آیت بہ آیت: سورۃ البقرۃ میں خود کی تلاش

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ ایک تدبراتی سلسلہ ہے۔ جس میں ہم سورۃ البقرۃ کی ہر آیت پر ایک بنیادی تدبر پوسٹ کریں گے۔
ہر شخص کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اسی آیت پر اپنی بصیرت، احساس، مشاہدہ یا سوالات کمنٹ کے ذریعے شامل کرے۔
یہ:
  • تفسیر نہیں، ذاتی تدبر کا سفر ہے۔
  • درست و غلط کے بجائے، قلبی جُڑاؤ کا اظہار ہے۔
  • احترام اور اخلاص کے ساتھ اختلاف رائے کی اجازت ہے۔
  • اور مقصد صرف ایک: "قرآن مجھ سے کیا کہہ رہا ہے؟"

طریقہ:
  • ہر پوسٹ میں صرف ایک آیت ہوگی۔
  • ایک ہفتے میں تین سے چار آیات پوسٹ ہوں گی۔
  • آپ کمنٹ کے ذریعے: اپنی بات شامل کر سکتے ہیں اور بعد میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں
  • ہم سب ایک دوسرے کے تدبر سے سیکھیں گے۔

شرائط:
  • ادب، اخلاص، اور مقصدیت۔
  • صرف متعلقہ آیت پر بات۔
  • کسی پر تنقید نہیں بس اپنے اندر جھانکنا ہے۔

کیا آپ نے کبھی سوچا: سورۃ البقرۃ کو ’البقرۃ‘ (گائے) کیوں کہا گیا؟
قرآن کریم میں سورتوں کے نام علامتی ہوتے ہیں۔ ایسا لفظ چُنا جاتا ہے جو اُس سورت کے مرکزی پیغام یا ذہنی جھٹکے (shock point) کو کھولنے میں مدد دے۔
سورۃ البقرۃ کا نام گائے کے ذبح سے متعلق ایک واقعے پر رکھا گیا جو بظاہر تو ایک "مختصر سا واقعہ" ہے (آیات 67–73)، لیکن پوری سورت (286 آیات) کا نکتۂ آغاز بھی وہی ہے۔
"بقرۃ"، لفظ "بقر" سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں: زمین کو چیرنا، کھودنا، ہل چلانا، اندر تک اُلٹ دینا۔
اور یہی کچھ یہ سورت بھی کرتی ہے: یہ ظاہر کو نہیں، باطن کو کریدتی ہے۔ یہ عقل کو نہیں، دل کی زمین کو ہلاتی ہے۔ یہ جسم سے نہیں، نیت اور ارادے سے مخاطب ہوتی ہے
یہاں ہم نیت کا بیج بوتے ہیں، تدبر کا ہل چلاتے ہیں، اخلاص سے آبیاری کرتے ہیں اور آخر میں ہدایت کی فصل کاٹتے ہیں۔
یہ سورت ہمیں اپنے دل کی زمین میں ہل چلانے کی دعوت دیتی ہے تاکہ جو کچھ جم گیا ہے، سخت ہو چکا ہے، مردہ پڑا ہے وہ نرم ہو، زندہ ہو اور اللہ کی بارش سے پھل دے۔

آئیے۔۔۔ آغاز کریں۔
آیۃ 1
﴿الم﴾
یہ الفاظ آپ سے کیا کہتے ہیں؟
دل میں کیا محسوس ہوتا ہے؟
کمنٹ میں اپنی آواز شامل کیجیے۔

#تدبر_بقرۃ #قلبی_قرآن #قرآن_میرا_پیغام #میرا_فخر_اسلام
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
کیا آپ شیئر کرنے سے گھبراتے ہیں؟
میرے ذہن میں یہ آیت ایک خاص لہجے میں گونجتی ہے۔۔۔ وہی لہجہ جو ہماری استاذہ، قرآن کے ایک منفرد ریفلیکشن (تدبر) کورس کے دوران اختیار کرتی تھیں۔
کورس کے دوران، وہ وقفے وقفے سے کسی طالبہ کو اسٹیج پر بلاتیں تاکہ وہ کسی سوال کا جواب دے یا پچھلے سیشن کا خلاصہ بیان کرے۔ یہ مرحلہ بظاہر سادہ ہوتا، مگر دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتیں۔ میں خود بھی کئی دن انتظار کرتی رہی کہ کب میری باری آئے۔
ہر بار جب کوئی طالبہ اسٹیج کی طرف بڑھتی، استاذہ یہ آیت تلاوت کرتیں، اور ہمیں بھی ان کے پیچھے دہرانے کو کہتیں۔۔۔ اسی مخصوص لہجے اور قراءت میں:
"كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ!"
(یہ ایک کتاب ہے جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے، پس آپ کے سینے میں اس سے کوئی تنگی نہ ہو تاکہ آپ اس کے ذریعے خبردار کریں، اور یہ مومنوں کے لیے یاد دہانی ہے۔)

