نیا سال، نئی ہجرتیں

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم و رحمۃ اللہ!
نیا اسلامی ہجری سال شروع ہونے کو ہے۔ اسلامی سال کا پہلا دن ہمیں کسی فتح کی یاد نہیں دلاتا، نہ کسی تاجپوشی کی۔ بلکہ ایک قافلے کی تصویر دکھاتا ہے۔۔۔ غاروں میں چھپے، صحراؤں میں چلتے، اللہ کے لیے سب کچھ چھوڑنے والے مسافروں کی۔
لیکن سوال یہ ہے: کیوں؟ کیوں ہماری تاریخ کا پہلا صفحہ ہجرت سے شروع ہوتا ہے؟
شاید اس لیے کہ یہی صفحہ اصل کہانی ہے۔ قربانی، صبر، اور یقین کی کہانی۔۔۔
جب حضرت عمرؓ نے اسلامی تاریخ کے تعین کا مسئلہ صحابہ کے سامنے رکھا تو کئی اہم واقعات زیرِ غور آئے: رسول اللہ ﷺ کی ولادت، بعثت، ہجرت، وفات۔
مگر سب نے ہجرت کو سالِ اوّل قرار دینے پر اتفاق کیا۔ کیوں؟
کیونکہ: ہجرت ایک تاریخ نہیں ایک انقلاب ہے۔
قرآن کہتا ہے:
وَٱلَّذِينَ هَاجَرُوا۟ فِى ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا۟
"اور جنہوں نے اللہ کے لیے ہجرت کی، ظلم سہنے کے بعد۔۔۔" (النحل: 41)
تو اللہ نے ہجرت کو: ظلم کے خلاف استقامت، ایمان کی سچائی اور اللہ کے لیے سب کچھ چھوڑنے کی علامت بنایا۔ نبی ﷺ نے مکہ میں 13 سال دین سکھایا، مگر امت کا وجود کب بنا؟ مدینہ کی ہجرت پر۔ اسی لیے اسلامی کیلنڈر کا آغاز دعوت یا تبلیغ سے نہیں، بلکہ اقدام اور اجتماعی شعور سے ہوا۔ اسلامی سال کی شروعات انفرادی ذکر سے نہیں، اجتماعی قربانی سے ہوئی۔ رسول ﷺ نے فرمایا:
"المُهاجِرُ مَن هَجَرَ ما نَهى اللهُ عنهُ"
"مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع کیا ہے" (صحیح بخاری)
تو ہجرت محض سفر کا نام نہیں بلکہ: نیت بدلنے کا نام ہے۔ راستہ بدلنے کا نام ہے۔ اور منزل کے لیے سب کچھ چھوڑ دینے کا نام ہے۔
یہ تقویم ہمیں سکھاتی ہے: اسلامی سال کامیابی کے جشن سے نہیں، جدوجہد سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ہجرت، صبر، قربانی اور اللہ پر یقین کی یاد ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ: اصل فتح وہ ہے جو ایمان کے ساتھ ہو، خواہ مدینہ ہو یا کربلا۔
یہ آغاز ہمیں ہر سال ایک سوال دیتا ہے: "کیا تم نے اس سال کوئی ہجرت کی؟ کسی خواہش سے؟ کسی گناہ سے؟ کسی غفلت سے؟"

اس سال میں بھی ہجرت کروں گی۔ لیکن کیسے؟ میں کن باتوں سے ہجرت کرنا چاہتی ہوں؟

1. ہجرت "غفلت" سے "یاد" کی طرف​

وَلَا تَكُن مِّنَ ٱلْغَٰفِلِينَ (الاعراف: 205)
"اور غافلوں میں سے مت ہو جانا۔"
غفلت سے ہجرت کا مطلب ہے: وقت ضائع کرنے سے نکلنا، ذکر چھوڑنے کے عادی پن سے توبہ، دل کو اللہ کی یاد سے آباد کرنا۔

2. ہجرت "شکایت" سے "شکر" کی طرف​

لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم: 7)
ہر دن کی تھکن، تکلیف اور آزمائش میں اگر زبان پر شکایت ہے، تو یہ وقت ہے ہجرت کا: منفی سوچ سے مثبت شعور کی طرف۔

3. ہجرت "نفس کی مرضی" سے "اللہ کی مرضی" کی طرف​

أَفَرَءَيْتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَٰهَهُۥ هَوَىٰهُ (الجاثیہ: 23)
"کیا تم نے اُس کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا؟"
ہم کتنے فیصلے صرف اپنے جذبات، خواہش، یا انا کی بنیاد پر کرتے ہیں؟ یہ وقت ہے ہجرت کا: اپنی مرضی سے رب کی رضا کی طرف۔

4. ہجرت "غیبت" اور "تلخی" سے "سکوتِ رحمٰن" کی طرف​

وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا (الحجرات: 12)
زبان کے زخم سب سے زیادہ دیر تک رہتے ہیں۔ اگر میری مجلسیں دوسروں کے خلاف تبصرے بن چکی ہیں تو وقت ہے خاموشی کی ہجرت کا: ایسی خاموشی جو دل میں روشنی بھر دے۔

5. ہجرت "خود پسندی" سے "خود احتسابی" کی طرف​

وَلَا تُزَكُّوٓا۟ أَنفُسَكُمْ ۖ (النجم: 32)
نیکی کر کے خوش ہونا فطری ہے، لیکن خود کو نیک سمجھنا خطرناک ہے۔ یہ وقت ہے ہجرت کا ظاہر کی نیکی سے باطن کی صفائی کی طرف۔

یہ سال ہجرتوں کا آغاز ہے۔
لیکن اب سوال آپ کے لیے ہے:
اس نئے سال میں۔۔۔ آپ کس طرف ہجرت کریں گے؟
کسی غفلت سے؟
کسی گناہ سے؟
کسی کمزوری، کسی عادت، کسی رشتے، کسی خیال، یا کسی خوف سے؟
کیا آپ اس سال کوئی ایسی ہجرت کریں گے جس پر آسمان فخر کرے اور زمین گواہ بنے؟
ان شاء اللہ، اگلی قسط میں ملاقات ہوگی۔
تب تک۔۔۔ خود سے یہ سوال ضرور پوچھتے رہیے: "کیا میں نے واقعی کوئی ہجرت کی ہے؟"
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
قسط: 2

ہجرتِ خوف: ڈر سے نکل کر رب پر یقین کی طرف

(سلسلہ: نیا سال، نئی ہجرتیں)

