بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عَنْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : " يُوشِكُ أَن يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ، وَهِيَ خَرَابٌ مِّنَ الْهُدَى، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ، مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَ فِيهِمْ تَعُودُ.
(مشكوة / ص: ٣٧ / كتاب العلم، رواه البيهقي في شعب الإيمان / الفصل الثالث)
ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ رحمت عالم سلالم کا ارشاد ہے: ”لوگوں پر عنقریب وہ زمانہ آئے گا جس میں اسلام کا نام اور قرآن کے محض الفاظ باقی رہ جائیں گے، ان کی مسجدیں ( بظاہر ) با رونق ہوں گی ، مگر رشد و ہدایت سے خالی اور ویران ہوں گی ، ان کے علماء آسمان کی نیلی چھت کے نیچے ( بسنے والی مخلوق میں سب سے زیادہ ) بدتر ہوں گے (والعیاذ باللہ العظیم ) ( ظالموں کی حمایت کی وجہ سے ) حمایت کی وجہ سے ) فتنہ ان ہی سے نکلے گا اور پھر ان ہی میں عود کرے گا ( لوٹے گا ، یعنی ان پر ہی ظالم مسلط کر دیے جائیں گے ) ( نعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا)
ہر چیز کا ایک ظاہر ہے، ایک باطن
اس کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہیں خواہ ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے ، تکوینی امور سے ہو یا تشریعی امور سے، غرض ہر چیز کا ایک ظاہر ہے، ایک باطن، ایک ہیئت ہے ایک ماہیت، یا کہیے کہ ایک صورت ہے، ایک حقیقت ، اور پھر یہ اصول بھی سب کے نزدیک مسلم ہے کہ کسی بھی چیز کی بقا صورت اور حقیقت دونوں پر موقوف ہے، یعنی اس کی صورت کا مدار حقیقت پر ہے تو حقیقت کا مدار صورت پر کسی بھی ایک کے نہ ہونے سے اصلیت اور منفعت ختم ہو جائے گی، بالخصوص اس وقت جب کہ محض ظاہری صورت ہو، مگر باطنی حقیقت نہ ہو تو اس کی افادیت باقی نہیں رہ سکتی ۔
حدیث بالا سے یہ مضمون بھی مفہوم ہوتا ہے، رحمت عالم صلی یم کا قلب اطہر وحی الہی اور نور الہی کا منبط و مرکز تھا، آپ سلیم نور الہی سے دیکھ کر حالات و کیفیات کے دھارے کو سمجھ لیا کرتے تھے ، آپ سلیم نے اپنی دور میں نظروں سے دیکھ کر آئندہ کے حالات کی منظر کشی فرمائی : يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زمان..... عنقریب لوگو ں پر ایک زمانہ آئے گا۔ ( جس کی چند علامتیں ہیں )
اسلام کی اصلیت نہیں ، صرف اس کا نام ہم میں باقی ہے :
اس حدیث شریف میں اخبار غیب کے طور پر قرب قیامت کی چار علامتوں کا ذکر فرمایا ہے: جن میں پہلی علامت یہ ہے کہ "لا يبقى مِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُه اسلام کی صورت اور نام تو باقی رہ جائے گا، مگر حقیقت اور اصل روح ختم ہو جائے گی، چناں چہ آج دیکھ لیجئے ہماری زندگی میں اسلام کا نام تو ہے ، مگر اس کے احکام پر عمل نہیں ( الا ما شاء اللہ ) مطلب یہ ہے کہ اس وقت اسلام کے تعلق سے جتنی بھی چیزیں ہیں جن پر اسلام کا نام بولا جاتا ہے مثلاً نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ، ان سب کی صورت تو ہے، مگر اصلیت اور حقیقت نہیں، حالاں کہ اسلام تو آج بھی اپنی تمام آب و تاب اور روحانی کیفیات کے ساتھ باقی ہے، مگر افسوس کہ اسلام کے نام لیوا مسلمانوں کی زندگی احکام اسلامیہ سے دور ہونے لگی ، جس کا ایک اثر یہ ہے کہ اب ساری عبادتیں یا تو رواجاً ادا کی جاتی ہیں یا پھر ریاء (الا ماشاء اللہ ) خالصة لوجہ اللہ بہت کم ادا کی جاتی ہیں، اور یہ حدیث بالا میں قرب قیامت کی پہلی علامت بیان فرمائی ۔ قرآن کی تلاوت اور اس کی تعلیم پر عمل ، دونوں مطلوب ہیں :