اس آیت میں سب سے پہلے جو چیز دل کو چھوتی ہے، وہ اللہ اور اس کے نبی ﷺ کے درمیان وہ محبت بھرا تعلق ہے۔ یہ قرآن نبی ﷺ کا لکھا کلام نہیں تھا۔ بلکہ یوں کہیے کہ قرآن ہی نے نبی ﷺ کو "لکھا"۔ ان کی شخصیت، ان کا کردار، ان کا حلم سب کچھ ان آیات کے سانچے میں ڈھلتا گیا۔
یہاں "حرج" کا مطلب ہے دل کی گھبراہٹ یا تنگی۔ گویا رب تعالیٰ اپنے محبوب ﷺ کو تسلی دے رہا ہے: "دل تنگ نہ کرو۔۔۔ یہ میرا کلام ہے، بس لوگوں تک پہنچا دو۔"
کیونکہ ردِ عمل کا خوف ایک فطری احساس ہے اور ہم سب اس سے واقف ہیں۔ یہ دراصل ممانعت نہیں بلکہ محبت بھرا اطمینان ہے۔
اور یہی بات ہم آج بھی محسوس کرتے ہیں، حتیٰ کہ اس محفوظ پلیٹ فارم پر لکھتے ہوئے بھی۔ یہاں کوئی ہمیں ملامت نہیں کرتا، نہ رد کرتا ہے، پھر بھی دل میں یہ وسوسہ اٹھتا ہے کہ "اگر غلط بات ہو گئی تو؟ اگر میں کچھ نیا یا قیمتی نہ کہہ پائی تو؟"
مگر یہ تو شیطان کی چال ہے۔ اگر ہم نے صرف ایک آیت ہی دوسروں تک پہنچا دی، تب بھی کیا ہم وہ کام نہیں کر رہے جس کا نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا؟
"بلغوا عني ولو آية"
(میری طرف سے پہنچاؤ، خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔)
یہ اللہ کا کلام ہے، اس کی نشانی ہے، جو نبی ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچی۔ پھر ہم کیوں ہچکچائیں؟ کیا ہمیں اللہ کے کلام کی تاثیر پر شک ہے؟ قطعی نہیں!
اس کورس کی دو باتیں اور بھی قابلِ ذکر تھیں:
پہلا اصول یہ تھا کہ پورے ہفتے کے دوران موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مقصد صرف ایک تھا: دل کو قرآن کے لیے خالی کرنا، تاکہ اس کے معانی دل پر ٹھہر سکیں۔
دوسرا اصول یہ تھا کہ کسی کو دوسروں سے برتر نہ سمجھا جائے۔ وہاں کئی مشہور اور علم والے افراد بھی موجود تھے، مگر سب کو صرف نام کے ساتھ بلایا جاتا۔ نہ القابات، نہ تمایز۔
ہم کھانے کے اوقات میں چھ طالبات کے حلقوں میں بیٹھتیں، آیات پڑھتیں اور ان پر بات کرتیں۔ لیکن یہ کبھی علمی مباحث میں نہیں بدلتا۔ نہ کوئی گہری تحقیق، نہ مشکل اصطلاحات۔ ہمیں کہا گیا تھا:
"ان معانی پر رک جاؤ جو واضح ہیں۔"
استاذہ نے اسے یوں سمجھایا:
"بنیادی معانی پانی کی طرح ہیں، اور علمی نکات دوا کی مانند۔ پانی سب کو روزانہ درکار ہے، دوا صرف مخصوص وقت پر۔"
یہ اصول بہت بصیرت افروز ہے۔ ہمیں اسی ہدایت پر جمے رہنا چاہیے جو سب کے لیے مفید اور قابلِ عمل ہے۔ نہ کہ ان پیچیدگیوں میں الجھ جائیں جو صرف الجھن بڑھاتی ہیں۔
اور ہاں سب سے اہم بات!
ہم سب سیکھنے کے سفر میں ہیں، اور یہ سفر اللہ کے کلام کے ساتھ سب سے مبارک سفر ہے۔
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
" قرآن پر تدبر کیسے کرتے ہیں؟"
(نوٹ: یہ نکات میرے پرسنل نوٹس ہیں۔)
1. نیت سے آغاز:
ہر تدبر سے پہلے دل میں یہ نیت: "اے اللہ! میں تیرے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتی ہوں، مجھے اپنے نور سے منور فرما۔"
نیت ہی وہ کنجی ہے جو دل کے بند دروازے کھولتی ہے۔
2. آیت کو آہستگی سے پڑھنا:
ہر آیت کو غور سے، ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔ اگر عربی متن سامنے ہو تو زبان کے ذائقے سے، اور اگر ترجمہ ہو تو دل کے ذائقے سے۔ کیونکہ قرآن "تدبُّر" کے لیے نازل ہوا، صرف تلاوت کے لیے نہیں۔
3. الفاظ کی گہرائی میں جانا:
کون سا لفظ چُنا گیا؟ اس کا عربی اصل کیا ہے؟ اگر کوئی اور لفظ ہوتا تو کیا فرق پڑتا؟
یہ سوالات آیت کی تہہ میں لے جاتے ہیں۔
4. سیاق و سباق دیکھنا:
یہ آیت کہاں واقع ہے؟ اس سے پہلے کیا ذکر تھا؟ کس قوم یا واقعے سے متعلق ہے؟
یہ تمام چیزیں آیت کا مطلب واضح کرتی ہیں۔
5. سوالات کرنا:
جیسے: اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی؟ مجھ سے کیا چاہا جا رہا ہے؟ یہ آیت میرے آج کے دن سے کیسے جڑتی ہے؟
6. دل پر اس کا عکس تلاش کرنا:
ہر آیت کو آئینہ سمجھ کر خود کو دیکھنا: "کیا میں اس آیت کے مخاطَب ہوں؟ کیا یہ میری کوتاہی ہے؟ کیا یہ میرے درد کا جواب ہے؟"
7. عمل کی طرف مڑنا:
جو بات سمجھ آئی، اُسے زندگی میں اُتارنے کی نیت کرنا۔۔۔ چاہے وہ ایک سادہ سا اخلاقی رویہ ہو یا دل کی کوئی اصلاح۔
8. خاموشی اور دعا کرنا:
تدبر کے بعد کچھ لمحے خاموش بیٹھنا۔۔۔ کیونکہ اللہ کا کلام دل میں جو ارتعاش پیدا کرتا ہے، وہ الفاظ سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔
اور اللہ سے دعا کرنا:
"اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِي مِمَّنْ يَتَدَبَّرُ كِتَابَكَ وَيَعْمَلُ بِهِ"
(اے اللہ! مجھے اپنے کلام میں تدبر کرنے اور اس پر عمل کرنے والوں میں شامل فرما)
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سورۃ البقرۃ آیت: 1

المٓ



اللہ کی حکمت کی گہرائی میں جھانکنے کی دعوت

جب ہم قرآن کھولتے ہیں تو پہلی ہی آیت "المٓ" ہمیں ایک عجیب سی کیفیت میں ڈال دیتی ہے۔ یہ تین حروف نہ کوئی مکمل جملہ ہیں، نہ کوئی واضح حکم، اور نہ ہی ان کا کوئی عمومی مفہوم ہمیں معلوم ہے۔ لیکن یہی تو قرآن کی سب سے پہلی درسگاہ ہےکہ ہر چیز کو جاننا ضروری نہیں، بلکہ اللہ کی حکمت پر بھروسا رکھنا اصل نکتہ ہے۔ قرآن کا آغاز ایسے حروف سے کیوں ہوا، جو ہمیں سمجھ نہیں آتے؟ یہ ہمارے لیے ایک امتحان ہے، ایک پیغام ہے، اور ایک گہرے تدبر کی دعوت ہے۔

انسان کی محدود عقل اور اللہ کا لامحدود علم

جب ہم ان تین حروف کو دیکھتے ہیں، تو فوراً یہ احساس ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہماری عقل کی حد سے باہر ہیں۔ یہی ہماری زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہےہم جتنا بھی علم حاصل کر لیں، اللہ کے علم کے سامنے ہم ایک قطرے کی مانند بھی نہیں۔ اللہ نے سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا:
وَمَا أُوتِيتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
اور تمہیں تو بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے (17:85)
المٓ ہمیں ہماری حیثیت یاد دلاتا ہے، کہ اگر ہم قرآن کی ہدایت چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے اپنی عاجزی کو تسلیم کرنا ہوگا۔