السلام علیکم و رحمۃ اللہ!
پچھلی قسط میں ہم نے جانا کہ اسلامی سال ہجرت سے کیوں شروع ہوتا ہے کیونکہ ہجرت ایک انقلاب ہے۔
نیا اسلامی سال، ایک نیا ہجری دن۔ لیکن۔۔۔ کیا دل بھی نیا ہوا؟ کیا سوچیں، نیتیں، فیصلے، ترجیحات وہی پرانی قید میں ہیں؟
اگر ہاں۔۔۔ تو شاید یہ وقت ہے: "ہجرتِ خوف" کا۔

ہجرت کا پہلا دشمن: خوف

جب ہمارے نبی ﷺ نے ہجرت کی۔۔۔ تو صرف شہر نہیں چھوڑا۔ ایک عہد چھوڑا، ایک معاشرہ چھوڑا، ایک خوف چھوڑا۔
اس وقت کا سب سے بڑا دشمن تھا: خوف۔
مکہ چھوڑنے کا خوف، رشتوں کے بکھرنے کا خوف، جان، مال، عزت کے لٹنے کا خوف، تنہائی، عدمِ تحفظ، اجنبیت کا خوف۔
اور آج۔۔۔ جب ہم نیا سال شروع کرتے ہیں تو تقویم ہمیں سوال دیتی ہے: کیا تم نے بھی کوئی خوف چھوڑا؟
ہجرت مکہ سے مدینہ کی طرف تھی۔۔۔ مگر اس سے پہلے ہجرت دل سے خوف کے باہر کی گئی تھی۔
جب ابو بکرؓ نے نبی ﷺ سے غارِ ثور میں پوچھا: "اگر دشمن نیچے دیکھ لے تو ہمیں دیکھ لے گا"
تو جواب کیا تھا؟
لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا
غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے (التوبہ: 40)
یہی وہ لمحہ تھا۔۔۔ جہاں سے تاریخ نے پلٹا کھایا، جہاں سے وقت کی نبض بدلی، جہاں سے ایمان نے خوف کو مات دی۔

خوف: ایک چھپی ہوئی غلامی

ہم اکثر یہ کہتے ہیں: "میں چاہتی ہوں کہ نیکی کی طرف آؤں، میں دین سیکھنا چاہتی ہوں، میں گناہ چھوڑنا چاہتی ہوں۔۔۔"
مگر۔۔۔
  • کیا لوگ باتیں نہ کریں؟
  • اگر رسوائی ہو گئی تو؟
  • اگر میری کمزوریاں ظاہر ہو گئیں تو؟
  • اگر میں ناکام ہو گئی تو؟
  • اگر رزق بند ہو گیا؟
  • اگر سب چھوڑ گئے؟
  • اگر۔۔۔؟
  • اگر۔۔۔؟
  • اگر۔۔۔؟
شیطان ہمارے راستے میں سب سے پہلے جو دیوار کھڑی کرتا ہے، وہ یہی "اگر" ہے۔ یہ خوف ہوتا ہے۔۔۔ جو نیت کو عمل میں بدلنے سے پہلے دبا دیتا ہے۔ یہی وہ خوف ہے جس نے فرعون کے دربار میں مؤمن مرد کو برسوں چھپائے رکھا۔ یہی وہ خوف ہے جس سے شیطان ہمیں باز رکھتا ہے:
"إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ ٱلشَّيْطَٰنُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَآءَهُ ۖ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ۔۔۔" (آل عمران: 175)
خوف وہ قید ہے جس سے نکلنا ایک "ہجرت" ہے۔ جس دن ہم نے کسی انسان کے بجائے صرف رب کو مرکز بنایا وہ دن ہجرت کا دن ہے۔

ہم کن خوفوں کے قیدی ہیں؟

❖ لوگوں کا خوف
"لوگ کیا کہیں گے؟"
یہ جملہ شاید ہماری سب سے بڑی قید ہے۔ کئی سچ چھپ جاتے ہیں، کئی نیتیں مر جاتی ہیں، کئی نیکیاں موقوف ہو جاتی ہیں۔۔۔ صرف اس ایک خوف سے۔
❖ ناکامی کا خوف
"اگر میں ناکام ہو گئی؟"
یہی خوف ہے جو ہمیں قدم ہی نہیں اٹھانے دیتا۔ حالانکہ ایمان کا مطلب ہے: نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا۔
❖ رزق کے چھن جانے کا خوف
"اگر دین پر چلوں تو نوکری، کاروبار، رشتہ۔۔۔ سب چھن جائے گا؟"
مگر رزق کے لیے جھکنا۔۔۔ خود فاقہ سے زیادہ خطرناک ہے۔
❖ تنہائی کا خوف
"اگر میں حق کا ساتھ دوں تو سب چھوڑ جائیں گے؟"
ہاں، یہ ہو سکتا ہے۔ مگر جب سب چھوڑتے ہیں۔۔۔ تو اللہ قریب ہو جاتا ہے۔

قرآن کے ہجرتِ خوف کے نمونے

1. حضرت موسیٰؑ کا لمحۂ خوف:
فَأَوْجَسَ فِى نَفْسِهِۦ خِيفَةًۭ مُّوسَىٰ۔۔۔ (طٰہٰ: 67)
لیکن پھر فرمایا:
لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَىٰ
یعنی: جو خوف سے نکل جائے، وہ غالب ہے۔
2. حضرت ہاجرہ کی ہجرت:
ویرانے، پیاس، اکیلا بچہ۔۔۔ ہر طرف خوف۔ لیکن اللہ پر یقین اور اللہ نے زمزم عطا کیا۔
3. ام موسیٰؑ کا دریا میں بچہ ڈال دینا:
ماں کا سب سے بڑا خوف: بچہ چھن جائے۔
اللہ کا وعدہ:
إِنَّا رَآدُّوهُ إِلَيْكِ
ہم واپس لوٹائیں گے۔
یہ سب خوف سے نکلنے والی ہجرتیں تھیں اور اسی لیے رب کے وعدوں سے جڑی ہوئیں۔

آج کی ہجرت: میرا خوف کیا ہے؟

کوئی رشتہ جسے میں نبھا رہی ہوں صرف "ڈرتی ہوں ٹوٹ نہ جائے"۔
کوئی گناہ جو میں کر رہی ہوں صرف "ڈر ہے لوگ جان نہ لیں"۔
کوئی حق جو میں کہہ نہیں پا رہی صرف "ڈر ہے اکیلی ہو جاؤں گی"۔
کوئی فیصلہ جو میں لٹکا رہی ہوں صرف "انجام کا خوف ہے"۔
یہ سب وہ خوف ہیں جن سے "ہجرت" لازم ہے۔

