ایک سال سے میرا دوسرا ریسرچ پیپر التوا میں پڑا تھا۔ آج دل مضبوط کیا اور سوچا کہ اب اس کا تنقیدی جائزہ لیتی ہوں، تاکہ یہ کام مکمل ہو سکے۔
جب تحریر نکالی اور پڑھنے بیٹھی، تو دل ہی بجھ سا گیا۔ یہ میں نے لکھا تھا؟
کچھ خاص نہیں تھا۔۔۔ جملے بےجان، اسلوب کمزور، دلائل ادھورے۔۔۔
اگر میرے اپنے الفاظ، میرے اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی تحریر، میرے اپنے معیار پر پوری نہیں اتر رہی، تو میرے اعمال۔۔۔ جو میں روزانہ لکھتی جا رہی ہوں۔۔۔ ان کا کیا عالم ہو گا؟ میرا اعمال نامہ جو ربِ ذوالجلال کے سامنے پیش ہونا ہے کیا وہ بھی ایسا ہی ہوگا؟
خالی جذبوں سے، بےروح عملوں سے، کمزور نیتوں سے بھرا ہوا؟ کیا وہ بھی میرے ہاتھوں کی تحریر ہوگا، جسے میں خود ہی دیکھنے سے کتراؤں گی؟
ہم دنیا کے تحقیقی پیپرز پر مہینوں محنت کرتے ہیں۔۔۔ ترمیم پہ ترمیم، ایک ایک لفظ، ایک ایک حوالہ، بار بار پرکھا جاتا ہے۔
مگر اعمال نامے پر؟ کوئی ریویو، کوئی نظرِ ثانی، کوئی سنوارنے کی فکر؟ کیوں نہیں کرتی میں اپنے دنوں کے "اعمالی مسودے" کا تنقیدی جائزہ؟ کیوں نہیں پوچھتی خود سے: "کیا یہ عمل میں کل رب کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہے؟"
تحریری تحقیق تو مکمل کرلوں گی، مگر اس سے بھی بڑھ کر۔۔۔ اپنے عمل کی تحقیق، اپنی نیت کی تطہیر، اپنے وقت کی تطبیق۔۔۔ اس کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ جس دن رب کہے گا:
"اقْرَأْ كِتَابَكَ"
تو یہ ریسرچ پیپر نہیں، میری زندگی کا اعمال نامہ میرے ہاتھ میں ہوگا۔ اور تب کوئی peer review نہیں، صرف رب کی رضا ہوگی۔
اللَّهُمَّ اجعل أعمالنا خالصةً لوجهك، واجعل كتابنا يوم نلقاك مرضيًا عنّا، ولا تجعلنا ممّن يندمون إذا قرأوا كتابهم۔۔۔ آمین یا رب!
جب تحریر نکالی اور پڑھنے بیٹھی، تو دل ہی بجھ سا گیا۔ یہ میں نے لکھا تھا؟
کچھ خاص نہیں تھا۔۔۔ جملے بےجان، اسلوب کمزور، دلائل ادھورے۔۔۔
اگر میرے اپنے الفاظ، میرے اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی تحریر، میرے اپنے معیار پر پوری نہیں اتر رہی، تو میرے اعمال۔۔۔ جو میں روزانہ لکھتی جا رہی ہوں۔۔۔ ان کا کیا عالم ہو گا؟ میرا اعمال نامہ جو ربِ ذوالجلال کے سامنے پیش ہونا ہے کیا وہ بھی ایسا ہی ہوگا؟
خالی جذبوں سے، بےروح عملوں سے، کمزور نیتوں سے بھرا ہوا؟ کیا وہ بھی میرے ہاتھوں کی تحریر ہوگا، جسے میں خود ہی دیکھنے سے کتراؤں گی؟
ہم دنیا کے تحقیقی پیپرز پر مہینوں محنت کرتے ہیں۔۔۔ ترمیم پہ ترمیم، ایک ایک لفظ، ایک ایک حوالہ، بار بار پرکھا جاتا ہے۔
مگر اعمال نامے پر؟ کوئی ریویو، کوئی نظرِ ثانی، کوئی سنوارنے کی فکر؟ کیوں نہیں کرتی میں اپنے دنوں کے "اعمالی مسودے" کا تنقیدی جائزہ؟ کیوں نہیں پوچھتی خود سے: "کیا یہ عمل میں کل رب کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہے؟"
تحریری تحقیق تو مکمل کرلوں گی، مگر اس سے بھی بڑھ کر۔۔۔ اپنے عمل کی تحقیق، اپنی نیت کی تطہیر، اپنے وقت کی تطبیق۔۔۔ اس کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ جس دن رب کہے گا:
"اقْرَأْ كِتَابَكَ"
تو یہ ریسرچ پیپر نہیں، میری زندگی کا اعمال نامہ میرے ہاتھ میں ہوگا۔ اور تب کوئی peer review نہیں، صرف رب کی رضا ہوگی۔
اللَّهُمَّ اجعل أعمالنا خالصةً لوجهك، واجعل كتابنا يوم نلقاك مرضيًا عنّا، ولا تجعلنا ممّن يندمون إذا قرأوا كتابهم۔۔۔ آمین یا رب!