کیا ہم واقعی سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

جب کوئی طالب علم استاد کے سامنے آتا ہے، تو سب سے پہلے اسے سننے اور سیکھنے کی آمادگی رکھنی چاہیے۔ اگر وہ پہلے سے ہی یہ سوچے کہ "مجھے سب معلوم ہے"، تو وہ کچھ بھی نہیں سیکھ سکتا۔ المٓ قرآن کے دروازے پر پہلی دستک ہے، جو ہم سے یہ سوال کرتا ہے: کیا تم واقعی سیکھنے کے لیے تیار ہو؟ کیا تم اپنے علم، اپنی عقل اور اپنی سمجھ کو اللہ کے سپرد کر کے جھکنے کے لیے تیار ہو؟
اگر ہم واقعی قرآن سے ہدایت لینا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے اپنی عقل کی سرحدوں کو ماننا ہوگا اور خود کو اللہ کے سامنے ایک خالی برتن کی مانند پیش کرنا ہوگا، تاکہ وہ ہمیں ہدایت سے بھر دے۔

ایمان اور آزمائش کا تعلق

یہ تین حروف ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ ایمان کا تقاضا صرف وہی چیز ماننا نہیں جو سمجھ میں آ جائے، بلکہ وہ بھی ماننا جو عقل سے بالاتر ہو۔ اللہ نے قرآن میں کئی بار فرمایا کہ ایمان والوں کی آزمائش کی جاتی ہے:
أَحَسِبَ ٱلنَّاسُ أَن يُتْرَكُوٓا۟ أَن يَقُولُوٓا۟ ءَامَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لے آئے، اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی؟ (29:2)
"المٓ" بھی ایک آزمائش ہے۔ کچھ لوگ کہیں گے، "ہم نہیں مانتے کیونکہ ہمیں سمجھ نہیں آتا۔" جبکہ کچھ لوگ اللہ کی حکمت پر بھروسا رکھتے ہوئے اسے قبول کر لیں گے۔ یہی اصل امتحان ہےکون اللہ پر ایمان رکھتا ہے بغیر یہ شرط لگائے کہ سب کچھ فوراً سمجھ میں آ جائے۔

ہر مشکل کے پیچھے اللہ کی حکمت ہوتی ہے

زندگی میں کئی مواقع ایسے آتے ہیں جہاں ہمیں کسی آزمائش کا سبب سمجھ نہیں آتا۔ کبھی کوئی قریبی رشتہ دار دنیا سے چلا جاتا ہے، کبھی کوئی موقع چھن جاتا ہے، کبھی ہم کسی بڑی مشکل میں پڑ جاتے ہیں، اور ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ "یہ کیوں ہوا؟"
"المٓ" ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جیسے ان حروف کی حکمت اللہ جانتا ہے، ویسے ہی ہماری زندگی میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی حکمت بھی وہی جانتا ہے۔ جو کچھ ہمیں سمجھ نہیں آتا، وہ بھی اللہ کی طرف سے ایک خیر ہو سکتا ہے، چاہے ہماری آنکھیں ابھی نہ دیکھ سکیں۔ قرآن ہمیں ایک اور جگہ سکھاتا ہے:
وَعَسَىٰٓ أَن تَكْرَهُوا۟ شَيْـًٔا وَهُوَ خَيْرٌۭ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰٓ أَن تُحِبُّوا۟ شَيْـًۭٔا وَهُوَ شَرٌّۭ لَّكُمْ ۗ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بُری ہو، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(2:216)
پس، جب زندگی میں کوئی ایسا معاملہ آئے جو ہماری سمجھ سے باہر ہو، تو ہمیں اللہ پر بھروسا رکھنا چاہیے کہ وہی بہتر جانتا ہے، جیسے "المٓ" کی حقیقت بھی وہی جانتا ہے۔

غور و فکر اور تدبر کی دعوت

یہ تین حروف قرآن کی تفسیر کے دروازے کی پہلی کنجی ہیں۔ اللہ ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ یہ کتاب صرف تلاوت کے لیے نہیں، بلکہ غور و فکر کے لیے بھی ہے۔
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلْقُرْءَانَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا
کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟ (47:24)
"المٓ" ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ رُک جاؤ، سوچو، غور کرو۔ قرآن کا ہر حرف ایک گہرائی رکھتا ہے۔

"المٓ" کا پیغام

یہ تین چھوٹے حروف ایک عظیم پیغام رکھتے ہیں:
1) اللہ کی حکمت پر بھروسا رکھو ہر چیز کا فوری جواب تلاش کرنے کی کوشش نہ کرو، بلکہ ایمان رکھو کہ اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
2) اپنی عقل کی حد کو پہچانو سب کچھ جاننے کی خواہش چھوڑ کر سیکھنے کی روش اپناؤ۔
3) مشکلات میں صبر کرو جو سمجھ میں نہ آئے، اسے بھی قبول کرو، کیونکہ ہر مشکل کے پیچھے اللہ کی ایک حکمت ہوتی ہے۔
4) قرآن پر تدبر کرو یہ کتاب صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک گہرے پیغام کا خزانہ ہے۔
5) ایمان اور تسلیمیت کی راہ اپناؤ ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے، اللہ کی باتوں پر یقین رکھو، کیونکہ وہی سب سے بہتر جاننے والا ہے۔
"المٓ" ہمیں اللہ کے سامنے جھکنے، غور و فکر کرنے، اور اللہ کی حکمت پر یقین رکھنے کا سبق دیتا ہے۔ کیا ہم واقعی سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت:2
ذَٰلِكَ ٱلۡكِتَٰبُ لَا رَيۡبَۛ فِيهِۛ هُدٗى لِّلۡمُتَّقِينَ
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے۔

یہ آیت قرآن کے مقام، اس کی سچائی، اور اس کے حقیقی فائدے کو واضح کرتی ہے۔ اگر ہم اس کے الفاظ کا گہرائی سے جائزہ لیں، تو کئی اہم نکات سامنے آتے ہیں۔

یہ وہی عظیم کتاب ہے!​

"ذَٰلِكَ" عربی زبان میں کسی دور کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو کہ اس کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی یہ کوئی عام کتاب نہیں، بلکہ ایک بلند مقام رکھنے والی، عظیم اور برتر کتاب ہے۔ یہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ قرآن کوئی معمولی تحریر نہیں، بلکہ یہ اللہ کا کلام ہے، جس کا مقام ہر دوسری کتاب سے بلند ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں​