خوفِ خدا: تمام خوفوں کا علاج

جب ہم ہر خوف کے مقابلے پر صرف ایک خوف رکھ دیں "اللہ کا خوف" تو باقی سب خوف، دھواں بن کر چھٹ جاتے ہیں۔
وَإِيَّايَ فَٱرْهَبُونِ
"پس صرف مجھ ہی سے ڈرو" (البقرۃ: 40)
یہ وہ خوف ہے جو دل کو بند نہیں کرتا بلکہ کھول دیتا ہے
جو آنکھوں کو رُلاتا ہے مگر روح کو زندہ کرتا ہے۔

نئی ہجرت کا نکتۂ آغاز

جب آپ صرف اللہ کی رضا کے لیے کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔۔۔ جب آپ تمام خوف کے باوجود سچ کہتے ہیں۔۔۔ جب آپ تنہائی کے امکان کے باوجود دین کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔۔۔ تو آپ مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ اور پھر۔۔۔ اللہ بھی آپ کے ساتھ ہوتا ہے:
إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوا۟...
"اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں" (النحل: 128)

سوال برائے دل

اس سال آپ کون سا "خوف" چھوڑنے والے ہیں؟
کون سی وہ ہجرت ہے جو آپ کے لیے ایمان کی فتح بن جائے گی؟
کون سا وہ قدم ہے جو صرف رب کے یقین پر اٹھے گا؟


اگلی قسط ان شاء اللہ: "ہجرتِ تعلق: رشتوں کی پرستش سے رب کی بندگی کی طرف"۔ جہاں ہم بات کریں گے: محبت، خاندانی دباؤ، اور رب سے جُڑے رہنے کے فیصلے پر۔تب تک۔۔۔ اس ہجرت کو اپنے اندر مکمل کریں: "ہجرتِ خوف" رب کی طرف۔
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
قسط: 3

ہجرتِ تعلق: رشتوں کی پرستش سے رب کی بندگی کی طرف​

(سلسلہ: نیا سال، نئی ہجرتیں)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
پچھلی قسط میں ہم نے بات کی: ہجرتِ خوف پر۔ کہ کیسے ڈر، اندیشے، وسوسے، ناکامیوں کا خوف ہمیں ہجرت سے روکتے ہیں۔
آج ہم بات کریں گے ایک اور پوشیدہ، مگر طاقتور قید پر جو ہمیں رب تک جانے سے روک دیتی ہے۔
یہ قید ہے: تعلقات کی پرستش۔
کیا کبھی آپ نے رب کو چھوڑا ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے رب کو پیچھے رکھا؟
نہیں؟ ذرا ایک لمحے کو رُکیں۔۔۔ آنکھیں بند کریں، اور وہ لمحے یاد کریں جب آپ کو سچ کہنا تھا، مگر سامنے ماں کھڑی تھی۔۔۔ جب حرام سے روکنا تھا، مگر بیٹا، شوہر یا خاندان آڑے آ گیا۔
کیا ہم نے کبھی کسی انسان کو اللہ سے زیادہ ناراض ہونے کے قابل سمجھا؟ کیا کبھی اللہ کا حکم پسِ پشت ڈال دیا کسی چہرے کی خوشی کے لیے؟ کیا کبھی رب کے فرمان پر کوئی رشتہ حاوی ہو گیا؟
تو پھر چاہے ہم مانیں یا نہ مانیں ہم نے پرستش کی ہے۔ نرم لہجے میں، محبت بھرے دل سے، مگر کی ہے۔ رب کی عبادت چھوڑ کر، رشتوں کی بندگی کی ہے۔
ہمیں سکھایا گیا تھا: "اللہ سب سے بڑھ کر محبوب ہونا چاہیے"
مگر کبھی کبھی۔۔۔ محبتوں کے بوجھ دل پر اتنے بھاری ہو جاتے ہیں کہ رب کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہجرت شروع ہوتی ہے۔ نہ زمین چھوڑنی ہوتی ہے، نہ گھر۔ صرف ایک فیصلہ کرنا ہوتا ہے: "اب میری وفاداری صرف رب سے ہے چاہے کوئی راضی ہو یا نہیں۔"
رشتے خوبصورت ہوتے ہیں جب تک وہ رب سے آگے نہ بڑھ جائیں۔ جب وہ رب کی راہ روکنے لگیں۔۔۔ تو وہ محبت نہیں، قید بن جاتے ہیں۔

تعلق: فطری مگر مشروط​

اللہ نے انسان کو محبت کے لیے پیدا کیا ہے۔ انسان کی فطرت میں محبت رکھ دی گئی ہے وہ ماں ہو یا بچہ، شوہر ہو یا بیوی، بھائی ہو یا دوست، ہر دل کسی نہ کسی تعلق کے ساتھ جُڑنا چاہتا ہے۔ یہ جذباتی رشتے، انسان کے وجود کا حسن ہیں۔ لیکن جب یہی رشتے اللہ کی بندگی کے مقابل آ جائیں، تو یہی حسن، آزمائش میں بدل جاتا ہے۔ یہ رشتے تب تک نعمت ہیں، جب تک وہ انسان کو رب کے قریب لے جائیں۔
لیکن جب رشتے اللہ سے دور کرنے لگیں، تو وہ آزمائش بن جاتے ہیں۔

تعلق کب پرستش بن جاتا ہے؟​

یہ سوال ہر شخص کو خود سے پوچھنا چاہیے۔
محبت کب عبادت بن جاتی ہے؟ محبت میں شدت آ جائے تو کیا ہوتا ہے؟
انسان جسے ٹوٹ کر چاہتا ہے، جب اس کی خوشی، اس کی رضا، اس کی موجودگی۔۔۔ رب کے حکم سے زیادہ اہم ہو جائے تو یہی محبت، ایک چھپا ہوا شرک بن جاتی ہے۔
"وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادًۭا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ ٱللَّهِ ۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّۭا لِّلَّهِ" (البقرۃ: 165)
"کچھ لوگ اللہ کے سوا ایسے شریک بناتے ہیں جن سے ویسی محبت کرتے ہیں جیسے اللہ سے کی جاتی ہے، لیکن ایمان والے، سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔"
یہ آیت نہ صرف شرک کی وضاحت کرتی ہے، بلکہ ایمان کی پہچان بھی بیان کرتی ہے کہ ایمان والے کسی سے بھی محبت کریں، مگر ان کے دل کا سب سے بڑا مقام ربّ العالمین کے لیے مختص ہوتا ہے۔

محبت کی درجہ بندی (Love Hierarchy)​

ہر محبت کی اپنی جگہ ہے:
ماں سے محبت: احترام اور خدمت کی صورت
بچوں سے محبت: شفقت اور تربیت کی صورت
شوہر/بیوی سے محبت: انس، وفا اور سکون کی صورت
دوستوں سے محبت: خیر خواہی اور نصیحت کی صورت
لیکن ہر محبت اللہ کی محبت کے تابع ہونی چاہیے، اس سے بالاتر نہیں۔