دوسری علامت یہ بتلائی کہ "لا يبقى مِنَ القُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ قرآن کریم کے الفاظ ، نقوش و حروف تو باقی رہ جائیں گے، جسے لوگ تلاوت تو کریں گے، مگر تلاوت سے جو عمل مقصود ہے وہ مفقود ہوگا، گویا خوش الحانی سے تلاوت قرآنی تو ہوگی ، مگر خود پڑھنے والوں کو احکام قرآنی پر عمل سے کوئی دلچسپی نہ ہو گی ، حالانکہ اگر قرآن کی تلاوت کرنا یہ ایک بنیادی حق ہے، تو اس پر عمل کرنا دوسرا بنیادی حق اور مومن کی پہچان ہے، فرمایا:
الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ﴾ (البقرة : ١٢١)
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی جب کہ وہ اس کی تلاوت اس طرح کرتے ہیں جیسا اس کی تلاوت کا حق ہے تو وہی لوگ ( در حقیقت ) اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
حضرات صحابہ وصلحاء کی بھی یہی شان تھی ، ان میں یہ دونوں باتیں تھیں ، وہ قرآن کی تلاوت بھی کرتے تھے، اور قرآن کی تعلیم و احکام پر عمل بھی کرتے تھے، کہ دونوں چیزیں اہل قرآن سے مطلوب ہیں۔ حضرت ابو عبد الرحمن سلمی فرماتے ہیں : ” جب ہم دس آیتیں قرآن کی سیکھتے تو بعد کی دس آیتیں اس وقت تک نہ سیکھتے جب تک اُن سیکھی ہوئی دس آیات میں بیان کردہ (احکام ) حلال و حرام اور امر و نہی کو جان نہ لیتے“ ( اور اُن پر حسب موقع عمل نہ کر لیتے ) ۔ (حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور حاضر کے فتنے (ص:۹۱)
صحابہ وصلحاء کے اس طرز عمل کا یہ اثر تھا کہ بعض اوقات ان کے لیے قرآن کو یاد کرنا تو مشکل مگر عمل کرنا آسان تھا ، جب کہ آج اس کا عکس ہے، قرآنی الفاظ تو ہیں ، ان پر عمل نہیں ،
اس لیے تلاوت اور حفظ کرنا آسان اور عمل کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: ہم پر الفاظ قرآنی کا یاد کرنا مشکل ہے، مگر عمل کرنا بڑا آسان ہے، اور ہمارے بعد والوں پر حفظ قرآن تو آسان ہوگا، مگر عمل کرنا مشکل ہوگا ۔ ( تفسیر قرطبی )
صاحبو ! اب تو ایسا لگتا ہے کہ اسلام اور اس کی صداقتیں قرآن میں ہیں، اور ان پر عمل کرنے والا مسلمان قبرستان میں ہے، آج ہمارے پاس قرآن ہے، پھر بھی ہم پریشان اس لیے ہیں کہ ہم اس کے الفاظ کی تلاوت تو کرتے ہیں، مگر اس پر عمل نہیں کرتے ، جو قرب قیامت کی علامت ہے، بلا شبہ تلاوت بھی باعث برکت ہے، مگر قرآن پر عمل نہ کرنا باعث ہلاکت ہے۔
باتوں سے بھی بدلی ہے کسی قوم کی تقدیر؟
بجلی کے چمکنے سے اندھیرے نہیں جاتے
مساجد رشد و ہدایت سے ویران :
تیسری علامت قرب قیامت کی حدیث میں یہ بیان فرمائی گئی کہ مَسَاجِدُهُمُ عَامِرَةٌ، وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى “ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مسجد تو رشد و ہدایت کا مرکز ہے، لیکن قرب قیامت میں یہ ہوگا کہ ان کی مسجد میں ظاہری شکل وصورت کے اعتبار سے با رونق ، زیب و زینت سے معمور اور بھر پور ہوں گی، مگر حقیقت کے اعتبار سے ہدایت سے خالی اور ویران ہوں گی، یہ پیشین گوئی بھی آج حرف بحرف صادق آ رہی ہے۔
