے۔ اس میں کوئی چیز بے وجہ نہیں ہوتی۔ اور میں روز فریج چیک کرتی ہوں، کہیں کچھ سڑ تو نہیں گیا؟ کہیں بدبو تو نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں جو اب رکھنا بے کار ہے؟
سوشل میڈیا فیڈ بھی تو ایک طرح کی فریج ہی ہے۔ جو کچھ وہاں نظر آتا ہے ویڈیوز، پوسٹس، اشتہارات، حتیٰ کہ تجاویز بھی، یہ سب۔۔۔ میری پسند کی بنیاد پر آتا ہے۔
لیکن ہم اکثر یہ سوچتے بھی نہیں کہ ہماری سوشل میڈیا فیڈ کیا چیز ہے؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، وہی دل میں اترتا ہے۔
ہم کبھی یہ نہیں کہہ سکتے: "پتا نہیں یہ کیا آ گیا فیڈ میں؟"
نہیں، یہ ہم ہی تو سکرول کر کے، کلک کر کے، دیر تک رُک کر۔۔۔ خود لا رہے ہوتے ہیں۔
جیسے جسم کی غذا ہماری فریج میں ہوتی ہے، ویسے ہی روح کی غذا یا زہر ہماری فیڈ میں چھپی ہوتی ہے۔
قرآن کہتا ہے:
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌۭ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا۔۔۔ (سورۃ الأعراف 179)
"ہم نے بہت سے جن و انس جہنم کے لیے پیدا کیے، ان کے دل ہیں مگر ان سے سمجھتے نہیں، آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں، کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔ یہی ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
دل جو سمجھنے سے انکار کر دے۔۔۔ نگاہ جو چناؤ سے بے خبر ہو جائے۔۔۔ یہ وہی فریج ہے جس میں خراب خوراک ہم خود رکھتے ہیں۔ اور پھر حیران ہوتے ہیں: "یہ بدبو کہاں سے آ رہی ہے؟"
کان، آنکھ، دل! یہی تو وہ تین راستے ہیں جن کے ذریعے فیڈ ہماری اندرونی دنیا میں داخل ہوتی ہے۔ کئی بار دل بوجھل ہو جاتا ہے۔ سکرولنگ کے بعد عجیب بے سکونی، ذہنی انتشار، روح کی تھکن محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں شاید بس تھکن ہے، وقت کا ضیاع ہے۔ نہیں! یہ تو خراب غذا کا اثر ہے جو دل نے قبول کی۔ بالکل ویسے ہی جیسے خراب کھانے سے فوڈ پوائزننگ ہو جاتی ہے۔
اگر غور کریں تو: "سکرولنگ بے قصور نہیں۔ ہمارا چناؤ بے اثر نہیں، فیڈ بے ساختہ نہیں"۔ ہر چیز۔۔۔ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
تو اب وقت ہے۔ جیسے فریج کی صفائی کی جاتی ہے: باسی پھینکا جاتا ہے، بدبو کا خاتمہ کیا جاتا ہے، صرف وہ رکھا جاتا ہے جو تازہ، مفید، محفوظ ہو۔
ویسے ہی۔۔۔ آئیں! آج ہی اپنی فیڈ کی صفائی کریں۔ ہر فضول پیج، ہر بے حیائی، ہر گناہ انگیز نظر کو delete کریں۔ ہر ایسی چیز کو block کریں جو دل کو میلا کرتی ہے۔ اور ہر وہ چیز رکھیں جو دل کو روشن کر دے، روح کو زندہ، اور آنکھوں کو شرم و حیاء دے۔
کیونکہ۔۔۔ فیڈ میں کچھ "ایسے ہی" نہیں آتا۔ یہ سب۔۔۔ ہمارا اپنا چناؤ ہے۔
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
آج میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ محرم کی سیکیورٹی کے باعث شہر میں جگہ جگہ پولیس موجود ہے۔ میں بچوں کے ساتھ ایک ضروری کام سے واپس آ رہی تھی کہ اچانک میرے بھانجے نے پولیس کی ایک موبائل گاڑی دیکھی۔ لمحہ بھر میں اُس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ وہ گھبرا کر الٹے قدموں پیچھے بھاگنے لگا اور چیخ کر بولا:
"پولیس آ گئی ہے! وہ مجھے پکڑ لے گی! جیل میں ڈال دے گی!"