"ریب" کا بنیادی مطلب "شک، تذبذب، بےچینی، بدگمانی اور بےاعتمادی" ہے۔عربی لغت کے مطابق"ریب" ایسا شک ہوتا ہے جس میں بےچینی اور اضطراب بھی شامل ہو۔یہ صرف عام شبہ (Doubt) نہیں بلکہ ایسا شک ہے جو دل میں بےقراری پیدا کر دے۔ایسا شک جو ذہن کو الجھن میں ڈال دے اور فیصلہ کرنے میں مشکل ہو۔مثلاً، اگر کوئی سچائی پر یقین نہ کرے اور ہمیشہ شکوک میں گھرا رہے، تو اسے "ریب" کہا جا سکتا ہے۔
"لَا رَيۡبَ" کا مطلب ہے کوئی شک نہیں، کوئی شبہ نہیں۔ عام کتابوں میں کہیں نہ کہیں غلطی، تضاد، یا شک پایا جا سکتا ہے، لیکن اللہ نے خود گواہی دی کہ یہ کتاب ہر شک سے پاک ہے! یہ وہ واحد کتاب ہے جس پر انسان آنکھیں بند کر کے یقین کر سکتا ہے، کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ زندگی میں ہمیں کتنی ہی باتوں پر شک ہوتا ہے، لیکن اللہ نے ہمیں یقین دلا دیا کہ اگر سچائی چاہیے، تو قرآن میں آ جاؤ!

ہدایت ہے، مگر کس کے لیے؟​

یہاں ہدایت کا ذکر ہے، لیکن اللہ نے واضح کیا کہ یہ سب کے لیے نہیں بلکہ "لِّلۡمُتَّقِينَ" یعنی پرہیزگاروں کے لیے ہے۔ "متقی" وہ ہوتے ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں، جو اپنے عمل اور نیت میں اللہ کو شامل رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی قرآن سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، تو اسے اپنا دل صاف اور نیت سچی رکھنی ہوگی۔ جو لوگ ضد، تعصب، یا تکبر میں قرآن پڑھیں گے، وہ ہدایت نہیں پا سکتے، کیونکہ یہ کتاب صرف ان کے لیے روشنی ہے جو حقیقت کو تلاش کرنے کی نیت رکھتے ہیں۔

دنیا کی ہر چیز شک میں ڈال سکتی ہے، لیکن قرآن نہیں!​

زندگی میں ہمیں کئی بار شبہات اور شکوک کا سامنا ہوتا ہے۔ لوگ ہم سے جھوٹ بول سکتے ہیں، کتابیں غلط ہو سکتی ہیں، نظریات وقت کے ساتھ بدل سکتے ہیں، لیکن قرآن وہ واحد چیز ہے جس کے بارے میں خود اللہ نے گارنٹی دی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں!
یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جب زندگی میں کوئی مسئلہ درپیش ہو، تو ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں ہی *سب سے سچا علم اور سب سے واضح راہنمائی موجود ہے۔

کیا ہم قرآن کو سچائی کے معیار کے طور پر لیتے ہیں؟​

اللہ فرما رہے ہیں کہ یہ کتاب ہر شک سے پاک ہے، لیکن کیا ہم واقعی اپنے روزمرہ فیصلے قرآن کے مطابق کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنی پسند و ناپسند قرآن سے چیک کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنی اخلاقیات اور زندگی کے اصول قرآن سے لیتے ہیں؟ یا پھر ہم دنیاوی نظریات اور فلسفوں کو ترجیح دیتے ہیں؟
یہ آیت ہمیں خود سے سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے فیصلوں میں قرآن کو کتنا شامل کرتے ہیں؟
ہدایت سب کے لیے نہیں – بلکہ ان کے لیے جو اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں!
کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں لیکن انہیں ہدایت نہیں ملتی۔ اس آیت میں اللہ نے ہمیں یہ راز بتایا کہ ہدایت صرف انہیں ملتی ہے جو واقعی اسے چاہتے ہیں۔ اگر کوئی قرآن صرف تنقید کرنے یا اعتراضات نکالنے کے لیے پڑھے گا، تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن اگر کوئی سچے دل سے، عاجزی کے ساتھ، اللہ سے ہدایت مانگتے ہوئے قرآن پڑھے گا، تو وہ ضرور راہ پائے گا۔

عملی سبق​

اگر ہمیں قرآن سے فائدہ لینا ہے، تو ہمیں اپنی نیت کو درست کرنا ہوگا اور اللہ سے دعا کرنی ہوگی کہ وہ ہمیں سچائی تک پہنچائے۔
کیا ہم "متقی" بننے کی کوشش کر رہے ہیں؟
اللہ نے واضح کر دیا کہ قرآن "متقی" لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ یعنی اگر ہمیں واقعی قرآن سے کچھ لینا ہے، تو ہمیں تقویٰ اپنانا ہوگا۔ تقویٰ کا مطلب ہے: اللہ کے احکامات کو سنجیدگی سے لینا۔ گناہ سے بچنے کی کوشش کرنا، چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ ہر فیصلے میں اللہ کی رضا کو مدنظر رکھنا۔ اگر ہم اپنی زندگی میں تقویٰ کو شامل کریں گے، تو قرآن کی ہدایت خود ہمارے دل میں اترنے لگے گی۔

قرآن ہماری زندگی میں کس مقام پر ہے؟​

یہ آیت ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے:
• کیا ہم واقعی قرآن کو سب سے اعلیٰ سچائی مانتے ہیں؟
• جب ہمیں کوئی فیصلہ کرنا ہوتا ہے، تو کیا ہم قرآن سے رجوع کرتے ہیں؟
• کیا ہم تقویٰ اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ قرآن سے ہدایت حاصل کر سکیں؟
• کیا ہم دل سے قرآن کو پڑھتے ہیں یا بس رسم کے طور پر؟
یہ آیت ایک دعوت ہےکہ ہم قرآن کو اپنی زندگی میں وہ مقام دیں جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔ کیونکہ اگر ہم اسے شک و شبہ سے بالاتر مان کر سچے دل سے پڑھیں، تو یہ ہماری ہر مشکل کا حل بن سکتا ہے!
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت 3:
ٱلَّذِينَ يُؤۡمِنُونَ بِٱلۡغَيۡبِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَمِمَّا رَزَقۡنَٰهُمۡ يُنفِقُونَ
جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