عاجز کا ناقص خیال ہے کہ پہلے مساجد کو اللہ تعالیٰ کا گھر کہا جاتا تھا ، اب ان مساجد کو اللہ تعالیٰ کا بنگلہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا ! آج مساجد کو عالی شان بنانے ، سجانے اور آراستہ کرنے کا تو اہتمام ہوتا ہے، مگر ان کے مقاصد اور مقتضی پر عمل کرنے کی فکر نہیں ہوتی ، نماز، تلاوت اور عبادت وغیرہ سے ان کو آباد کرنے کی فکر نہیں ہوتی ، الا ماشاء اللہ ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسی مضمون کو کیا خوب بیان فرمایا ہے :
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
شاہ صاحب علامہ سید عبد المجید ندیم صاحب فرماتے ہیں:
کسی زمانہ میں مسجدیں تو کچی ہوتی تھیں ، مگر نمازی بڑے پکے ہوتے تھے، اور آج مسجدیں پکی ، نمازی کچے“ (الا ماشاء اللہ )
مسجدوں کے ویران ہونے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مساجد صیح فکر مند علماء ومتولیان سے خالی ہو جائیں گی ، جس کا اثر یہ ہوگا کہ جاہل متولیان اور علماء سوء ان پر قابض ہو جائیں گے، پھر جو مساجد رشد و ہدایت کے مراکز ہیں وہیں سے خرابی و گمراہی پھیلے گی ، اور یہ قرب قیامت کی علامت ہے۔ آج کے پرفتن دور میں اس کا نقشہ ہمارے سامنے ہے، تاہم آئندہ کل کے مقابلہ میں آج کے موجودہ حالات و ماحول کو غنیمت ہی کہا جا سکتا ہے، ورنہ محد ثین کی تشریح کے مطابق وہ وقت بھی آئے گا جب مساجد کا یہ رہا سہا کردار بھی داؤ پر لگ جائے گا، اور مساجد اس ماحول کو بھی ترستی نظر آئیں گی ۔ ( نعوذ باللہ من ذلک )
علماء سوء کا فتنہ :
چوتھی علامت قرب قیامت کی یہ بیان فرمائی گئی کہ عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ وہ علماء جوزی شان ہونے کے سبب خالق و مخلوق میں عزیز ہوتے ہیں، مگر اس زمانہ میں سب سے زیادہ ذلیل وہی لوگ ہوں گے، وجہ یہ ہے کہ ان سے تو اتفاق اور محبت کا سبق دنیا نے سیکھا ہے، مگر اس زمانہ میں علماء سوء ہی اختلاف، نفرت اور فتنہ و فساد کا سبب بنیں گے، اور پھر فتنے ان ہی میں لوٹیں گے ، علماء محدثین نے اس کے مختلف مطالب بیان فرمائے ہیں :
-1 ایک مطلب یہ ہے کہ ظالم حکمرانوں کی حمایت کے سبب فتنہ ان ہی سے وجود میں آئے گا ، اور پھر جب تک یہ خود فتنہ ختم نہ کریں باقی رہے گا۔
۲ دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ فتنہ کے بانی مبانی چوں کہ علماء سوء ہوں گے، اس لیے اس کا وبال بھی ان ہی کو ہوگا ، یعنی پھر اُن پر خود ان ہی ظالم حکمرانوں کو مسلط کر دیا جائے گا۔
علماء خیر و علماء سوء کی علامات :
حضرت مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک موقع پر فرمایا کہ در حقیقت ( علماء سوء) وہ مذہب کے نادان حامی ہیں جن کی دوستانہ حمایت ہمیشہ دشمنوں کی مخالفت سے زیادہ دین کے لیے مضر رہی ہے کیوں کہ آج تک جو گمراہ فرقے اور فرق باطلہ ہوئے ان کے بانی دراصل اسی قسم کے نام نہاد علماء سوء رہے ہیں، جو اپنے نام کے ساتھ لفظ ”عالم‘ لگا کر عوام الناس کو دھوکا دیتے ہیں۔
لیکن یاد رکھو! اس حدیث میں اور اس طرح کی حدیثوں میں علماء کے لیے جتنی بھی وعیدیں ہیں ان سب کے مصداق یہی علماء سوء ہیں ، جن کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ فتنہ و فساد اور خرابی ان سے پھیلتی ہے، اس کے برخلاف جو علماء خیر ہیں ان کے بڑے فضائل ہیں ، ان کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ ان سے حق اور ہدایت پھیلتی ہے۔
مزید علماء خیر کی چند علامتیں وہ ہیں جن کو امام غزائی نے احیاء العلوم میں بیان فرمایا ہے، مثلاً :
(1) وہ اپنے علم سے دنیا نہ کماتے ہوں، کیوں کہ حکم ربانی ہے:
لَا تَشْتَرُوا بِآيَتِي ثَمَنًا قَلِيلاً (البقرة : (۱۱)