میں نے فوراً اُس کا ہاتھ تھاما، سمجھانے کی کوشش کی، تسلی دی کہ بیٹا، پولیس تو ہماری حفاظت کے لیے ہوتی ہے، مجرموں کو پکڑنے کے لیے، بچوں کو نہیں۔ لیکن اُس کا خوف اتنا شدید تھا کہ اس نے رونا شروع کر دیا، اور بالآخر ہمیں ایک لمبا چکر کاٹ کر گھر جانا پڑا۔
یہ سننے میں ایک نارمل سا بچپن کا واقعہ لگتا ہے، مگر اس نے میرے دل و دماغ میں ایک سوال چھوڑ دیا: آخر بچوں کے دل میں پولیس کا یہ ڈر آتا کہاں سے ہے؟
ہمیں بچپن میں یہی سکھایا جاتا رہا:
"چپ ہو جاؤ، پولیس آ جائے گی!"
"شرارت کی تو پولیس اٹھا لے جائے گی!"
اور پھر وہی بچہ بڑا ہو کر پولیس کو "تحفظ" کی علامت نہیں بلکہ "سزا" کی علامت سمجھتا ہے۔
اب اسی تمثیل کو دین کی تربیت پر لاگو کیجیے: یہ جملے کتنے جانے پہچانے لگتے ہیں:
"یہ نہ کرو، اللہ ناراض ہو جائے گا!"
"یہ کیا؟ جہنم میں جاؤ گے!"
"یہ مت کہنا، اللہ گناہ لکھ رہا ہے!"
"ایسا کیا تو اللہ تم سے حساب لے گا!"
پھر ہمیں حیرت کیوں ہو، اگر وہی بچہ بڑا ہو کر رب کو ایک ایسا نگران سمجھے جو ہر وقت اس کی غلطیوں پر نظر رکھے، جو صرف حساب لینے، سزا دینے، اور ناراض ہونے کے لیے موجود ہو۔
مگر کیا واقعی ہمارا رب ایسا ہے؟
قرآن تو بار بار اللہ کی محبت، رحمت، اور مغفرت کا تعارف کرواتا ہے:
الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ
لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ

اللہ تو وہ ہے جو نافرمان شخص کی واپسی پر دروازے بند نہیں کرتا، بلکہ خود فرماتا ہے:
قُلْ يَا عِبَادِيَ ٱلَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ ٱللَّهِ
"اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو!" (الزمر: 53)
آج مجھے خود سے سوال پوچھنا پڑا: کیا میں بھی اپنے بچوں کو اللہ سے جوڑ رہی ہوں؟ یا اللہ سے ڈرا رہی ہوں؟
کیا میرے بچے رب کو محبت کرنے والا، سننے والا، معاف کرنے والا سمجھتے ہیں؟ یا بس ایک نگران، ناراض اور سزا دینے والا؟
خوف ضروری ہے، مگر محبت سے الگ نہیں۔ محبت بھرا خوف دل میں تقویٰ جگاتا ہے۔ خالی خوف صرف فاصلہ پیدا کرتا ہے۔ دل میں ایک خالی پن، ایک اجنبیت، ایک چھپاؤ پیدا کرتا ہے۔
آج مجھے، اور ہمیں سب کو، اپنے بچوں کو اللہ کے تعارف پر از سرِ نو بات کرنی چاہیے۔ ہم جس رب کا تعارف بچوں کو کرواتے ہیں، وہی رب ان کے دل میں جاگزیں ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے: وہ رب کیسا ہے؟ سزا دینے والا، یا آغوش میں لینے والا؟
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
مجھے GPS کی ایک بات بہت خاص لگتی ہے۔
میں چاہے جتنی بار بھی غلط موڑ مڑ جاؤں، نہ وہ ناراض ہوتا ہے، نہ طعنہ دیتا ہے، نہ حیران ہوتا ہے، نہ کہتا ہے: "افف! تمہیں ڈرائیونگ آتی بھی ہے؟"
نہ کہتا ہے: "تم سے تو کچھ نہیں ہو سکتا!"