جب محبت راستہ کھو دے​

جب ہم: کسی عزیز کی خوشنودی کے لیے حرام پر خاموش ہو جائیں۔ رشتہ نہ بگڑ جائے، اس لیے حق نہ کہیں۔ کسی کا دل نہ ٹوٹے، اس لیے رب کی ناراضی گوارا کر لیں یا رب کے دین پر عمل سے صرف اس لیے پیچھے ہٹیں کہ "وہ ناراض ہو جائے گا، وہ چھوڑ دے گا، وہ باتیں کرے گا"۔۔۔ تو یہ لمحے ہمارے ایمان کی اصل کمزوری کو بےنقاب کرتے ہیں۔ یہی وہ لمحے ہیں جب محبت اپنی فطری جگہ سے ہٹ کر عبادت کی جگہ پر آ جاتی ہے۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں ہجرتِ تعلق فرض ہو جاتی ہے۔
اللہ محبت سے منع نہیں کرتا، بلکہ اس محبت کو ترتیب دینے کا حکم دیتا ہے۔ محبت رکھیے مگر پہلے اللہ، پھر رسول ﷺ، پھر باقی رشتے۔ اسی ترتیب کو نہ ماننا وہی "کَحُبِّ اللّٰہ" والا فتور ہے۔

ہجرت تعلق کے قرآنی نمونے​

1) حضرت ابراہیمؑ : باپ کا انکار، رب کا انتخاب
ہجرتِ تعلق کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی مثال حضرت ابراہیمؑ کی صورت میں ملتی ہے۔
رشتہ: باپ
والد آزر، صرف مشرک نہ تھا، بلکہ خود بت تراشنے والا تھا۔ ابراہیمؑ نے نہ صرف باپ کو سمجھایا، دلیل دی، بلکہ پوری قوم سے کہا:
"أُفٍّۢ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ" (الأنبیاء: 67)
اور جب باپ نے دھمکی دی:
"لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَٱهْجُرْنِى مَلِيًّۭا" (مریم: 46)
یعنی: "اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کر دوں گا!"
تو ابراہیمؑ نے جواب دیا:
"سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّىٓ ۖ إِنَّهُۥ كَانَ بِى حَفِيًّۭا" (مریم: 47)
یعنی نہ گستاخ ہوئے، نہ حق چھوڑا۔ انہوں نے باپ کے جذبات کا لحاظ بھی رکھا اور رب کی توحید پر سمجھوتہ بھی نہیں کیا۔
ہجرتِ تعلق کا لمحہ: جب کوئی رشتہ چاہے وہ باپ جیسا مقدس رشتہ ہی کیوں نہ ہو اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنے، تو مؤمن کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے: رب یا رشتہ؟
حضرت ابراہیمؑ نے کہا:
"إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي سَيَهْدِينِ" (الصافات: 99)
یعنی: "میں اپنے رب کی طرف جا رہا ہوں، وہی مجھے راستہ دکھائے گا۔"
جب ایمان کی راہ میں خون کے رشتے دیوار بنیں، تو ہجرت وہی ہے جو دل میں خاموشی سے کہہ دے: "رب مجھے کافی ہے۔"
2) حضرت لوطؑ : بیوی کی بےوفائی، مگر ایمان کی وفاداری
حضرت لوطؑ کی ہجرتِ تعلق کربناک ہے۔ ایسا رشتہ جس سے انس ہو، جس کے ساتھ چھت، کھانا، سکون مگر وہی رشتہ ایمان کا دشمن بن جائے؟
رشتہ: بیوی
قرآن میں فرمایا گیا:
"فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًۭٔا" (التحریم: 10)
"ان دونوں عورتوں نے (نوحؑ اور لوطؑ کو) دھوکہ دیا، مگر یہ دھوکہ انہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکا۔"
حضرت لوطؑ کی بیوی ایمان نہیں لائیں۔ وہ ایمان والوں کی مخالف تھیں۔ لیکن لوطؑ نے اپنے منصب، اپنی نبوت، اپنی دعوت میں کسی رشتے کو آڑ نہیں بننے دیا۔
ہجرتِ تعلق کا پہلو: حضرت لوطؑ کے ہاں بیوی ساتھ تھی، مگر دل رب کے ساتھ تھا۔ بیوی گھر میں تھی، مگر ایمان کی راہ پر اکیلا ہی چلنا پڑا۔
سبق: ہم اکثر رشتوں کو ایمان پر ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن ایمان کا تقاضا کبھی کبھار یہ ہوتا ہے کہ چاہنے والوں کی مخالفت میں بھی حق پر قائم رہا جائے۔
3) حضرت آسیہؑ : شوہر کا انکار، رب کا انتخاب
حضرت آسیہؑ کی ہجرتِ تعلق شاید سب سے زیادہ روح کو جھنجھوڑ دینے والی ہے۔
رشتہ: شوہر
شوہر کوئی عام شخص نہیں فرعون تھا۔ جس کے پاس دنیا کی طاقت، اقتدار، دولت، لشکر، عیش، محل سب کچھ تھا۔
اور آسیہؑ؟ ایک ملکہ، جسے دنیا کچھ نہ کہتی، اگر وہ صرف "خاموش" رہتی۔ مگر آسیہؑ نے خاموشی نہیں، وفاداری کا فیصلہ کیا رب سے۔
"رَبِّ ٱبْنِ لِى عِندَكَ بَيْتًۭا فِى ٱلْجَنَّةِ۔۔۔" (التحریم: 11)
"اے میرے رب! میرے لیے اپنے قرب میں جنت میں ایک گھر بنا دے۔۔۔"
یعنی: "میں نے دنیا کا محل چھوڑا، اب تو مجھے اپنی جنت میں جگہ دے دے!"
ہجرتِ تعلق کا عروج: ملکہ نے رب کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑا۔ محل، لباس، حفاظت، شوہر۔۔۔ یہاں تک کہ جان بھی قربان کر دی۔
سبق: جب شوہر، بیوی، خاندان، عزت۔۔۔ سب کچھ ہو مگر رب نہ ہو، تو مؤمنہ کا دل خود چیخ کر کہتا ہے: "بس رب چاہیے باقی سب چھوڑا جا سکتا ہے!"