میری آیتوں کو معمولی قیمت لے کر نہ بیچو۔ یعنی اس سے دنیا نہ کھاؤ۔
(۲) ان کے قول و عمل میں تعارض نہ ہو، قرآن نے متوجہ کیا ہے : أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ ﴾ (البقرة : ٤٤) کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو؟
(۳) ایسے علوم و امور میں مشغول ہوں جو آخرت میں کام آئیں، اور ایسے علوم و امور سے احتراز کریں جن کا آخرت میں کوئی نفع نہ ہو۔
قرآن کریم نے کامیاب مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَ الَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ﴾ (المؤمنون : (۳)
وہ لوگ لغو اور بے کار مشغلہ ( جس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہو، نہ آخرت کا ایسی چیزوں ) سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔
(۴) کھانے پینے اور لباس کی نزاکتوں وعمد گیوں کی طرف متوجہ نہ ہوں، بلکہ اُن میں میانہ روی اختیار کریں، ارشادِ باری: ﴿ وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ) (ص : ٨٦) کے مصداق ہوں ۔
(۵) حکام اور امراء سے دوری اختیار کریں۔ (اور اگر ان سے تعلق بھی ہو تو خیر کی نیت سے ، مگر اس میں بھی تملق یعنی چاپلوسی ہرگز نہ ہو ) اور جن میں یہ باتیں نہیں وہ علماء سوء ہیں۔ رات اور دن میں جتنا فرق ہے ، آسمان اور زمین میں جتنا فرق ہے، اس سے زیادہ فرق علماء خیر اور علما ء شر میں ہے، دونوں کو ایک ہی صف میں شامل کرنا علامت جہل اور منشا حدیث کے قطعاً خلاف ہے۔ (فافهم)
علماء سوء کی مذمت :
وہ علماء سوء جو دنیا کے معمولی نفع کے خاطر اسلام کے ابدی احکام میں تحریف کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق فتوے دینے لگتے ہیں ، جن کے قال اور حال میں کافی فرق ہے، جن کی خلوت اور جلوت میں بھی بعد المشرقین ہے، جنہوں نے علم کی حلاوت کو لیا ، مگر عمل کی مشقت کو ترک کر دیا ، جن کا قول فعل کے اور فعل قول کے خلاف ہے، اور جو باتیں تو خیر البریہ کی کرتے ہیں ، مگر خود شر البریہ میں ہیں، جو اوروں کو سمجھاتے ہیں ، مگر خود نہیں سمجھتے ، ( العیاذ باللہ العظیم) ایسے بے عمل علماء سوء کو قرآن کریم نے گدھوں سے تشبیہ دی ، فرمایا: كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَاراً ﴾ (الصف : ٥)
اور بد عمل علماء سوء کو قرآن نے کتوں سے تشبیہ دی ، فرمایا:
فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ﴾ (الأعراف : ١٧٦ )
کیوں کہ سارے عالم میں اور دین و مذہب میں فسادان ہی علماء سوء سے پھیلا ہے، بقول شاعر :
آج کے علماء سو بہت ہی مکار ہیں
چال بازی، مکر سازی میں بڑے ہوشیار ہیں
آج کل جتنی خرابی دین و مذہب میں ہے
اس کے بانی مبانی بس یہی بدکار ہیں
یا درکھو! اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بہتر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد علماء خیر ہیں، اور سب سے بدتر علماء شر ہیں، اللہ پاک بلا کسی استحقاق کے محض اپنی رحمت
سے ہمیں علماء خیر میں شامل فرما کر علماء سو سے محفوظ فرمائے ، آمین ۔حَبِيبِكَ خَيْرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمُ
عَنْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : " يُوشِكُ أَن يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ، وَهِيَ خَرَابٌ مِّنَ الْهُدَى، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ، مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَ فِيهِمْ تَعُودُ.