یہ آیت ان لوگوں کی بنیادی صفات بیان کر رہی ہے جو اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے کے اہل ہیں۔ غور کریں، یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن سے حقیقی نفع اٹھاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں؟ ان کی ان صفات میں کیا راز چھپے ہیں؟
یہاں تین بنیادی نکات ہیں جو ہماری پوری زندگی کی روح ہیں:
• غیب پر ایمان – جو کچھ نظر نہیں آتا، اس پر یقین رکھنا۔
• نماز قائم کرنا – اللہ سے تعلق کو مضبوط بنانا۔
• خرچ کرنا – جو ملا، اسے اللہ کی راہ میں لٹا دینا۔
یہ تین چیزیں زندگی کے ہر امتحان کا جواب ہیں! اب آئیے، انہیں انتہائی گہرائی میں سمجھتے ہیں۔
یہ آیت جب بھی پڑھتی ہوں، ایسا لگتا ہے جیسے اللہ میرے دل کی حالت کو جانچ رہا ہے اور مجھے اپنے معیار پر پرکھ رہا ہے۔ یہ کوئی عام جملے نہیں، بلکہ ہدایت کے مستحق لوگوں کی بنیادی نشانیاں ہیں۔

جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں​

یہاں اللہ نے سب سے پہلے ایمان کی بات کی، لیکن خاص طور پر "غیب پر ایمان" کا ذکر کیا۔ کیوں؟
"ایمان بالغیب" صرف ایک عقیدہ نہیں، بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے!ہماری دنیا محض آنکھوں کے دیکھنے تک محدود نہیں۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ کبھی سوچا ہے؟جب کوئی دعا قبول نہیں ہوتی، تو کیا ہم پھر بھی مانگتے رہتے ہیں؟جب آزمائشوں کے بادل گہرے ہو جاتے ہیں، تو کیا ہمارا دل اب بھی اللہ پر یقین رکھتا ہے؟جب ہمیں دوسروں سے انصاف نہیں ملتا، تو کیا ہم اللہ کی عدالت پر یقین رکھتے ہیں؟
ایمان بالغیب وہ روشنی ہے جو اندھیرے میں بھی راہ دکھاتی ہے۔ہم نے جنت نہیں دیکھی، مگر یقین ہے کہ وہی اصل زندگی ہے!ہم نے فرشتوں کو نہیں دیکھا، مگر جانتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ہم نے اللہ کو نہیں دیکھا، مگر ہمارا دل کہتا ہے کہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے!ایمان بالغیب وہ یقین ہے، جو ہمیں ناممکن میں بھی ممکن کی امید دیتا ہے۔
یہ آیت مجھے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا میں واقعی یقین رکھتی ہوں کہ اللہ دیکھ رہا ہے، جب میں تنہا ہوتی ہوں؟ جب حالات میرے حق میں نہ ہوں، تو کیا میں اللہ کی تدبیر پر بھروسا رکھتی ہوں؟ جب دعا مانگتی ہوں اور جواب فوراً نہ ملے، تو کیا میں صبر کر کے یقین رکھتی ہوں کہ اللہ بہتر وقت پر عطا کرے گا؟ یہ آیت مجھے سکھاتی ہے کہ اللہ پر ایمان کا مطلب صرف مان لینا نہیں، بلکہ اس یقین کے مطابق جینا ہے۔

نماز کو قائم کرتے ہیں​

یہاں "نماز پڑھنے" کا نہیں، بلکہ "نماز قائم کرنے" کا ذکر ہے!نماز محض ایک عمل نہیں، بلکہ ایک زندگی کا نظام ہے۔ سوچیں!جب دنیا ہمیں توڑنے لگتی ہے، تو کیا نماز میں ہمیں سکون ملتا ہے؟کیا ہماری نماز ہمیں دنیا کی بے فائدہ چیزوں سے روک رہی ہے؟کیا نماز ہمارے دلوں میں اللہ کی محبت بٹھا رہی ہے؟
نماز کو اگر صحیح معنوں میں قائم کیا جائے، تو یہ دل کو مطمئن کر دیتی ہے۔جب دنیا ہمیں چھوڑ دیتی ہے، تو سجدہ ہمیں تھام لیتا ہے!جب دنیا میں راستے بند ہو جاتے ہیں، تو قیام میں اللہ سے سرگوشیاں ہمیں نئی راہیں دکھاتی ہیں۔جب دل بکھرنے لگتا ہے، تو التحیات میں "السلام علیک ایھا النبی" کہتے ہی دل میں سکون اتر آتا ہے!نماز وہ کشتی ہے، جو ہمیں دنیا کے طوفانوں سے بچا کر اللہ کے قریب لے جاتی ہے۔
یہ آیت مجھے یاد دلاتی ہے کہ نماز محض فرض نہیں، بلکہ میرے اور اللہ کے درمیان ایک "زندہ تعلق" ہے۔ اگر میں اسے سچ میں قائم کروں، تو میری زندگی سنور سکتی ہے۔

جو کچھ اللہ نے دیا، اس میں سے خرچ کرتے ہیں​

یہاں "مال" کا ذکر نہیں کیا، بلکہ "رزق" کہا گیا!"رزق" میں صرف پیسہ نہیں، بلکہ وقت، علم، محبت، صلاحیتیں، اور ہنر بھی شامل ہیں۔جو کچھ ملا ہے، اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرنا اصل کامیابی ہے۔یہاں "جو کچھ دیا گیا" اس میں سے خرچ کرنے کا ذکر ہے، نہ کہ "زیادہ مال" کی شرط رکھی گئی ہے!یعنی، اللہ کسی کا مال، کسی کا علم، کسی کا وقت، اور کسی کا حسن اخلاق آزماتا ہے کہ وہ اسے کیسے خرچ کرتا ہے؟ سوچیں!ہم اپنی نعمتوں کو خود تک محدود رکھتے ہیں، یا دوسروں کو بھی اس میں شریک کرتےہیں؟ اپنا وقت صرف اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں، یا کسی اور کے لیے بھی نکالتےہیں؟جب کوئی محتاج دروازے پر آتا ہے، تو کیا ہم یہ سوچ کر دیتے ہیں کہ اصل دینے والا اللہ ہے؟
حقیقی انفاق وہ ہے جو اللہ کے لیے کیا جائے، نہ کہ دکھاوے کے لیے۔جتنا ہم اللہ کی راہ میں دیتے ہیں، اتنا ہی وہ ہمیں لوٹاتا ہے!جو وقت ہم اللہ کی رضا کے لیے نکالتے ہیں، وہی ہماری زندگی میں سب سے زیادہ بابرکت بن جاتا ہے!جو دولت ہم راہِ خدا میں لگاتے ہیں، وہ قیامت کے دن ہمارے لیے "سایہ" بن جائے گی!خرچ کرنا صرف دولت بانٹنے کا نام نہیں، بلکہ یہ دل کی وسعت اور اللہ پر بھروسے کی علامت ہے۔
اگر ہم سمجھیں کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ اللہ کی عطا ہے، تو ہمیں اسے دوسروں پر خرچ کرنے میں بخل نہیں کرنا چاہیے۔خرچ کرنا صرف پیسہ دینا نہیں، کسی کو وقت دینا، مشورہ دینا، کسی کو ہنسانا، یا مدد کرنا بھی انفاق میں آتا ہے۔جتنا زیادہ خرچ کریں گے، اتنی زیادہ برکت ہوگی!