بس خاموشی سے کہتا ہے۔۔۔ "ری راؤٹنگ۔۔۔ ری کیلیکیولیٹنگ۔۔۔"
یعنی: چلو، اب اِس طرف سے چلتے ہیں۔ بس خاموشی سے نیا موقع، نیا راستہ۔
اور تب دل سوچتا ہے۔۔۔ ہمارا رب بھی تو ایسا ہی ہے۔ ہم کتنی بار غلط فیصلے کرتے ہیں، بہک جاتے ہیں، راستہ بھول جاتے ہیں۔ لیکن رب ہمیں کبھی نہیں کہتا: "تم سے نہ ہو پائے گا!"
ری راؤٹنگ؟ وہ تو رب کرتا ہے۔
ہم؟ ہم تو ریجیکٹ کرنے کے ماہر ہیں اور افسوس، فخر بھی کرتے ہیں۔
جب کسی کی زندگی میں تبدیلی آتی ہے تو ہم اُس کی حوصلہ افزائی کے بجائے اُس کا مذاق اُڑاتے ہیں:
"یہ اب باحجاب بن گئی؟ ہاہاہا! کل تک تو بال کھول کر گھومتی تھی!"
"نماز پڑھنے لگی؟ دو دن بعد چھوڑ دے گی، میں جانتی ہوں!"
"توبہ کر رہا ہے؟ اُس کی شکل دیکھی ہے؟"
ذرا سوچیے۔۔۔ اگر ایک شخص دریا میں ڈوب رہا ہو، اور آپ کنارے پر کھڑے ہوں، تو کیا کریں گے؟
یقیناً رسی پھینکیں گے، آواز دیں گے، کسی کو مدد کے لیے پکاریں گے۔
لیکن اگر ہم اُس لمحے کہیں: "تف ہے تم پر، تمہیں تو تیرنا بھی نہیں آتا! دریا میں گئے ہی کیوں؟ بے کار کوشش کر رہے ہو، ڈوب جاؤ!"
تو کیسا لگے گا؟
افسوس۔۔۔ یہی ہم کرتے ہیں، جب کوئی گناہوں سے نکل کر رب کی طرف آنا چاہتا ہے۔ ہم کنارے پر کھڑے ہو کر اُس پر فقرے کستے ہیں جبکہ وہ شخص زندگی کی سب سے مشکل تیرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے!
اور رب؟ وہ تو کہتا ہے:
"قُلْ يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسْرَفُوا۟ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا۟ مِن رَّحْمَةِ ٱللَّهِ" (الزمر: 53)
"اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو!"
رب کی طرف واپسی پر سزا نہیں، استقبال ہوتا ہے۔
رب ری راؤٹنگ کرتا ہے، موقع دیتا ہے۔
اور ہم۔۔۔؟ ہم تو کبھی ایک بار غلط موڑ مڑنے پر بھی دوسروں کو نکال باہر کر دیتے ہیں۔
یہاں دل تھوڑا سا کانپ جاتا ہے۔۔۔
کہیں میری باتوں نے کسی کی توبہ کا دروازہ بند تو نہیں کر دیا؟
کہیں میری نظر نے کسی کو شرمندہ کر کے واپس اندھیرے میں تو نہیں بھیج دیا؟
رب کی راہ میں ری راؤٹنگ ہوتی ہے، ریجیکشن نہیں۔ ہم بھی اپنے دل کے GPS کو اپڈیٹ کریں تاکہ کسی کی پہلی کوشش کو آخری ناکامی نہ بننے دیں۔
یا رب! ہمیں اُن میں شامل کر جو رسی پھینکیں، ہاتھ بڑھائیں، اور تیرنا سکھائیں۔۔۔ نہ کہ اُن میں جو کنارے پر کھڑے ہو کر شرمندہ کریں۔
یا رب! ہمیں شرمندہ کرنے والے ہاتھ نہیں، سہارا دینے والے بازو بنا دے۔
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