(مشكوة / ص: ٣٧ / كتاب العلم، رواه البيهقي في شعب الإيمان / الفصل الثالث)
ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ رحمت عالم سلالم کا ارشاد ہے: ”لوگوں پر عنقریب وہ زمانہ آئے گا جس میں اسلام کا نام اور قرآن کے محض الفاظ باقی رہ جائیں گے، ان کی مسجدیں ( بظاہر ) با رونق ہوں گی ، مگر رشد و ہدایت سے خالی اور ویران ہوں گی ، ان کے علماء آسمان کی نیلی چھت کے نیچے ( بسنے والی مخلوق میں سب سے زیادہ ) بدتر ہوں گے (والعیاذ باللہ العظیم ) ( ظالموں کی حمایت کی وجہ سے ) حمایت کی وجہ سے ) فتنہ ان ہی سے نکلے گا اور پھر ان ہی میں عود کرے گا ( لوٹے گا ، یعنی ان پر ہی ظالم مسلط کر دیے جائیں گے ) ( نعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا)
ہر چیز کا ایک ظاہر ہے، ایک باطن
اس کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہیں خواہ ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے ، تکوینی امور سے ہو یا تشریعی امور سے، غرض ہر چیز کا ایک ظاہر ہے، ایک باطن، ایک ہیئت ہے ایک ماہیت، یا کہیے کہ ایک صورت ہے، ایک حقیقت ، اور پھر یہ اصول بھی سب کے نزدیک مسلم ہے کہ کسی بھی چیز کی بقا صورت اور حقیقت دونوں پر موقوف ہے، یعنی اس کی صورت کا مدار حقیقت پر ہے تو حقیقت کا مدار صورت پر کسی بھی ایک کے نہ ہونے سے اصلیت اور منفعت ختم ہو جائے گی، بالخصوص اس وقت جب کہ محض ظاہری صورت ہو، مگر باطنی حقیقت نہ ہو تو اس کی افادیت باقی نہیں رہ سکتی ۔
حدیث بالا سے یہ مضمون بھی مفہوم ہوتا ہے، رحمت عالم صلی یم کا قلب اطہر وحی الہی اور نور الہی کا منبط و مرکز تھا، آپ سلیم نور الہی سے دیکھ کر حالات و کیفیات کے دھارے کو سمجھ لیا کرتے تھے ، آپ سلیم نے اپنی دور میں نظروں سے دیکھ کر آئندہ کے حالات کی منظر کشی فرمائی : يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زمان..... عنقریب لوگو ں پر ایک زمانہ آئے گا۔ ( جس کی چند علامتیں ہیں )
اسلام کی اصلیت نہیں ، صرف اس کا نام ہم میں باقی ہے :
اس حدیث شریف میں اخبار غیب کے طور پر قرب قیامت کی چار علامتوں کا ذکر فرمایا ہے: جن میں پہلی علامت یہ ہے کہ "لا يبقى مِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُه اسلام کی صورت اور نام تو باقی رہ جائے گا، مگر حقیقت اور اصل روح ختم ہو جائے گی، چناں چہ آج دیکھ لیجئے ہماری زندگی میں اسلام کا نام تو ہے ، مگر اس کے احکام پر عمل نہیں ( الا ما شاء اللہ ) مطلب یہ ہے کہ اس وقت اسلام کے تعلق سے جتنی بھی چیزیں ہیں جن پر اسلام کا نام بولا جاتا ہے مثلاً نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ، ان سب کی صورت تو ہے، مگر اصلیت اور حقیقت نہیں، حالاں کہ اسلام تو آج بھی اپنی تمام آب و تاب اور روحانی کیفیات کے ساتھ باقی ہے، مگر افسوس کہ اسلام کے نام لیوا مسلمانوں کی زندگی احکام اسلامیہ سے دور ہونے لگی ، جس کا ایک اثر یہ ہے کہ اب ساری عبادتیں یا تو رواجاً ادا کی جاتی ہیں یا پھر ریاء (الا ماشاء اللہ ) خالصة لوجہ اللہ بہت کم ادا کی جاتی ہیں، اور یہ حدیث بالا میں قرب قیامت کی پہلی علامت بیان فرمائی ۔ قرآن کی تلاوت اور اس کی تعلیم پر عمل ، دونوں مطلوب ہیں :