ان تین صفات میں حکمت کیا ہے؟​

یہ تین چیزیں ہدایت کے لیے شرط کیوں رکھی گئی ہیں؟یہ تینوں ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہیں:
• اگر ایمان بالغیب نہ ہو، تو نماز بوجھ لگے گی، اور انفاق مشکل لگے گا۔
• اگر نماز نہ ہو، تو ایمان کمزور ہو جائے گا، اور دل میں دنیا کی محبت غالب آ جائے گی۔
• اگر انفاق نہ ہو، تو نماز ایک رسمی عمل بن جائے گی، اور ایمان کمزور پڑ جائے گا۔
یہ تین چیزیں اگر ہماری زندگی میں آ جائیں، تو ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جائیں گے!

میری زندگی میں اس آیت کا اثر​

یہ تین صفات جب میں خود میں دیکھتی ہوں، تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ:
• اگر میں واقعی غیب پر ایمان رکھوں، تو میرے دل کی بےچینی ختم ہو جائے گی۔
• اگر میں نماز کو زندگی کا مرکز بنا لوں، تو میری مشکلات خود بخود حل ہونے لگیں گی۔
• اگر میں دوسروں پر خرچ کرنا سیکھ لوں، تو میرا رزق بڑھنے لگے گا اور میری روح خوش ہو جائے گی۔
یہ آیت میرے لیے ایک آئینہ ہے جو مجھے دکھاتی ہے کہ میں کہاں کھڑی ہوں اور کس چیز میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔سوال جو یہ آیت مجھ سے کرتی ہے:
• کیا میں اللہ پر اتنا بھروسا کرتی ہوں کہ ہر حال میں مطمئن رہوں؟
• کیا میں نماز کو واقعی اپنے دن کا سب سے اہم حصہ سمجھتی ہوں؟
• کیا میں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو بانٹنے کے لیے تیار ہوں؟
اگر ان تین سوالوں کے جواب "ہاں" میں آجائیں، تو میں واقعی ہدایت کے قریب پہنچ جاؤں گی!
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
آیت:4
وَٱلَّذِينَ يُؤۡمِنُونَ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبۡلِكَ وَبِٱلۡأٓخِرَةِ هُمۡ يُوقِنُونَ
اور وہ لوگ جو اس پر ایمان رکھتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

یہ آیت ایمان کے تین بنیادی اجزاء پر روشنی ڈالتی ہے:
1) قرآن پر ایمان– یعنی وہ ہدایت جو سیدھی اللہ کی طرف سے محمد ﷺ پر اتری۔
2) پچھلی وحیوں پر ایمان – یعنی وہ تعلیمات جو پچھلے انبیاء کو دی گئیں۔
3) آخرت پر یقین – یعنی دنیا کی حقیقت کو سمجھنا اور انجام کی تیاری کرنا۔
یہ تین نکات درحقیقت "ہدایت یافتہ بندوں" کا مکمل خاکہ ہیں۔ جو شخص اس ایمان کے ہر پہلو میں مضبوط ہوتا ہے، وہی اللہ کے ہاں کامیاب ہے۔

قرآن پر ایمان​

یہاں ایمان کے لیے "يُؤۡمِنُونَ" کا لفظ آیا ہے، جو قلبی تصدیق، زبانی اقرار، اور عملی اطاعت کو شامل کرتا ہے۔ صرف یہ مان لینا کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے کافی نہیں، بلکہ اسے زندگی پر نافذ کرنا بھی ضروری ہے۔ قرآن پر ایمان، توحید پر ایمان کے بعد سب سے اہم ہے۔یہ ایمان مطالبہ کرتا ہے کہ ہم قرآن کو ہدایت کا واحد ذریعہ مانیں۔یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے خیالات، جذبات، اور طرزِ زندگی کو اس کے مطابق ڈھالیں۔
ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے: کیا ہم قرآن کو واقعی اپنی زندگی کا دستور سمجھتے ہیں؟ کیا ہم صرف مخصوص آیات پر عمل کرتے ہیں، یا مکمل قرآن پر ایمان رکھتے ہیں؟ کیا ہم اسے صرف برکت کے لیے پڑھتے ہیں، یا اس کے احکام کو زندگی میں نافذ بھی کرتے ہیں؟
اگر ہمارا ایمان قرآن کے ہر حکم پر ہے، تو ہم حقیقی مومن ہیں، ورنہ ہمارا ایمان ادھورا ہے۔

پچھلی کتابوں پر ایمان​

یہاں اللہ نے پچھلی وحیوں پر ایمان کو بھی ہدایت یافتہ لوگوں کی صفت قرار دیا ہے۔ مگر کیوں؟ کیونکہ تمام آسمانی کتابیں ایک ہی پیغام پر مبنی تھیں: اللہ کی بندگی اور آخرت کی تیاری۔اللہ نے ہمیشہ انسانیت کو ایک مسلسل پیغام دیا، جو قرآن میں مکمل ہوا۔پچھلی کتابوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے، مگر اس کے ساتھ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ اب صرف قرآن ہی محفوظ ہے۔
اگر کوئی کہے کہ "ہمیں بھی انجیل اور تورات کی پیروی کرنی چاہیے"، تو یہ قرآن کی روح کے خلاف ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ پچھلی کتابیں اب بھی مکمل محفوظ ہیں، تو وہ قرآن کے عقیدے سے انحراف کر رہا ہے۔ ہمیں اہلِ کتاب سے بات کرتے ہوئے ان کی کتابوں کا احترام کرنا چاہیے، مگر یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ اب صرف قرآن قابلِ عمل ہے۔ہم پچھلی کتابوں کو وحی مانتے ہیں، مگر انہیں اپنا دستور نہیں سمجھتے۔قرآن ہی آخری فیصلہ کن کتاب ہے، اور اسی پر عمل کرنا لازم ہے۔

آخرت پر یقین​

یہاں ایمان کے لیے "يُوقِنُونَ" کا لفظ آیا ہے، جو "کامل یقین" کو ظاہر کرتا ہے۔ ایمان اور یقین میں فرق ہے: ایمان کا مطلب ہے مان لینا۔یقین کا مطلب ہے ایسا ماننا کہ کوئی شک نہ رہے، اور زندگی اس پر مکمل ڈھل جائے۔
ایمان یہ ہے کہ قیامت آئے گی، یقین یہ ہے کہ یہ کسی بھی لمحے آ سکتی ہے۔ایمان یہ ہے کہ جزا و سزا ہو گی، یقین یہ ہے کہ میں اپنے ہر عمل کا جوابدہ ہوں۔ایمان یہ ہے کہ جنت و جہنم موجود ہیں، یقین یہ ہے کہ میں جو کچھ کما رہی ہوں، وہ مجھے وہاں لے جائے گا۔
اگر آخرت پر یقین ہو، تو آدمی کبھی ظلم نہ کرے۔اگر آخرت پر یقین ہو، تو آدمی کبھی تکبر نہ کرے، کیونکہ حساب دینا ہو گا۔اگر آخرت پر یقین ہو، تو آدمی کبھی نماز نہ چھوڑے، کیونکہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔ آخرت پر یقین ہمیں گناہوں سے روکتا ہے اور اچھے اعمال پر ابھارتا ہے۔یہی وہ یقین ہے جو اہلِ تقویٰ کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔

گہرے نکات:​

• اگر کوئی قرآن پر ایمان رکھے مگر آخرت پر یقین نہ کرے، تو وہ دنیا میں گمراہ ہو سکتا ہے۔
• اگر کوئی آخرت پر یقین رکھے مگر قرآن کی ہدایت پر نہ چلے، تو وہ قیامت کے دن خسارے میں ہو گا۔
• اگر کوئی قرآن اور آخرت پر یقین رکھے مگر پچھلی کتابوں کی حقیقت کو نہ سمجھے، تو وہ کمزور عقیدے کا ہوگا۔
• یہ آیت اہلِ ایمان کی مکمل شناخت بیان کرتی ہے۔ جو شخص ان تینوں میں مضبوط ہو، وہی حقیقی کامیاب ہے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟​

• قرآن کو صرف پڑھنا نہیں، بلکہ اس کے مطابق زندگی گزارنی ہے۔
• پچھلی کتابوں کو ماننا ہے مگر ان کی موجودہ حیثیت کو سمجھنا ہے۔
• آخرت پر ایسا یقین پیدا کرنا ہے کہ ہر فیصلہ اسی بنیاد پر ہو۔
• اگر ہم واقعی کامیابی چاہتے ہیں، تو اس آیت کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔

خلاصہ​

• قرآن پر ایمان– صرف زبانی نہیں، بلکہ مکمل یقین اور اطاعت کے ساتھ۔
• پچھلی کتابوں پر ایمان – مگر ساتھ میں یہ تسلیم کرنا کہ صرف قرآن محفوظ ہے۔
• آخرت پر یقین – ایسا یقین جو زندگی کے ہر عمل کو متاثر کرے۔
یہ تینوں چیزیں ہدایت یافتہ مومن کی پہچان ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک میں کمی ہو، تو ایمان کمزور ہے۔
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
آیت:5
أُو۟لَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًۭى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُو۟لَـٰئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں، اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔

یہ آیت پچھلی چار آیات کا خلاصہ اور نتیجہ ہے۔ جن کی صفات پہلی چار آیات میں ذکر ہوئیں:
1) ایمان بالغیب
2) نماز قائم کرنا
3) اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرنا
4) قرآن اور پچھلی کتابوں پر ایمان
5) آخرت پر یقین رکھنا
یہ تمام صفات رکھنے والے لوگ ہدایت پر ہیں اور حقیقی کامیابی انہی کا مقدر ہے۔ لیکن اس آیت میں ایک نہایت گہرا پیغام چھپا ہے، جو ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہاں دو بڑے نکات ہیں:
1) أُو۟لَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًۭى مِّن رَّبِّهِمْ– یہ لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت پر ہیں۔
2) وَأُو۟لَـٰئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ– یہی لوگ حقیقی کامیاب ہیں۔

ہدایت، مگر کیسی؟​

اللہ نے یہاں "عَلَىٰ" کا لفظ استعمال کیا، جس کا مطلب ہے کسی چیز پر مضبوطی سے قائم ہونا۔ تصور کریں:جیسے کوئی مضبوط جہاز سمندر میں چل رہا ہو، اگر آپ اس پر سوار ہیں، تو منزل تک پہنچ جائیں گے۔ جیسے کوئی درخت زمین پر جم کر کھڑا ہو، تو طوفان بھی اسے نہیں گرا سکتے۔ یہ لوگ ایسے نہیں کہ ہدایت ان کے پاس بس ایک نظریہ ہے، بلکہ وہ اس پر پوری طرح جمے ہوئے ہیں۔
یہاں ہمیں سبق لینا چاہیے کہ کیا ہم ہدایت کے "مسافر" ہیں؟ کیا ہم ہدایت کو اختیار کرنے میں اتنے مضبوط ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہلا نہ سکے؟ کیا ہمارا ایمان صرف نظریاتی ہے، یا عملی طور پر ہم ہدایت پر "سوار" ہیں؟

یہ ہدایت کہاں سے آ رہی ہے؟​

یہاں ایک بہت اہم نکتہ ہے:اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یہ ہدایت "مِّن رَّبِّهِمْ" یعنی "ان کے رب کی طرف سے" ہے۔ یہ جملہ ہمیں سکھاتا ہے:ہدایت انسان خود نہیں بنا سکتا، یہ صرف اللہ کی عطا ہے۔ اگر اللہ کی طرف سے ہدایت نصیب ہو جائے، تو کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی۔ "رب" کا مطلب ہے پالنے والا، سنوارنے والا، پروان چڑھانے والا۔ یعنی یہ ہدایت کوئی جامد چیز نہیں، بلکہ یہ مسلسل ترقی پاتی ہے!
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہدایت کو ایک جامد چیز سمجھ رہے ہیں یا اسے مسلسل بڑھا رہے ہیں؟ کیا ہم ہدایت کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں؟

فلاح، مگر کون سی؟​

"المفلحون" کا اصل مفہوم صرف "کامیابی" نہیں، بلکہ ''ہمیشہ کے لیے کامیابی'' ہے! عربی زبان میں "فَلَحَ" کا مطلب زمین کا شق ہونا بھی ہے، جیسے ایک کسان زمین کو چیر کر بیج بوتا ہے، پھر وہ بیج آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور آخرکار فصل بن جاتا ہے۔ یہاں ایک بڑی حقیقت چھپی ہے: ایک کسان جب زمین میں بیج بوتا ہے، تو فوری طور پر نتیجہ نہیں ملتا، وقت لگتا ہے۔ ہدایت یافتہ لوگ بھی محنت کرتے ہیں، آزمائشوں سے گزرتے ہیں، لیکن آخرکار کامیاب ہو جاتے ہیں! اس کا مطلب ہے کہ حقیقی فلاح صبر اور استقامت کے بعد آتی ہے۔
اگر ہدایت پر آزمائشیں آ رہی ہیں، تو گھبرائیں مت!اگر کامیابی فوری نہیں مل رہی، تو صبر کریں، بیج آخرکار درخت ضرور بنتا ہے۔جو آخرت پر یقین رکھتا ہے، وہ وقتی ناکامیوں سے نہیں گھبراتا۔

ایک گہرا نکتہ – دنیاوی کامیابی اور آخروی کامیابی کا فرق​

دنیا کہتی ہے:زیادہ پیسہ ہو تو کامیابی! مشہور ہو جاؤ تو کامیابی! طاقت حاصل کر لو تو کامیابی!
قرآن کہتا ہے:ہدایت پر رہو تو کامیابی!اللہ کے قریب ہو تو کامیابی!آخرت میں کامیاب ہو جاؤ تو اصل فلاح!
یہ آیت ہماری سوچ کو چیلنج کر رہی ہے: کیا ہم واقعی کامیابی کو وہ سمجھ رہے ہیں جو اللہ نے بتایا؟ یا ہم دنیا کی وقتی چیزوں کو کامیابی مان بیٹھے ہیں؟

خلاصہ – ہمیں کیا کرنا چاہیے؟​

ہدایت کو سب سے بڑی نعمت سمجھیں۔
اللہ سے دعا کریں کہ ہمیں ہدایت پر جمائے رکھے۔
اگر مشکلات آئیں، تو گھبرانے کے بجائے صبر کریں، کیونکہ فلاح کا راستہ صبر سے گزرتا ہے۔
دنیاوی وقتی خوشیوں کے پیچھے نہ بھاگیں، بلکہ آخرت کی کامیابی پر فوکس کریں۔
ہدایت کو صرف مانیں نہیں، اس پر "سوار" ہو جائیں!

#SpiritualReflection #ReminderToSelf #FaithOverPride #DivinePerspective #SeenByAllah @noor_e_niyyat
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ
آیت: 5
أُو۟لَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًۭى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُو۟لَـٰئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں، اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔

تدبر سے اقتباسات:
"یہ لوگ ہدایت کے مالک نہیں، بلکہ ہدایت کے سوار ہیں!"
جیسے کوئی مضبوط جہاز سمندر میں چل رہا ہو، اگر آپ اس پر سوار ہیں، تو منزل تک پہنچ جائیں گے۔
"ہدایت انسان خود نہیں بنا سکتا، یہ صرف اللہ کی عطا ہے۔"
اور جو ہدایت اللہ دے، وہ کبھی بجھ نہیں سکتی، کبھی بہک نہیں سکتی۔
"فلاح کا مطلب صرف کامیاب ہونا نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے کامیاب ہونا ہے!"
جیسے کسان زمین کو چیرتا ہے، بیج ڈالتا ہے، وقت لگتا ہے۔۔۔ مگر آخرکار فصل اُگتی ہے۔
"اگر ہدایت پر آزمائشیں آ رہی ہیں، تو گھبرائیں مت!"
بیج کو بھی اندھیرے، مٹی، تنہائی اور وقت درکار ہوتا ہے۔۔۔ تب جا کر وہ درخت بنتا ہے۔
"دنیا کہتی ہے: طاقت، شہرت، دولت کامیابی ہے؛ قرآن کہتا ہے: ہدایت کامیابی ہے!"
سوال یہ ہے: ہم کس تعریف پر یقین رکھتے ہیں؟
"کیا ہم ہدایت کو جامد چیز سمجھ رہے ہیں یا مسلسل بڑھنے والا نور؟"
کیونکہ "رب" صرف دینے والا نہیں، پروان چڑھانے والا بھی ہے۔

مکمل تدبر درج ذیل لنک میں:
آیت 5:رب کی عطا، اصل فلاح: ہدایت یافتہ لوگوں کا انجام
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ
آیت: 6
إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
"بے شک جنہوں نے کفر کیا، ان کے لیے برابر ہے، چاہے آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔"

کب نصیحت بے اثر ہو جاتی ہے؟
کب دل پتھر بن جاتے ہیں؟
کب ہدایت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا ہے؟
یہ سب اچانک نہیں ہوتا۔ یہ ایک روحانی عمل ہے ایک دل دہلا دینے والا سفر۔۔۔
حق کو جان کر انکار کرنا، بار بار نصیحت کو ٹالنا، دل کو ضد اور تکبر سے بھر لینا۔۔۔یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب انسان گمراہی کے اندھیروں میں کھو جاتا ہے — خاموشی سے، رفتہ رفتہ، اور اکثر بے خبر ہو کر!
"لَا يُؤْمِنُونَ" یہ اعلان تب ہوتا ہے جب دل خود روشنی سے منہ موڑ چکا ہوتا ہے۔
کیا ہم بھی کسی ایسی نصیحت کو بار بار نظر انداز کر رہے ہیں؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ گناہ کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے؟
کیا کبھی دل کو ٹٹول کر دیکھا ہے؟
یہ آیت ہمیں صرف دوسروں کی نہیں، اپنی حالت کی خبر دے رہی ہے۔
پلٹ آئیے۔۔۔ اس سے پہلے کہ "اب کوئی فرق نہیں پڑتا" والی کیفیت ہم پر طاری ہو جائے۔
اللہ سے دعا ہے: "اے اللہ! ہمارے دلوں کو زندہ رکھ، اور ہدایت کی روشنی کو ہم سے کبھی نہ چھین!"

مکمل تدبر درج ذیل لنک میں:
آیت 6: ہدایت سے محرومی: ایک انتخاب، ایک انجام
 
Top