الحمد للہ، حال ہی میں ہم پرانے مکان سے اپنے نئے گھر میں منتقل ہوئے۔ ایک عرصے سے ہم اسی نئی جگہ کی تیاری میں لگے تھے۔ فرنیچر نیا، رنگ و روغن، صفائی، تزئین سب کچھ اسی نئے گھر کے لیے۔
دوسری طرف پرانا مکان۔۔۔ چھت سے پانی ٹپکنے لگا، دیواروں پر سیلن، دروازے چرچرانے لگے، پردے بوسیدہ، فرنیچر خراش زدہ ہو گیا تھا۔ سب کچھ بگڑتا گیا۔
مگر دل کو تسلی تھی: "یہ تو عارضی ہے۔۔۔ اب یہاں سرمایہ لگانے کا کیا فائدہ؟
آج یونہی بیٹھے سوچا:
ہم نے پرانے، عارضی گھر کے لیے کبھی مہنگا فرنیچر کیوں نہیں خریدا؟ کیوں مرمت یا تزئین کا خیال بھی نہ آیا؟
کیونکہ معلوم تھا یہ قیام چند روزہ ہے۔ انویسٹ کرنے کا فائدہ نہیں۔
لیکن کیا ہم اپنی اصل زندگی کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے ہیں؟ کیا ہمیں یاد ہے کہ ہمارے پاس دو گھر ہیں:
ایک دنیا: کرائے کا، عارضی، چند روزہ۔
اور دوسرا آخرت: مستقل، ذاتی، ہمیشہ کے لیے۔
سوچیں۔۔۔ اگر کوئی شخص اپنا قیمتی صوفا، مہنگی ایل ای ڈی، خوبصورت پردے، مہنگی آرائش اٹھا کر کسی شکستہ، عارضی کرائے کے مکان میں رکھ دے۔۔۔ جہاں رہنا صرف دو چار دن ہے۔۔۔
تو کیا ہم اسے دانشمند کہیں گے؟
ہم دنیا کو سنوارنے میں اپنا سب کچھ لگا دیتے ہیں: وقت، مال، محنت، خواب، اور دل کی توانائی تک۔ اور جو گھر ہمارا ہمیشہ کا ہے اُس کے لیے نہ تیاری، نہ مرمت، نہ تزئین۔
ہم وہ سب کچھ، جو ہم آخرت کے لیے آگے بھیج سکتے ہیں، وہ دنیا ہی میں خرچ کر بیٹھتے ہیں۔ اور جب شفٹنگ کا وقت آتا ہے، تو وہاں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ نہ بستر، نہ روشنی، نہ سکون۔ پھر وہی حسرت لبوں پر آتی ہے جسے قرآن نے صدیوں پہلے بیان کر دیا:
يَـٰلَيْتَنِى قَدَّمْتُ لِحَيَاتِى (سورۃ الفجر، آیت 24)
"کاش! میں نے اپنی (اصل) زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا!"
یہ آیت ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے:
ہم کہاں سرمایہ لگا رہے ہیں؟
اس گھر میں جہاں کچھ سال گزارنے ہیں؟
یا اُس گھر میں جس میں ہمیشہ رہنا ہے؟
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
آج میں ایک عجیب الجھن میں گھِر گئی۔ میرا فون عجیب طرح سے ہینگ ہونے لگا تھا۔ ہر کلک کے بعد انتظار، لمبا انتظار۔
پہلے تو میں گھبرا گئی۔ دل میں آیا: شاید کوئی خرابی آ گئی ہے، یا ممکن ہے بچوں نے کچھ چھیڑ خانی کر دی ہو، یا کوئی ایسا بٹن دب گیا ہو جس کا مجھے علم نہ ہو۔
پھر جب ایک ماہر کو دکھایا، تو راز کھلا: Chrome میں دس نہیں، بیس نہیں، بلکہ پچیس سے بھی زیادہ Tabs کھلی ہوئی تھیں!
ہر Tab، اپنے حصے کی RAM کھا رہی تھی۔ اور فون، بےبس ہو کر، سست ہوتا جا رہا تھا۔
اُس لمحے دل میں ایک سوال اُبھرا: کیا ہماری زندگی کی RAM بھی کچھ ایسی ہی نہیں؟
ہم نے اپنے ذہنوں میں درجنوں نہیں، بلکہ سینکڑوں Tabs کھول رکھے ہیں۔
ہر لمحہ کوئی نئی فِکر، کوئی پرانی یاد،
کوئی ناتمام کام، کوئی ان کہی بات،
کوئی پوسٹ، کوئی ریپلائی، کوئی تعلق،
کوئی مقابلہ، کوئی محرومی،
کوئی خواب، کوئی خوف۔۔۔ اور ان سب نے ہماری "دماغی RAM" کو بھرا ہوا ہے۔
کچھ Tabs تو ہم نے خود کھولے، مگر کچھ خاموشی سے background میں refresh ہوتے رہتے ہیں۔۔۔ پرانے زخموں، ان کہے جملوں، ادھورے منصوبوں کی صورت میں۔ ہر ایک کی اپنی demand ہے، ہر ایک تھوڑا سا بوجھ ڈال رہا ہے۔
ہماری سوچیں ہینگ ہو چکی ہیں۔ فیصلے سست ہو چکے ہیں۔ دعائیں دل سے نکلتی ہیں، مگر جیسے نیٹ ورک down ہو۔۔۔ رب تک پہنچتی ہی نہیں لگتیں۔ توجہ بکھر چکی ہے۔
اور سکون؟ وہ تو شاید Low Battery Mode میں جا چکا ہے۔
اب سوال یہ نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ہمیں کرنا کیا ہے؟
بس Tabs بند کریں۔ غیر ضروری خیالات، اندیشے، گفتگو، مقابلے، اور تھکن پیدا کرنے والی مصروفیات سے باہر نکلیں۔ RAM صاف کریں۔ ذہن کو ہلکا کریں، دل کو دھوئیں۔ اور پھر۔۔۔ بس ٹھہر جائیں اُس ایک Tab پر۔ جو سب Tabs سے الگ ہے، جو روح کی اصل منزل ہے، جہاں بوجھ نہیں ہوتا، صرف نور ہوتا ہے:
"يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ"
"اے مطمئن نفس۔۔۔ لوٹ آ اپنے رب کی طرف۔۔۔"
یہی تو وہ Tab ہے جس کا عنوان سکون ہے، جس کا URL ذکر ہے، اور جس کی رفتار اطمینان سے تیز ہے، مگر بےآواز۔
آج صرف 5 منٹ کے لیے، ہر Tab بند کر کے صرف اُس ایک Tab کو کھولیے۔۔۔ ذکر، شکر، اور رب کی طرف لوٹنے کا۔
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
ایک بار کالج جاتے ہوئے میں اپنا شناختی کارڈ گھر بھول گئی۔ گیٹ پر پہنچی تو چوکیدار نے روک دیا۔
میں نے کہا: "میں روز آتی ہوں، آپ مجھے جانتے ہیں۔۔۔ بس آج کارڈ رہ گیا ہے۔"
مگر اُس نے ایک نہ سنی۔ صاف کہا: "قانون، قانون ہوتا ہے۔ کارڈ نہیں، تو داخلہ نہیں۔"
میں نے بار بار سمجھانے کی کوشش کی، منت بھی کی، لیکن اصول کی دیوار بےرحم ثابت ہوئی۔
اس لمحے مجھے شدت سے احساس ہوا کہ وہ شخص مجھے پہچانتا تو ہے، لیکن نظام میں پہچان کا واحد ذریعہ وہ کارڈ تھا اور وہ میرے پاس نہ تھا۔
ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے پردے کو محض ایک حکم نہیں بنایا، بلکہ عورت کی "پہچان" قرار دیا۔ سورۃ الاحزاب کی آیت 59 میں ارشاد ہوتا ہے:
يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ
"وہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں، یہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں اذیت نہ دی جائے۔"
یہاں "يُعْرَفْنَ" یعنی "پہچانی جائیں" ایک کلیدی لفظ ہے۔
چادر اوڑھنا ایسا ہے جیسے رب کی طرف سے دیا گیا شناختی کارڈ، جو ہمیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی پہچان دیتا ہے۔
یہ لباس گویا بول اٹھتا ہے: "یہ اللہ کی بندی ہے!"
لیکن اگر ہم اپنی پہچان کی یہ علامت چھوڑ بیٹھیں تو۔۔۔؟
دنیا میں، ایک چوکیدار نے روزانہ دیکھنے کے باوجود مجھے صرف "کارڈ" نہ ہونے پر روک دیا تھا۔
تو میں سوچتی ہوں: اگر میں اللہ کی دی گئی نشانِ شناخت یعنی پردے کے بغیر اس کے دروازے پر پہنچی،
تو کس صف میں کھڑی ہوں گی؟
کس جماعت میں شمار کی جاؤں گی؟
کیا میرا شمار اُن لوگوں میں ہوگا جنہیں رحمت کی صف میں بلایا جائے گا، یا اُن میں جنہوں نے اپنی پہچان کھو دی؟
اس لیے میری پہچان صرف اللہ کے لیے ہو۔ میری چادر اس لیے نہ ہو کہ لوگ کچھ نہ کہیں، بلکہ اس لیے ہو کہ رب پہچان لے۔۔۔کہ یہ میری بندی ہے۔
اور آخر میں۔۔۔ اگر کبھی غفلت ہوئی، کوتاہی ہو گئی، ہم نے خود ہی اپنی پہچان چھپا لی ، تب بھی وہ رب صرف پہچانتا نہیں، بلکہ اپنی رحمت سے نوازتا ہے:
"إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا۔۔۔" (الفرقان: 70)
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
قریب ایک ماہ پہلے میں نے ٹیچنگ جاب کے لیے اپلائی کیا، دل میں بس ایک ہی خواہش تھی: سب کچھ مکمل ہو، بہترین ہو۔ کورسز، تجربات، مہارتیں۔۔۔ ایک ایک چیز۔
بار بار اپلیکیشن فارم کھولا، بند کیا۔ کبھی الفاظ کم پڑ گئے، کبھی اعتماد۔ کئی بار خود سے سوال کیا: "کیا واقعی میں اس قابل ہوں؟"
الحمدللہ، اللہ نے آسانی عطا فرمائی اور جاب مل گئی۔
لیکن۔۔۔ دل کے کسی پردے پر اچانک ایک اور فارم کھل گیا۔ ایسا فارم جو نہ کسی انسٹی ٹیوٹ میں جاتا ہے، نہ کسی ای میل میں بھیجا جاتا ہے، نہ کسی انٹرویو کے لیے۔
"جنت کا اپلائی فارم!"
ارشادی باری تعالی ہے:
وَأَنْ لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ (النجم: 39)
"اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے، جس کی اس نے خود کوشش کی۔"
تب دل نے خود سے سوال کیا: جنت کے لیے میرا پورٹ فولیو کیسا ہے؟ میری آخرت والی سی وی میں کیا لکھا ہے؟
دنیا کے سی وی میں تو سب کچھ ترتیب سے درج ہے:
فلاں فلاں کورسز، پانچ سالہ تجربہ، مہارتیں، ٹیم ورک، وقت کی پابندی، معتبر لوگوں کی ریکمنڈیشن۔
یہ سب دنیا میں اثر رکھتا ہے۔
مگر۔۔۔ آخرت کے سی وی میں؟
کیا وہاں لکھا ہے کہ میں نے کہاں کہاں رب کی رضا کے لیے سیکھا؟
کتنے دل اللہ کی طرف پلٹائے؟
اپنی مہارتیں دین کے کام میں کب لگائیں؟
دنیا میں لوگ میرے حق میں گواہی دیتے ہیں، مگر وہاں فرشتے کیا لکھتے ہیں؟
دنیا کے وقت کو سنبھالا، لیکن کیا اللہ کے وقت کی بھی اتنی ہی فکر کی؟
دنیا کے سی وی نے تو مجھے جاب دلوا دی۔ لیکن۔۔۔ آخرت کا سی وی؟ کیا وہ مجھے جنت دلوا پائے گا؟
جیسے جیسے یہ سوال دل میں گہرے ہوتے گئے، مجھے اپنا سی وی خالی خالی سا محسوس ہونے لگا۔
دنیا کے سی وی کے لیے ہم کتنی محنت کرتے ہیں، کتنی بار سوچتے ہیں: "کیا یہ کافی ہے؟"
کبھی سوچا: جنت کے سی وی کے لیے ہم نے کتنی تیاری کی؟
کتنی بار دل میں یہ سوال اٹھا: "کیا میرا عمل رب کے دربار کے قابل ہے؟"
 
Top