دوسری علامت یہ بتلائی کہ "لا يبقى مِنَ القُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ قرآن کریم کے الفاظ ، نقوش و حروف تو باقی رہ جائیں گے، جسے لوگ تلاوت تو کریں گے، مگر تلاوت سے جو عمل مقصود ہے وہ مفقود ہوگا، گویا خوش الحانی سے تلاوت قرآنی تو ہوگی ، مگر خود پڑھنے والوں کو احکام قرآنی پر عمل سے کوئی دلچسپی نہ ہو گی ، حالانکہ اگر قرآن کی تلاوت کرنا یہ ایک بنیادی حق ہے، تو اس پر عمل کرنا دوسرا بنیادی حق اور مومن کی پہچان ہے، فرمایا:
الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ﴾ (البقرة : ١٢١)
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی جب کہ وہ اس کی تلاوت اس طرح کرتے ہیں جیسا اس کی تلاوت کا حق ہے تو وہی لوگ ( در حقیقت ) اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
حضرات صحابہ وصلحاء کی بھی یہی شان تھی ، ان میں یہ دونوں باتیں تھیں ، وہ قرآن کی تلاوت بھی کرتے تھے، اور قرآن کی تعلیم و احکام پر عمل بھی کرتے تھے، کہ دونوں چیزیں اہل قرآن سے مطلوب ہیں۔ حضرت ابو عبد الرحمن سلمی فرماتے ہیں : ” جب ہم دس آیتیں قرآن کی سیکھتے تو بعد کی دس آیتیں اس وقت تک نہ سیکھتے جب تک اُن سیکھی ہوئی دس آیات میں بیان کردہ (احکام ) حلال و حرام اور امر و نہی کو جان نہ لیتے“ ( اور اُن پر حسب موقع عمل نہ کر لیتے ) ۔ (حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور حاضر کے فتنے (ص:۹۱)
صحابہ وصلحاء کے اس طرز عمل کا یہ اثر تھا کہ بعض اوقات ان کے لیے قرآن کو یاد کرنا تو مشکل مگر عمل کرنا آسان تھا ، جب کہ آج اس کا عکس ہے، قرآنی الفاظ تو ہیں ، ان پر عمل نہیں ،
اس لیے تلاوت اور حفظ کرنا آسان اور عمل کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: ہم پر الفاظ قرآنی کا یاد کرنا مشکل ہے، مگر عمل کرنا بڑا آسان ہے، اور ہمارے بعد والوں پر حفظ قرآن تو آسان ہوگا، مگر عمل کرنا مشکل ہوگا ۔ ( تفسیر قرطبی )
صاحبو ! اب تو ایسا لگتا ہے کہ اسلام اور اس کی صداقتیں قرآن میں ہیں، اور ان پر عمل کرنے والا مسلمان قبرستان میں ہے، آج ہمارے پاس قرآن ہے، پھر بھی ہم پریشان اس لیے ہیں کہ ہم اس کے الفاظ کی تلاوت تو کرتے ہیں، مگر اس پر عمل نہیں کرتے ، جو قرب قیامت کی علامت ہے، بلا شبہ تلاوت بھی باعث برکت ہے، مگر قرآن پر عمل نہ کرنا باعث ہلاکت ہے۔
باتوں سے بھی بدلی ہے کسی قوم کی تقدیر؟
بجلی کے چمکنے سے اندھیرے نہیں جاتے
مساجد رشد و ہدایت سے ویران :
تیسری علامت قرب قیامت کی حدیث میں یہ بیان فرمائی گئی کہ مَسَاجِدُهُمُ عَامِرَةٌ، وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى “ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مسجد تو رشد و ہدایت کا مرکز ہے، لیکن قرب قیامت میں یہ ہوگا کہ ان کی مسجد میں ظاہری شکل وصورت کے اعتبار سے با رونق ، زیب و زینت سے معمور اور بھر پور ہوں گی، مگر حقیقت کے اعتبار سے ہدایت سے خالی اور ویران ہوں گی، یہ پیشین گوئی بھی آج حرف بحرف صادق آ رہی ہے۔