ہماری دنیا میں ہجرتِ تعلق روزمرہ کے آئینے میں​

1. شوہر دین سے دور ہے اور ہم چپ ہیں
کتنی بہنیں ایسی ہیں جو اپنے شوہروں کے غیر شرعی رویّے، لاپرواہی، غفلت، اور بےعملی پر خاموش رہتی ہیں۔
کیوں؟ کہ تعلق بگڑ نہ جائے، گھر میں تلخی نہ ہو، یا وہ ناراض نہ ہو جائے۔ یہ خاموشی صرف جذباتی نہیں ایمانی ہزیمت ہے۔ رشتہ سنبھانے کے لیے حق چھپانا۔۔۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں تعلق، رب سے بڑا ہو جاتا ہے۔
2. بیٹی بے پردہ ہے اور ماں خاموش
ماں جانتی ہے بیٹی کا لباس غلط ہے، انداز غلط ہے، ماحول خراب ہے مگر "وہ ناراض نہ ہو جائے" کے خوف سے کچھ نہیں کہتی۔ ایسا رویہ۔۔۔ ماں کی تربیت سے زیادہ بیٹی کی تباہی ہے۔ یہ ماں کو دو انتخاب دیتا ہے: بیٹی کی خوشی یا رب کی رضا؟
3. ماں، بھائی، بہن یا دوست۔۔۔ جو رب کی راہ میں رکاوٹ بنیں
یہ بہت عام، مگر بہت چھپی ہوئی آزمائش ہے: جب رشتے ہماری عبادات، عقائد، ترجیحات، پردہ، دین داری، یا دیندار صحبت کو غیر ضروری، شدت پسندی، یا نامعقولیت کہتے ہیں اور ہم ان کے اصرار پر سمجھوتہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور یوں تعلق رب سے پیچھے چلا جاتا ہے، رشتے سرفہرست آ جاتے ہیں۔
اس مقام پر ہجرت لازم ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں "ہجرتِ تعلق" لازم ہو جاتی ہے رشتہ چھوڑنے کی نہیں، درجہ بندی بدلنے کی۔

ترتیب بدلیں، رشتے نہ توڑیں​

اللہ ہمیں یہ نہیں کہتا کہ: ماں سے تعلق توڑ دو، شوہر کو چھوڑ دو، بیٹی کو رد کر دو۔ بلکہ فرماتا ہے: "پہلا مقام صرف میرا ہے!"
"قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ... أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِ..." (التوبہ: 24)
یہ آیت ہماری زندگی کے ہر رشتے کو ایمان کی ترازو پر تولنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

سوال برائے دل (Self-Examination)​

❖ کون سا وہ رشتہ ہے جو مجھے سچ بولنے سے روکتا ہے؟
❖ کیا میں رب کی رضا پر، رشتوں کی خوشنودی کو ترجیح دے رہی ہوں؟
❖ کیا میں صرف ایک "رشتے دار" ہوں، یا سچی "ایمان دار"؟
❖ کیا میرا ایمان، میرا کردار، میرا لباس ۔۔۔ رشتوں کی شرائط پر قائم ہے، یا رب کے احکام پر؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ہجرتِ تعلق کی شروعات کرتے ہیں۔

اختتامیہ​

رشتے ٹوٹتے نہیں، پاک ہوتے ہیں۔۔۔ یہ وہ فقرہ ہے جو ایک بوجھل دل کے لیے تسکین ہے: جو رشتہ رب کے لیے چھوڑا جائے، اگر اللہ چاہے تو وہ لوٹا دیتا ہے۔۔۔ زیادہ پیارا، زیادہ مضبوط، زیادہ بابرکت۔
اور اگر وہ رشتہ لوٹ کر نہ بھی آئے تو اللہ خود کہتا ہے:
"أَلَيْسَ ٱللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ؟" (الزمر: 36)
"کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟"
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
قسط 4:

ہجرتِ نفس: سہولت سے بندگی کی مشقت کی طرف​

(سلسلہ: نیا سال، نئی ہجرتیں)

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
نیا سال، نئی ہجرتیں۔۔۔ اور اب ہم ایک ایسی ہجرت کی دہلیز پر کھڑے ہیں جو سب سے خاموش، سب سے مشکل اور سب سے اہم ہے: "ہجرتِ نفس"۔
نہ کوئی شہر چھوڑنا ہوتا ہے، نہ کوئی رشتہ۔۔۔ بلکہ اپنا آپ چھوڑنا ہوتا ہے۔ یہ وہ ہجرت ہے جہاں دشمن باہر نہیں، اندر ہوتا ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جہاں تلواریں نہیں، نیتیں ٹکراتی ہیں۔ یہ وہ میدان ہے جہاں بندگی کا سب سے بڑا حریف، ہمارا اپنا نفس ہوتا ہے۔
آج کی ہجرت، جسمانی نہیں روحانی ہے۔ یہ قسط اس لمحے کی تصویر ہے جب ہم نرم بستر چھوڑنے کے بجائے فجر چھوڑ دیتے ہیں۔ جب ہم قرآن پڑھنے کے بجائے سکرولنگ کو سکون کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جب ہم عبادات کو "آسان" بنانے کے چکر میں قربانی کے تصور ہی سے پیچھے ہٹتے ہیں۔

نفس: سب سے پرانا اور سب سے چالاک دشمن​

اللہ نے شیطان کو کھلا دشمن قرار دیا ہے، مگر نفس؟ وہ تو ہمارے اندر چھپا ہوا دشمن ہے، جو ہمیں لگتا ہے ہمارا خیرخواہ ہے، مگر درحقیقت وہی ہمیں بندگی سے روکنے میں سب سے کامیاب ہے۔
یہ وہ دشمن ہے جو باہر نہیں، اندر ہوتا ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو کہتی ہے: "ابھی تھکے ہوئے ہو، نماز بعد میں پڑھ لینا، اتنا بھی سخت نہ بنو، اللہ تو آسانی چاہتا ہے"۔
حقیقت یہی ہے کہ شیطان صرف وسوسہ ڈالتا ہے، مگر نفس اسے قبول کرتا ہے، اس پر عمل کرتا ہے، اور اس کا دفاع کرتا ہے۔ اسی لیے قرآن ہمیں بار بار "تزکیہ نفس" کا کہتا ہے، نہ کہ "تزکیہ شیطان" کا۔
"قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّىٰهَا"
"بیشک وہی کامیاب ہوا، جس نے نفس کو پاک کیا۔"(الشمس: 9)

دین کو آسان بنانے کی خواہش مگر قربانی سے بچاؤ؟​

آج کے دور کا بڑا فتنہ یہ ہے کہ ہم دین کو سہولت کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں، مگر نفس کی قربانی دیے بغیر۔ ہم چاہتے ہیں: تہجّد کے بغیر قربِ الٰہی۔ دعاؤں کے ساتھ نتائج، مگر صبر کے بغیر۔ تلاوت کا اثر، مگر مستقل مزاجی کے بغیر۔ سکونِ دل، مگر نفس کشی کے بغیر۔ حالانکہ ہر نبی کی زندگی مشقت سے بھری تھی۔
اسلام آسان ہے مگر آرام پرستوں کے لیے نہیں۔
"فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ" (الشرح: 7)
"جب فارغ ہو جاؤ، تو پھر محنت میں لگ جاؤ!"
یہ دین، مشقت کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ اس کا صلہ جنت ہے۔

نفس کی تسکین، رب کی رضا پر غالب​

ہم اکثر خود سے نہیں پوچھتے: میری صبح کی پہلی ترجیح کیا ہے؟ میرے تھکن بھرے دن میں مجھے کیا سکون دیتا ہے؟ مجھے عبادت میں طمانیت ملتی ہے یا صرف نیند اور سکرین میں؟
اگر دل کہے: "بس کچھ دیر آرام مل جائے"، اور بندگی دب جائے۔۔۔ تو سمجھ لیجیے کہ نفس رب پر غالب آ چکا ہے۔ قرآن ہمیں بار بار یہ سبق دیتا ہے کہ:
"وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِۦ وَنَهَى ٱلنَّفْسَ عَنِ ٱلْهَوَىٰ * فَإِنَّ ٱلْجَنَّةَ هِىَ ٱلْمَأْوَىٰ" (النازعات: 40-41)
"جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا، اور نفس کو خواہشات سے روکا اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔"

ہجرتِ نفس کی قرآنی مثالیں​

1: اصحابِ کہف: خواہشات کے نظام سے روحانی آزادی کی طرف
اصحابِ کہف نوجوان تھے۔ وہ دنیا کی رونقوں، بادشاہت، شہرت، اور معاشرتی نظام کا حصہ بن سکتے تھے۔ ان کے پاس جوانی تھی، طاقت تھی، دنیا کے تمام امکانات کھلے تھے۔ مگر۔۔۔ انہوں نے ان تمام آسائشوں سے ہجرت کی کیونکہ ان کا نفس اس سسٹم میں گھٹتا تھا۔
انہوں نے بندگی، خلوت، اور رب سے راز و نیاز کو ترجیح دی اس ظاہری دنیا پر۔ انہوں نے کہا: ہمیں وہ زندگی نہیں چاہیے جہاں رب کے بغیر جینا پڑے!
"إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا۟ بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَـٰهُمْ هُدًۭى" (الکہف: 13)
"وہ چند نوجوان تھے، جنہوں نے اپنے رب پر ایمان لایا، اور ہم نے انھیں ہدایت میں بڑھا دیا۔"
یہی ہجرتِ نفس ہے جب انسان اندر سے تنگ آ جائے ان چیزوں سے جنہیں دنیا 'کامیابی' کہتی ہے، اور رب کی رضا کو سکون کا واحد ذریعہ سمجھ کر نظامِ وقت سے کنارہ کشی اختیار کرے۔
2: حضرت یونسؑ نفس کی ضد سے بندگی کی تسلیم تک
حضرت یونسؑ کو جب ان کی قوم نے بار بار جھٹلایا، تو ان کا نفس بپھر گیا۔ وہ غصے سے، دکھ سے، اور شاید استعفے کی کیفیت میں قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن۔۔۔ اللہ نے انھیں ایسی "ہجرت" پر بھیجا جو کوئی عام جگہ نہ تھی: مچھلی کا پیٹ۔۔۔ اندھیرے کا اندھیرا، تنہائی کی انتہا، بےبسی کا کمال۔ وہ لمحہ جب بندہ ہر سہارے سے محروم ہو کر بس رب کی طرف پلٹتا ہے:
"فَنَادَىٰ فِى ٱلظُّلُمَـٰتِ أَن لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَـٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ" (الأنبیاء: 87)
یہ آیت نفس کے ٹوٹنے کی آیت ہے۔ جب انا، ضد، شکایت سب ہار مان جائے۔ یہاں یونسؑ نے دراصل نفس کی ضد سے رب کی رضا کی طرف ہجرت کی۔
3: مجاہدین سکون سے نکل کر مشقت کی طرف
جہاد صرف میدانِ جنگ میں تلوار اٹھانے کا نام نہیں۔ یہ تو نفس کی سب سے بڑی ہجرت ہے آرام، نیند، گھر، عزت، جان، مال، ہر چیز کو پیچھے چھوڑ کر رب کے راستے میں نکلنا۔
یہ وہ سفر ہے جس میں نفس چیختا ہے: "یہ سب چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں مشقت اٹھائیں؟ لوگ کیا کہیں گے؟ اگر مر گئے تو؟"
لیکن قرآن گواہی دیتا ہے:
"وَٱلَّذِينَ جَـٰهَدُوا۟ فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ" (العنكبوت: 69)
"جو لوگ ہمارے لیے جہاد کرتے ہیں، ہم ضرور ان کو اپنے راستے دکھاتے ہیں۔"
یہ آیت ہر اس بندے کے لیے خوشخبری ہے جو اپنے نفس کی آرام پرستی سے ہجرت کر کے بندگی کی مشقت اختیار کرتا ہے۔
4: ہم میں سے ہر وہ شخص۔۔۔ جو خاموشی سے نفس کی ہجرت کر رہا ہے
ہجرتِ نفس صرف ماضی کی کہانی نہیں۔ یہ آج بھی زندہ ہے ہر اُس شخص کی شکل میں جو دل سے رب کی طرف پلٹنے کا راستہ چُن رہا ہے۔
  • وہ نوجوان جس نے سوشل میڈیا کی چمک کو خیرباد کہا، اور دل کو قرآن کی روشنی سے جوڑا۔
  • وہ لڑکی جس نے فیشن اور ظاہری مقابلے کی دنیا سے نکل کر پردے، حیاء، اور علمِ دین کا سفر چُن لیا چاہے وہ دوستوں سے کٹ گئی ہو۔
  • وہ ماں جس نے اپنے مصروف معمولات سے وقت نکالا تاکہ تہجد کے وقت رب سے ہمکلام ہو سکے۔
  • وہ شخص جس نے کمیونٹی، خاندان، اور سوسائٹی کی رائے کو پیچھے چھوڑا اور اپنی ذات کو رب کی رضا کے مطابق ڈھالنا شروع کیا۔
  • وہ دل جو غم، تنہائی، اور درد کے لمحات میں مایوس ہونے کے بجائے، رب کی طرف لوٹ آیا۔
یہ سب ہجرتِ نفس کے مجاہدین ہیں۔ ان کے پاس شہرت نہیں، سٹیج نہیں، اور نہ ہی کوئی لقب۔ لیکن اللہ کے ہاں، ان کے یہ خاموش سفر۔۔۔ کسی بڑے جہاد سے کم نہیں۔
"فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًۭا يَرَهُ" (الزلزال: 7)
"جو ذرّہ برابر بھی نیکی کرے گا، وہ اسے دیکھ لے گا۔"
یہ نکتہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہجرتِ نفس کی راہیں آج بھی کھلی ہیں۔ بس ہمیں اپنے اندر کے اس غلام کو پہچاننا ہے، اور خاموشی سے۔۔۔ اس سے آزاد ہو جانا ہے۔

آج کی ہجرت: میری سہولت پر رب کی رضا​

یہ سوالات آج کے دور میں ہجرتِ نفس کی سب سے زندہ علامت ہیں۔
  • کیا میں قرآن کے لیے اسکرین چھوڑ سکتی ہوں؟
ہم میں سے کتنے ہیں جو دن کے کئی گھنٹے موبائل، سیریز، میمز، یا سوشل میڈیا پر صرف کر دیتے ہیں؟ اور پھر یہی کہتے ہیں: "وقت نہیں ملتا"۔
ہجرتِ نفس کا مطلب ہے: اپنی خواہش کی چیز سے نکل کر رب کی بات سننا۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنا دل خود سے چھین کر قرآن کو دیتا ہے۔
  • کیا میں فجر کے لیے بستر سے اٹھ سکتی ہوں؟
نفس کہتا ہے: "تھوڑا اور سونا ہے۔۔۔"
مگر روح پکارتی ہے: "رب انتظار کر رہا ہے۔۔۔"
یہی وہ جنگ ہے جہاں ہجرتِ نفس جیتی جاتی ہے۔ جب نیند کی قربانی رب کی رضا کے لیے دے دی جائے وہی لمحہ انسان کو بندگی کے اصل ذائقے سے آشنا کرتا ہے۔
  • کیا میں ناپسندیدہ کام کو رب کی رضا کے لیے نبھا سکتی ہوں؟
کئی بار گھر کی ذمہ داریاں، بچوں کی پرورش، یا شوہر کی خدمت۔۔۔ طبیعت پر گراں گزرتی ہے۔
نفس چاہتا ہے: بس! اب مجھے کچھ نہ کہو!
مگر بندہ یا بندی کہتی ہے: میں یہ اللہ کی رضا کے لیے کر رہی ہوں!
یہی وہ قربانی ہے جو روزمرہ کے اندر ہجرتِ نفس کو حقیقت بنا دیتی ہے۔

سوال برائے دل (Self-Examination)​

یہاں ہم خود سے وہ سوال کریں جن سے نفس کی غلامی عیاں ہوتی ہے اور ہجرت کا دروازہ کھلتا ہے۔
❓ کون سا وہ "آرام" ہے جس نے مجھے عمل سے روک رکھا ہے؟
کیا وہ سوشل میڈیا کا وقت ہے؟
یا دوستوں کی گپ شپ؟
یا وہ تھکن کا بہانہ جو ہر نیکی کے راستے پر دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے؟
❓ کیا میری عبادت سہولت کے تابع ہے یا رب کی رضا کے؟
کیا میں صرف وہی نماز پڑھتی ہوں جو وقت پر آسان لگتی ہے؟
یا میں رب کے حکم کے سامنے خود کو ڈھالتی ہوں، چاہے وقت، جگہ یا نیند کچھ بھی ہو؟
یہی فرق بتاتا ہے کہ عبادت، عبادت ہے یا رسم۔
❓ کیا میرا نفس عبادت کی طرف لے جا رہا ہے یا روک رہا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جو دل کو جھنجھوڑ دیتا ہے: میری نماز، میرا ذکر، میرا صدقہ میرے دل کے ارادے سے ہو رہا ہے یا صرف رسم ادا کی جا رہی ہے؟
نفس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے: "پھر کبھی۔۔۔"
اور ہجرتِ نفس کا جواب ہے: "ابھی، فوراً، رب کے لیے!"

اختتامیہ: مشقت میں لذت ہے​

بندگی کی راہ کبھی سہولت سے نہیں بھری گئی۔ یہ راستہ کانٹوں سے پُر ہے، نفس کی ضدوں سے بھرا ہوا۔ لیکن رب کا وعدہ ہے: جب بندہ صبر کرتا ہے، تو وہ امام بن جاتا ہے رہنما بن جاتا ہے۔
"وَجَعَلْنَا مِنْهُمۡ أَئِمَّةًۭ يَهۡدُونَ بِأَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُواْۖ وَكَانُواْ بِـَٔايَـٰتِنَا يُوقِنُونَ" (السجدۃ: 24)
صبر، مشقت، اور رب کی آیات پر یقین۔۔۔ یہی وہ قیمت ہے جو قربِ الٰہی کی لذت دیتی ہے۔ اور یہی وہ ہجرت ہے جو انسان کو بندہ بناتی ہے اور بندے کو محبوب بناتی ہے۔
 

نور حیاء

وفقہ اللہ
رکن
قسط 5:

ہجرتِ ترجیحات: دنیا کے عارضی مقاصد سے رب کے دائمی مقصد کی طرف​

(سلسلہ: نیا سال، نئی ہجرتیں)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
نیا سال، نئی ہجرتیں۔۔۔ اور آج ہم ایک ایسی ہجرت کی بات کریں گے جو شاید کسی شہر، لباس یا عادت کی تبدیلی نہیں، بلکہ دل کی سمت کا پلٹاؤ ہے: ہجرتِ ترجیحات۔
یہ وہ لمحہ ہے جب ہم اپنی مصروف زندگی میں رک کر خود سے پوچھتے ہیں: "میں دن بھر جو کچھ بھی کر رہا ہوں، کیا وہ مجھے رب کے قریب کر رہا ہے یا دور؟"
یہ سوال دل کو کاٹتا ہے، روح کو جھنجھوڑتا ہے۔ کیونکہ ہم میں سے اکثر دن کے آخر میں تھکے ہوتے ہیں، لیکن مطمئن نہیں ہوتے۔ ہماری To-do لسٹ تو مکمل ہو جاتی ہے، مگر دل کا خلا باقی رہتا ہے۔ زندگی کی راہ میں ترجیحات وہ سنگِ میل ہیں جو ہمارے مقاصد، ارادوں اور منزل کا تعیّن کرتے ہیں۔ جب ترجیحات دنیا کی طرف جھک جائیں، تو رب کی رضا دھندلا جاتی ہے۔ اور جب دل رب کی طرف متوجہ ہو جائے، تو دنیا اپنی جگہ پر آ جاتی ہے۔

دنیا کی دوڑ، یا رب کی رضا؟​

آج کے دور میں انسان کی سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ اس کے پاس سب کچھ ہے، مگر سکون نہیں۔ وہ مصروف ہے، مگر مطمئن نہیں۔ وہ آگے بڑھ رہا ہے، مگر اندر سے خالی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ترجیحات اُلٹ گئی ہیں۔ قرآن ہمیں خبردار کرتا ہے:
"بَلْ تُؤْثِرُونَ ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَا * وَٱلْـَٔاخِرَةُ خَيْرٌۭ وَأَبْقَىٰ" (الاعلیٰ: 16–17)
"تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔"
یہ آیات ایک آئینہ ہیں۔۔۔ جو ہمیں بتاتی ہیں کہ ترجیح کا مسئلہ صرف عمل کا نہیں، دل کا ہے۔

ترجیحات کی ترتیب: قرآن کا فریم ورک​

اسلام ہمیں دین و دنیا میں توازن کا درس دیتا ہے، مگر اس توازن میں ترتیب ضروری ہے۔
اللہ
رسول ﷺ
آخرت
مخلوق
دنیا

جب اس ترتیب کو الٹا دیا جاتا ہے، تو بندگی کمزور ہو جاتی ہے۔ جب دنیا پہلا مقصد بن جائے، تو باقی سب بکھر جاتا ہے۔

ہجرتِ ترجیحات: ہماری روزمرہ کی مثالیں​

طالب علم:
وہ طالب علم جو دن رات محنت کرتا ہے، امتحانات کی تیاری میں مصروف ہے، لیکن قرآن اس کی روزمرہ زندگی میں کہیں نہیں۔ جب وہ فجر کی نماز کے بعد قرآن کا کچھ وقت طے کرتا ہے، تو وہ دراصل اپنی ترجیحات بدل رہا ہوتا ہے۔ وہ اعلان کر رہا ہوتا ہے: میرے رب کا علم میرے نصاب سے بڑھ کر ہے۔
ملازم:
جو صبح سویرے آفس کی دیواروں کے اندر قید ہو جاتا ہے، لیکن رب کی بارگاہ میں تاخیر سے پہنچتا ہے۔ جب وہ اپنی نماز کی جگہ آفس میں طے کرتا ہے، اور نماز کی پابندی کرتا ہے، تو وہ ہجرتِ ترجیحات کا پہلا قدم اٹھا چکا ہوتا ہے۔
ماں:
جو دن بھر بچوں، گھر، مہمانوں، برتن، کپڑوں میں مصروف ہوتی ہے مگر جب وہ تہجد کے وقت، رب سے بات کرنے کے لیے کچھ لمحے چُرا لیتی ہے، تو وہ بتا دیتی ہے: میری ترجیح اللہ سے تعلق ہے، نہ کہ صرف دنیا کی تھکن۔
ہم سب:
جو موبائل، سوشل میڈیا، سیریز، اور دوستوں میں کھوئے ہوتے ہیں، اور دل ہی دل میں جانتے ہیں کہ ایک آیت، ایک سجدہ، ایک آنسو۔۔۔ رب کو زیادہ عزیز ہے۔ جب ہم سکرین بند کرتے ہیں اور رب کی کتاب کھولتے ہیں، تو یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جو ہمارے انجام کو بدل سکتا ہے۔

سوالات برائے دل:​

❓ کون سی چیز میرے وقت کو کھا رہی ہے؟ کیا وہ موبائل ہے؟ یا وہ لوگوں کی خوشنودی؟ یا وہ خواہشات جو مجھ سے میری اصل چھین رہی ہیں؟
❓ کیا میں رب کے ساتھ اپنے تعلق کو روزانہ مضبوط کر رہی ہوں؟ یا میں ہر دن اس تعلق کو نظر انداز کر رہی ہوں؟
❓ کیا میں اپنی زندگی کی سب سے اہم ترجیح کو پہچان چکی ہوں؟ یا میں ابھی تک دنیا کی تعریف اور کامیابی کے پیچھے بھاگ رہی ہوں؟
❓ اگر آج میرا آخری دن ہو، تو کیا میں رب کی ترجیح پر ہوں؟ یا میں خود کی بنائی ہوئی ترجیحی فہرست میں الجھی ہوں؟

یہ ہجرت کیسے ممکن ہے؟​

  1. دن کی شروعات رب کے نام سے: ہر صبح آنکھ کھلتے ہی، رب کو یاد کرنا ۔ اور یہ نیت کرنا کہ آج کا دن رب کے لیے گزارنا ہے۔
  2. نیت کو خالص کریں: ہر عمل کو عبادت بنائیں ۔کھانا بنانا، نوکری کرنا، لوگوں سے بات کرنا سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے۔
  3. روز احتساب کریں: دن کے اختتام پر خود سے پوچھیں: آج میں نے کس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی؟ کیا وہ اللہ تھا؟ یا دنیا؟
  4. قرآن، ذکر، علمِ دین کو بنیاد بنائیں: دنیا کے لیے ہم دن کے 8-10 گھنٹے نکال سکتے ہیں، کیا رب کے لیے آدھا گھنٹہ بھی نہیں؟ جب ہم یہ سوال خود سے روزانہ کریں، تو آہستہ آہستہ ہماری ترجیحات بدلنے لگتی ہیں۔

اختتامیہ:​

ترجیحات کا پلٹاؤ آسان نہیں۔ یہ دل کا جبر مانگتا ہے، نفس کی مخالفت مانگتا ہے۔ لیکن جو بندہ یہ ہجرت کر لیتا ہے، اس کی زندگی کے معنی ہی بدل جاتے ہیں۔ وہ سادہ کام بھی رب کے نزدیک قیمتی ہو جاتے ہیں۔ وہ خاموش فیصلے بھی اللہ کے ہاں درج ہو جاتے ہیں۔
اللہ ایسے بندوں کے بارے میں فرماتا ہے:
"وَٱلَّذِينَ جَـٰهَدُوا۟ فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ (العنکبوت: 69)
جو ہمارے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ہم انہیں اپنے راستے ضرور دکھاتے ہیں۔
اور یاد رکھیے:
"وَمَا ٱلْحَيَوٰةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا مَتَـٰعُ ٱلْغُرُورِ" (آل عمران: 185)
"دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کا سامان ہے۔"
بس! اب وقت ہے۔۔۔ ترجیحات کے پلٹاؤ کا۔ اپنے نفس کو جھنجھوڑنے کا، رب کے سامنے دل کو جھکانے کا، اور اصل ہجرت کا۔۔۔ جو ہمیں بندہ بناتی ہے، اور بندے کو رب کا محبوب۔
 
Top