عاجز کا ناقص خیال ہے کہ پہلے مساجد کو اللہ تعالیٰ کا گھر کہا جاتا تھا ، اب ان مساجد کو اللہ تعالیٰ کا بنگلہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا ! آج مساجد کو عالی شان بنانے ، سجانے اور آراستہ کرنے کا تو اہتمام ہوتا ہے، مگر ان کے مقاصد اور مقتضی پر عمل کرنے کی فکر نہیں ہوتی ، نماز، تلاوت اور عبادت وغیرہ سے ان کو آباد کرنے کی فکر نہیں ہوتی ، الا ماشاء اللہ ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسی مضمون کو کیا خوب بیان فرمایا ہے :
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
شاہ صاحب علامہ سید عبد المجید ندیم صاحب فرماتے ہیں:
کسی زمانہ میں مسجدیں تو کچی ہوتی تھیں ، مگر نمازی بڑے پکے ہوتے تھے، اور آج مسجدیں پکی ، نمازی کچے“ (الا ماشاء اللہ )
مسجدوں کے ویران ہونے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مساجد صیح فکر مند علماء ومتولیان سے خالی ہو جائیں گی ، جس کا اثر یہ ہوگا کہ جاہل متولیان اور علماء سوء ان پر قابض ہو جائیں گے، پھر جو مساجد رشد و ہدایت کے مراکز ہیں وہیں سے خرابی و گمراہی پھیلے گی ، اور یہ قرب قیامت کی علامت ہے۔ آج کے پرفتن دور میں اس کا نقشہ ہمارے سامنے ہے، تاہم آئندہ کل کے مقابلہ میں آج کے موجودہ حالات و ماحول کو غنیمت ہی کہا جا سکتا ہے، ورنہ محد ثین کی تشریح کے مطابق وہ وقت بھی آئے گا جب مساجد کا یہ رہا سہا کردار بھی داؤ پر لگ جائے گا، اور مساجد اس ماحول کو بھی ترستی نظر آئیں گی ۔ ( نعوذ باللہ من ذلک )
علماء سوء کا فتنہ :
چوتھی علامت قرب قیامت کی یہ بیان فرمائی گئی کہ عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ وہ علماء جوزی شان ہونے کے سبب خالق و مخلوق میں عزیز ہوتے ہیں، مگر اس زمانہ میں سب سے زیادہ ذلیل وہی لوگ ہوں گے، وجہ یہ ہے کہ ان سے تو اتفاق اور محبت کا سبق دنیا نے سیکھا ہے، مگر اس زمانہ میں علماء سوء ہی اختلاف، نفرت اور فتنہ و فساد کا سبب بنیں گے، اور پھر فتنے ان ہی میں لوٹیں گے ، علماء محدثین نے اس کے مختلف مطالب بیان فرمائے ہیں :
-1 ایک مطلب یہ ہے کہ ظالم حکمرانوں کی حمایت کے سبب فتنہ ان ہی سے وجود میں آئے گا ، اور پھر جب تک یہ خود فتنہ ختم نہ کریں باقی رہے گا۔
۲ دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ فتنہ کے بانی مبانی چوں کہ علماء سوء ہوں گے، اس لیے اس کا وبال بھی ان ہی کو ہوگا ، یعنی پھر اُن پر خود ان ہی ظالم حکمرانوں کو مسلط کر دیا جائے گا۔
علماء خیر و علماء سوء کی علامات :
حضرت مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک موقع پر فرمایا کہ در حقیقت ( علماء سوء) وہ مذہب کے نادان حامی ہیں جن کی دوستانہ حمایت ہمیشہ دشمنوں کی مخالفت سے زیادہ دین کے لیے مضر رہی ہے کیوں کہ آج تک جو گمراہ فرقے اور فرق باطلہ ہوئے ان کے بانی دراصل اسی قسم کے نام نہاد علماء سوء رہے ہیں، جو اپنے نام کے ساتھ لفظ ”عالم‘ لگا کر عوام الناس کو دھوکا دیتے ہیں۔
لیکن یاد رکھو! اس حدیث میں اور اس طرح کی حدیثوں میں علماء کے لیے جتنی بھی وعیدیں ہیں ان سب کے مصداق یہی علماء سوء ہیں ، جن کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ فتنہ و فساد اور خرابی ان سے پھیلتی ہے، اس کے برخلاف جو علماء خیر ہیں ان کے بڑے فضائل ہیں ، ان کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ ان سے حق اور ہدایت پھیلتی ہے۔
مزید علماء خیر کی چند علامتیں وہ ہیں جن کو امام غزائی نے احیاء العلوم میں بیان فرمایا ہے، مثلاً :
(1) وہ اپنے علم سے دنیا نہ کماتے ہوں، کیوں کہ حکم ربانی ہے:
لَا تَشْتَرُوا بِآيَتِي ثَمَنًا قَلِيلاً (البقرة : (۱۱)
میری آیتوں کو معمولی قیمت لے کر نہ بیچو۔ یعنی اس سے دنیا نہ کھاؤ۔
(۲) ان کے قول و عمل میں تعارض نہ ہو، قرآن نے متوجہ کیا ہے : أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ ﴾ (البقرة : ٤٤) کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو؟
(۳) ایسے علوم و امور میں مشغول ہوں جو آخرت میں کام آئیں، اور ایسے علوم و امور سے احتراز کریں جن کا آخرت میں کوئی نفع نہ ہو۔
قرآن کریم نے کامیاب مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَ الَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ﴾ (المؤمنون : (۳)
وہ لوگ لغو اور بے کار مشغلہ ( جس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہو، نہ آخرت کا ایسی چیزوں ) سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔
(۴) کھانے پینے اور لباس کی نزاکتوں وعمد گیوں کی طرف متوجہ نہ ہوں، بلکہ اُن میں میانہ روی اختیار کریں، ارشادِ باری: ﴿ وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ) (ص : ٨٦) کے مصداق ہوں ۔
(۵) حکام اور امراء سے دوری اختیار کریں۔ (اور اگر ان سے تعلق بھی ہو تو خیر کی نیت سے ، مگر اس میں بھی تملق یعنی چاپلوسی ہرگز نہ ہو ) اور جن میں یہ باتیں نہیں وہ علماء سوء ہیں۔ رات اور دن میں جتنا فرق ہے ، آسمان اور زمین میں جتنا فرق ہے، اس سے زیادہ فرق علماء خیر اور علما ء شر میں ہے، دونوں کو ایک ہی صف میں شامل کرنا علامت جہل اور منشا حدیث کے قطعاً خلاف ہے۔ (فافهم)
علماء سوء کی مذمت :
وہ علماء سوء جو دنیا کے معمولی نفع کے خاطر اسلام کے ابدی احکام میں تحریف کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق فتوے دینے لگتے ہیں ، جن کے قال اور حال میں کافی فرق ہے، جن کی خلوت اور جلوت میں بھی بعد المشرقین ہے، جنہوں نے علم کی حلاوت کو لیا ، مگر عمل کی مشقت کو ترک کر دیا ، جن کا قول فعل کے اور فعل قول کے خلاف ہے، اور جو باتیں تو خیر البریہ کی کرتے ہیں ، مگر خود شر البریہ میں ہیں، جو اوروں کو سمجھاتے ہیں ، مگر خود نہیں سمجھتے ، ( العیاذ باللہ العظیم) ایسے بے عمل علماء سوء کو قرآن کریم نے گدھوں سے تشبیہ دی ، فرمایا: كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَاراً ﴾ (الصف : ٥)
اور بد عمل علماء سوء کو قرآن نے کتوں سے تشبیہ دی ، فرمایا:
فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ﴾ (الأعراف : ١٧٦ )
کیوں کہ سارے عالم میں اور دین و مذہب میں فسادان ہی علماء سوء سے پھیلا ہے، بقول شاعر :
آج کے علماء سو بہت ہی مکار ہیں
چال بازی، مکر سازی میں بڑے ہوشیار ہیں
آج کل جتنی خرابی دین و مذہب میں ہے
اس کے بانی مبانی بس یہی بدکار ہیں
یا درکھو! اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بہتر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد علماء خیر ہیں، اور سب سے بدتر علماء شر ہیں، اللہ پاک بلا کسی استحقاق کے محض اپنی رحمت
سے ہمیں علماء خیر میں شامل فرما کر علماء سو سے محفوظ فرمائے ، آمین ۔حَبِيبِكَ خَيْرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمُ